عمر شاہد

معاشی بحران نے یورپ کی سوشل ڈیموکریسی اور نام نہاد نیو لبرل آرڈر ، دونوں کی حقیقت کو عیاں کر دیا ہے۔ پورا خطہ عدم استحکام اور انتشار کا شکار ہے۔ سوشل ڈیموکریسی تاریخی طور پر سرمایہ دارانہ نظام میں اصلاحات کرکے اس کو تقویت اور طوالت دینے کا ہی نظریہ ہے۔ اس وقت سطح کے نیچے پنپنے والے تضادات پھٹ کر سامنے آچکے ہیں جس کی وجہ سے بورژوازی اضطراب کا شکار ہے۔ اب جبکہ یہ نظام خود اصلاحات اور سماجی ترقی دینے کی صلاحیت کھو چکا ہے تو ایسے میں تمام مروجہ سیاسی پارٹیوں کی قیادتوں نے دائیں بازو کی پالیسیوں کو ہی اپنایا ہے۔ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر بننے والی یورپی یونین کے بحران نے اس کے غیر فطری پن کوعیاں کر دیاہے۔ آزادانہ نقل و حمل کی حامل منڈی اور سنگل کرنسی جیسے عوامل نے ایک وقت میں سرمایہ داروں کو بلند شرح منافع کے حصول میں مدد دی لیکن اب یہی عوامل بہت سے ممالک کو تنزلی کی جانب لے کر جا رہے ہیں۔ یورپ میں قومی مسئلہ ایک بار پھر بھڑک اٹھا ہے۔ سکاٹ لینڈ سے لیکر کیٹیلونیا تک علیحدگی کی تحریکیں سر اٹھا رہی ہیں۔

18 فروری 2018ء کی یورپین بینک کی رپورٹ کے مطابق 2018ء میں جی ڈی پی گروتھ کے 2.2 فیصد رہنے کا امکان ہے لیکن 2019ء تک یہ 2 فیصد تک گر سکتی ہے۔ دسمبر 2017ء میں صنعتی پیداوار میں 0.4 فیصد کا اضافہ ہواجس کا کلیدی حصہ اشیائے صرف کی پیداوارپر مشتمل تھا۔ لیکن اسی عرصہ کے دوران کیپٹل گڈز کی پیداوا ر میں 1.1 فیصد کمی واقع ہوئی۔ پیداواری صلاحیت کا استعمال اس وقت 84 فیصد ہے جس میں بنیادی حصہ جرمنی، فرانس اور برطانیہ کا ہے۔ یورپ میں اوسط بیروزگاری 8 فیصد بتائی جاتی ہے جس کی بنیادی وجہ پھر کمزور بنیادوں کی نئی نوکریاں ہیں۔ نئی پیدا ہونے والی ملازمتوں میں زیادہ شرح ڈیلی ویجز ، شارٹ ٹرم کنٹریکٹ اور غیر مستقل نوکریوں کی ہے۔ اس کے علاوہ سیزنل ملازمتوں کی وجہ سے بھی عارضی طور پر بیروزگاری کی شرح میں بڑے پیمانے پر اضافہ نہیں ہوا۔ ایک لمبے عرصے سے حقیقی اجرتوں میں اضافہ نہیں ہو رہا بلکہ کنزیومر خرچ کو بڑھانے کے لئے کھوکھلے سہاروں مثلاً قرضوں کی بڑھوتری کا مظہر دیکھا جا رہا ہے۔ شرح سود میں کمی کرکے ایک نحیف شرح نمو حاصل کرنے کی کوشش کی گئی جس کا انحصار فنانسنگ اور خدمات کے شعبے پر ہے۔ دسمبر 2017ء میں یورپ کی 19 معیشتوں میں کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس دیکھا گیا جس کی اہم وجہ نئی سرمایہ کاری میں کمی جبکہ بچتوں پر زیادہ توجہ تھی۔ جرمنی کا سرپلس کل جی ڈی پی کا 8 فیصد رہا جبکہ کل سرمایہ کاری جی ڈی پی کے 6 فیصد تک رہی۔ یورپین بینک کی جانب سے جرمنی اور دیگر بڑی معیشتوں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ مزید سرمایہ کاری کی جائے تاکہ معاشی سرگرمیاں بحال ہوں اور ٹھوس بحالی ممکن ہو سکے۔ اسی مقصد کے لیے’اثاثے خریدنے کا پروگرام‘ شروع کیا گیا ہے جس کے اثرات واضح طور پر مالیاتی منڈیوں میں دیکھے گئے۔ جس سے سرمائے کی حرکت میں تیزی تو آئی لیکن پیداواری صنعت میں نئی سرمایہ کاری کی بجائے پھر مالیاتی سٹے بازی میں سرمایہ لگایا جا رہا ہے ۔ جرمن بینک کی رپورٹ مطابق یورپی سرمایہ کار اس وقت امریکی مالیاتی سیکورٹیز کے سب سے بڑے غیر ملکی خریدار بن چکے ہیں۔

المیہ یہ ہے کہ سستی لیبر، کم ترین شرح سود اور کئی ٹیکس ریلیف سکیموں کے باوجود پیداواری صنعت میں نئی سرمایہ کاری نہیں ہو رہی۔ جس کی وجہ سے حقیقی اجرتوں ، مستقل روزگار اور سماجی بہبود کے پروگراموں میں تیزی سے کمی ہو رہی ہے۔ معاشی صورتحال پر یورپی بینک کے سابق مالیاتی مبصر نے لکھا،’’ایک عشرے کی جدوجہد کے بعد آخر کار یورپ طغیانی بھرے سمندر میں نسبتاً مستحکم جزیرے کی طرح ابھرا ہے۔ اس استحکام کو برقرار رکھنے والے لیڈروں کو ایک بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ بیرون ملک سے قرضے یا اثاثوں کی ملک میں منتقلی کے عمل سے کوئی بھی معاشی مسئلہ حل نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

کارپوریٹ منافعوں میں حالیہ اضافے کی وجہ پھر سرمایہ دارانہ نظام کا وحشی استحصال ہے۔مارکس نے واضح کیا تھا کہ منافع میں اضافے کی بنیاد محنت کا بد ترین استحصا ل ہی ہوتا ہے۔ سرمایہ کاری کا حتمی مقصد فلاح انسانیت کی بجائے شرح منافع کا حصول ہو تا ہے۔ آج کے عہد میں سرمایہ کاری پیداواری شعبوں کی بجائے غیر پیداواری سرگرمیوں میں کی جا رہی ہے، جہاں نسبتاً زیادہ منافعے مل سکتے ہیں۔ مارکس نے ہی بیان کیا تھا کہ سرمایہ دار کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ پیداوار کے اذیت ناک مرحلے سے گزرے بغیر ہی اپنے سرمائے کو بڑھانے کے قابل ہو سکے ۔

ٹھیکیداری نظام اور نجکاری نے مزدوروں کو زیادہ محنت اور محدود اجرت کی جکڑ میں دبوچ رکھا ہے۔ عام یورپی لوگ شدید اعصابی تناؤ کا شکار ہیں اور روشنیوں و رنگینیوں کے ان یورپی معاشروں میں وہ خود بنیادی سہولیات سے محرومی کے اندھیروں میں ڈوبتے جا رہے ہیں۔ یورپی یونین میں بڑھتی ہوئی غربت کو سنجیدہ تجزیہ نگارایک ’ٹائم بم‘ سے تشبیہ دے رہے ہیں۔ یورپی بینک کی رپورٹ کے مطابق 2016ء میں 117.5 ملین افراد یعنی یورپی یونین کی ایک چوتھائی آبادی خطِ غربت کے آس پاس منڈلا رہی تھی۔ اٹلی ، سپین اور یونان میں 2008ء کے بحران کے بعد چھ ملین افراد غربت کی لکیر سے نیچے جا چکے ہیں۔ مضبوط معیشتیں مثلاً فرانس اور جرمنی میں 20 فیصد کے قریب غربت موجود ہے۔ 2007ء سے 2015ء کے دوران سوشل سکیورٹی میں کٹوتیوں کی وجہ سے 18 سے 29 سال کی عمر تک نوجوانوں میں غربت کی لکیر سے نیچے جانے کا تناسب 24 فیصد ہو چکا ہے۔ 12 فیصد سے زائد نوجوان اس وقت بنیادی ضروریات زندگی کے حصول سے قاصر ہیں۔ حال ہی میں ورلڈ اکنامک فورم میں یورپ کے نوجوانوں کی حالت زار کو بیان کرتے ہوئے آئی ایم ایف کی کرسٹین لیگارڈ نے کہا کہ ’’یورپی نوجوان اپنے خوابوں کو دبا رہے ہیں۔‘‘ بیشتر نوجوانوں نے اب ملازمتیں تلاش کرنا ہی چھوڑ دی ہیں لیکن لمبے عرصے تک بیروزگار رہنے کی وجہ سے وہ سماجی طور پر کافی پیچھے رہ سکتے ہیں۔ کئی غریب افراد کے لئے اب دوبارہ منڈی کا حصہ بننا بھی ناممکن ہو تا جا رہا ہے۔ بہت سے لوگ کم اجرتوں کی وجہ سے روزگار ہونے کے باوجود شدید غربت کا شکار ہیں۔ ’OECD‘ کی رپورٹ کے مطابق 2017ء میں سپین اور یونان کے 14 فیصد محنت کش روزگار ہونے کے باوجود غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے۔

لیکن ایسے میں روایتی بائیں بازو کی پارٹیوں نے سوشل ڈیموکریسی کی اصلاح پسندی کے بعد دائیں بازوکی معاشی و معاشرتی کٹوتیوں کی پالیسیاں اپنا لی ہیں۔ انہوں نے کوئی متبادل پروگرام پیش ہی نہیں کیا۔ دوسری طرف دائیں بازو کی جانب میری لی پین، گلیرٹ وائلڈز اور ’Afd‘ وغیرہ جیسے مظاہر وقتی اور کھوکھلے ہیں۔ میڈیا سرکس سے پرے موجودہ مادی حالات میں فی الوقت یہ اکیلے حکومتیں بنانے کے قابل نہیں ہیں۔ برسوں سے یورپی یونین کے خلاف پنپنے والی نفرت کو یہ بخوبی استعمال کرتے ہوئے مین سٹریم سیاست میں قدم جمانے کے قابل تو ہوئے ہیں لیکن زیادہ دیر تک اپنا وجود قائم رکھ پانے سے قاصرہیں۔ ماسوائے برطانیہ پورے یورپ میں ابھرنے والے نئے بائیں بازو کے رحجانات بھی بالعموم کوئی ریڈیکل پروگرام دینے اور اس پر عمل کرنے کی اہلیت سے عاری ہونے کے باعث بڑے پیمانے پر عوامی حمایت حاصل کرنے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔ ریڈیکل اصلاح پسندی تک محدود ہونے کی وجہ سے وہ رائج الوقت سیاست کو یکسر تبدیل کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔ اس نظام کے خلاف ابھرنے والی ایک ایسی پارٹی جو محنت کشوں کے مسائل سماجی تبدیلی سے حل کر سکے ، پورے یورپ کے محنت کش طبقے کے لئے ایک ماڈل بن سکتی ہے۔ یورپین یونین کے ادارے بری طرح کھوکھلے ثابت ہو رہے ہیں اور ان کی اتھارٹی ختم ہو تی جا رہی ہے۔ ان اداروں کو کئی ممالک میں بیرونی طاقت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ سیاسی طور پر یورپ ایک بند گلی میں داخل ہو چکا ہے۔ ’بریگزٹ‘ ایک سیاسی زلزلہ ثابت ہوا ہے جسے ابھی بھی بورژوازی پورے دل سے تسلیم نہیں کر پا رہی ۔ اسی قسم کے جذبات دیگر ممالک میں بھی پائے جا رہے ہیں جہاںیورپی یونین کو چھوڑنے کی سنجیدہ بحثیں موجود ہیں۔

سکاٹش کنزرویٹو پارٹی کی سربراہ روٹھ ڈیویسن نے برطانوی سماج کی منظر کشی کرتے ہوئے اکانومسٹ جریدے میں لکھا کہ مالی بحران کے ایک عشرے کے بعد آج ہم سرمایہ دارانہ نظام پر عدم اعتماد کا شکار ہیں۔ برطانیہ میں ہر پانچ افراد میں سے ایک سے بھی کم شخص اس بیان پر متفق ہے کہ پچھلی نسل کے مقابلے میں اگلی نسل زیادہ دولت مند، محفوظ اور صحت مند ہوگی۔ اس کا کہنا تھا کہ آزاد کاروبار پر یقین کمزور ہوتا جا رہا ہے اور سوشلزم کے ’’پر فریب وعدے‘‘ ایک بار پھر پر کشش بن رہے ہیں۔ لیگاٹم انسٹیٹیوٹ کے منعقدہ سروے کے مطابق تین چوتھائی برطانوی شہری اب تمام یوٹیلٹی اداروں اور ریلوے کے نظام کو مکمل طور پر قومیانے کے حق میں ہیں۔

یورپی بحران کا نمایاں اظہار جرمن پارلیمنٹ کے 26 ستمبر 2017ء کو ہونے والے انتخابات کے بعد جاری سیاسی بحران میں ہوا۔ جس کو اب انجیلا مرکل کے دائیں بازو کے اتحاد (CDU/CSU) اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (SPD) کے مابین حکومت سازی کے سمجھوتے سے حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ انتخابات ایک سیاسی زلزلے سے کم ثابت نہ ہوئے۔ انجیلا مرکل کو 12 سالہ دور حکومت کے بعد سخت ذلت اٹھانا پڑی۔ انجیلا مرکل کے دائیں بازو کے اتحاد کو 70 سالوں کے کم ترین ووٹ پڑے۔ جرمنی کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (SPD) کو بعداز جنگ کی سب سے بڑی شکست ہوئی ہے ۔ ان انتخابات میں ملک کی روایتی دائیں اور بائیں بازو کی پارٹیوں کو بد ترین نتائج کا سامنا کرنا پڑا جبکہ چھوٹی پارٹیوں کی پذیرائی میں اضافہ ہوا ہے۔ ہٹلر کے بعد پہلی مرتبہ قوم پرستانہ نیم فسطائی رجحان ’’جرمنی کا متبادل‘‘ (AfD) کو جرمن پارلیمنٹ کی 631 نشستوں میں سے 95 نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔

اس نے13.5 فیصد ووٹ حاصل کیے ہیں۔ بائیں بازو کی پارٹی ’ڈائی لنکے‘، جس کا بڑا حصہ سابقہ مشرقی جرمن کمیونسٹ پارٹی پر مبنی ہے، تیزی سے ابھری ہے۔ اس مرتبہ بھی اس نے 9 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کیے ہیں۔ لیکن بائیں بازو کی ریڈیکل اصلاح پسندی تک محدود ہونے کی وجہ سے وسیع حمایت کے حصول میں سست روی کا شکار رہی ہے۔

جرمنی میں بننے والے تازہ انتخابی اتحاد کے بارے میں خود بورژوا تجزیہ نگار بھی زیادہ خوش فہمی کا شکار نہیں ہیں۔ پچھلے چار ماہ کے دوران حکومت سازی کے لئے مرکل کی جانب سے تقریباً ہر جماعت سے رابطے کیے گئے۔ تین دفعہ اتحاد بنتا دکھائی دے رہا تھا لیکن کوئی ’ فارمولا ‘ طے نہ پا نے کی وجہ سے کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ ’SPD‘ کے ساتھ بننے والے اتحاد پر دونوں پارٹیوں کے سنجیدہ دھڑوں کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے۔’ SPD‘ کی قیادت کی کوشش ہے کہ وہ سرمایہ داری کے نسخوں پر عمل کرتے ہوئے خود کو زیادہ سے زیادہ ’’قابل اعتماد‘‘ ثابت کرنے کی کوشش کریں ۔ انہیں اس اتحاد سے کافی امیدیں ہیں اور مرکل سے زیادہ ان کی خواہش ہے کہ یہ اتحاد قائم رہے۔ انہیں اتحاد میں امورِ خارجہ اور خزانہ سمیت چھ وزارتوں کی پیش کش کی گئی ہے۔ لیکن اس اتحاد کی قسمت کا فیصلہ ’SPD‘ کے ممبران کریں گے۔ پوسٹل بیلٹ کے ذریعے مرکل کے ساتھ اتحاد پر ممبران سے رائے وصول کی جا رہی ہے جس کے نتائج کا فیصلہ 4 مارچ کو سنایا جائے گا۔

بحران کا اظہار سیاسی افق پر اٹلی کے انتخابات میں ہوا جہاں روایتی پارٹیوں کی بجائے تھوڑے عرصے قبل ہی ابھرنے والی پارٹیاں‘ فائیو سٹار موومنٹ 32 فیصد اور شمالی لیگ اپنے نئے نام کیساتھ 18 فیصد ووٹ لے کر سر فہر ست رہیں۔ جبکہ تین دفعہ اقتدار کے مزے لوٹنے والے سابق وزیر اعظم برلسکونی کے اتحاد اور مونٹی رینزو کی ڈیموکریٹک پارٹی کو شکست اٹھانا پڑی۔ ابھی بھی اٹلی کی معاشی و سیاسی صورتحال میں کوئی بہتر ی دکھائی نہیں دے رہی۔ انتخابات کے نتائج کے بعد کوئی بھی پارٹی حکومت بنانے میں ناکام رہی ہے جس کے لئے گفت و شنید جاری ہے۔ قرضوں تلے دبی معیشت ابھی تک بحران سے پہلے کی سطح تک نہیں پہنچ سکی۔ جو تھوڑی بہت معاشی بحالی ہوئی ہے اس کے ثمرات پھر ایک امیر اقلیت نے ہی سمیٹے ہیں۔ انتخابات میں پناہ گزینوں کے بڑھتے ہوئے بحران پر بحثیں کی گئیں، لیکن حقیقت میں ملک چھوڑنے والوں کی تعداد نئے آنے والوں سے زیادہ ہے۔

فرانس میں نئی بننے والی میکرون حکومت کو بھی بحران کا سامنا ہے۔ نیو لبرل پالیسیوں کے باعث لوگوں کا غم و غصہ ایک تحریک کی شکل میں پھٹ پڑا ہے ۔ ریلوے کے محنت کشوں نے محکمے کی متوقع نجکاری کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہوئے پورے فرانس کو مفلوج کر دیا۔ یہی صورتحال دوسرے شعبوں میں دیکھی جا سکتی ہے مثلاًہزاروں طلبہ یونیورسٹی کیمپسوں میں احتجاج کر رہے ہیں جبکہ کچرا جمع کرنے والے مزدور بھی کام کے حالات کار کے خلاف ہڑتال کر رہے ہیں۔ توانائی کے شعبے کے مزدوروں نے توانائی کی منڈیوں کی لبرلائزیشن اور ڈی ریگولیشن کے خلاف ہڑتالوں کا اعلان کیا ہے۔ فضائی نقل و حمل کے نظام میں بھی خلل آیا ہے۔ اگلے برس 2019ء میں یورپی یونین کے آئین پر ریفرنڈم ہونے جا رہا ہے جس کے لئے میکرون نے یونین کو ’مزید جمہوری‘ بنانے کا پروگرام پیش کیا ہے جسے کٹر حلقوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اسے یورپی یونین پر میکرون کے قبضے کی طرف قدم کہا جا رہا ہے۔ لیکن فرانس کے اندرونی حالات کو دیکھا جائے تو بائیں بازو کے امیدوار میلاشوں کو ماضی کی نسبت کہیں زیادہ ووٹ پڑے ہیں۔ اس سے نظر آتا ہے کہ یورپی سماجوں میں عوام کی پولرائزیشن ہے جو آنے والے دنوں میں واضح شکل میں سامنے آسکتی ہے۔

کیٹیلونیا کی آزادی کے گرد بننے والی تحریک کے اثرات سپین کے اندر بھی واضح طور پر دکھائی دے رہے ہیں۔ ماریو روجائے کی حکومت کی جانب سے تحریک کو سختی سے کچلنے کی کوشش کے بعد بھی یہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی۔ مارچ 2019ء میں برطانیہ سرکاری طور پر یورپین یونین چھوڑنے جا رہا ہے۔ لیکن اس ’طلاق‘ کے سفر کے دوران یورپی حکمرانوں کے ساتھ جاری گفت و شنید میں حکمران طبقے کی بوکھلاہٹ دکھائی دے رہی ہے۔ یونین کے ساتھ معاہدہ نہ ہونے کی وجہ سے سنجیدہ حلقے پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ تناؤ لمبا عرصہ برقرار رہ سکتا ہے۔ اس وقت برطانوی حکمران طبقہ کسی بھی قیمت پر جیرمی کاربن کو اگلا وزیر اعظم نہیں دیکھنا چاہتا اس لئے کئی ایک داؤ کھیلے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف جیرمی کاربن نے بھی اپنے آپ کو وزارت اعظمیٰ کا’اہل ‘ ثابت کرنے کے لئے کچھ مجوزہ پالیسیوں کو نر م کرنا شروع کر دیا ہے۔ لیکن عوام، بالخصوص لیبر پارٹی میں موجود محنت کش اور نوجوان اپنے حالات زندگی بدلنے کے لئے پر عزم ہیں۔

اس معاشی بدحالی میں بعض حلقوں کی جانب سے یورپ میں فسطائیت کے ابھار کا تناظر دیا جا رہا ہے۔ لیکن آج کا یورپ 1930ء کی دہائی کا یورپ نہیں۔ پھر بھی اتنے مضبوط اور بھاری مزدور طبقے کی موجودگی میں نام نہاد ’دائیں بازو کے پاپولزم‘ کا ابھار اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ قیادت کی غلطیاں کیسے تاریخی جرم بن سکتی ہیں۔ حکمران طبقات ’مسلمانوں‘ اور غیر ملکیوں کے خلاف مذہبی اور نسلی تعصبات ابھار کر مزدوروں کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں اور عوام کی کچھ پرتیں کسی حقیقی متبادل کی عدم موجودگی میں انتہائی دائیں بازو کی قوم پرست پارٹیوں کو ووٹ بھی دے دیتی ہیں۔ لیکن آج کے طبقاتی توازن میں فسطائیت کا غلبہ ممکن نہیں ہے۔ تمام تر پسپائیوں کے باوجود آنے والے دنوں میں طبقاتی جدوجہد کے نئے طوفان ابھریں گے۔ محنت کشوں کو اب کچلا نہیں جاسکتا۔ ان کی تحریکیں ہی ان کو ایک انقلابی قیادت اور پارٹی تراش کر دیں گی۔