عمران کامیانہ

ویسے تو چہرے اور سیاسی و انتظامی طریقہ ہائے واردات بدل کے یہاں کی روزِ اول سے بحران زدہ سرمایہ داری کو بدحال عوام پر مسلط کرنے کا سلسلہ روزِ اول سے جاری ہے۔ پے درپے آمریتیں، نیم آمریتیں اور پھر جمہوری حکومتیں آتی جاتی رہی ہیں۔ یوں ڈگمگاتی معاشی اور اقتصادی بنیادوں پر کھڑے سیاسی اور ریاستی ڈھانچے بھی ہمیشہ متزلزل رہے ہیں۔ لیکن تحریک انصاف کی موجودہ حکومت کو ریاست کے مقتدر حلقوں نے جس قدر ڈھٹائی سے مسلط کیا ہے اس کی مثال شاید ماضی میں نہیں ملتی۔ اربوں روپوں کی سرمایہ کاری اور کارپوریٹ میڈیا کی سالوں پر مبنی مسلسل مہم کے ذریعے اِس درمیانے طبقے کے رجعتی اور بیہودہ رجحان کی ’امیج بلڈنگ‘ کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ میڈیا ہائپ کی ایسی یلغار تھی کہ چند ایک کو چھوڑ کے اِس نظام کے اکثر و بیشتر دانشور بھی ’’تبدیلی‘‘ کے نعروں پہ سنجیدگی سے یقین کرتے نظر آئے۔ اس سارے عمل میں یہ بھی واضح ہوا ہے کہ سرکاری دانشوروں اور پالیسی سازوں کی اپنی سوچ اور فکر کس قدر گراوٹ اور پراگندگی کا شکار ہو چکی ہے ۔ ایک پورا تاثر اور ’بیانیہ‘ تشکیل دیا گیا تھا کہ بس عمران خان کے اقتدار میں آنے کی دیر ہے اور سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ لیکن جتنی تیزی سے برسراقتدار آنے کے بعد اِس حکومت نے اپنی ساکھ کھوئی ہے اس کی مثال بھی ملکی تاریخ میں نہیں ملتی ہے۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ یہ عمل ان کے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی شروع ہو چکا تھا۔ اس کی ایک بنیادی وجہ تحریک انصاف کا ٹھوس سماجی بنیادوں سے عاری ہونا بھی ہے۔ ماضی میں دائیں بازو کے رجحانات کی بنیادیں اِس سے کہیں زیادہ مستحکم اور وسیع رہی ہیں۔ لیکن تحریک انصاف کوئی روایتی یا کلاسیکی سرمایہ دارانہ پارٹی نہیں ہے جو کسی وسیع تاریخی پس منظر اور گہری سماجی جڑوں کی حامل ہو۔ یہ محنت کش طبقے کے کسی بڑے تحرک اور کھلی طبقاتی جدوجہد سے عاری ٹھہراؤ کے ایک مخصوص وقت کی پیداوار ہے جس کا ابھار روزِ اول سے ہی ایک سیاسی بلبلے کی مانند تھا جو بالخصوص پچھلی کچھ دہائیوں سے شہروں میں ابھرنے والی پروفیشنل مڈل کلاس کے مخصوص نفسیاتی ہیجان اور طبقاتی تذبذب کی غمازی کرتا تھا۔ دوسرے الفاظ میں یہ ایک مخصوص نیم رجعتی معروض کے سماجی و سیاسی تعفن کی پیداوار ہے ۔ جس کا اظہار ان کے رویوں، پالیسیوں اور طرزِ عمل سے بھی ہوتا ہے۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو گزشتہ سالوں میں یہ بلبلہ کئی بار پھٹنے کی طرف گیا ہے اور کسی حقیقی متبادل کی عدم موجودگی میں اسے دوبارہ پھلایا جاتا رہا ہے۔ تاہم اب اقتدار میں آنے کے بعد یہ واردات مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔

’سادگی‘ اور ’بچت‘ کے ڈرامے چند مہینوں میں ہی فلاپ ہو گئے ہیں۔ ’احتساب‘ کی فلم، جو کئی دہائیوں سے مختلف ناموں اور کرداروں کیساتھ چلائی جا رہی ہے، بھی تکرار اور یکسانی کا شکار ہو کے اپنی افادیت کھو چکی ہے۔ڈیم والا مداری بھی تماشا دکھا کے نکل گیا ہے۔ رہی سہی کسر ملک کے طول و عرض میں جاری ریاستی جبر اور قتل و غارت کو منظر عام پہ لانے والے سانحہ ساہیوال جیسے واقعات پوری کر رہے ہیں۔ عوام پر بار بار آشکار ہو رہا ہے کہ کچھ ’تبدیل‘ نہیں ہوا ہے۔ نہ ہی اِس نظام میں ہو سکتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اوپر سے کتنے ہی نان ایشوز مسلط کیے جاتے رہیں، دیوہیکل پراپیگنڈا کی یلغار میں کیسے کیسے لوگوں کو مسیحا بنا کے پیش کیا جاتا رہے، لوگوں کی سوچ اور شعور کو کتنا ہی مجروح اور مفلوج کر دیا جائے … لیکن حقیقی تضادات اپنا اظہار کر کے رہتے ہیں۔ نظام کے بحران کو جعلسازیوں کے نیچے صدا دبایا نہیں جا سکتا۔ اور جب یہ بحران کسی بے قابو دیو کی طرح سر اٹھاتا ہے تو حکمرانوں کی اپنی نورا کشتیاں، لایعنی بحثیں اور دوسرے کرتب، جن میں لوگوں کو محو رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہوتی ہے، بہت چھوٹے اور بھونڈے لگنے لگتے ہیں۔

معیشت کا بحران سنگین سے سنگین تر ہو رہا ہے۔ ہر روز مہنگائی کے نئے حملے جاری ہیں۔ افراطِ زر، جس کی شرح جنوری میں 7.2 فیصد ریکارڈ کی گئی، مسلسل بڑھ رہا ہے اور پانچ سال کی بلند ترین سطح پر کھڑا ہے۔ روز مرہ ضرورت کی ا شیا کی قیمتوں میں حقیقی اضافہ ان سرکاری اعداد و شمار سے کہیں بڑھ کے ہیں۔مثلاً پچھلے ماہ سبزیوں اور پھلوں جیسی فوری استعمال کی غذائی اجناس میں اوسطاً 16.6 فیصد اضافہ ہوا ہے ۔ ادوایات کی قیمتوں میں اضافہ اِس سے بھی زیادہ ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود لوڈ شیڈنگ کے دورانیے پھر سے بڑھ رہے ہیں جبکہ عوام کا خون پسینہ نچوڑ کر آئی پی پیز کو 422 ارب روپے اُس بجلی کے عوض ادا کیے گئے ہیں جو انہوں نے پیدا ہی نہیں کی۔ توانائی کے معاملات پر سینیٹ کی سٹینڈگ کمیٹی کو پیش کی جانے والی تازہ رپورٹ کے مطابق بجلی کی پیداوار کا نجی شعبہ 40 فیصد منافع کما رہا ہے۔ سردیوں میں گیس کے بِلوں نے لوگوں کی کمر توڑ دی ہے۔ ماضی میں چند سو یا چند ہزار روپے کے بِل دینے والے عام صارفین کو دسیوں ہزار کے بِل بھجوائے گئے ہیں۔ جبکہ کھاد، ٹیکسٹائل اور سی این جی سیکٹر کے بڑے مگر مچھوں کو واجبات کی مد میں 200 ارب روپے ’معاف‘ کر دئیے گئے ہیں۔ لوگوں کے احتجاج پر وزیر پٹرولیم نے برملا کہہ بھی دیا ہے کہ گیزر وغیرہ کا استعمال عیاشی کے زمرے میں آتا ہے۔ لیکن عوام سے شدید ہمدردی رکھنے والے وزیر اعظم نے اتنے سنگدل ثابت نہیں ہوئے ہیں۔ انہوں نے کمال دردِ دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے زیادہ بِلوں کے معاملے کی ’تحقیقات‘ کا آغاز کر دیا ہے۔ موصوف شاید علت و معلول کے اِتنے سادہ سے ادراک سے عاری ہیں کہ جب گیس کی قیمتوں میں 143 فیصد تک اضافہ کر دیا جائے تو بِل بھی زیادہ ہی آتے ہیں۔

دوسری جانب سٹیٹ بینک کی جانب سے 0.25 مزید اضافے کیساتھ شرح سود 10.25 فیصد ہو گئی ہے جو 6 سالوں کی بلند ترین شرح ہے۔ لیکن افراطِ زر اِس سخت مانیٹری پالیسی کے قابو سے باہر نظر آتا ہے جس کی وجہ روپے کی قدر میں تیز گراوٹ، مرکزی بینک کی جانب سے بڑے پیمانے پر نوٹوں کی چھپائی اور حکومتی قرضوں میں مسلسل اضافہ ہے ۔ نوٹوں کی چھپائی میں آنے والی تیزی کا انداز یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت نے مالی سال کے ابتدائی 7 ماہ میں سٹیٹ بینک سے پچھلے سال کی نسبت 4 گنا زیادہ قرضہ لیا ہے جو تقریباً 4 ہزار ارب روپے بنتا ہے۔جبکہ مرکزی بینک سے لیے گئے مجموعی قرضوں کا حجم 7500 ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔ یوں شرح سود میں اضافے سے معیشت کی شرح نمو کے تخمینے مزید نیچے آ رہے ہیں اور مہنگائی کا مسئلہ الٹا زیادہ گھمبیر ہو رہا ہے۔ سرمایہ کاری سکڑ رہی ہے۔ واضح رہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کی معیشت کی شرح نمو کی پیش بینی 0.3 فیصد کمی کیساتھ 2.4 فیصد کر دی ہے۔ اگر آبادی میں اضافے اور نئے روزگار کی تخلیق کی مطلوبہ شرح سے موازنہ کیا جائے تو یہ ’شرح نمو‘ معاشی سکڑاؤ کے زمرے میں آتی ہے۔ اس کا ناگزیر مطلب قوت خرید میں گراوٹ اور بیروزگاری میں اضافہ ہے جو واضح نظر آ رہا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بڑھتا ہوا افراطِ زر بھی کسی ’صحتمند‘ کردار سے عاری ہے۔ سرمایہ داری کے کلاسیکی طریقہ کار میں تو افراطِ زر کو معاشی نمو سے منسوب کیا جاتا ہے لیکن یہاں نظام کی بیماری لاعلاج ہے اور معیشت کی نمو گر رہی ہے۔ یوں یہ ’سٹیگفلیشن‘ کی کیفیت بنتی ہے جس میں حالات پچھلے کچھ سالوں کی نسبتاً بلند شرح نمو (جس میں اگرچہ اس تناسب سے نیا روزگار پیدا نہیں ہوا) سے بھی بدتر ہونے کی طرف جائیں گے۔ ترقیاتی بجٹ کم و بیش ختم کیے جا رہے ہیں ۔ سرکاری اداروں میں چھانٹیوں کا خاموش عمل جاری ہے اور جس بڑے پیمانے پر نجکاری کے لئے پَر تولے جا رہے ہیں وہ ان اداروں کو پرزہ پرزہ کر دینے کے مترادف ہے۔ بچی کھچی حکومتی سبسڈیوں کو انتہائی ڈھٹائی سے ’خسارے‘ قرار دے کے ختم کیا جا رہا ہے۔ خزانے کی حالت یہ ہے کہ جاری مالی سال کے ازسرنو بجٹ میں 3.6 ہزار ارب روپے (68.2 فیصد) قرضوں پر سود اور دفاعی اخراجات کی نذر ہو جائیں گے جس کے بعد وفاقی حکومت کے پاس منفی 632 ارب روپے بچیں گے!

سٹیٹ بینک نے تنبیہ کی ہے کہ آنے والے عرصے میں معیشت کو بلند بجٹ خسارے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور افراطِ زر کا سامنا بدستور کرنا پڑے گا۔ تمام تر کٹوتیوں کے باوجود بجٹ خسارہ بدستور جی ڈی پی کے 6.6 فیصد کی ریکارڈ سطح پر رہنے کا امکان ہے۔ ان حالات کے پیش نظر ’S&P‘ نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ مزید گرا کے ’B-‘ کر دی ہے جو سب سے بالائی ’AAA‘ ریٹنگ سے چھ درجے نیچے ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اندرونی قرضوں کی طرح بیرونی قرضوں کے سود کا بوجھ بھی مزید بڑھے گا۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا مسئلہ سنگین ہے۔ دسمبر 2018ء میں یہ خسارہ پچھلے ماہ کی نسبت 37.3 فیصد اضافے کیساتھ 1.6 ارب ڈالر رہا ہے۔ روپے کی قدر میں تیز گراوٹ کے باوجود برآمدات میں سالانہ بنیادوں پہ صرف 0.1 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ آخری تجزئیے میں صنعتی پسماندگی کا مسئلہ ہے جو پھر یہاں کی تاخیر زدہ سرمایہ داری کیساتھ جڑا ہے۔ عالمی معیشت کی سست روی نے اسے شدید تر کر دیا ہے ۔ ہر مہینے ڈیڑھ سے دو ارب ڈالر کا بیرونی خسارہ ہے جسے پورا کرنے کے لئے ’دوست ممالک‘ سے قرضوں پہ قرضے لیے جا رہے ہیں۔ پہلے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے تین تین ارب ڈالر کا قرضہ لیا گیا ہے۔ اب چین سے مزید 2.5 ارب ڈالر کا قرضہ ملنے کی تازہ خبر گردش کر رہی ہے۔ ان قرضوں پہ بھی سود ادا کرنا پڑے گا لیکن بحران جتنا شدید ہے اس کے پیش نظر ان طریقوں سے بھی چند ماہ تک ہی مزید ٹالا جا سکتا ہے۔ 2019ء میں واجب الادا بیرونی قرضے‘ زرِ مبادلہ کے ذخائر کا 160 فیصد بنتے ہیں۔ یعنی یہ ذخائر، جنہیں مذکورہ بالا قرضوں کے ذریعے 8 ارب ڈالر کے آس پاس ظاہر کیا جا رہا ہے، عملی طور پہ منفی میں ہیں۔ اب دوبئی میں ہونے والے دنیا بھر کے حکمرانوں کے ایک اجلاس میں عمران خان نے آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لیگارڈ سے بنفس نفیس بیل آؤٹ ’پیکیج‘ کی بھیک مانگی ہے جس کے جواب میں دولت والوں کی اِس ڈائن نے معیشت کو ’ڈسپلن‘ میں لانے کے لئے سخت اقدامات کے بدلے میں قرضہ دینے کا گرین سگنل دیا ہے۔ اِن ’سخت اقدامات‘ میں بجلی و گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ اور روپے کی قدر میں مزید کمی وغیرہ شامل ہے جس کا عوام کے لئے مطلب مزید مہنگائی اور بدحالی ہے۔

جیسا کہ ہم اپنی پچھلی تحریروں میں بھی واضح کرتے آئے ہیں کہ مجموعی طور پہ یہ دیوالیہ پن کی کیفیت بنتی ہے۔ نام نہاد ’معاشی مشاورتی کونسل‘ میں سے ہر مہینے ایک رُکن کا استعفیٰ بے سبب نہیں ہے۔ داخلی اور بیرونی قرضوں کا بوجھ ناقابل برداشت ہوتا جا رہا ہے۔ قرضوں کی قسطوں پہ معیشت چلائی جا رہی ہے۔ اِس حکومت کی ساکھ، ملک کے حالات اور عالمی معیشت کی صورتحال کے پیش نظر یہاں کسی بڑی سرمایہ کاری کا امکان نہیں ہے جو معیشت کو اِس بحران سے نکال سکے۔ سی پیک کی پرواز بھی بس یہیں تک تھی۔ بس ہلڑ بازیاں اور بیہودگیاں ہیں جو یہ کٹھ پتلی حکمران اور نام نہاد حزب اختلاف جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ اصلاح پسندی اتنی مضحکہ خیز اِس لئے ہے کہ نظام میں سنجیدہ اصلاحات کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ دوسرے‘ بلکہ تیسرے درجے کے مسخرے ہیں جو یہاں کی بورژوازی کے پسماندہ ثقافتی معیاروں سے بھی کہیں گرے ہوئے ہیں۔ میڈیا پر کچھ اینکر خواتین و حضرات اور دانشوروں کی طرف سے حکومت پر کی جانے والی بھونڈی تنقید کا مقصد بھی حقیقی تنقید اور متبادل کی بات کو پس پشت ڈالنا ہے۔ لیکن حالات جس نہج پہ پہنچ چکے ہیں وہاں اِس نظام کو برباد کر ڈالنے والی طبقاتی جنگ کے طبل حساس سماعتوں کو سنائی دے رہے ہیں!