شہریار ذوق

فطرت میں متضاد قوتوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسلسل تغیرات اس کا ئنات میں لا محدود وقت سے جاری ہیں اور یہی تضادات کائنات کے وجود اور اس میں ہونے والی تمام تر تبدیلوں کا باعث ہیں۔ ہمارا سیارہ جو کائنات کی وسعتوں میں ریت کے ذرے سے بھی کم ماہیت کا حامل ہے، 4.5 ارب سال قبل معرض وجود میں آنے سے لے کر آج تک مسلسل حیرت انگیز تبدیلوں سے گزر رہا ہے۔ ایک وقت تھا جب پورے کرہ ارض پر خشکی ایک براعظم کی مانند تھی مگر مسلسل ارضیاتی تبدیلوں نے اس کو نہ صرف بڑ ے ٹکڑوں یا براعظموں میں تقسیم کر دیا بلکہ ان ٹکڑوں پر موجود حیات اور اس پر اثر انداز ہونے والی آب وہوا اور موسمی تبدیلیوں کو جنم دیا۔ اگرچہ ہمارے لیے یہ عرصہ بہت لمبا ہے مگر تبدیلیوں کی تاریخ میں یہ ہفتوں، دنوں یا گھنٹوں کی مانند ہے۔ آج جہاں ایک طرف انسا نوں کی وسیع اکثریت کے لیے رہا ئش، خوراک اور پانی کے مسائل ہیں وہاں اس سیارے پر زندہ رہنے کے لیے فطری ماحول کو بھی عالمی سطح پر خطرات لاحق ہیں جس کی بنیادی وجہ ”گلوبل وارمنگ“ یا کرہ ارض کے گرم ہونے کا عمل ہے۔ جس کی حالیہ مثال ہمیں فرانس میں دیکھنے کو ملتی ہے جہاں پچھلے دنوں میں فرانس کی تاریخ میں آج تک کاسب سے بلند درجہ حرارت (44.3 ڈگری سینٹی گریڈ) ریکارڈ کیا گیا ہے۔

زمین کے گرد تقریباً 15 کلو میٹر کی بلندی تک کرہ ہوائی (Atmosphere) کی پہلی تہہ ٹروپو سفیئر (Tropo Sphere) کے نیچے 5.6 کلو میٹر کے فاصلے پر گرین ہاؤس گیسوں کا غلاف موجود ہے جس میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی نارمل مقدار 0.03 فیصد ہے جو سورج کی حرارت کو جذب کر کے زمین کے درجہ حرارت کو مناسب رکھتی ہے۔ اگر اس کی مقدار میں تھوڑا سا اضافہ ہو جائے تو زمین کا درجہ حرارت تیزی سے بڑھ سکتا ہے۔ صنعتی دور کے پہلے سو سال تک زمین کا اوسط درجہ حرارت منفی 56 ڈگری سنٹی گریڈ سے لے 15 ڈگری تک رہا اور دوسری صدی میں (پچھلے سو سال) میں بڑھ کر منفی 50 ڈگری سے 21 ڈگری تک جا پہنچا ہے۔ یہ درجہ حرارت آئندہ دس سال میں بڑھ کر 25 ڈگری تک جا سکتا ہے۔ گلوبل وارمنگ کا بنیادی فیکٹر کار بن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں بہت زیادہ اضافہ ہے جس کی وجہ بیسویں صدی میں سرمایہ دارانہ بنیادوں پر ہونے والی تیز صنعت کاری ہے۔ صنعتوں، فیکٹریوں، کارخانوں، ٹرانسپورٹ اور دیگر پیداواری ذرائع میں بے دریغ استعمال ہونے والے ایندھن کی وجہ سے صنعتی آلودکار (سلفر ڈائی آکسائیڈ، نائٹروجن کے آکسائیڈز اور کار بن ڈائی آکسائیڈ وغیرہ) تیزی سے فضا میں اکٹھے ہو رہے ہیں۔

دو عالمی جنگوں سمیت اس نظام کے تضادات سے ناگزیر طور پر مسلسل جنم لینے والی جنگوں میں استعمال ہونے والے روایتی و ایٹمی اسلحے اور کیمیکلز سے بھی ماحولیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ اسی طرح ریفریجریٹر اور ائیر کنڈیشنگ کے بڑے پیمانے پر استعمال سے فضا میں کلورو فلورو کاربن مادوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس سے اوزن کی تہہ تباہ ہو رہی ہے۔ سائنسی تحقیق کے مطابق 1979-80ء میں براعظم انٹارکٹیکا پر اوزون میں سوراخوں کے آثار نمایاں ہوئے جس کی وجہ سے سورج سے آنے والی بالا بنفشی شعاعیں براہ راست زمین پر پہنچتی رہیں ہیں۔ اس سے براعظم کی برف پگھلنے کا عمل تیز ہوااور سطح سمندر بلند ہو کر سمندری طوفانوں کا باعث بنی۔ یہ پیش گوئی کی گئی ہے کہ اگر گلوبل وارمنگ میں اضافے کی شرح یہی رہی تو اکیسویں صدی کے وسط تک سمندر کی سطح میں 1میٹر کا اضافہ ہو سکتا ہے جس سے موسموں میں شدید تبدیلی آئے گی اور خشکی کے بڑے حصے زیر آب آ جائیں گے۔

ماحولیاتی سائنس دانوں کے ایک اندازے کے مطابق صنعتی دور (1750-1800ء) سے قبل گلوبل وارمنگ میں تقریباً 0.9 ڈگری سینٹی گریڈاضافہ ہوا۔ مگربیسوی صدی کے وسط تک اوسط درجہ حرارت میں 4.8 ڈگری کا اضافہ ہوا جس کی بنیادی وجہ منافع کی ہوس میں ہونے والی بے لگام صنعتکاری ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال 40 ارب ٹن کار بن ڈائی آکسائیڈ صنعتوں اور ٹرا نسپورٹ میں استعمال ہونے والے فوسل فیولز کو جلا کر فضا میں چھوڑی جارہی ہے۔ عالمی جنگوں کے بعد کے عہد میں فوسل فیولز کے استعمال میں سالانہ 5فیصد کے حساب سے اضافہ ہو رہاہے۔ اگر سرمایہ دارانہ طرز پیدا وار کے تحت اسی طرح فاسل فیولز کا بے دریغ استعمال ہوتا رہا تو 2050ء تک فضا میں کار بن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار دوگنا ہو سکتی ہے جس سے زمین پر موجود تمام اقسام کی حیات کے نا پید ہونے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ کار بن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں اضافے سے سورج سے آنے والی حرارت اور انفراریڈ شعاعیں زمین سے ٹکرانے کے بعد واپس خلا میں جانے کی بجائے گرین ہاؤس گیسوں کی تہہ میں جمع ہوتی چلی جاتی ہیں جس سے پوری زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ جنگلات کا تیزی سے کٹاؤ بھی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ درخت فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا توازن برقرار رکھتے ہیں لیکن یہ اس نظام کے تحت منافع کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔

ماحولیات سے وابستہ سائنس دان اس بات پر متفق ہیں کہ جتنی تیزی سے قطبین کی برف پگھل رہی ہے پچھلے تیس سال میں اس کی شرح دوگنا ہو گئی ہے جو بارشوں کے معمول میں تبدیلی، سیلاب اور دوسری قدرتی آفات کا باعث بن رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے خوفناک موسمی تبدیلیاں جنم لے سکتی ہیں جو زراعت پر براہ راست اثر انداز ہو کر فصلوں، باغات اور خوراک پیدا کرنے والے دوسرے ذرائع کی تباہی کا باعث بن کر آنے والے دنوں میں خوفناک قحط کو جنم دے سکتی ہیں۔ پاکستان میں بھی جب گندم کی فصل پک کر تیار ہونے کے مراحل میں ہوتی ہے اس وقت بارشوں اور آندھیوں کا آنا اس قسم کے حالات کی طرف لے جا سکتاہے۔ بڑھتی ہوئی گلوبل وارمنگ زمین پر بہت سی بیماریوں (جلد کا کینسر، آنکھوں کی سوزش، دمہ، پھیپھڑوں کے ٹشوز کی تباہی، کھانسی وغیرہ) کی وجہ بھی ہے۔

گلو بل وارمنگ کے خطرات سے آگاہ کرنے کے لئے پوری دنیا میں اربوں ڈالر خرچ کر کے صرف سیمینار منعقد کروائے جاتے ہیں جس میں ماحولیاتی سائنسدان، سول سوسائٹی کے نمائندے اورسرکاری وز را فقط اس بات پرزور دیتے ہیں کہ فطری ماحول کی تباہی اور گلوبل وارمنگ میں اضافہ کی بنیادی وجہ”انسانی سرگرمیاں“ ہیں۔ ان انسانی سرگرمیوں کی نوعیت کا تعین کرنے والے نظام پر کوئی بات نہیں ہوتی۔ یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ آج آلودگی سے پاک بیش بہا توانائی کے تمام ذرائع اور ٹیکنالوجی حاصل ہونے کے باوجود ماحول دشمن طریقہ کار کیوں استعمال کئے جاتے ہیں؟ اس طرح کے سوالات یقیناسرمایہ دارانہ نظام پر ضرب لگاتے ہیں لہٰذا سارا ملبہ محنت کش عوام پر ڈال دیا جاتا ہے جن کے پاس ذرائع پیداوار کی ملکیت اور کنٹرول ہی نہیں ہے۔ گلوبل وارمنگ کی براہ راست وجہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جس میں ہر معاشی سرگرمی کا مقصد صرف اور صرف منافع ہے، چاہے ماحول برباد ہو جائے اور نسل انسان ہی معدوم کیوں نہ ہو جائے۔ توانائی کے صاف

ذرائع صرف اس لئے بروئے کار نہیں لائے جاتے ہیں کہ وہ منافع بخش نہیں ہیں۔ الیکٹرک کار کی ٹیکنالوجی تقریباً سو سال پہلے سے موجود ہے لیکن گاڑیاں اگر پٹرول استعمال نہیں کریں گی تو تیل کی دیوہیکل ملٹی نیشنل اجارہ داریاں کہاں جائیں گی؟ لہٰذا اس طرح کی ہر ٹیکنالوجی کو عام ہونے سے پہلے ہی دبا دیا جاتا ہے۔

گلوبل وارمنگ پر قابو پانے کے لئے ضروری ہے کہ تمام صنعت کو محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دیا جائے تاکہ منافع کی بجائے انسان کی ضرورت اور ماحولیات کی بہتری کے تحت پیداوار کی جا سکے۔ سستی، باعزت اور آرام دہ پبلک ٹرانسپورٹ کو عام کیا جائے، نجی گاڑیوں پر بھاری ٹیکس عائد کئے جائیں یا انہیں ضبط کر لیا جائے۔ لاکھوں بیرل تیل صرف اس ایک اقدام سے ہی بچایا جا سکتا ہے جس سے نہ صرف آلودگی ختم ہو گی بلکہ ٹریفک کے اذیت ناک مسائل بھی قصہ ماضی ہو جائیں گے۔ معیشت جب نجی ملکیت سے آزاد ہو کر انسانی ضرورت کے تحت چلے گی تو جنگوں اور مہلک ہتھیاروں کی ضرورت بھی ختم ہو جائے گی۔ انسانی تباہی پر صرف ہونے والے ہزاروں ارب ڈالر سے نئے جنگلات لگائے جا سکتے ہیں اور سمندروں سمیت پورے ماحول کی صفائی کے منصوبے شروع کئے جا سکتے ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے کبھی بھی ممکن نہیں ہو سکتا اور سوشلسٹ انقلاب کے بغیر اس نظام کو اکھاڑا نہیں جا سکتا۔ آج یہ نظام انسانیت کو جس نہج پر لے آیا ہے وہاں بحیثیت مجموعی حیات ہی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ ماحولیات، کرہ ارض اور زندگی کی بقا صرف سوشلزم میں ہی مضمر ہے!