لتا

اینگلز کے مطابق سماج میں جب سے کثرت ازدواج کا تصور عام ہوا اور مردوں نے عورتوں کی فرٹیلیتی (Fertility) کو ذاتی ملکیت کے طور پر وارث کے حصول کے لئے کنٹرول کرنا شروع کیا تب سے عورتوں کی سماج میں حیثیت گھٹتی چلی گئی۔ اس سے قبل اشتراکی سماج میں ہر فرد برابر تھا یعنی کسی بھی قسم کا استحصال موجود نہ تھا مگر ذاتی ملکیت کے تصور سے ایک انسان کے ہاتھوں دوسرے کا استحصال ہونا شروع ہو گیا۔ مرد کے مکمل کنٹرول میں آنے سے عورت بھی مرد کی ذاتی ملکیت سمجھی جانے لگی جسے وہ جب چاہے خرید سکتا اور آسانی سے فروخت کر سکتا۔ عورتوں پر صدیوں سے ظلم اور تشدد کا بازار گرم رہا ہے اور یہ سلسلہ ابھی بھی شدت سے بڑھتا ہی جا رہا ہے۔

مگر تاریخ میں قدیم اشتراکی دور کے بعد ایک دور ایسا بھی آیا جس نے سماج میں موجود ان خیالات کو یکسر تبدیل کر دیا۔ انقلاب روس کے بعد جدید تاریخ میں پہلی بار عورتوں کو اُس غلامی سے نجات حاصل کرنے کا موقع ملا جس کی زنجیروں میں وہ صدیوں سے جکڑی تھیں۔ انقلاب روس نے تاریخ میں ہونے والے طبقاتی جبر کی بنیاد کو یکسر ختم کر دیا اور بطور انسان عورت نے سماجی پیداوار میں برابری کی بنیاد پر نہ صرف اپنا حصہ ڈالا بلکہ اُسے وہ تمام تر حقوق بھی حاصل ہوئے جس کی وہ حقدار تھی۔

سرمایہ دارانہ نظام نے پیداوار کے حصول کے لئے فیکٹریوں میں مزدوروں کی ضرورت کی بنا پر عورتوں کو خاندان کی غلامی سے کسی حد تک آزاد کروایا تھا اور شاید اسی بنا پر عورتوں نے بڑے پیمانے پر فیکٹریوں کا رُخ بھی کیا۔ اسی قسم کی صورتحال دیگر ممالک کی طرح روس میں بھی تھی۔ اُس جدید غلامی ہی نے عورتوں کو اپنے حقوق کے لئے لڑنا سکھایا اور بے پناہ شعور سے ہمکنار کرتے ہوئے جدوجہد کے لئے راہیں ہموار کیں۔ انہوں نے اسی شعور کے نتیجے میں اپنے آپ کو ٹریڈ یونین میں اجتماعی مفادات حاصل کرنے کے لئے منظم کیا اور یوں خواتین انقلاب کی ہر اول پرتوں میں شریک ہونے لگیں۔

1917ء سے قبل کا روسی سماج نیم صنعتی، قبائلی اور جاگیردارانہ تھا۔ جہاں عورتوں کو تعلیم حاصل کرنے کی آزادی نہ تھی اور نہ ہی اُنہیں باہر جانے اور کام کرنے کی اجازت تھی۔ چرچ کا عورتوں کی زندگی پر مکمل کنٹرول تھا۔ عورتوں کو جائیداد میں بھی کوئی حق نہیں ملتا تھا نہ ہی انہیں مرضی سے گھر بدلنے یا ملک چھوڑنے کے اختیارات تھے۔ یہاں تک کہ اُنہیں ووٹ ڈالنے کا حق بھی حاصل نہ تھا۔ یہ وہ حالات تھے جن میں عورتوں نے کام کیا اور ان کی تحریکیں منظم بھی ہوئیں۔

خواتین نے اپنی دیوہیکل طاقت کا پہلا اظہار 1905ء میں ہی کر دیا تھا جب سینکڑوں کی تعداد میں عورتیں اپنے اوقات کار کو کم کروانے اور اجرتوں میں اضافے کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ وہ ریلی کی صورت میں زار کے محل کی طرف بڑھ رہی تھیں۔ مگر اُس مظاہرے کو زار کے فوجیوں نے تشدد کے ذریعے ناکام بنا دیا پر اسی دوران 1905ء میں ہی پہلا اسٹڈی سرکل گروپ ’ورکنگ وومین میوچل اسسٹنس ایسوسی ایشن‘کے نام سے تعمیر کیا گیا جس میں سب سے زیادہ ٹیکسٹائل کے شعبے سے وابستہ محنت کش خواتین تھیں۔ اس گروپ کا بنیادی مقصد سوشلزم کے نظریے کو عام لوگوں تک پھیلانا اور زیادہ سے زیادہ خواتین کو ٹریڈ یونین، سیاست اور خواتین پر ہونے والے استحصال کے خلاف جدوجہد میں شامل کرنے کے لئے کام کرنا تھا۔ اُس گروپ میں متحرک خواتین تیزی سے محنت کش خواتین کو اپنے ساتھ جوڑ رہی تھیں۔ اس گروپ کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں مرد کامریڈ بھی بڑی تعداد میں شامل تھے۔ مگر پہلا مورچہ عورتوں نے ہی سنبھال رکھا تھا۔

پہلی عالمی جنگ کے دنوں میں ملک میں حالات بد سے بد تر ہو چکے تھے۔ اس وقت فیکٹریوں میں کام کرنے کے لئے مزید مزدوروں کی ضرورت پڑی جن میں سب سے زیادہ عورتوں نے بھوک سے لڑنے کے لئے فیکٹریوں کا رخ کیا۔ دوسری طرف مردوں کو زبردستی جنگ کی آگ میں جھونک دیا گیا تھا۔ روس میں اس وقت جنگ کے خلاف مزاحمت میں بڑی تیزی آ رہی تھی کیونکہ دس ملین سے زیادہ کسانوں کو اس جنگ میں مجبوراً جانا پڑ رہا تھا۔ ڈیڑھ ملین لوگ 1917ء تک مارے گئے اور چار ملین لوگ زخمی ہوئے۔ اس جنگ نے بھوک اور مہنگائی میں بڑی تیزی سے اضافہ کیا اور شہر کھنڈرات میں تبدیل ہوتے چلے گئے۔ جس کی وجہ سے خواتین کی حالت مزید ابتری کا شکار ہوتی چلی گئی۔ انہیں کھیتوں سے ہٹا کر فیکٹریوں میں ہفتے میں 60 گھنٹے تک کام کروایا جانے لگاتھا۔

اپنی اس ابتر اور پسماندہ صورتحال کے خلاف انہوں نے مل کر جدوجہد کے ذریعے اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا اظہار کیا۔ چونکہ فیکٹریوں میں خواتین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو چکا تھا اور یہی اُن کے شعور میں بیداری کی وجہ بھی بن چکا تھا۔ انہوں نے خود کو ٹریڈ یونین میں منظم کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس سے قبل امن کے لئے پہلی بار 1913ء میں خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ریلیاں نکلالی گئیں۔ 1914ء میں لینن کے اصرار پر خواتین کے لئے ایک پرچہ بھی نکالا گیاحالانکہ اس سے قبل ’پراودا‘ کے نام سے ایک پیپر پہلے ہی نکلتا تھا۔ لینن کا کہنا تھا کہ کمیونزم میں ہی خواتین آزاد ہو سکتی ہیں اور اس مقصد کے لئے اس رسالے میں دیگر علاقوں میں ہونے والی جدوجہد اور حالات کے بارے میں لکھا جانا چاہیے تھا تا کہ مزید خواتین کو اس طبقاتی جدوجہد کا حصہ بنایا جا سکے۔

اس رسالے کی خاص بات یہ تھی کہ فیکٹری کی خواتین فنڈ جمع کر کے اس رسالے کو نکالتی تھیں اور پھر خود ہی اسے تقسیم بھی کیا کرتی تھیں۔ اس سال نہ صرف خواتین کے عالمی دن پر مظاہرہ کیا گیا بلکہ محنت کش خواتین نے اپنا پہلا شمارا بھی شائع کیا۔ مگر چند مہینوں بعد ہی اس شمارے کے سارے ادارتی بورڈ جس میں کروپسکایا، انیسہ آرمنڈ، الگزینڈر اکولن تائی اور دیگر کامریڈ خواتین شامل تھیں کو زار کی پولیس نے گرفتار کر لیا اور بالشویک پارٹی کے تمام اخبارات بند کرا دیئے گئے۔ مگر ان سب پابندیوں اور سختیوں کے باوجود 1915ء میں پارٹی کا کام بڑی تیزی سے پھیلا۔ خاص طو ر پر خواتین ورکروں میں کیونکہ فیکٹریوں میں ان کی تعداد میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہو رہا تھا اور وہ اپنے حالات کو بہتر بنانے کے لئے انقلابی سرگرمیوں میں تیزی سے حصہ لیتے ہوئے بالشویک پارٹی کا حصہ بن رہی تھیں۔

اس وقت روس میں جاری جنگ کی تباہ کاریوں نے لوگوں کی حالت بد سے بد تر کر دی تھی جس کے خاتمے کے لئے اور امن اور روٹی کے نام سے 28 فروری 1917ء کو ایک شاندار ہڑتال کی گئی جس میں نوے ہزار سے زیادہ خواتین اور مرد مزدور شامل تھے۔ خواتین اس جنگ کے خاتمے اور اپنے خاوندوں کی جنگ سے واپسی کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ عورتوں کی اس قدر بڑی تعداد نے زار کو بے حد خوفزدہ کر دیا تھا۔ مسلسل جنگ سپاہیوں کو بیزار کر چکی تھی اور ان نڈر اور مضبوط خواتین کے سامنے انہیں اپنے ہتھیار ڈالنے پڑے اور یوں روس میں صدیوں سے جاری زار شاہی کا خاتمہ مکمل ہو پایا۔ یہ انقلاب خواتین کا بہت بڑا کارنامہ تھا جس کی حمایت کامریڈ لینن نے بھی کی تھی اور ان کا یہی نعرہ ’امن، زمین اور روٹی‘ پارٹی کا بھی اہم نعرہ بن چکا تھا۔

زار کے بعد کرنسکی کی پارلیمانی حکومت بھی اُس وقت کے بگڑے حالات کو سنبھالنے میں ناکام رہی۔ عوام کے مطالبات جیسے کہ جنگ کا فوری خاتمہ، کسانوں میں زمین کی تقسیم، کم اوقات کار، مناسب اجرت، روٹی اور عورت کی مکمل آزادی کو ماننے اور اسے عملی جامہ پہنانے میں یہ حکومت مکمل ناکام رہی۔ بلکہ کرنسکی نے جنگ کو برقرار رکھا اور سامراجی ممالک کا ساتھ دیا۔

اس تمام تر صورتحال میں کامریڈلینن نے مزدور انقلاب کی بات کی جس کا اس وقت کے استحصال زدہ طبقات نے مکمل ساتھ دیا۔ عورتوں نے فیکٹریوں اور بیرکوں میں جا کر محنت کشوں اور سپاہیوں کو شعور دینا شروع کیا اور اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ اب اقتدار پر قبضہ کر لیں۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ بالشویک پارٹی کے جلسوں میں آنے اور انقلابی رہنماؤں کی بات سننے لگے۔ اکتوبر میں کامریڈوں نے ریلوے، ٹیلی گرام اور پوسٹ آفس، الیکٹرک اور اسٹیٹ بینک پر قبضہ کر لیا۔ یوں دنیا میں پہلی بار مزدور انقلاب کا نعرہ بلند ہوا اور مزدوروں نے حکومت سنبھالی۔ یوں جہاں سماج کے تمام شعبوں میں انقلابی تبدیلیاں آئیں وہیں عورتوں کو بھی انسانی تاریخ میں پہلی بار ہر قسم کے استحصال سے مکمل نجات حاصل ہوئی۔

اکتوبر انقلاب نے روس میں خواتین کی زندگی ہی تبدیل کر دی۔ لینن نے 1918ء میں عورتوں کی کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”ہم قانون کی عمارت میں کوئی ایک بھی اینٹ ایسی نہیں چھوڑیں گے جو عورتوں کو مردوں سے کمتر ثابت کرے۔“ مزدوروں کے انقلاب کے نتیجے میں عورتوں کو پہلی بار ووٹ کا حق حاصل ہوا۔ عورتوں کو سیاسی، سماجی اور معاشی آزادی اور برابری ملی اور صدیوں کی خاندانی غلامی سے بھی وہ آزاد ہو گئیں۔ ایسی آزادی کسی ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ملک میں بھی عورتوں کو پہلے کبھی نہیں ملی تھی۔

1917ء ہی میں عورتوں کو زچگی کی خاص سہولیات دے دی گئیں۔ جس کے مطابق حاملہ عورتوں کو 16 ہفتے پہلے اور بچے کی پیدائش کے 16 ہفتے بعد تک چھٹیاں اور تنخواہ دی جاتی تھی۔ رات دیر تک ان سے کام نہ لینا اور نہ ہی بھاری یا وزنی کام کروانا جیسی سہولیات فراہم کی گئیں۔ اسی کے ساتھ عورتوں کے تمام تر نجی کاموں کو سماجی کاموں میں تبدیل کر دیاگیا۔

اینگلز کے مطابق کوئی قوم اُس وقت تک آزاد نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس کی آدھی آبادی کچن میں غلام ہو۔ انقلاب کے بعد عوامی لانڈریاں بنائی گئیں، عوامی ڈائننگ ہال اور بچوں کے لئے چائلڈ کیئر سینٹر کھولے گئے۔ جن کی تعداد میں مزید اضافہ بھی ہوا۔ یہ وہ تمام اہم کام تھے جو اکتوبر انقلاب کے بعد فوری طور پر کیے گئے۔

اس انقلاب نے سامراجی ممالک کی نیندیں اڑا دیں اور انہوں نے مل کر مزدور انقلاب کو ناکام بنانے کی ہر ممکن کوشش کی اور سوویت روس پر مسلسل حملے کیے۔ مگر اس نقلاب کو بچانے کے لئے مردوں سمیت خواتین نے بھی پہلے سے زیادہ جوش اور ہمت سے اپنا کردار اداکیا تھا۔

انقلاب کا ہر سطح پر دفاع کیا گیا اور انقلاب کے کافی عرصے بعد بھی لوگ اس کے ثمرات حاصل کرتے رہے۔ سماج کے ہر شعبے میں اس انقلاب نے اپنے نقوش چھوڑے۔ روس ہی وہ پہلا ملک تھا جس میں عورتیں آرمی میں سرکاری طور پر بھرتی ہو سکتی تھیں۔ روس ہی وہ پہلا ملک بنا جس میں عورتوں کو سفیر بننے
سے لے کر دیگر کئی اہم عہدوں پر فائز ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ دنیا کی پہلی خلا باز عورت ویلینٹینا تریشکووا کا تعلق بھی سوویت یونین ہی سے تھا۔

آج سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی پوری دنیا کے سامنے عیاں ہو چکی ہے۔ ایسے میں ہر تحریک میں آج بھی مردوں کے شانہ بشانہ عورتیں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا بھر کی تحریکوں کو جوڑ کر مشترکہ جدوجہد کی راہیں ہموار کی جائیں کیونکہ دنیا بھر کے مظلوم عوام کی نجات صرف اور صرف سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔