چین عالمی سرمایہ دارانہ طاقت کے طور پر اس نظام کے عروج کے دور میں نہیں بلکہ زوال کے عہد میں ابھرا ہے۔ اس نے تضادات کو حل کرنے کی بجائے انہیں مزید بڑھاوا دیا ہے۔
دنیا
وینزویلا پر منڈلاتا ردِ انقلاب!
سب سے بڑھ کر یہ ثابت ہوا ہے کہ اصلاح پسندی چاہے کتنی ہی ریڈیکل کیوں نہ ہو، زیادہ عرصے تک عوام کے سماجی و معاشی حالات میں بہتری اور ترقی کو برقرار نہیں رکھ سکتی۔
امریکہ شمالی کوریا تنازعہ
شمالی کوریا کے حکمران ’کم جونگ اُن‘ کی ایٹمی ہتھیاروں کی شیخیاں کچھ لوگوں کو شاید احمقانہ لگیں لیکن ’اس حماقت میں بھی ایک منطق ہے‘۔
سی پیک: سامراجی راہداری
ایک بات واضح ہے کہ دودھ اور شہد کی نہریں بہہ جانے کے جو خواب حکمران دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ سراب اور دھوکہ ہیں۔ یہ منصوبے حکمرانوں کی لوٹ مار اور استحصال کے منصوبے ہیں۔
وینزویلا: آخری موقع!
پیداوار، رسد اور مالیات پر مکمل ریاستی کنٹرول قائم کئے بغیر حالیہ بحران سے نہیں نکلا جا سکتا۔
کیا چین ’سپر پاور‘ بن سکے گا؟
چین کے سپرپاورنہ بن سکنے کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ چین میں سرمایہ دارانہ صنعت کاری کا ابھاراس نظام زر کے عروج کی بجائے اسکے زوال کے دورمیں شروع ہوا تھا۔
کوریا کا بحران
پچھلے چند سالوں میں کوریائی سماج اور معیشت کا بحران مزید بڑھ گیا ہے۔ پورے ملک میں سیاسی اشرافیہ اور کارپوریٹ مالکان کی کرپشن کا چرچا ہے۔
چین: سرمایہ دار یا ’’کمیونسٹ‘‘؟
عالمی سرمایہ داری کو اپنی شرح منافع بڑھانے یا برقرار رکھنے کے لیے جس سستی مگر ہنر مند محنت اور انفراسٹرکچر کی تلاش تھی، چین کا سماج اور محنت کی منڈی اس کے لیے سب سے زیادہ موزوں تھے۔
جنوبی افریقہ: فیسوں میں اضافے کے خلاف طلبہ تحریک
ہر سال تقریباً 60 بلین رینڈ (جنوبی افریقہ کی کرنسی) کرپشن اور حکمرانوں کی عیاشیوں میں خرچ ہوتے ہیں جبکہ محض 45 بلین رینڈ سے تمام افراد کو مفت تعلیم مہیا کی جا سکتی ہے۔
جنوبی افریقہ: حاکمیت کے رنگ بدلے، کردار نہیں!
1994ء کے بعد امیر اور غریب کی تفریق میں اضافہ ہی ہوا ہے جبکہ اے این سی سے جڑے کاروباری افراد کی ایک قلیل پرت ارب پتی بن چکی ہے۔
آسٹریلیا: فلاحی ریاست کا بحران
سرمایہ داری کے بحران کے پیش نظر اب حکمران عوامی فلاحی بہبود کے تمام شعبوں سے فنڈز کاٹنے کے اقدامات کر رہے ہیں اور انہیں سلسلہ وار انداز میں سالانہ بنیادوں پر کم کرنے کے منصوبوں پر گامزن ہیں۔