لال خان

7 جون کو دن دہاڑے بھرے بازار میں ہزارہ برادری کے مزید پانچ افراد کو قتل کر دیا گیا۔ یہ المناک معمول بن چکا ہے جس نے اس کمیونٹی کو مذہبی جنون اور درندگی کا مستقل حدف بنا رکھا ہے۔ حکومتیں بدلتی ہیں۔ کٹھ پتلی سیاسی حکمران آتے جاتے ہیں لیکن ریاستی طاقت کے سائے تلے، رینجرز اور پولیس کے ناکوں سے چند سو گز کے فاصلے پر بے گناہ انسانوں کا وحشیانہ قتل عام جاری ہے۔ جب یہ واقعہ ہوا اسی روز وزیر اعلیٰ بلوچستان لاہور میں خطاب کرتے ہوئے فرما رہے تھے کہ ’’ریاست شہریوں کی ماں ہوتی ہے۔ ہم نے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ایجنسیوں کی تشکیل نو کی ہے اور ان کی دی جانے والی تربیت سے نتائج حاصل کر رہے ہیں۔‘‘

درجنوں این جی اوز کی سفارش پر پنجابی حکمران طبقے کے روایتی نمائندے میاں نواز شریف نے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو بلوچستان کا وزیر اعلیٰ لگایا تھا۔ اصلاح پسندوں نے اس ’’ترقی پسندوں کی حکومت‘‘سے بڑی امیدیں وابستہ کی تھیں۔ ڈاکٹر عبدالمالک کے دعوے بھی ختم ہونے کا نام نہیں لیتے لیکن حالات اس فریب کو خوب آشکار کر رہے ہیں۔مذہبی و لسانی دہشت گردی اور ریاستی جبر پوری وحشت سے جاری ہیں، قومی محرومی کے جذبات دو سال پہلے کی نسبت کہیں زیادہ شدت سے بھڑک رہے ہیں۔

بلوچستان کے باسیوں کے ساتھ پاکستانی حکمرانوں کا ناروا سلوک اور جبر و تشدد، اس خطے کی 68 سالہ تاریخ پر محیط ہے۔ ’’آغاز حقوق بلوچستان‘‘ جیسے پیکجوں اور فوجی آپریشنوں سے بلوچستان میں کوئی استحکام پیدا ہو سکا ہے نہ ہی یہاں اٹھنے والی بغاوتوں کو دبایا جاسکا ہے۔ لیکن بلوچستان میں مذہبی فرقہ واریت کا مظہر پچھلے چند سال میں ہی ابھرا ہے۔ یہ عناصر روزانہ کی بنیادوں پر اقلیتی فرقوں کا قتل عام کر رہے ہیں، نہ پکڑے جاتے ہیں، نہ ہی ان کے خلاف کوئی آپریشن ہوتا ہے اور نہ ہی ان کے بارے زیادہ بات میڈیا پر کی جاتی ہے۔ حکمران مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔

بلوچستان کے ساتھ معاشی ناانصافی کا عمل بھی مسلسل جاری ہے۔ پاکستان کے ایک وسیع الاشاعت انگریزی اخبار کے مطابق بلوچستان حکومت کے اعلیٰ اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ ’’فوری ریاستی اخراجات (پولیس، رینجرز، لیویز وغیرہ) میں شدید اضافہ بہت پریشان کن ہے۔ این ایف سی ایوارڈ میں زیادہ رقم مختص کئے جانے کے باوجود اس رقم کا بڑا حصہ ’سکیورٹی‘ پر خرچ ہو رہا ہے۔ ترقیاتی کاموں کے لئے تھوڑی سی رقم بچی ہے جو صوبائی حکومت میں سیاستدانوں اور افسر شاہی کی کرپشن کی نذر ہو گئی ہے۔‘‘ صوبائی مشیر برائے فنانس میر خالد لانگھو کے مطابق اگلے سال کے لئے بلوچستان کا کل ترقیاتی بجٹ 45 سے 50 ارب روپے مختص کیا گیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں رقبے کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے اور معدنی و جغرافیائی لحاظ سے اہم ترین صوبے کے ترقیاتی اخراجات راولپنڈی اسلام آباد کے ایک میٹرو بس منصوبے کے برابر ہیں!

بیشتر سرکاری اہلکار تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ موجودہ نظام کے تحت بلوچستان میں کوئی معاشی یا سماجی بہتری ممکن نہیں ہے۔ اس صوبے کا زیادہ تر بجٹ ’سکیورٹی اداروں‘ پر خرچ ہو رہا ہے لیکن یہاں کے عوام کو کوئی سکیورٹی میسر نہیں۔ قتل عام سے ہزارہ برادری کی نجات تو دور کی بات، کوئٹہ کی سڑکوں پر مذہبی جنونیوں کے جلسے منعقد ہو رہے ہیں۔ دفاع کے ’’سیسہ پلائی دیوار‘‘ بن جانے کا سن سن کر کان پک گئے ہیں۔ ہر آل پارٹیز کانفرنس میں کسی ’’بیرونی ہاتھ‘‘ پر سارا الزام دھر دیا جاتا ہے۔ آخر یہ کیسا اور کس کا ہاتھ ہے جو سیسہ پلائی دیوار میں بلا روک ٹوک گھس جاتا ہے؟ اپنی بنیادی ضروریات اور قومی حقوق کی جدوجہد کرنے والوں کے ساتھ ریاست کا سلوک اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا ہے۔

استحصال اور ظلم کے اس نظام کے خلاف جدوجہد کرنے والے بلوچ نوجوانوں اور محنت کشوں کو ’بیرونی ایجنٹ‘ قرار دے کر اس مسئلے سے فرار اختیار کرنا ممکن نہیں ہے۔ بلوچستان میں جدوجہد کرنے والے نوجوانوں کی اپنی تاریخ ہے۔ ماضی میں ان تحریکوں کا کردار زیادہ ترقی پسند اور انقلابی تھا۔ قیادت کی مصالحت کے باوجود یہ جدوجہد ہر دور میں جاری رہی ہے۔ یکم جنوری 1978ء کو جنرل ضیاالحق نے حیدر آباد ٹربیونیل کے تحت گرفتار 52 بلوچ اور پشتون رہنماؤں کو رہا کیا تھا۔اس کا خیال تھا کہ اس قسم کی چالبازی کے ذریعے وہ بلوچستان پر قابو پا لے گا۔ اس نے قوم پرست رہنماؤں سے مسائل اور محرومی ختم کرنے کے پر فریب وعدے بھی کئے تھے۔ لیکن باغی بلوچ نوجوانوں نے رہنماؤں کی رہائی کی ’’رعایت‘‘ کو تسلیم نہیں کیا۔

9 دسمبر 1979ء کو ایک نوجوان بلوچ طالب علم عبدالحمید کو سلطنت عمان کی فوج کے افسر کرنل خلفہ ناصر پر فائرنگ کے الزام گرفتار کیا گیا۔ یہ عمانی افسر یہاں عمان کے صوبے دوفار میں چلنے والی ایک سرکشی کو کچلنے کے لئے پیشہ ور قاتل بھرتی کرنے آیا تھا۔دوفار میں انقلابی بغاوت بپا تھی جس کی قیادت مارکسزم لینن ازم کو اپنا منشور اور لائحہ عمل قرار دیتی تھی۔ عمان کے حکمران غربت کا فائدہ اٹھا کر بلوچستان کے نوجوانوں کو عمان کی جابر شاہی فوج میں بھرتی کرنا چاہتے تھے۔ خلیجی ممالک میں بغاوتوں کو کچلنے کے لئے عرب حکمران اس طرح کی بھرتیاں آج بھی کرتے ہیں۔

گرفتاری کے وقت عبدالحمید کی عمر  22 سال تھی اور وہ گورنمنٹ کالج تربت کا ذہین طالب علم تھا۔ ملٹری کورٹ میں اس پر عمانی افسر پر گولی چلانے کی بجائے غلام رسول نامی شخص کو قتل کرنے کا الزام لگایا گیا۔ بعد میں استغاثہ نے مقتول کا نام عبدالرزاق بنا دیا۔ عبدالرزاق کے والد نے فوجی عدالت میں آ کر اپنے بیٹے کے زندہ ہونے کی شہادت دی تو مقتول کا نام پھر غلام رسول کر دیا گیا۔استغاثہ کی ان جھوٹی شہادتوں نے مقدمے کو بے معنی کر دیا تھا لیکن ’PCO‘ اور مارشل لائی جبر کے تحت عبدالحمید کو 11 جون 1981ء کو مچھ جیل میں پھانسی دے دی گئی۔ عبدالحمید کا عدالتی قتل ان بیش بہا قربانیوں میں سے ایک ہے جو بلوچستان کے نوجوان اپنی جدوجہد میں دیتے چلے جارہے ہیں۔

یہ جدوجہد بہت سے نظریاتی اسباق بھی سمیٹے ہوئے ہیں۔ عبدالحمید بلوچ نے یہ ’’جرم‘‘ کسی قومی یا لسانی بنیاد پر نہیں بلکہ عمان میں سوشلسٹ انقلاب کی لڑائی لڑنے والے نوجوانوں اور محنت کشوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے کیا تھا۔ سامراج اور سرمایہ داری کے خلاف بین الاقوامی جدوجہد کے جذبات اور نظریات اس تحریک کی بنیادی اساس تھے۔ آج کے عہد میں کوئی جدوجہد قومی، مذہبی یا لسانی تعصبات سے پاک ہوکر طبقاتی بنیادوں پر استوار ہوئے بغیر ترقی پسندانہ کردار حاصل نہیں کر سکتی۔ قومی آزادی کی جدوجہد آخری تجزئیے میں طبقاتی جنگ سے منسلک کر کے ہی جیتی جا سکتی ہے۔

سامراج عالمی ہو یا علاقائی، امریکی ہو یا چینی، بھارتی ہو یا ایرانی اور عرب، کسی خطے میں اس کی مداخلت کا مقصد مقامی گماشتوں کے ذریعے ہر قسم کے وسائل کو لوٹنا ہی ہوتا ہے۔ سامراجی پشت پناہی سے ہونے والی کوئی بھی لڑائی مظلوم عوام کو مزید اجاڑتی اور برباد کرتی ہے۔ بلوچستان کی معدنیات کو اگر کارپوریٹ اجارہ داریاں لوٹ رہی ہیں اور سامراجی گدھ اسٹریٹجک اہمیت کے پیش نظر اس پر منڈلا رہے ہیں تو مقامی ریاست اور حکومت بھی اس استحصال میں پوری طرح شریک ہے۔ یہاں کے حکمرانوں کے نزدیک اگر پورے بلوچستان کی اہمیت میٹرو بس جتنی ہے تو پھر یہاں اٹھنے والی بغاوت بھی حیران کن نہیں ہونی چاہئے۔ بلوچستان کے نوجوان خیرات نہیں اپنا حق چاہتے ہیں۔ محرومی سے جنم لینے والی تحریک کو جبر سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ نہ ہی مظلوم قومیت کے بالادست طبقات کو ’پارٹنر‘ بنانے، اقتدار میں حصہ دینے سے محرومی ختم ہو سکتی ہے۔

لیکن استحصال اور جبر کے خلاف لڑائی کا ہدف جب دوسری قوموں کے غریب مزدوروں اور مظلوم عوام کو بنایا جاتا ہے تو پوری تحریک رجعت میں غرق ہو جاتی ہے۔ نسلی، قومی اور فرقہ وارانہ تصام میں غریب ہی کچلے جاتے ہیں۔ حکمران خوش ہوتے ہیں اور ایسے واقعات کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

اس نظام کے زخم اگر بلوچستان میں گہرے ہیں تو باقی برصغیر میں ستم کیا کم ہیں؟ کس قوم، نسل یا مذہب کے محنت کش ہیں جو جبر و استحصال کا شکار نہیں؟ مظلوم قومیتوں کے محنت کش اور نوجوان جب تک ’’ایک کا زخم، سب کا زخم‘‘ کے طبقاتی اصول کے تحت اس نظام کے خلاف طبقاتی لڑائی کو آگے نہیں بڑھاتے تب تک پھوٹ در پھوٹ پڑتی رہے گی، دوسری قوموں کے عوام کی حمایت حاصل نہیں ہوگی اور استحصالی قوتوں کا کام آسان ہوتا رہے گا۔دوسری طرف بلوچستان کے محنت کشوں اور نوجوانوں کی جدوجہد کو اپنی جدوجہد کا حصہ بنانا اور اس کی حمایت کرنا، پورے خطے کی مزدور تحریک اور عوام کا بنیادی فریضہ ہے۔