لال خان

ویسے تو وینزویلا میں پچھلے تقریباً 20 سالوں سے مغربی سامراج کی مداخلت ایک بتدریج زہریلی سازش کے تحت جاری تھی لیکن پچھلے چند روز میں یہ انتہائی سنگین شکل اختیار کر گئی ہے۔ امریکی قیادت میں ہونیوالی یہ سامراجی واردات کئی حوالوں سے1977ء کے پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت اکھاڑنے والی مداخلت سے ملتی جلتی ہے۔ لیکن وینزویلا میں ابھی تک انہیں شاید کوئی ضیاالحق نہیں مل سکا۔ 22 جنوری کی رات امریکی نائب صدر مائیک پنس (جو کئی حوالوں سے ٹرمپ سے بھی زیادہ رجعتی اور زہریلا ہے) نے ٹیلی ویژن پر اس سازشی لائحہ عمل کا اعلان کیا جس کے تحت وینزویلا کی پارلیمنٹ کے سپیکر جوہان گوائیڈو (Juan Guaido) نے بغیر کوئی ووٹ حاصل کیے وینزویلا کے صدر ہونے کا دعویٰ کردیا۔ اس پہلے سے طے شدہ سازش کو ٹرمپ کی جانب سے تسلیم کرنے کے بعد برازیل کے فسطائی صدر سے لے کے ارجنٹینا، کولمبیا اور پیرو سمیت لاطینی امریکہ کے دائیں بازو کے دیگر رجعتی حکمرانوں نے بھی حمایت دے دی۔ اس سے ان سامراجی گماشتوں کی جمہوریت پسندی بھی بے نقاب ہوتی ہے۔ لیکن نہ صرف وینزویلا بلکہ برازیل میں  بھی لاکھوں نوجوانوں اور محنت کشوں نے سڑکوں پر احتجاجی ریلیوں اور مظاہروں کے ذریعے امریکی سامراج کی دراندازی کے خلاف شدید نفرت اور غصے کا اظہار کیا ہے۔

میکسیکو، نکاراگوا، کیوبااور بولیویا سمیت لاطینی امریکہ کی بائیں بازو کی حکومتوں نے اس واردات کو کھلی سامراجی مداخلت اور حکومت کی ناجائزتبدیلی قرار دیتے ہوئے وینزویلا کے صدر نکولس مادورو (Nicolas Maduro) کو مکمل حمایت کا یقین دلایا ہے۔ سامراجی مداخلت سے پیدا ہونے والے اس بحران نے عالمی سطح پر ایک ’’نئی سرد جنگ‘‘ کی سی فضا پیدا کردی ہے۔ روس، چین، ترکی، شام اور کئی دوسرے ممالک نے اس سامراجی شب خون کی مخالفت کی ہے اور نکولس مادورو کی مکمل حمایت کا عندیہ دیا ہے۔ ان میں پرتگال، آسڑیا اور یونان سمیت کئی یورپی ملک بھی شامل ہو رہے ہیں۔ لیکن یورپ کی بڑی سامراجی طاقتوں مثلاً جرمنی، برطانیہ، فرانس، سپین وغیرہ نے امریکی سامراج کی کاسہ لیسی کرتے ہوئے وینزویلا میں ناجائز سیاسی تبدیلی کی ابھی تک ناکام واردات کا ساتھ دیا ہے۔

26 جنوری کے اقوام متحدہ کی 15 ممبران پر مشتمل سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیونے منافقت اور دھوکہ دہی کی انتہاپر مبنی اپنی تقریر میں کہا کہ ’’تمام قوموں کو آزادی کی قوتوں کے ساتھ کھڑا ہونے کی ضرورت ہے… اب ہر ملک کو اپنا دھڑا چننا ہوگا۔ اب چال نہ چلیں۔ یا تو آپ آزادی کی طاقتوں کے ساتھ ہیں یا پھر مادورو اور اسکی بربادی کے ساتھ!‘‘ دنیا بھر کے عوام اور حکومتوں کو یہ اُس امریکی سامراج کا الٹی میٹم تھا جس نے ’آزادی‘، ’جمہوریت‘ اور’انسانی حقوق‘ کے نام پر حال ہی میں افغانستان، شام اور عراق کو تاراج کیا ہے اور انہی نعروں سے لاکھوں انسانوں کا قتل عام کیا ہے۔ لاطینی امریکہ کی تاریخ سامراجی جارحیتوں، خونریزیوں، فوجی آمریتوں کے ذریعے منتخب حکومتوں کی معزولی اور بائیں بازو کے مقبولِ عام لیڈروں کے قتل سے بھری پڑی ہے۔ کیوبا پر 1961-62ء کا حملہ، چلی میں 1973ء میں پنوشے کی آمریت کا تسلط (جس میں سوشلسٹ صدر سلواڈورآئندے کو قتل کیا گیا) اور ہنڈراس، کولمبیا، ارجنٹینا، نکارگوا، گریناڈا اور برازیل وغیرہ میں امریکی سامراج کی بالواسطہ یا بلاواسطہ جارحیتوں کے زخموں کا درد آج بھی اس خطے کے عوام محسوس کرتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر ممالک کو ایسے برباد کیا گیا کہ آج یہ سماج سنبھل نہیں سکے۔

وینزویلا آج ایک شدید اقتصادی اور سماجی بحران کا شکار ہے۔ گو دنیا کے بہت سے ممالک ایسے بحرانوں کا شکار ہیں لیکن عالمی کارپوریٹ میڈیا میں بی بی سی سے لے کے الجزیزہ تک تمام سرمایہ دارانہ نیٹ ورک وینزویلا کے بحران کے بارے میں واویلا کچھ زیادہ ہی مچائے ہوئے ہیں۔ سبھی’’سوشلزم‘‘ اور صدر مادورو کو اس بحران کے لئے موردالزام ٹھہرا رہے ہیں۔ یہ کسی کو بتانے کی توفیق نہیں ہے کہ جب سے 1998ء میں منتخب ہونے والے ہوگو شاویز نے سامراجی احکامات کو ماننے سے انکار کیا سامراجیوں نے وینزویلا میں سوشلسٹ پارٹی (PSUV) کی حکومت کو گرانے کی سرتوڑ کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ 2002ء میں فوجی اشرافیہ کے ایک حصے کے ذریعے شاویز کو معزول کر کے قید کیا گیا تو لاکھوں عوام نے تاریخ کے میدان میں اترکر اس فوجی کُو کو ناکام بنایا اور36گھنٹوں میں شاویز دوبارہ صدربن گیا۔ لیکن آج کے اس بحران میں سب سے کلیدی کردار سامراجیوں اور انکی حواری ریاستوں کے وینزویلا کے خلاف اقتصادی اور معاشی سبوتاژ کا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ شاویز نے جس ’’21ویں صدی کے سوشلزم‘‘ کا نعرہ دیا تھا اس انقلاب کو مکمل کرنے اور سرمایہ داری کو جڑ سے اکھاڑنے میں سوشلسٹ پارٹی کی حکومت بھی ناکام رہی ہے۔ وینزویلا کے رجعتی اور گماشتہ سرمایہ دار طبقے، جس کے ذریعے سامراجیوں کو مداخلت اور سبوتاژ کے مواقع میسر آتے ہیں، کی معاشی طاقت کا خاتمہ ان کے نظام کو اکھاڑ پھینکنے سے ہی ممکن تھا۔ شاویز اور اسکے نامزد جانشین نکولس مادورو کی سامراج مخالف جدوجہد پر مقامی سامراجی ایجنٹ (جو وینزویلا کے بالادست اور درمیانے طبقات میں موجود ہیں) اندر سے ہی وار کرتے رہے ہیں۔ اس لئے یہ بھی درست ہے کہ آج جس سامراجی جارحیت اور حکومت کی معزولی کا خطرہ مادورو کو درپیش ہے اس میں ان کی انقلاب مکمل نہ کرسکنے کی خطا سرفہرست عنصر ہے۔ لیکن اس سے سامراجی سبوتاژ اور جمہوریت و آزادی کے نام پر ردانقلاب کی یلغار کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ یہ سامراجی گدھ‘ وینزویلا کے عوام کے وسائل، اثاثے اور دولت لوٹنا چاہتے ہیں۔ سوشلسٹ پارٹی کی حکومت ان کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ اس غصے اور انتقام میں انہوں نے پہلے وینزویلا کو اقتصادی پابندیوں اور سبوتاژ کے ذریعے معاشی طور پر تاراج کرنا شروع کیا اور اب اس پر قبضہ کرکے استحصال کی انتہا کرنا چاہتے ہیں۔

سرمایہ دارانہ اشرافیہ پر مشتمل نام نہاد حزب مخالف زیادہ تر درمیانے طبقات کی حمایت رکھتی ہے۔ شاویز کے تحت سوشلسٹ پارٹی حکومت کی تاریخی ریڈیکل اصلاحات میں تعلیم، علاج، ٹرانسپورٹ، رہائش اور دیگر بنیادی سہولیات کی ریاست کے ہاتھوں سہل اور سستی فراہمی شامل تھی۔ اسی وجہ سے ان کی حمایت کی عوامی بنیادیں اب تک وینزویلا کے معاشرے میں موجود ہیں۔ یہ اصلاحات تیل کی دیوہیکل صنعت کو قومی تحویل میں لے کے اس کی آمدن کو براہ راست سماجی بہتری کے لئے وقف کردینے کی پالیسی کی بنیادپر ہوئی تھیں۔ لیکن تیل کی قیمتوں میں شدید گراوٹ، سامراجی تجارتی و اقتصادی پابندیاں، سرمایہ داروں کے ہاتھوں معیشت کا سبوتاژ اور ردِ انقلابی مخالفین کو سی آئی اے کی براہ راست فنڈنگ اس حکومت کے عدم استحکام اور بحران کا باعث بنے ہیں۔ کرنسی کی قدرمیں شدید گراوٹ، بلند افراطِ زر اور اشیائے صرف کی قلت بھی انہی اقتصادی حملوں کی وجہ سے شدت اختیار کر گئی ہے۔ اس بربادی کی ذمہ داری مادورو سے کہیں زیادہ امریکی و یورپی سامراجیوں اور وینزویلا کے سرمایہ داروں پر عائد ہوتی ہے۔

یوان گوائیڈو کو ابھار کر جعلی صدارت کا دعویٰ کروانے کا سامراجی اقدام وینزویلا کی سا لمیت پرایک مجرمانہ وار ہے۔ اس کا سبق یہ ہے کہ ’سانپ کو چھیڑو تو چھوڑو مت!‘ انقلاب اور سوشلزم کا نعرہ لگانے اور پھر سرمایہ داری کو جڑوں سے ختم نہ کرنے سے دشمن کو وہ راستے ملتے ہیں جن سے وہ کاری ضرب لگا سکتا ہے۔ لیکن ابھی تک سامراجی اور ان کے مقامی گماشتے‘ فوجی ہائی کمان کی حمایت حاصل نہیں کرسکے۔ یہ توازن بدل بھی سکتا ہے۔ نظریاتی کمٹمنٹ کے بغیرذہن اور ضمیر بک سکتے ہیں۔ لیکن اگر یہ چال ناکام ہوتی ہے اور گوائیڈو صدارت حاصل نہیں کرسکتا تو یہ سامراجی بوکھلاہٹ، ضد اور ہٹ دھرمی کے عالم میں اتنے آگے آگئے ہیں کہ انتہائی اقدامات کی جانب بھی جاسکتے ہیں۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ اقوام متحدہ کے بہانے براہِ راست فوجی جارحیت پر اتر آئیں۔ لیکن اس سے ان کو کامیابی نہیں بلکہ مزید ذلت اور شکست ہوگی۔ کیونکہ ایسے اقدام سے وہ صرف وینزیلا بلکہ پورے لاطینی امریکہ کے عوام میں پہلے سے موجود سامراج مخالف بغاوت کو مشتعل کر دیں گے۔ پچھلے عرصے میں عوام نے تلخ ترین حالات میں وینزویلا کے ساتھ ساتھ بولیویا، نکاراگوا، ایکواڈور، برازیل، ارجنٹینا، چلی اور دوسرے بہت سے لاطینی امریکی ممالک میں ’سوشلسٹ‘ یا ’سوشل ڈیموکریٹ‘ کہلانے والی پارٹیوں کی حکومتیں منتخب کر کے اقتدار میں بھیجی ہیں۔ لیکن ان حکومتوں نے وقتی اصلاحات کے باوجود انقلابی سوشلزم سے انحراف اور گریز کیا جس کے نتیجے میں یہ انقلابی لہر پسپائی کا شکار ہوئی ہے۔ دائیں بازو کی حکومتیں اب سامراجی پشت پناہی سے عوام دشمن نیولبرل سرمایہ دارانہ پالیسیوں کے ساتھ حملہ آور ہیں۔ اس سے ایک طیش لاطینی امریکہ کے معاشروں کی کوکھ میں پک رہا ہے۔ سامراج کا وینزویلا پر حملہ عراق، شام اور افغانستان وغیرہ سے بالکل مختلف صورتحال پیدا کر کے لاطینی امریکہ میں سامراج دشمنی کے انقلابی طوفان کو ابھار سکتا ہے جو پھر ساری سامراجیت اور سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی طرف بڑھے گا۔