آصف رشید

فلسفہ ہزاروں رشتوں سے سماجی زندگی کے تمام مظاہر کیساتھ منسلک ہے۔ فلسفے کے نمودار ہونے، اس کے مختلف رجحانات میں ہونے والی ترقی، کشمکش اور دنیا کے بارے میں مختلف زاویہ نظر… ان تمام عوامل کے سماجی اسباب ہیں۔ فلسفہ سیاسی جدوجہد، سائنسی ترقی ، تحریکوں، تخلیقی عمل ، افراد اور پورے پورے تاریخی ادوار پر اثرا انداز ہوتا ہے۔

فلسفہ اور سماج کے باہمی تعلق کو سمجھنے کے لئے فلسفے کے مقاصداورسماج میں اس کے کردار کی وضاحت کرناضروری ہے ۔ اسی طرح سماجی ارتقا کے مخصوص مراحل اور فلسفیانہ مسائل کے ارتقا کے درمیان تعلق کی وضاحت کر نا بھی انتہائی ضروری ہے ۔
سائنسی فلسفے کو سب سے پہلے تو ماضی اور حال کی صحیح صحیح وضاحت کرنی چاہئے۔

ہیگل نے لکھا تھاکہ فلسفی وہ سمجھ سکتا ہے جو گزر چکا ہے، جس کا تعلق ماضی سے ہے۔ دور حاضر کے بورژوا فلسفی ، فلسفے کے امکان اور اہمیت کی ایسی محدود سمجھ بوجھ سے بھی ناآشناہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو موجود ہے اسے درست طور پرسمجھنے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ ان ناقابل حل تضادات کو عیاں کیا جائے جو مروجہ نظام کو اندر سے گھن کی طرح کھائے جارہے ہیں۔ چنانچہ سائنسی فلسفہ بورژوا نظریہ سازوں کے طبقاتی مفادات کے ساتھ براہ راست متصادم ہوتا ہے۔

لیکن کسی بھی سائنسی فلسفے کو نہ صرف ماضی کی درست وضاحت کرنی چاہیے بلکہ اس میں مستقبل کی صحیح پیش بینی کی صلاحیت بھی ہونی چاہیے۔ ہیگل کے ایک شاگرد نے فلسفے کی اہمیت کے بارے میں اس کے تصور کا اظہار ان الفاظ میں کیا تھاکہ ’’فلسفہ دنیا کے نئے شباب کا اعلان کرنے والی مرغے کی بانگ ہے۔‘‘ چونکہ نئی دنیا، مستقبل کے سماج کا ظہور صرف پرانی دنیا کے کھنڈرات پر ہو سکتا ہے اس لئے صرف باشعورطبقہ ہی سماج کے سائنسی فلسفے اور نظرئیے کی تشکیل سے دلچسپی رکھتا ہے۔

چنانچہ صحیح معنوں میں سائنسی فلسفے میں ماضی کی صحیح وضاحت اور مستقبل کی پیش بینی کا امکان متحد ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ سماج کی ہر اول ترقی پسند پرتوں اور سب سے بڑھ کرمزدور طبقے کے مفادات کی عکاسی بھی کرتا ہے۔

مارکسزم اپنی طبقاتی فطرت کو چھپاتا نہیں ہے۔ لینن کے الفاظ میں ’’مارکسزم جانبداری کا حامل ہے اور واقعات کے بارے میں کوئی بھی رائے قائم کرنے میں مخصوص سماجی جماعتوں (محنت کش طبقات) کے نقطۂ نظر پر براہ راست اوراعلانیہ قائم رہنے کی تلقین کرتا ہے۔‘‘ پرولتا ریہ کو مارکسی فلسفے میں اپنا نظریاتی ہتھیار اور اوزار مل جاتا ہے۔ اسی بنا پرمارکسی فلسفہ سماج کی ازسر نو تشکیل کی نظریاتی بنیاد بن جاتا ہے۔ لینن نے لکھا تھاکہ ’’مارکس کا فلسفہ مادیت ہے جس نے بنی نوع انسان اور بالخصوص مزدور طبقے کو ادراک کا عظیم ہتھیار دیا ہے۔‘‘

مارکسزم کا ظہور‘ فلسفے اور سماجی زندگی کے گہرے تعلق کی واضح مثال ہے۔ مارکسزم عالمی تاریخ اور تہذیب کے ارتقا کی شاہراہ سے الگ ہٹ کر نمودار نہیں ہوابلکہ اس کے ظہور کی تیاری سماج کے سارے سابقہ ارتقانے کر دی تھی۔ سب سے پہلے مارکسزم کے ظہور کی سماجی، معاشی، سیاسی شرائط کوالگ اور نما یاں کرنا ضروری ہے۔

مارکسزم 19ویں صدی کی پانچویں دہائی کے وسط میں نمودار ہوا۔ یہ یورپ میں سرمایہ دارانہ نظام کے قیام کا زمانہ تھا۔ نیدر لینڈ، انگلینڈاور فرانس میں بورژوا انقلاب ہو چکے تھے۔ جاگیرداری کے خاتمے کے بعد جس حد تک سرمایہ دارانہ نظام مستحکم ہو ا، محنت کی پیداواری صلاحیت بڑھی، اتنی ہی زیادہ بورژوا ترقی کے فطری تضادات نمایاں ہوگئے ۔ ایک طرف دولت کا ارتکاز اور دوسری طرف مفلسی میں بے پناہ اضافہ ہوا ۔

اگرچہ اس دور میں سرمایہ دارانہ نظام ترقی کر رہا تھا لیکن ساتھ ہی ساتھ زائد پیداوار کے بحران نمودار ہونے لگے تھے اور بے روز گاری بڑھ رہی تھی۔ چھوٹے پیمانے کی پیداوارکی بربادی کا عمل شروع ہوا اور مزدور طبقے کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہونے لگا۔مزدوروں کے پورے کے پورے خاندان عورتوں اور بچوں سمیت محنت کی منڈی میں داخل ہو گئے ۔ استحصال کی شدت میں بے پناہ اضافہ ہونے لگا۔ لیکن مزدور طبقہ محض استحصال زدہ طبقہ ہی نہیں بلکہ جدوجہد کرنے والا طبقہ بھی ہے۔ لینن نے کہا تھاکہ ’’….پرولتاریہ جس شرمناک معاشی حالت میں مبتلا ہے وہی اسے ناقابل مزاحمت طور پر آگے دھکیلتی ہے اور آخری فتح کے لئے اسے لڑنے پر مجبور کرتی ہے۔‘‘

19ویں صدی کے نصف اول میں پرولتاریہ نے آزاد سیاسی قوت کی حیثیت سے عمل کرناشروع کیا۔ اس زمانے کے سب سے بڑے پیمانے کے مزدوروں کے اقدامات میں 1831ء اور 1834ء میں لیونس (فرانس) کے ریشم بنانے والے مزدوروں کی بغاوتیں، 1844ء میں سیلیزیا کے مزدوروں کی بغاوت، انگلستان میں چوتھی سے چھٹی دہائی تک چارٹسٹ تحریک شامل تھی۔ چارٹزم درحقیقت مزدوروں کی سیاسی نوعیت کی پہلی تحریک تھی۔ چارٹزم کے زیر اثر پہلی مزدور پارٹی کی تشکیل ہوئی اور سیاسی مطالبات پیش کیے گئے۔

مارکسزم جرمنی میں اتفاقیہ طور پر وجود پذیر نہیں ہوا ۔کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز کے آبائی وطن جرمنی میں طبقاتی تضادات خاص شدت اختیار کر گئے تھے۔ وہاں بورژوا انقلاب کے لیے تمام تر حالات تیار تھے ۔ اس وقت تک جرمنی میں مزدوروں کی تعداد میں کافی اضافہ ہو چکا تھا۔ جو اپنے طبقاتی مفادات کا اعلان کر رہے تھے ۔ اس ملک میں خود بورژوا انقلاب کی روش میں پرولتاریہ کی طبقاتی جدوجہد کے شدید وتیز رفتار ہونے کی شرائط موجود تھیں۔ اس سے پہلے کے بورژوا انقلابات میں ایسے حالات نہیں تھے۔ جرمنی کے ارتقا کی اس خصوصیت نے اس بات کا بھی تعین کر دیا کہ وہ مارکسزم کے ظہور کی وجہ بن گیا۔ تاریخی اعتبار سے مارکسزم کے ظہور کے لئے سارے یورپی ملکوں میں سرمایہ داری اور طبقاتی جدوجہد کے ارتقا نے زمین ہموار کر دی تھی۔

انقلابی جدوجہد میں مزدور طبقہ نہ صرف ایک ملک میں بلکہ ان تمام ممالک میں کود پڑا جہاں سرمایہ داری قائم ہوئی تھی۔ لیکن مزدور طبقے کے پاس جدوجہد کا کوئی واضح پروگرام نہیں تھا۔ یہ مزدور طبقے کی شکستوں کا انتہائی اہم سبب تھا۔ ایک ٹھوس سیاسی پروگرام کی عدم موجودگی مزدوروں کی تنظیم کو کمزور کر دیتی تھی اور جدوجہد میں حصہ لینے والوں کے درمیان اختلاف کا موجب بنتی تھی۔ ایک انقلابی نظرئیے کی ضرورت پوری شدت کے ساتھ محسوس کی جارہی تھی۔ مارکسزم کا فلسفہ پرولتاریہ کی انقلابی تحریک کے پیش کردہ سوالات کا جواب بن گیا۔

فلسفیانہ تعمیم کے لئے مجموعی طور پر سائنس کے ارتقا نے بہت زیادہ اور اہم مواد فراہم کر دیا تھاجس نے فلسفے کے ارتقاکی نئی اور بلند تر سطح کے لیے راہ ہموار کی ۔ 19ویں صدی کے وسط میں نیچرل سائنسز میں جو دریافتیں کی گئیں انہوں نے فطرت کی ایسی سمجھ کے لئے پختہ بنیاد فراہم کی جسے جدلیاتی مادیت کہا جاتا ہے۔

اسی زمانے میں سماجی علوم میں بھی بنیادی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئیں۔ ترقی پسند بورژوا نظریہ دانوں کی توجہ کامرکز وہ مادی عوامل تھے جو سماج میں رونماہو رہے تھے۔ چنانچہ انگریز سیاسی معیشت دان ایڈم سمتھ اور ڈیوڈ ریکارڈو کی تحقیقات نے محنت کو قدر کا ماخذ قرار دیا۔ مارکسزم کے فلسفے کی تشکیل میں بہت بڑا کرداریوٹوپیائی سوشلسٹوں سیں سیمون، فوریئے اور رابرٹ اوین نے بھی ادا کیا۔ حالانکہ ان لوگوں کو مستقبل کے سماج کی طرف لے جانے والا حقیقی راستہ نظر نہیں آیا اور انہوں نے انقلابی تبدیلی کے راستے کو رد کر دیا پھر بھی سرمایہ داری پر شدید تنقید اور مستقبل کے سماج کے بارے میں ان قیاسات کو مارکسزم کے بانیوں نے بڑی اہمیت دی۔

مارکسزم کے فلسفے کی اہم ترین نظریاتی شرط جرمن کلاسیکی فلسفہ ثابت ہوا جو اس زمانے میں فلسفیانہ فکر کا بلند ترین حاصل تھا۔ ان میں سب سے اہم ہیگل کی جدلیات اور فائرباخ کی مادیت پسندی تھی۔ لیکن ہیگل نے جدلیات کو عینیت پرستانہ (Idealist) بنیاد پر وضع کیا تھا۔ یہ عینیت پرستی ہی اس کے فلسفے کی محدودیت کا ثبوت بن گئی۔ فائرباخ نے مادیت پسندی کے موقف سے ہیگل کے فلسفے کی بہت ہی شاندار تنقید کی پھر بھی وہ جدلیات اور مادیت کو ایک کل میں متحدہ نہ کر سکا اور اس نے سماجی مظاہر کی وضاحت پر اپنی مادیت کا اطلاق کرنے کی ہمت نہیں کی۔

مارکسزم کے فلسفے کے لئے انسانی ادراک کے سارے سابقہ ارتقا نے پیش بندی کی۔ لیکن نئے فلسفے کی تشکیل کے لئے صرف مکمل علمی عبور اور اتحاد وامتزاج نہیں بلکہ اس وقت تک کی ساری تخلیق شدہ انسانی فکر کاازسر نو تنقیدی جائزہ درکار تھا۔ لینن نے لکھا ہے کہ ’’مارکس کاسب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ان سوالوں کے جوابات دئیے جو نوع انسانی کی ترقی یافتہ فکر نے پیش کیے۔‘‘

مارکسزم کے خالق، کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز کے نام تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ ساتھ ساتھ درج ہوں گے۔ اپنی سماجی اصل کے اعتبار سے وہ پرولتاری نہیں تھے لیکن کیسے ہوا کہ یہ لوگ، جو جرمن سماج کی مراعات یا فتہ پر توں سے آئے تھے (مارکس کے والد ممتاز ایڈوکیٹ تھے، اینگلز کے والد ٹیکسٹائل کا رخانے کے مالک)، مزدو طبقے کے مفادات کا اظہار کرنے والے بن گئے؟ جس دور میں طبقاتی جدوجہد شدید ہوتی ہے اس میں بورژوا سماج کا اندرونی انتشار ایسے طوفانی کردار کا حامل ہو جاتا ہے کہ حکمران طبقے کا ایک خاص حصہ، جو زیادہ بڑا نہیں ہوتا ہے، اس سے بیزار ہو جاتا ہے اور اُس انقلابی طبقے کی طرف مائل ہوتا ہے جس کے ہاتھوں میں مستقبل ہوتا ہے۔ لیکن یہ عبور اپنے آپ نہیں ہو جا تا بلکہ بہت ہی پیچیدہ اور مشکل ہوتا ہے اور ہر شخص میں یہ عبور کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ جس طبقے سے پیدائش کے دن سے آدمی وابستہ رہا ہے اس کی جہاں بینی پر غالب آنے کی صلاحیت، زبردست قوت ارادی، ہمت درکار ہوتی ہے۔

1844ء میں مارکس اور اینگلز کی گہری دوستی کی ابتدا ہوئی۔ تب تک دونوں مزدور طبقے کی غیر معمولی تاریخی اہمیت سے واقف ہو چکے تھے، سیاسی جدوجہد کا تجربہ رکھتے تھے اور اپنے زمانے کی فلسفیانہ اور سائنسی حاصلات کا مطالعہ اور ان پر تنقیدی غورو فکر کر چکے تھے۔

مارکسزم کے فلسفے کی تشکیل میں دو بنیادی مرحلے ہیں۔ پہلا تو مارکس اور اینگلز کے فلسفیانہ زاویہ نظر کا قائم ہونا اور عینیت پرستی و انقلابی جمہوریت پسندی کے موقف سے عبور کرکے جدلیاتی و تاریخ مادیت اور سائنسی سوشلزم کے موقف پرا ن کا آنا۔ یہ مرحلہ 1844ء میں پورا ہو گیا۔ دوسرے مرحلے میں جدلیاتی وتاریخی مادیت کے بنیادی بادلیل دعووں کو وضع کیا گیا۔ یہ دور بالغ مارکسزم کا دور کہلاتا ہے۔

ایک ایسے نظرئیے کی تشکیل کرنا مارکس اور اینگلز کے لئے آسان نہیں تھا جو فلسفے میں ایک فیصلہ کن موڑ بن گیا۔ شروع ہی سے انہوں نے انقلابی جمہوریت پسندوں کی طرح عمل کیا تھا اور عوام الناس کے مفادات کا دفاع کیا تھا۔ نوجوانی میں دونوں کلاسیکی جرمن فلسفے کی طرف مائل ہو گئے تھے۔ ان کے لئے ہیگل کی معروضی عینیت پرستی کے فلسفے کی کشش خاص طور سے زیادہ تھی۔ مارکس اور اینگلز‘ ہیگل کے فلسفے کے بائیں بازو والے پیروکاروں (نوجوان ہیگلیوں) میں شامل ہو گئے جو اس کے فلسفے سے انقلابی اور مادی نتائج اخذ کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ لیکن جلد ہی ان پر واضح ہو گیا کہ فلسفیانہ فکر کا انقلابی اور مادی رجحان‘ عینیت پرستی کے ساتھ میل نہیں کھاتا۔ اس کے بعد فائر باخ کے مادیت پسندانہ فلسفے کی طرف رجوع کا دور شروع ہوا۔ لیکن 1845-46ء ہی میں مارکس اور اینگلز نے اپنی مشترکہ تصنیف ’’جرمن آئیڈیالوجی ‘‘میں نہ صرف ہیگل کی عینیت پرستی بلکہ فائر باخ کی علم الانسان پر مبنی تفکرانہ مادیت پربھی تنقید کی۔

سائنسی سوشلزم کی تخلیق کرنے کے ساتھ ساتھ مارکس اور اینگلز نے پرولتاری پارٹی بنانے کے لئے عملی انقلابی جدوجہد بھی کی۔ 1847ء میں ’کمیونسٹ لیگ‘ قائم کی گئی جس کا پروگرام ’کمیونسٹ پارٹی کا مینی فسٹو‘ تھا۔ اس تصنیف نے فلسفے میں ایک نیاموڑ پیدا کر دیا اور مارکسزم کے فلسفے کی تشکیل ہوئی۔ اس انقلابی فلسفے کے بنیادی خدوخال کیا ہیں؟

مارکسزم کے بانیوں نے پہلی بار یہ ثابت کیا کہ جدلیات اور مادیت کو ایک کل میں متحد کرنا ضروری ہے۔ مارکسزم کے وجود پذیر ہونے تک جدلیات‘ عینیت پرستی کی بنیاد پر ارتقا کرتی رہی تھی اور مادیت پسندی پوری طرح مابعد الطبیعات کے بوجھ تلے دبی ہوئی تھی۔ جدلیاتی مادیت کی تخلیق نے فطرت، سماج اور انسان کی مکمل مادی وضاحت ان کے تاریخ ارتقا کے عمل میں کرنے کی راہ نکالی۔

مارکس سے پہلے کے سارے مادیت پسند اور عینیت پرست فلسفیوں میں ایک خصوصیت مشترک تھی کہ سماجی زندگی کے مظاہرکی تشریح میں وہ سب عینیت پرست تھے۔ تاریخ کو وہ اس طرح دیکھتے تھے جیسے یہ لوگوں کے خیالات ،خواہشات اور مرضی کی بتدریج تجسیم ہو۔ سب سے پہلے مارکس اور اینگلز نے مادیت پسندی کا اطلاق سماجی مظاہرکی وضاحت پر کیا۔ عینیت پرستی کو اپنی آخر ی پناہ گاہ یعنی تاریخ کے میدان سے بھی نکال باہر کیا گیا۔ جدلیاتی مادیت کی پختہ بنیاد پر تعمیر شدہ مارکسی فلسفے کی عمارت میں ایک اور منزل یعنی تاریخ کی مادیت پسندانہ وضاحت کا اضافہ ہوا جسے تاریخی مادیت کہتے ہیں۔ لینن نے لکھا ہے کہ ’’سائنسی فکر کی عظیم ترین فتح مارکس کی تاریخ مادیت تھی۔ تب تک تاریخ اور سیاست کے زاویہ نظر پر من مانا پن چھا یا ہوا تھا۔ اب اس کی جگہ نمایاں طورپر بامقصد اور بخوبی مرتب شدہ سائنسی نظرئیے نے لے لی….‘‘

جدلیاتی اور تاریخ مادیت کی تخلیق نے فلسفے میں رونما ہونے والی انقلابی تبدیلی کے دوسرے خدوخال بھی متعین کر دئیے ۔ خود فلسفے، اس کے موضوع، کردار، سائنسی عمل اور انقلابی جدوجہد سے اس کے تعلق میں بنیادی تبدیلیاں ہوئیں۔

مارکس اور اینگلز کے پیش رو فلسفیوں میں سے ایک بھی سماجی زندگی کے ساتھ فلسفے کے تعلق کے بارے میں سائنسی اساس فراہم نہ کر سکا تھا۔ فلسفے کے سماجی کردارکی سماجی شرائط کو عیاں نہ کر سکا تھا۔ پہلے کا سارا فلسفہ غوروفکر اور دھیان کا کردار رکھتا تھا۔باروچ سپینوزا کی رائے میں فلسفی کو ہنسنا اور رونا نہیں چاہئے بلکہ ساری موجودات کو صرف سمجھنے یعنی ان کی وضاحت کرنے کے لائق ہونا چاہئے۔ مارکسزم کا فلسفہ بھی موجودات کی وضاحت کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی پرانے میں سے نئے کے ظہورکودیکھنا سکھاتا ہے، ارتقا کے بنیادی رجحان کو دیکھنا اور اسی بنا پر اس کو بدلنے کے امکان پر غور کرنا سکھاتا ہے۔ ’’فلسفیوں نے مختلف طریقوں سے صرف دنیا کی تشریح کی ہے لیکن اصل بات تو ہے اس کو بدلنا ہے۔‘‘ (مارکس و اینگلز، مجموعہ تصانیف، جلد 3، صفحہ 4)

سائنس کے نظام میں فلسفے کا مقام بھی بنیادی طور سے بدل گیا۔مارکسی فلسفے کی تخلیق سے پہلے مفکرین دنیا کے ادراک میں فلسفے کے خاص مقام کے دعویدار تھے اور اس کو ’’سائنسوں کی سائنس‘‘ کا مقام دیتے تھے۔ مارکسزم کے بانیوں نے دکھایا کہ فلسفہ سائنسی حاصلات اور ٹھوس تحقیقات کیساتھ حقارت کا سلوک نہیں کر سکتا کیونکہ وہ انہیں پر تکیہ کرتا ہے، انہی کے فراہم کردہ حقائق سے عمومی نتائج اخذ کر کے فطرت، سماج اور تفکر کے عام ترین قوانین کو عیاں کرتا ہے۔

مارکس سے پہلے کے فلسفی دعویٰ کرتے تھے کہ ان کا فلسفہ دنیا کے بارے میں مطلق، حتمی اور کامل علم دیتا ہے۔ مارکس اور اینگلز نے ثابت کیا کہ مارکسی فلسفہ اپنے بنیادی مدلل دعووں کے مسلسل ارتقا کو پہلے سے مان لیتا ہے۔ مارکسزم کوئی واجب العمل عقیدہ نہیں بلکہ عمل کے لئے ہدایت نامہ ہے۔ اس طرح سے مارکسی فلسفے کی امتیازی خصوصیت اس کا تخلیقی کردار ہے۔ مارکسزم کے تخلیقی کردار اور سماجی عمل سے اس کے گہرے تعلق کا ثبوت ولا دیمیر ایلیچ لینن کی تصنیفات میں فلسفے کے ارتقا کا موجب بنا۔ لینن نے لکھا کہ ’’ہم مارکس کے نظرئیے کو ہرگز اس طرح نہیں دیکھتے کہ یہ کوئی حتمی اور قابل حرمت چیز ہے۔ بلکہ اس کے برعکس ہمیں یقین ہے کہ اس نے صرف اس سائنس کا سنگ بنیاد رکھا ہے جسے سوشلسٹوں کو ہر سمت میں آگے بڑھانا چاہئے اگر وہ زندگی سے پچھڑنا نہیں چاہتے۔ ‘‘

نیا دور، نئے سماجی و معاشی اور سیاسی حالات، سائنس، فلسفے، تمدن کا ارتقا مجموعی طور پر نئے فلسفیانہ نتائج کے متقاضی تھے۔ لینن نے سرمایہ داری، جو اپنے بلند ترین مرحلے پر پہنچ گئی تھی، کے زوال کے دور میں، سوشلزم کی طرف عبور کے دور میں،سماجی انقلابوں کے دور میں مارکسزم کے فلسفے کو آگے بڑھایا۔ 20ویں صدی کے شروع میں انقلابی تحریک کا مرکز روس میں منتقل ہو گیا تھا جو اس وقت معاشی، سیاسی اور ثقافتی تضادات کا نقطۂ ارتکاز اورسماجی زنجیر کی ’’کمزور کڑی‘‘تھا۔ تضادات کے شدید ہونے کے دور میں مارکسزم کے فلسفے پر حملے بھی شدید ہو گئے تھے۔ مختلف بورژوا تصورات میں مارکس اور اینگلز کے نظریے کو تحلیل کر دینے کی کوششیں کی جارہی تھیں۔ اسی دور میں نیچرل سائنسز میں بھی اہم پیش رفت ہوئی۔ مادے کی ساخت کے پرانے کامل تصورات غلط ثابت ہو گئے۔ ارتقا پذیر سائنس کے لئے نئے طریقہ ہائے کار وضع کرنے کی ضرورت پیدا ہوئی۔ ان حالات میں صرف مارکسزم کا دفاع ہی نہیں بلکہ جدلیاتی اور تاریخی مادیت کو عمل، انقلابی جدوجہد، نیچرل اور سماجی سائنسز کے ارتقا کے تقاضوں کی بنیاد پر ترقی دینا بھی ضروری تھا۔ لینن نے اپنی تصنیفات، ’’مادیت اور تجربی تنقید‘‘، فلسفیانہ بیاضیں، ’’لڑاکا مادیت کی اہمیت‘‘، ’’ریاست اور انقلاب‘‘ وغیرہ میں جو خیالات پیش کیے وہ جدید دور کے سوالوں کے جوابات بن گئے۔ لینن نے مادے اور اس کے بنیادی خواص کے بارے میں مارکسی نظریے کو مرتب کیا۔ طبقاتی جدوجہد، انقلاب، ریاست، عوام الناس کے کردار، تاریخ میں شخصیت کے کردار اور سوشلسٹ تشکیل کے بارے میں مارکسی نظریات میں قابل قدر اضافہ کیا۔ انہوں نے مارکسی نظریات میں انحراف و مسخ کیخلاف جدوجہد کرنے کے طریقے سمجھائے اور بورژوا نظریات اور ترمیم پرستی پر تنقید کے اصول وضع کیے۔ فلسفے میں جانبداری کے اصول کے لئے لینن نے جو کثیر پہلو سائنسی اساس فراہم کی وہ زبردست اہمیت رکھتی ہے۔

مارکسی فلسفہ ایک بین الا قوامی مظہر ہے۔ یہ ساری دنیاکے محنت کشوں کی انقلابی جدوجہد کے تجربے کانچوڑ ہے۔ مارکسزم ایک ناقابل شکست قوت ہے کیونکہ یہ سچ ہے۔ مارکسی فلسفے کے ظہور کے بعد عالمی تاریخ کے ارتقا سے اس کو نئی فتوحات حاصل ہوئیں۔ آج لینن کے ان الفاظ کی پوری طرح توثیق ہو گئی ہے جو انہوں نے روس میں سوشلسٹ انقلاب سے کچھ عرصہ پہلے کہے تھے، ’’پرولتا ریہ کے نظرئیے کی حیثیت سے مارکسزم کے لئے آنے والا تاریخی دور اور بھی بڑی فتوحات لائے گا۔‘‘ آج پوری دنیا میں ہونے والے واقعات ، سرمایہ دارانہ نظام کا بحران اور انقلابی تحریکیں مارکسی فلسفے کی سچائی کی دلالت کر رہی ہیں ۔ ایک سوشلسٹ انقلاب نہ صرف نسل انسان کی بقا کا ضامن ہے بلکہ مزدور طبقے کی قیادت میں تسخیر کائنات کے سفر کا آغاز بھی بنے گا۔