ابرار لطیف

مسئلہ کشمیر کو ہندوستان اور پاکستان کے حکمران طبقات اور ریاستوں نے ہر دور میں اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا ہے۔ کبھی جنگی جنون حاوی کر کے محنت کشوں کا استحصال کیاگیاا ور کبھی امن کے ڈھونگ رچائے گئے۔ اسی طرح 14 فروری کے پلوامہ حملے سے بھی دونوں ممالک کی اشرافیہ ہی مستفید ہوئی ہے۔ مودی سرکار کی تمام تر الیکشن کمپئین اسی حملے کے گرد رہی اور دیگر بیشتر عوامل کے ساتھ مودی کی فاشسٹ حکومت پھر سے قائم ہو گئی۔ دوسری طرف پاکستان کا حکمران طبقہ جہاز کی تباہی اور انڈین پائلٹ کی گرفتار ی کو پوری دنیا میں اپنی جیت گردانتے رہے۔

72 سالوں سے دونوں اطراف کے معصوم کشمیری عوام کو ہی مارا جارہا ہے اور پوری وادی تاراج ہو رہی ہے۔ اس حملے کو جواز بنا کر مودی سرکار نے وادی اور جموں کے درمیان فاصلے مزید بڑھا دیے ہیں۔ مذہبی منافرتوں کو ہوا دینے کی گھناؤنی واردات بدستور جاری ہے۔ دوسری طرف پاکستانی حکام کی ایما پر میڈیا نے بھی بھارت میں ہونے والے ہندومسلم فسادات کو حقیقت سے کہیں زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ ماضی کی طرح حالیہ تحریک کو بھی صرف وادی تک محدود کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ درحقیقت اس تحریک کو وادی تک اور خاص طور پر مسلم آبادی تک محدود رکھنا دونوں ممالک کے حکمرانوں کے حق میں ہے۔

یہ رائے عامہ تشکیل دینے کی بھر پور کوششیں کی جا رہی ہیں کہ محض وادی کے لوگ ہی آزادی چاہتے ہیں۔ اول تو مشترکہ کشمیر کا سوال خود بٹوارے کے خاتمے سے مشروط ہے۔ دوسرا یہ کہ کیا کسی ممکنہ صورت میں جموں، لداخ، گلگت بلتستان اور کشمیر ایک فیڈریشن نہیں بن سکتے؟ کشمیر ماضی میں بھی ایک کثیرالقومی اور کثیر الثقافتی فیڈریشن رہا ہے۔ جس کا وفاق اور دارلخلافہ پونچھ اور سرینگر رہے ہیں۔ اسی لیے ماضی سے سیکھتے ہوئے لڑائی کے نئے طریقہ کار تخلیق کرنے کی ضرورت ہے جو برصغیر کے محنت کشوں کی یکجہتی پر مبنی ہوں اور تمام اکائیوں کو رضاکارانہ انداز میں جوڑتے ہوئے مکمل آزادی کی طرف بڑھایا جا سکے۔

کسی بھی سامراجی فارمولے کے تحت آزادی یقیناً مزید تقسیم کا باعث بنے گی۔ آج تینوں اکائیوں آزاد کشمیر، سرینگر اورگلگت بلتستان میں کٹھ پتلی حکومتیں قائم ہیں۔ جن کی نوآبادیاتی ذہنیت آج بھی پرانے ہندوستانی بورژوا قوم پرستوں سے میل کھاتی ہے کہ جن کامطالبہ برطانوی آئین و قانون کے تحت حکومت میں حصہ داری تھا۔ لیکن کسی بھی خطے کے عوام حق ِخودارادیت کے تحت کسی بھی فیصلے کی طرف بڑھتے ہیں تو یہ ان کا بنیادی حق ہے اور انقلابی اس عمل کی حمایت کرتے ہیں۔ لیکن ایک گلے سڑے سرمایہ دارانہ نظام میں ریفرنڈم کتنا بااختیار اور شفاف ہو سکتا ہے؟ کیا سامراج کی نگرانی میں ہونے والا کوئی ریفرنڈ م کسی بھی قومیت کے مسائل کا حل ہوسکتا ہے؟ یقینا اس کا جواب نفی میں ہے۔

اول تو جہاں دونوں اطراف کے ڈیڑھ ارب انسان بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہوں، لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبور ہوں وہاں کی بورژوازی کی سنگینوں تلے کشمیر کے مسئلے کا حل کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟

آج پھر ستر سال بعد وہی سامراجی منصوبہ کشمیری عوام پر لاگو کیا جا رہا ہے اور حکمر ان طبقہ کشمیر کو مذہبی بنیادو ں پر تقسیم کر نا چاہتا ہے۔ محض وادی کی آزادی کے نعروں کا مطلب ایک مسلم اکثر یتی علاقے کو ایک سامر اجی قوت سے چھڑا کر دوسر ی سامر اجی قو ت کے آگے پھینکناہے۔ ہمارے آدرش بھگت سنگھ شہید کے آدرش ہیں جن کے بقول ”ہمیں مکمل آزادی چاہیے‘ آدھا راج نہیں۔ طاقتور اور کمز ور کے در میان کبھی کوئی سمجھو تہ نہیں ہو سکتا۔ سامر اجی قبضے کا خاتمہ کر کے یہاں کا کنٹرول عوامی پنچایتو ں کے نمائند و ں کے حوالے کیا جائے جو بہتر طریقے سے اپنے نمائند ے منتخب کر کے آگے بڑھ سکیں۔“

آزادی اور حق خود ارادیت کے ضمن کامریڈ لینن کو بار بار دہرانے والے آدھی بات کرتے ہیں جبکہ لینن نے کہا تھا کہ”ہم ہر مظلوم قوم کے علیحدگی کے حق کو تسلیم کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی طبقاتی تفریق کے خلاف احتجاج کا بھی حق رکھتے ہیں کیونکہ ہماری حتمی منزل مزدوروں کا بین الاقوامی انقلاب ہے جس کے لئے محنت کشوں کو طبقاتی بنیادوں پر جدوجہد کرنی ہو گی۔“

آج کشمیر میں قتل عام ہو رہا ہے۔ مودی سرکار کی سیاہ رجعت پھر اقتدار میں ہے جو کشمیر یوں کے لئے ایک نیا قہر بن کر وارد ہو سکتی ہے۔ حکومت کی طرف سے آرٹیکل 370 کے خاتمے پر زور دیاجا رہا ہے۔ آرٹیکل 35A اور 370 کے تحت جائیداد کے حق ملکیت اور سرکاری ملازمتوں سمیت ریاستی اسمبلی کو نام نہاد ہی سہی لیکن اختیارات حاصل ہیں۔ ان کے خاتمے سے سامراجی مداخلت اور لوٹ مار کی بے لگام وحشت کا راستہ ہموار کیا جا رہا ہے۔

حالیہ الیکشن کے دوران کشمیر میں بی جے پی کے ضلعی صدر ’گل میر‘ کو گھر میں گھس کر نامعلوم افراد نے قتل کر دیا۔ جس کے بعد سکیورٹی فورسز کو قتل عام اور سرچ آپریشن کا جواز مل گیا۔ چھاپے مارے گئے اور جگہ جگہ پر ناکے لگائے گئے۔ ووٹنگ سے چند گھنٹے قبل تک کرفیو جیسا ماحول تھا۔ یہ سب اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ سرمایہ دارانہ ریاستیں کسی بھی قسم کی دہشت گردانہ کاروائی کو کس طرح اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ مختلف اوقات میں کشمیر کی مرکزی شاہراہ کو کئی بار بند کیا گیا جس سے معاملات زندگی منجمد ہو گئے۔ پابندی کے اوقات میں 240 کلو میٹر اس طویل شاہراہ پرصرف فوج اور سکیورٹی فورسز کی گاڑیوں کو ہی اجازت ملتی ہے۔ اس صورتحال کو نیشنل کانفرنس کے سربراہ عمر عبداللہ نے بیان کرتے ہوئے کہا کہ”میں گزشتہ 20 سالوں سے الیکشن لڑ رہا ہوں حالانکہ ایک باراسمبلی پر خود کش حملہ بھی ہوا لیکن تب بھی لوگوں کو اس طرح کی قید و بند کی صعوبتیں اور سزائیں نہیں دی گئیں جو اب دی جا رہی ہیں۔“

مذکرہ بالا ہائی وے دس اضلاع کو آپس میں جوڑتی ہے اور اشیاکی نقل و حرکت کا واحد ذریعہ ہے۔ اس سلسلے میں ایک متاثرہ دکاندار کا کہنا تھا کہ”یہ عجیب فیصلہ ہے۔ میں یہا ں کھیل کا سامان بیچتاہوں اور قرض لیکر دکان کھولی تھی۔ لیکن خریدار نہیں ہیں کیونکہ سڑک پر کرفیو ہے۔ اب میرا قرض کیا حکومت معاف کر ے گی؟ سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ انتخابات ہیں یا فوجی مشق؟“

مودی سرکار اپنے پچھلے دوراقتدار میں بری طرح ناکام ہوئی ہے۔ ہندوستان میں نہ تو وِکاس ہوا ہے اور نہ بھارتی سرمایہ داروں کی لوٹ مار کی ساری امیدیں پوری ہوئیں۔ مودی سرکار کو انسانی تاریخ کی تین بڑی عام ہڑتالوں کا سامنا کرنا پڑا۔ نوجوان طالب علموں پر خوفناک مظالم کیے گئے اور کشمیر میں تو ظلم کی تمام حدیں پار کی گئیں۔ اور ان مظالم پر جس صحافی نے کچھ بولنے اور لکھنے کی کوشش کی اس کو ہمیشہ کے لیے خاموش کرا دیا گیا۔ 1989ء سے اب تک 95 ہزار سے زائد لوگوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔

2018ء میں 60 صحافیوں کو قتل کیا گیا۔ میڈیا پر گھناؤ نی سنسر شپ ہے اور شیو سینا کے غنڈے سرعام صحافیوں اور عام سیاسی کارکنوں کو ہراساں کرتے رہے۔ اس سب میں اب ایک نئی شدت آنے کے امکانات موجود ہیں۔ یہ سطور لکھتے وقت بھی شوپیاں میں تین نوجوانوں کو شہید کر دیا گیا ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر خود ہندوستانی ریاست کے لئے کشمیر جیسے سلگتے انگارے کو قابو کرنا بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ کشمیر کی تحریک موت کے خوف سے آزاد ہو چکی ہے اور اب آزادی کی یہ لڑائی بے باک انداز میں گلیوں، چوکوں اور چوراہوں پر لڑی جا رہی ہے۔ ہندوستانی فوج کا جبر تمام حدیں پار کر چکا ہے اور اب مزاحمت کو توڑنے کے آلے کے طور پر خود جبر بھی اپنی افادیت کھو چکا ہے۔

دوسری طرف پاکستان میں بھی نام نہاد تبدیلی سرکار نے جبر کے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ معاشرہ معاشی بدحالی سے بڑھ کر سماجی انتشار کی نہج پر کھڑا ہوا ہے۔ چین اور امریکہ سمیت سامراجی ممالک کی پراکسی جنگیں پورے خطے کو تاراج کر رہی ہیں۔ ’FATF‘ کے پریشر میں کالعدم تنظیموں کے خلاف برائے نام اقدامات کیے گئے ہیں لیکن بنیاد پرستی نے بھی جدید اشکال اپنا لی ہیں۔ قومی محرومی شدت سے اپنا اظہار کر رہی ہے اور ریاست جبر کے ذریعے ان تحریکوں کو قابو کرنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہے۔ پشتون تحفظ موومنٹ اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ ایسے حالات میں کشمیر کے مسئلہ پر پاکستانی ریاست اور حکام بڑھک بازی تو کر سکتے ہیں لیکن کشمیری خطے کی آسودگی کے لئے کو حقیقی قدم نہیں اٹھا سکتے۔

مسئلہ کشمیر دونوں سرکاروں کی لوٹ مار کا سب سے بڑا جواز ہے۔ اس کے حل نہ ہونے کی ایک بنیادی وجہ معاشی بھی ہے کہ جس سے ہر سال اربوں روپے کی خطیر رقم دفاع کے نام پر لی جاتی ہے۔ اگر یہ مسئلہ حل ہو جائے تو اس کا جواز ہی ختم ہو جائے گا۔ اس کثیر سرمائے سے دونوں ممالک میں عام محنت کشوں کو بہتر روزگار، علاج اور تعلیم کی مفت سہولیات مہیا کی جا سکتی ہیں۔ لیکن سرمایہ داری کی جکڑ میں یہ ممکن نہیں ہے۔

حال ہی میں کرتار پور بارڈر کھولاگیا اوراسی طرح نیلم راہداری کو کھولنے کی بھی خبریں گردش میں ہیں۔ اس قسم کا کوئی بھی اقدام خوش آئند ہے کہ جس میں سرحدوں کے آرپار محکوموں کو ملنے کے مواقع میسر آئیں۔ ابھی تک جو مقامات کھولے گئے یا کھولے جارہے ہیں زیادہ تر مذہبی ہیں۔ لیکن دونوں ریاستوں کے سامراجی اور سرمایہ دارانہ کردار کے پیش نظر ان اقدامات کے پس پردہ مکاری اور جعل سازی کے امکانات کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ حقیقی طور پر تو نہ صرف کشمیر بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے بارڈر کھلنے چاہیے۔ انسانوں کا بنیادی حق ہے کہ وہ دوسرے خطے کے انسانوں سے مل سکیں، ثقافت کا تبادلہ کر سکیں اورسیر و تفریح کر سکیں۔ لیکن یہ تو ہے ہی ایک خطہ جس کو سامراجیوں نے کاٹ کر علیحدہ کیا تھا۔ صرف مذہبی مقامات نہیں بلکہ تیتری نوٹ، پونچھ، بھمبر، جموں، لداخ اورسکردو کے راستے بھی کھولے جائیں اور سفری دستاویزکے تحت آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت ہونی چاہیے۔ اگر دونوں ممالک کے سرمایہ داروں اور تاجروں کے اجناس سے بھرے ٹرک آ جا سکتے ہیں تو عام لوگوں کو اپنے عزیزوں سے ملنے کی اجازت کیوں نہیں مل سکتی۔

کشمیر کی حالیہ تحریک نے 2010ء سے زور پکڑا جس سے برصغیر کے حکمران ششدر ہو کر رہ گئے۔ ماضی کی تحریکوں اور بغاوتوں پر پاکستانی مداخلت کا ٹھپہ لگا کر ہندوستانی ریاست بے پناہ مظالم کرتی آئی ہے۔ ماضی میں ایسی وارداتیں ہوتی بھی رہی ہیں اور جہاں نہیں ہوتی تھیں وہاں خودہندوستانی مداخلت ایسے راستے ہموار کرتی رہی ہے تاکہ تحریک کو پسپا کیا جا سکے۔ لیکن حالیہ تحریک نہ تو پاکستان کے کنٹرول میں تھی اور نہ ہی ہندوستان کے۔ نام نہاد حریت کانفرنس اور آزادی پسندوں کے تسلط سے باہر کشمیری نوجوانوں اور محنت کشوں کی یہ خود روتحریک بے باک انداز میں انڈین فورسز کا مقابلہ کررہی ہے اور حکمرانوں کے لئے درد سر بن چکی ہے۔

تحریک میں شدت 2015-16ء میں آئی جب کالجوں اور سکولوں کی طالبات کی ایک بڑی تعداد اور خواتین نے اس میں شمولیت اختیار کی۔ خواتین کی اتنی بڑی شمولیت نے تحریک میں نئی جان ڈال دی۔ کم و بیش تین اضلاع میں یہ تحریک موجود ہے۔ اگریہ تحریک جموں، لداخ اور وادی کے دیگر اضلاع کے محنت کشوں اور نوجوانوں سے بلا رنگ، نسل اورمذہب جڑتی ہے توحکمرانوں کے لیے اس کو کچلنا کہیں زیادہ مشکل ہو جائے گا۔ نام نہاد آزادی پسند اور حریت کانفرنس اسے وادی تک محدود کر کے علاقائی ریاستوں کی سامراجی پالیسی کو ہی آگے بڑھا رہے ہیں۔

مودی کے فسطائی راج میں مذہبی منافرتیں بڑھی ہیں۔ دہلی، کلکتہ اور آگرہ کی یونیورسٹیوں سے کشمیر ی نوجوانوں پر تشدد کے واقعات حکمرانوں کی سوچ کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن بیشتر بھارتی نوجوانوں میں کشمیر میں مظالم کیخلاف نفرت بھی بڑھی ہے اور یہی اسی تحریک کی طاقت ہے کہ پہلی دفعہ سرینگر میں ہونے والے مظالم کے خلاف آوازیں دہلی سے سننے کو ملی ہیں۔ تحریک کے آگے بڑھنے کاحل برصغیر بھر کے پسے ہوئے طبقات کی طبقاتی یکجہتی میں پنہاں ہے۔ کشمیر کی آزادی کی تحریک کو بند گلی سے نکالنے کے لیے وادی اور جموں سمیت ہندوستان اور پاکستان کے محکوموں، طلبہ اور محنت کشوں کو اس تحریک میں جوڑنا بنیادی شرط ہے۔ ایسی ہی تحریک نہ صرف کشمیر سے غلامی اور ذلت بھر ے نظام کا خاتمہ کر سکتی ہے بلکہ پورے برصغیر کے عوام کے لئے مشعل راہ بن سکتی ہے۔