کراچی (فیاض چانڈیو) کراچی ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے طلبہ نے بوائز ہاسٹل بلڈنگ کو سندھ انسٹیٹیوٹ آف ری ہیبلیٹیشن سابقہ ’IPRM‘ کے حوالے کیے جانے کے فیصلے کے خلاف ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے مرکزی دروازے پر بوائز ہاسٹل کے طلبہ نے ایک احتجاجی مظاہرہ منعقد کیا۔ جس میں یونیورسٹی طلبہ کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ طلبہ نے اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے ہوئے کہا کہ ہم تسلسل سے تمام متعلقہ افراد اور فورم کے سامنے بوائز ہاسٹل کا مسئلہ اٹھا رہے ہیں لیکن ابھی تک کسی بھی متعلقہ فرد نے اس مسئلے پر ہم سے کوئی بات چیت کرنا مناسب ہی نہیں سمجھا۔ طلبہ نے کہا کہ پاکستان بھر میں پہلے ہی ڈھائی کروڑ بچے پرائمری سکول جیسی بنیادی تعلیم سے محروم ہیں، ایسی صورتحال میں ہمارے والدین اپنا پیٹ کاٹ کر ہماری بھاری فیسیں بڑی مشکل سے ادا کر پا رہے ہیں اور ایسی صورتحال میں طلبہ کے اوپر رہائش اور ٹرانسپورٹ کا اضافی بوجھ منتقل کیا جا رہا ہے جو طلبہ کے لیے نا قابل برداشت ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کورونا کے باعث غیر یقینی معاشی صورتحال نے عام لوگوں کے معیار زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے جس کے باعث بہت سارے طلبہ کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔ اس سے پہلے ہی سندھ گورنمنٹ تین بوائز ہاسٹل طلبہ سے خالی کراچکی ہے اور ان طالبعلموں کو کسی قسم کی متبادل سہولت فراہم نہیں کی گئی۔ طلبہ نے مطالبہ کیا کہ سندھ گورنمنٹ اپنے وسائل بروئے کار لاتے ہوئے ’IPRM‘ کو متبادل جگہ فراہم کرے اور تینوں بوائز ہاسٹلز کی بلڈنگز کی مرمت کرا کے طلبہ کو دیے جائیں۔ طلبہ کے احتجاج کے طول پکڑ جانے کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ نے احتجاجی طلبہ سے رابطہ کر کے ان کے مسائل کو اعلیٰ حکام تک پہچانے کی یقین دہانی کروائی جس پراحتجاج موخر کر دیا گیا۔ لیکن مسائل حل ہونے تک احتجاج کا سلسلہ جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔ اس موقع پر کریم سوہو، علی ثقلین چانڈیو، دیدار ننجانی، شکیل بلوچ، شہزاد بلوچ اور فیاض چانڈیو نے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ڈاؤ یونیورسٹی بوائز ہاسٹل کے طلبہ سے اظہار یکجہتی کے لیے ’RSF‘، ’SSC‘، ,’JSSF‘ اور دیگر طلبہ تنظیموں نے بھی مظاہرے میں بھر پور شرکت کی۔