داؤد کمالی

ملک کی پارلیمانی تاریخ میں 1987ء کے بعد پہلی مرتبہ اور مجموعی طور پر ساتویں مرتبہ 02 جولائی کو ڈبل ڈسولوشن (Dissolution) کے انتخابات کروائے گئے۔ نتائج کے مطابق دائیں بازو کی لبرل کولیشن 74 سیٹوں کے ساتھ پہلے جبکہ بائیں بازو کی لیبر پارٹی 66 سیٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔ ڈبل ڈسولوشن سے مراددونوں منتخب ایوانوں، ایوان نمائندگان اور ایوان بالا (سینیٹ) کے درمیان پیدا شدہ سیاسی تعطل کی وجہ سے ان کو ایک ساتھ تحلیل کیا جانا ہے۔ منتخب وزیر اعظم کی تحریری تجویز اور روبرو ملاقات کے بعد ملک میں موجود تاج برطانیہ کا نمائندہ گورنر جنرل دونوں ایوانوں کے نئے انتخابات کے انعقاد کا اعلان کرتا ہے جس میں ایوان نمائندگان کے 150 اور سینیٹ کے 76ممبران کا براہ راست انتخاب عمل میں لایا جاتا ہے۔ آئینی طور پر ملک میں ہر تین سال کے بعد انتخابات کرائے جاتے ہیں جس میں ایوان نمائندگان کی تمام سیٹوں اور سینیٹ کی آدھے سیٹوں پر انتخابات ہوتے ہیں۔ صرف ڈبل ڈسولوشن کی صورت میں دونوں ایوانوں کے تمام ممبران کے چناؤ کے لیے انتخابات کروائے جاتے ہیں۔

اس الیکشن میں آزاد امیدواروں سے لے کر درجنوں چھوٹی بڑی پارٹیاں انتخابات میں حصہ لیتے ہیں۔ لیکن بحیثیت مجموعی مقابلہ دو بڑی پارٹیوں آسٹریلین لیبر پارٹی اور لبرل کولیشن (لبرل پارٹی آف آسٹریلیا، لبرل نیشنل پارٹی آف کوئینز لینڈ، کنٹری لبرلز اور نیشنل پارٹی آف آسٹریلیا) کے درمیان ہوتا ہے۔ 2013ء کے انتخابات میں لبرل کولیشن نے لیبر پارٹی، جو 2007ء سے حکومت کر رہی تھی، کو شکست دے کر اقتدار سنبھالا تھا۔ ان دونوں بڑی پارٹیوں کے علاوہ آسٹریلین گرین پارٹی تیسری بڑی پارٹی ہے جس کا ایوان زیریں میں اب تک صرف ایک ہی ممبر 2010ء کے انتخابات سے منتخب ہوتا آرہا ہے لیکن ایوان بالا (سینیٹ) میں گزشتہ کئی سالوں سے گرین پارٹی کے سینیٹرز کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا ہے جس کی حالیہ تحلیل سے پہلے ان کے دس ممبران تھے۔

ڈبل ڈسولوشن انتخابات کی بنیادی وجہ سینیٹ میں حکمران لبرل کولیشن کے پاس اکثریت کا نہ ہونا تھا جس کی وجہ سے حکمران جماعت کو اپنی مرضی کے قوانین بنانے میں کافی مشکلات درپیش رہیں۔ اس کی ایک مثال حکومت کے صنعتی تعلقات کا بل تھا، جو تعمیراتی صنعت سے وابستہ یونین کے محنت کشوں اور نمائندوں کے اختیارات کم کرنے کا بل تھا جسے آسٹریلین لیبر اور گرین پارٹی اور آزاد سینیٹرز نے اگست 2015ء اور اپریل 2016ء میں مسترد کرکے ناکام بنادیا۔ سینیٹ میں یہی حکومتی ناکامی ڈبل ڈسولوشن انتخابات کا باعث بنی۔ اگرچہ حکومت اسے ایک سیاسی ڈیڈ لاک قرار دیتی رہی لیکن درحقیقت یہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے نامیاتی بحران ہی کا نتیجہ ہے جس نے پوری دنیا میں سیاسی پارٹیوں اور حکومتوں کو سیاسی بحرانوں اور سماج کو معاشی زوال پذیری کی شکل میں دبوچ رکھا ہے۔

آسٹریلیا میں اکتوبر 2009ء سے ستمبر 2015ء تک کے چھ سالوں میں چار وزرائے اعظم اور تین اپوزیشن لیڈر تبدیل ہوئے۔ ملکی تاریخ میں اتنی مختصر مدت میں لیڈروں کی اس تعداد میں تبدیلی کی مثال نہیں ملتی۔ ملکی سیاسی منظر نامے میں بڑھتی ہوئی عدم اعتمادی کی یہ فضا دراصل عالمی سرمایہ دارانہ معاشی نظام کے گہرے ہوتے ہوئے بحران کی غمازی کرتی ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے سرمایہ دارانہ جمہوری ممالک میں برسراقتدار پارٹیاں اور حکومتیں ایک طرف نیولبرل اکانومی کی عوام دشمن پالیسیاں لاگو کرنے کی پابند ہیں اور دوسری طرف ان کی عوام دشمن پالیسیوں کے رد عمل میں حکومتوں اور پارٹیوں پر عوامی نفرت اور بیزاری کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ سیاسی بے یقینی اور بھونچال اس تناؤ اور کشمکش کا نتیجہ ہیں۔

پارٹیاں وزیراعظم اور لیڈر تبدیل کرکے تمام مسائل کی ذمہ داری معزول وزیراعظم یا لیڈر پر ڈال کر لوگوں کی امیدوں کو نئے افراد کے پرفریب وعدوں سے الجھا کر نظام کی ناکامی کو نظروں سے اوجھل رکھتی ہیں حالانکہ مغربی جمہوریتوں میں پالیسیاں فرد واحد کی نہیں بلکہ پارٹیوں کی ہوتی ہیں۔ پارٹیاں چاہے سوشل یا لبرل ڈیموکریسی کی ہوں یا ریپبلکن، ڈیموکریٹ، کنزرویٹو وغیرہ ہوں، بنیادی خدمت انہوں نے سرمائے اور سرمایہ داروں کی کرنی ہوتی ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ سب عوام کی خدمت کا حلف اٹھاتے ہیں۔

2008ء کے عالمی اقتصادی بحران سے اگرچہ آسٹریلیا کی معیشت امریکہ اور یورپی ممالک کی طرح متاثر نہیں ہوئی تھی لیکن ملکی اقتصاد اور معیشت پر اس بحران کے اچھے خاصے اثرات پڑے تھے جس کا اندازہ ملک کے بجٹ خسارے میں اچانک اضافے سے لگایا جاسکتا ہے۔ 2007ء تک آسٹریلیا کا کل حکومتی قرضہ 60 اَرب ڈالر سے کم تھا اور کئی سالوں سے سالانہ بجٹ سرپلس چل رہا تھا۔ 2009ء کے مالی سال میں کل حکومتی قرضہ 100 اَرب ڈالر سے تجاوز کرگیا۔ اس دوران اس وقت کی لیبر حکومت نے کیون روڈ کی قیادت میں معیشت میں استحکام لانے کے لیے اکتوبر 2008ء اور فروری 2009ء میں پچاس ارب ڈالر سے زائد کے اقتصادی پیکج دیئے جن کے تحت پنشنرز، ایک مخصوص سطح تک آمدنی رکھنے والے افراد اور ان کے سکول جانے والے بچوں کو امدادی رقوم کی مد میں کئی سو ڈالر دیئے گئے۔ تاہم 2008-09ء کے بعد حکومتی بجٹ خسارے میں تاحال ہر سال مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ لیبر پارٹی اور لبرل کولیشن نے بجٹ سرپلس کے انتخابی وعدوں کے بعد اب اس بات کا اقرار کیا ہے کہ 2020-21ء سے پہلے بجٹ کو سرپلس میں نہیں لایا جاسکے گا یعنی آئندہ چار سالوں میں بھی بجٹ خسارہ جاری رہے گا۔ آسٹریلیا کا بجٹ خسارہ اس وقت جی ڈی پی کے 3 فیصد کے آس پاس منڈلا رہا ہے۔ دونوں بڑی پارٹیوں کا بجٹ کو سرپلس کرنے کے لیے موثر اقدامات کا وعدہ اس الیکشن کا ایک اہم موضوع اور نعرہ بن گیا تھا۔

امریکہ، چین، جرمنی، جاپان جیسے بڑے ترقی یافتہ ممالک کی نسبت آسٹریلیا کی معیشت اور منڈی چھوٹی ہے۔ چین اور دوسرے ایشیائی ممالک جیسے جاپان، جنوبی کوریا اور انڈیا وغیرہ آسٹریلیا کے اہم ترین تجارتی پارٹنرز ہیں۔ 2008ء کے معاشی بحران سے پہلے چینی معیشت کی تیز رفتار ترقی اور اس کے نتیجے میں آسٹریلیا کی معدنیات کی برآمدات سے ہونے والی آمدنی تاریخی طور پر بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی۔ معدنیات، زرعی اجناس اور لائیو سٹاک ملکی برآمدات کے سب سے اہم ترین شعبے رہے ہیں۔ ان اشیا کا زیادہ تر حصہ چین، جاپان، جنوبی کوریا، انڈیا اور دوسرے ایشیائی ممالک کو برآمد کیا جاتا ہے۔ کیون روڈ کی قیادت میں لیبر پارٹی نے ریاستی سرمایہ کاری (کینشین ازم) کی پالیسی اپناتے ہوئے اقتصادی پیکجوں کے ذریعے معیشت کو سہارا دینے کی کوشش کی۔

اگرچہ چین اور آسٹریلیا کی معیشتیں اس عالمی بحران سے فوری طور پر محفوظ رہیں لیکن بعد کے آنے والے سالوں میں سرمایہ داری کے وجود سے جنم لینے والے اقتصادی بحران نے پوری دنیا کی معیشتوں کی طرح ان دونوں ممالک کو بھی آہستہ آہستہ اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ آسٹریلیا کا ریاستی قرضہ جی ڈی پی کے 37 فیصد تک پہنچ گیا ہے، 2008ء میں یہ جی ڈی پی کا صرف 11 فیصد تھا۔ AFRکے 9 جون 2016ء کے شمارے میں سینیٹر نک زینوفون کے مطابق آسٹریلیا کے مجموعی بیرونی قرضوں کی سطح ایک ٹریلین ڈالر عبور کر گئی ہے۔ ABC ٹی وی کے پروگرام فور کارنر کے مطابق مئی 2016ء میں آسٹریلین بینکوں کی جانب سے جاری کیے جانے والے ہاؤسنگ کے قرضوں کی حد 1.5 ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے۔ AFR کے مطابق صرف اپریل 2016ء میں 32 اَرب ڈالر کے ہاؤسنگ قرضے جاری کیے گئے۔

سرمایہ دارانہ نظام میں اقتصادی بحران اور وقفوں وقفوں کے بعد آنے والے بحرانات نظام کی نامیاتی ساخت میں رچے بسے ہوئے ہیں۔ جیسے 1929ء کی تباہ کن عالمی کسادبازاری، پھر 1973ء، 1980ء، 1987ء اور 2000ء کا بحران اور پھر 2008ء کا تباہ کن عالمی اقتصادی بحران۔ ان تمام ادوار میں ملکی اور عالمی سطح پر حکومتوں کی کارکردگی کسی بھی بحران کو جنم لینے سے پہلے قابو نہیں کر سکی کیونکہ سرمایہ داری میں یہ بحران نظام کے ڈی این اے میں شامل ہے جس پر کسی طور پر بھی قابو نہیں پایا جاسکتا۔ ان تمام بحرانات اورمعاشی تباہ کاریوں (بحران سے پہلے، بحران کے دوران اور بحران کے بعد بھی) کی قیمت محنت کشوں اور عوام کو بے روزگاری، افلاس، سماجی بہبود کے فنڈز میں کٹوتیوں اور ملازمتوں سے برطرفیوں کی صورت میں ادا کرنا ہوتی ہے۔ جب کہ سرمایہ دار طبقہ مزدوروں اور عوام کے برعکس ہر دور میں اقتصادی بالادستی اور خوشحالی کے مزے لوٹتا ہے۔ 2008ء کے عالمی معاشی زوال کے بعد بین الا قوامی طور پر بڑے بڑے بینکوں اور کمپنیوں کو عوام کی جیبوں سے اکٹھے گئے ٹیکسوں سے بیل آؤٹ پیکیجز اور ٹیکسوں میں چھوٹ سے نوازا گیا۔ جبکہ محنت کشوں اور عوام کے حصے میں ٹیکسوں کا بوجھ اور بے روزگاری کا ’تحفہ‘ ہی آتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے آئندہ آنیوالے بحرانوں کو ہمیشہ اسی طرح سے ہی ’’حل‘‘ کیا جاتا رہے گا تاوقتیکہ اس نظام کو اکھاڑا نہ جائے۔

ڈاؤن سائزنگ، رائٹ سائزنگ، ری سٹرکچرنگ، ڈی ریگولیٹری قوانین، ٹریکل ڈاؤن اکنامکس، ڈبلیو ٹی او، ایف ٹی اے، کریڈٹ فنانسنگ، مستقل ملازمتوں کے خاتمے، پنشن کی عمر بڑھانے، بڑے پیمانے پر عوامی فلاحی فنڈز میں کٹوتیوں کے ذریعے نظام کو بحران سے نکالنے جیسی ہر سرمایہ دارانہ کوشش کا مقصد یہی ہے کہ کس طرح محنت کشوں کی اجرت کم سے کم کی جائے، مزید مستقل ملازمتوں کو کنٹریکٹ میں کس طرح تبدیل کیا جائے، حکومتی بجٹوں اور عوامی فلاحی منصوبوں میں سے مزید کس طرح کٹوتیاں کی جائیں، مزدوروں کو مزید دبانے کے لیے کس طرح پارلیمنٹ سے بل منظور کیے جائیں۔ آسٹریلیا میں بھی نسبتاً خوشحالی اور ترقی کے باوجود حکمران طبقات کی یہی کوشش ہوتی ہے اور دائیں بازو کی لبرل کولیشن اس سلسلے میں بالخصوص عوام دشمن کردار ادا کرتی ہے۔ اب ایک بار پھر ان کی کوشش ہے کہ اسی انڈسٹریل ایکٹ (جو 2005ء سے لبرل پارٹی کے جان ہاورڈ دورمیں نافذ کیا گیا تھا، جسے 2012ء میں لیبر پارٹی اور گرین پارٹی کے دور حکومت میں منسوخ کیا گیا تھا) کو پھر سے نافذ کیا جائے تاکہ مزدوروں کے مزید حقوق سلب کیے جائیں۔

آسٹریلیا میں محنت کشوں، نوجوانوں، طالب علموں اور وسیع عوامی پرتوں نے اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے مختلف ادوار میں شاندار جدوجہد کی ہے اور اس تاریخی جدوجہد کے نتیجے میں 1970ء کی دہائی کے تاریخی حیثیت رکھنے والے لیبر پارٹی کے لیڈر اور وزیراعظم گوف وٹلم (Gough Whitlam) کے دور میں کئی عوام دوست حکومتی پالیسیوں کا آغاز ہوا جس میں یونیورسل ہیلتھ کیئر سکیم(جو بعد میں میڈی کیئرکے نام سے منسوب ہوئی) اور مفت تعلیم کی پالیسیاں شامل تھیں۔ گوف وٹلم حکومت کے خاتمے کے بعد ان پالیسیوں کو لبرل پارٹی کے وزیراعظم میلکوم فریزر کے دور میں بھی جاری رکھا گیا جو اب بھی جاری ہیں۔ سرمایہ داری کے نسبتاً ترقی پسند عہد اور مزدوروں کی کامیاب طبقاتی جدوجہد کے نتیجے میں اس دور میں عوامی فلاحی ریاست کا تصور حکومتوں اور پارٹیوں کا محور ہوا کرتا تھا۔

آسٹریلیا میں سال 2015ء کے حکومتی بجٹ کا 60 فیصد (سالانہ تین سو اَرب ڈالر سے بھی زیادہ) حصہ سوشل سکیورٹی، مفت تعلیم، علاج اور صحت کے شعبوں پر مختص کیا گیا ہے۔ ملک کی تقریباً دوتہائی سے بھی زیادہ آبادی کسی نہ کسی طرح سوشل سکیورٹی پر انحصار کرتی ہیں اور ملک کی اسی فیصد سے بھی زیادہ آبادی سرکاری خرچے پر دی جانے والی تعلیم، علاج اور صحت کی سہولیات سے مستفید ہوتی ہے۔ لیکن سرمایہ داری کے بحران کے پیش نظر اب حکمران عوامی فلاحی بہبود کے تمام شعبوں سے فنڈز کاٹنے کے اقدامات کر رہے ہیں اور انہیں سلسلہ وار انداز میں سالانہ بنیادوں پر کم کرنے کے منصوبوں پر گامزن ہیں۔

لبرل کولیشن حکومت اپنے مخصوص طبقاتی ایجنڈے کی بنیاد پر بڑے سرمایہ داروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ٹیکس چھوٹ دینے اور محنت کشوں، کم آمدنی والے خاندانوں اور طالب علموں کے لیے مختص فلاح و بہبود کے حکومتی فنڈز میں کمی اور کٹوتیاں کرنے کے لیے ہر پل آمادہ اور تیار رہتی ہے۔ لیکن آسٹریلیا کے محنت کشوں اور نوجوانوں کی متوقع مزاحمت، جدوجہد اور عوامی فلاحی ریاست کی روایت اور سوچ رکھنے والے سماج میں یکدم اور اچانک بڑے پیمانے کی کٹوتیاں کرنا اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آسٹریلین لیبر پارٹی کا انتخابی پروگرام، حکومتی لبرل کولیشن کی نسبت زیادہ عوامی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آسٹریلین لیبر پارٹی سوشل ڈیموکریسی کی روایتی پارٹی ہونے کے ناطے طبقاتی مصالحت اور اصلاح پسندانہ پالیسیوں پر یقین رکھتی ہے اور ان پالیسیوں کی گنجائش سرمایہ داری کی ترقی یافتہ ترین شکلوں میں بھی رفتہ رفتہ ختم ہو رہی ہے۔

چھوٹے کاروبار کی ’عظمت‘ کی سوچ کے پیچھے لبرل کولیشن حکومت دراصل بڑے کاروباروں، سرمایہ داروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ’’تقدس‘‘ کو تسلیم کروا کر انہیں مزید ٹیکس رعایات دینا چاہتی ہے اور یہ ٹیکسوں کا بوجھ محنت کشوں اور عوام پر ڈالنے کی واردات ہے۔ بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے یہ حکومت مزید کٹوتیاں کرے گی۔ اس کے علاوہ حکومتی سرپرستی میں چلنے والے باقی ماندہ اداروں کو جلد یا بدیر نجی ہاتھوں میں فروخت کرنے کی خواہش بھی لبرل کولیشن والے دل میں چھپائے بیٹھے ہیں۔

برطانیہ کے ریفرنڈم میں یورپی یونین سے علیحدگی کو پڑنے والے ووٹ (Brexit) کے بعد آسٹریلیا میں بھی غیر یقینی صورتحال میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ سے ملکی اقتصادی صورتحال بھی سنگینی سے دوچار ہوسکتی ہے۔ جس طرح سے کہا جارہا ہے کہ ملک میں گزشتہ پچیس سالوں سے بغیر معاشی زوال کے ریکارڈ ترقی ہوتی رہی ہے لیکن اب اس ترقی کی رفتار کو مزید جاری رکھنا آسان نہیں ہے۔ ہاؤسنگ مارکیٹ کی بلند پرواز ختم ہورہی ہے۔ چین کی معیشت کی زوال پزیری کے بعد ’کانکنی کی صنعت کے عروج‘ (Mining Boom) کا دور گزر چکا ہے۔ مینوفیکچرنگ اور آٹو مینوفیکچرنگ کے شعبے میں ملازمتیں بڑی تعداد میں غائب ہوچکی ہیں۔ عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ملکی زراعت اور کئی علاقوں میں سیاحت کو خطرات لاحق ہیں۔ عالمی سطح پر معیشت کی سست روی اور چین کے سستے ترین سٹیل کے پیش نظر آسٹریلین سٹیل کی صنعت کا مستقبل غیر یقینی ہے اور اس کے ملازمین کے روزگار کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

اس تمام صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے ملازمت، معاشی ترقی، روزگار کی ضمانت، تعلیم اور صحت کی ضمانت کوئی آسان کام نہیں ہے۔ عالمی سطح پر ایک نئے معاشی بحران کی صورت میں حالات تیزی سے بگڑ سکتے ہیں۔ ایسے میں طبقاتی کشمکش نا گزیر طور پر شدید ہو گی۔