راہول
عالمی سرمایہ داری آج بدترین زوال پذیری کا شکار ہے۔ معاشی بحران کی ایک دہائی گزر جانے کے باوجود بھی حالات اب تک معمول پر نہیں آسکے۔ اس سنگین بحران کے بدترین اثرات نے پوری دنیاکے سامنے نہ صرف اس نظام کی ترقی کے کھوکھلے پن کو بے نقاب کیا بلکہ گزشتہ عہد سے جنم لینے والے اس نظام کے رکھوالوں کے زعم کو بھی بے رحمی سے خاک میں ملا دیا۔ اب مسلسل ترقی ایک مسلسل بحران میں تبدیل ہوچکی ہے۔ ایسے میں دنیا کی اکثریتی آبادی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ احتجاجی تحریکیں آج معمول بن چکی ہیں۔ یوں تو گزشتہ پوری دہائی ہی غیر معمولی واقعات کی حامل رہی ہے مگر اس سال کا اختتام پوری دنیا میں رونما ہونے والے غیر معمولی اور دھماکہ خیز واقعات کے آغاز سے ہوا ہے۔
دنیا کے کم و بیش ہر خطے میں ہی ابھرنے والی تحریکوں میں پائی جانے والی مشترک خاصیتیں اس نظام کے گہرے ہوتے ہوئے بحران کو واضح کررہی ہے۔ مارکس نے وضاحت کی تھی کہ کسی پرانے سماج کی کوکھ سے نیا سماج اس وقت تک جنم نہیں لیتا جب تک اس میں موجود ترقی کی تمام گنجائش ختم نہ ہوجائے۔ اس وقت ایک ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے۔ یہ سماجی نظام ایک بند گلی میں پھنس چکا ہے جو متحارب طبقات کے مابین ایک دیوہیکل ٹکراو کو جنم دینے کا باعث بن سکتا ہے۔
عالمی معیشت
سرمایہ دارانہ نظام کی تاریخی متروکیت کا اندازہ آج اس”بحالی“ سے لگایا جاسکتا ہے جو ایک دہائی گزرنے کے باوجود بھی نامکمل ہے۔ اس سال کے اختتام تک عالمی معیشت کی شرح نمو تقریباً 2.5 فیصددیکھی گئی جوکہ 2009ءکے معاشی بحران سے اب تک کی سب سے کم شرح نمو ہے۔ اگر گزشتہ سہ ماہی کی رپورٹ کو مدنظر رکھا جائے تو اس وقت امریکہ کا گروتھ ریٹ 2.3 سے کم ہو کر 2.1 پر آ پہنچا ہے۔ اسی طرح کینیڈا کی شرح نمو 1.6، جاپان کی 1.3، یورو زون کی 1.2 اور برطانیہ کی صرف 1 فیصد سالانہ ریکارڈ کی گئی ہے۔ نام نہاد ’ابھرتی معیشتیں‘ بھی سرمایہ داری کو اس سنگین بحران سے چھٹکارا دلانے میں بے بس نظر آتی ہیں۔ گزشتہ ایک سال میں برازیل، جنوبی افریقہ، روس، میکسیکو، ترکی اور ارجنٹینا میں سے کسی بھی ملک کی شرح نمو ایک فیصد سے زیادہ نہیں رہی یا پھر یہ ملک کسادبازاری میں رہے ہیں۔ بھارت اور چین کی معیشتیں بھی مسلسل گراوٹ کا شکار رہیں اور ان کا گروتھ ریٹ گزشتہ ایک دہائی میں سب سے کم ترین ریکارڈ کیا گیا۔ درحقیقت پچھلے دس سالوں میں چین نے اپنے قرضوں میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ عالمی معیشت نے جو توقعات چین سے لگائی تھیں‘ وہ اب چکنا چور ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ ہندوستان اور چین برکس ممالک میں بڑا حصہ رکھنے والے ممالک ہیں لیکن یہ دونوں مختلف معاشی اور سماجی بھونچالوں کی زد میں ہیں۔ اس تمام تر صورتحال میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ دنیا کی بیشتر معیشتیں آج بدترین معاشی دھچکوں کا شکا رہیں۔ نجی بینکوں کا جو بحران ریاستی قرضوں میں تبدیل ہوچکا تھا اب ریاستوں کی بقا کے سوال میں بدل چکا ہے۔ کئی ریاستیں آج اپنی معاشی بقا کی جنگ لڑرہی ہیں اور مسلسل قرضوں پر با لکل اسی طرح زندہ ہیں جیسے کسی مریض کو آئی سی یو میں وینٹی لیٹرپر زندہ رکھا جاتا ہے۔
معاشی بحران کے آغاز کے وقت مارکس وادیوں کی کی گئیں تمام تر پیش گوئیاں آج سچ ثابت ہورہی ہیں اور ان کی وضاحت خود سرمایہ داری کے اپنے جریرے کرنے پر مجبور ہیں۔ عالمی ادارے بلومبرگ کی اس سال کے اختتام پریکم دسمبر کو شائع ہوئی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک دہائی میں اپنائی گئی ’سستے قرضوں‘ جیسی معاشی پالیسیوں نے عالمی معیشت کو 250 ٹریلین ڈالر کا مقروض بنا دیا ہے۔ یہ رقم عالمی معاشی پیداوار کا تقریباً تین گنا بنتی ہے اوراس میں ریاستی سطح پر لیے گئے قرضوں سمیت گھریلو قرضے اور کارپوریٹ قرضہ بھی شامل ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں موجود ہر مرد، عورت اور بچہ آج 32,500 ڈالرکا مقروض ہوچکا ہے۔ عالمی طور پر بڑھتا یہ قرضہ آنے والے کئی سالوں تک نہ صرف اتارا نہیں جاسکے گا بلکہ یہ مزید نئے بحرانات کو جنم دینے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ بلومبرگ نے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا ہے کہ عالمی معیشت کا یہ قرض اس سال کے آغاز تک 255 ٹریلین ڈالر تک ہوسکتا ہے۔
دراصل عالمی معیشت کو آج محض قرضوں کے بلبوتے پر ہی چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے جو آنے والے دنوں میں ایک سنگین حد تک نئے بحران کا باعث بن سکتا ہے۔ اگر ریاستی قرضوں کو دیکھا جائے تو یہ آئندہ سال کم ہونے کی بجائے مزید بڑھیں گے۔ اس کا اندازہ محض ارجنٹینا کی نو منتخب حکومت کی آئندہ پالیسی کے ارادے سے لگایا جاسکتا ہے۔ ارجنٹینا کی نومنتخب حکومت آئی ایم ایف سے دوبارہ ’بات چیت‘کا ارادہ رکھتی ہے جس کے نتیجے میں انہیں 56 بلین ڈالر کا تاریخی قرضہ حاصل کرنا ہے۔
قرضوں کے اس گھن چکر میں نہ صرف ریاستی سطح پر لیے گئے قرضے شامل ہیں بلکہ ایک بہت بڑی مقدار کارپوریٹ سیکٹر کے قرضوں کی ہے۔ اس وقت دنیا کے کُل کارپوریٹ قرضے کا 70 فیصد صرف امریکی کمپنیوں نے حاصل کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سب امریکی معیشت کے تاریخی ’پھیلاو‘ کے وقت میں ہو رہا ہے۔ اسی طرح دنیا کی دوسری بڑی معیشت یعنی چین آج سنگین اندرونی بحران کی زد میں ہے۔ گھریلو قرض کے حوالے سے آج آسٹریلیا اور جنوبی کوریا کا شمار دنیا کے سب سے مقروض ممالک میں کیا جاسکتا ہے۔ قرضوں کا یہ بوجھ محنت کشوں کی آنے والی نسلوں کو بھی مقروض کررہا ہے۔ یہی سبب ہے کہ امریکہ جیسی ریاست میں آج سٹوڈنٹ لون کی مالیت 1.5 ٹریلین ڈالر تک جاپہنچی ہے اور وہاں موجود طلبہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد آئندہ کئی سالوں تک اپنی جوانیاں ان قرضوں کی نذر کر دیں گے۔ تقریباً نصف صدی گزرنے کے بعد یہ پہلی دفعہ ہو رہا ہے کہ آج کی نسل یہ سوچ رہی ہے کہ اس کا معیار زندگی پچھلی نسل سے بدتر ہے۔ سرمایہ داری کی شان سمجھے جانے والے ترقی یافتہ ممالک میں اب معاشی عروج، مکمل روزگار اور خوشحالی کی جگہ بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور معیار زندگی میں مسلسل گراوٹ نے لے لی ہے۔ طبقات میں کشمکش اور تضادات دن بدن بڑھ رہے ہیں اور یہ اس درجے تک بڑھ گئے ہیں کہ اس نے عوامی شعور کو جھنجھوڑنا شروع کر دیا ہے۔
شعور کی پسماندگی اور انتہائی دائیں بازو کا ابھار
دنیا بھر میں پیدا ہوئی موجودہ معاشی صورتحال نے عوامی شعور پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ لوگوں کی زندگیاں بدترین دشواریوں کا شکارہوچکی ہیں۔ لیون ٹراٹسکی نے 1930ءمیں لکھا تھا کہ”جب تاریخی ارتقا کا دھارا ابھر رہا ہوتا ہے تو عوامی سوچ زیادہ دور اندیش، بے باک اور تیز فہم ہوجاتی ہے۔ یہ حقائق کو دور سے ہی پرکھ لیتی ہے اور انہیں عمومی صورتحال سے منسلک کرتی ہے اور جب سیاسی دھارے کا رخ پستی کی طرف ہوتا ہے تو عمومی سوچ جہالت اور پسماندگی کی کھائی میں جاگرتی ہے۔ سیاسی تعمیم کا انمول تحفہ کوئی نشان چھوڑے بغیر غائب ہوجاتا ہے۔ حماقت بڑھتی جاتی ہے اور دانت نکال کر عقل مندانہ تجزیوں پر ہنستی ہے اور انہیں ذلیل کرتی ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ حماقت کا راج قائم ہوچکا ہے۔ “ پچھلے چند سال کئی ممالک میں ٹراٹسکی کی اس بات کو سچ ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں۔ ٹرمپ کے امریکی صدر منتخب ہونے کا معاملہ ہو یا یورپی یونین کے حالیہ انتخابات میں ’انتہائی دائیں بازو‘ کی کامیابی، یوں محسوس ہوتا ہے کہ آج بیشتر دنیا پر حماقت کا راج قائم ہے۔ جس طرح خوشحال معاشروں کی عکاسی عمومی طور پر سلجھے ہوئے لوگوں سے کی جاسکتی ہے بالکل اسی طرح بحران زدہ معاشروں کی عکاسی بھی اُن معاشروں کے ’قائدین‘کی بھونڈی حرکات سے ہوتی ہے۔ چونکہ آج دنیا کے بیشتر ممالک بحرانات کی زد میں ہیں یہی وجہ ہے کہ اس کے نتیجے میں جنم لینے والی سیاست بھی اتنی ہی تعفن زدہ ہے اور اسے اتنے ہی احمق اور قدامت پرست افراد میسر ہیں۔ اسی لئے ٹرمپ، ڈیوٹرٹے، مودی، عمران خان، بولسنارو اور بورس جانسن وغیرہ کو کسی طور پر بھی بحران کی وجہ قرار دینا مناسب نہیں ہوگا بلکہ یہ لوگ بحران کی پیداوار ہیں۔ حالیہ برطانوی انتخابات میں بورس جانسن کا منتخب ہونے کا معاملہ بھی برطانوی سماج میں پیدا ہونے والے اضطراب ہی کی کڑی ہے۔
برطانوی انتخابات
12 دسمبر کو ہوئے برطانوی انتخابات کے نتائج نے یقینا متعدد حلقوں میں شدید تشویش پیدا کردی ہے مگر سماج کے عمومی رجحان کو دیکھا جائے تو یہ نتائج ناگزیر سے نظر آرہے تھے۔ امریکی صدر ٹرمپ سمیت دنیا بھر کے رجعت پسند حکمرانوں نے ان نتائج کا خیر مقدم کیا۔ لیبر پارٹی کے ریڈیکل منشور کے خلاف انتخابات سے قبل ایک زہریلی مہم میڈیا پر چلائی جارہی تھی اور خود امریکی صدر کے حلقے جیرمی کاربن کی مخالفت میں میدان میں تھے۔ اگر عدادوشمار کے حوالے سے دیکھا جائے تو ٹوریز کے ووٹوں میں محض تین لاکھ ووٹوں کا ہی اضافہ ہوسکا ہے مگر اس کے باوجود بھی انہیں ایک واضح اکثریت حاصل ہے جو آنے والے دنوں میں ٹوریز کے لئے نئے چیلنج لاسکتی ہے۔ آنے والی پارلیمان میں جس قدر تذبذب، فیصلہ کرنے کی صلاحیت کے فقدان، عدم اعتماد، دھوکہ دہی اور سیاسی شعور کی پستی نظر آئے گی اس سے دنیا بھر کے عام انسانوں پر اس ”پارلیمانوں کی ماں“ کا سیاسی، اخلاقی اور قانونی دیوالیہ پن عیاں ہوجائے گا۔ یہ صورتحال خود برطانیہ میں ایک داخلی خلفشار کو جنم دینے کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ درحقیقت حالیہ انتخابات کے نتائج چاہے جو بھی نکلے ہوں مگر ایک بات پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ جانسن حکومت برطانوی سماج کے معاشی و سماجی مسائل میں سے کوئی ایک مسئلہ بھی حل نہیں کرسکے گی۔ اس وقت تک تمام تر سیاست محض بریگزٹ کے گرد کی جارہی ہے‘مگر اصل چیلنج لوگوں کی امنگوں پر پورا اترنا ہے۔ بیروزگاری اور کٹوتیوں سے لے کے’این ایچ ایس‘(مفت سرکاری نظامِ صحت) کی نجکاری جیسے معاملات آج بھی عوام کے اہم مسائل ہیں۔ اسی لئے جانسن کی تمام تر لفاظی کے باوجود بھی نہ تو برطانیہ کو ان بحرانات سے نکالا جا سکتا ہے اور نہ ہی ایک مستحکم حکومت چلائی جاسکتی ہے۔ بریگزٹ سے قطع نظر عوامی دباو ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید شدت اختیار کرتا جائے گا۔ آج عوام کو بریگزٹ کا جھانسہ دیا جا سکتا ہے مگر جیسے ہی یہ معاملہ ایک طرف ہوگا عوامی غصے کا سمندر جانسن حکومت پر ٹوٹ پڑے گا۔ آج میڈیا نے بریگزٹ کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے برطانیہ کے محنت کشوں کے حقیقی ایشوز سے توجہ زائل کرانے کی ایک جارحانہ مہم چلائی ہے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح پاکستان میں موجودہ حکومت سے قبل میڈیا بے روزگاری، محرومی اور مہنگائی کا حل کرپشن کے خاتمے کو بنا کر پیش کر رہا تھا۔ لیکن آج کے عہد میں سرمایہ داری کی جکڑ بندیوں میں کسی بھی ایک مسئلے کا حل ممکن نہیں۔ ان جکڑ بندیوں کو توڑ کر ہی محکوموں اور محروموں کے مسائل کا حل ممکن ہو سکتا ہے۔ ایسے میں انتخابی شکست کے بعد جیرمی کاربن کے استعفے نے لیبر پارٹی میں شدید مایوسی پیدا کردی ہے۔ حالیہ انتخابات میں جہاں رجعت پسندوں کا کاربن کے منشور کے خلاف حملہ جاری تھا وہیں خود لیبر پارٹی کے بلیرائیٹس نے اس کے خلاف جانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جوکہ ان کی اپنی مکاری کی ایک کھلی دلیل ہے۔ جس طرح کاربن نے اپنے دور میں پارٹی کی نظریاتی و سیاسی بحالی کا سلسلہ شروع کیا اسے منقطع کرنا آگے موقع پرستوں کے لئے اتنا آسان نہیں ہو گا۔ گزشتہ چند سالوں میں برطانیہ کی نوجوان نسل نے بھی بہت کچھ سیکھا ہے جسے وہ آنے والے دنوں میں عمل کے میدان میں بروئے کار لائیں گے۔
امریکہ چین تجارتی جنگ
حالیہ سالوں میں جہاں چین کے ایک سامراجی حیثیت حاصل کرنے کی بحث نے جنم لیا ہے وہیں امریکی سامراج سے اس کے بڑھتے تضادات بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ ایک دوسرے پر تجارتی محصولات کی جو جنگ دو سال قبل شروع ہوئی تھی آج وہ ایک اور سطح پر پہنچ چکی ہے۔ درحقیقت چین کے پچھلی دہائی میں دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت کے طور پر ابھار کو بعض تجزیہ نگار عالمی طاقتوں کی ایک نئی رقابت کے طور پر پیش کر رہے ہیں‘ جس کے تحت چین دنیا کے مختلف خطوں میں امریکی سامراج کی جارحانہ پالیسیوں کے خلاف ’مزاحمت‘ کر رہا ہے۔ تاہم حقیقت اس سے کوسوں دور ہے۔ اگرچہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں اکثر ہی دونوں ایک دوسرے کے خلاف ووٹ دیتے رہتے ہیں مگر چین نے بہت سے عالمی تنازعات، جہاں امریکی مداخلت چینی کاروباری مفادات کے آڑے نہیں آتی، پر ”تحمل“ کا مظاہرہ ہی کیا ہے۔ البتہ سٹریٹیجک بنیادوں پر چین اور امریکہ کے تعلقات تضادات سے بھرے ہوئے ہیں۔ ایک طرف ان کے کئی مشترکہ سیاسی، معاشی اور سکیورٹی مفادات ہیں۔ دوسری طرف بحیرہ جنوبی چین میں علاقائی معاملات اور امریکہ کی جانب سے تائیوان کی فوجی اور سفارتی حمایت پر دنیا کی دو سب سے بڑی معاشی طاقتوں میں تنازعہ اپنی جگہ موجودہے لیکن منڈی اور معیشت پرسخت کنٹرول اورمغربی کارپوریٹ سرمائے پر حدبندیاں‘وہ بنیادی مسائل ہیں جس سے مغرب چینی حکومت سے نالاں ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں میں بیرونی سرمایہ کاری اور سرمائے کی حکمت عملیوں کے مسائل پران کے مفادات کا ٹکراﺅ ہوتا ہے۔ اگرچہ چین امریکہ کو قرضہ دینے والے ممالک میں سرفہرست ہے اور اسی طرح خود امریکی سرمایہ دار بھی ہمیں چین کے مرہون منت نظر آتے ہیں۔ چین میں انہوں نے مینوفیکچرنگ میں وسیع سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ امریکی کمپنیوں نے مختلف معاہدوں کے ذریعے 20,000 ایکویٹی جوائنٹ وینچرز، کنٹریکٹ جوائنٹ وینچرز اور مکمل بیرونی ملکیت کے حامل کاروبار قائم کیے ہیں۔ سو سے زائد امریکی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے چین میں پروجیکٹس ہیں جن میں بعض کی متعدد جگہوں پر سرمایہ کاری موجود ہے۔ ایسے میں دونوں ممالک کا مقصد اپنے اپنے سرمایہ دارانہ عزائم حاصل کر کے اس نظام کو جلا بخشنا ہی ہے۔
اگر معاشی اعتبار سے دیکھا جائے تو 2010ءکے بعد چینی معیشت کی سست روی کی وجہ سے چین نے خود بے دریغ قرضوں کا سہارا لیا ہے جو اب جی ڈی پی کے 255 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ حالیہ عرصے میں چین کی اس ’ببل اکانومی ‘کو شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ اندرونی خلفشار بڑھ رہا ہے اور اس کی دوسرے ممالک پر سامراجی یلغار کی منصوبہ بندی بھی اب ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ ہانگ کانگ کے واقعات سب کے سامنے ہیں۔ میڈیا پر ریاستی کنٹرول کی وجہ سے اندرونی مسائل کی خبریں اکثر نشر نہیں ہوپاتیں مگر عوام میں ہلچل اور طبقاتی کشمکش میڈیا کو دبانے سے نہیں دب سکتی۔ ہنڈا ورکرز کی طرز کی جدوجہد آج چین کی متعدد فیکٹریوں میں جاری ہے جو آنے والے دنوں میں دھماکہ خیز واقعات کو جنم دے سکتی ہے۔
اسی طرح امریکی سامراج بھی اپنی تاریخی زوال پذیری کا شکار ہے۔ افغانستان اور عراق میں شکستوں نے امریکی عسکری پالیسی سازوں کے حوصلہ پست کردیئے ہیں۔ ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کے بعد امریکی سامراج کے تضادات مزید شدت اختیار کر گئے ہیں۔ ٹرمپ کئی طرح کے الزامات اور سکینڈلوں کی زد میں ہے۔ اُس کی حرکتوں کی وجہ سے امریکی ریاست کے سنجیدہ پالیسی ساز روزِ اول سے اُس سے بیزار رہے ہیں۔ سب سے بڑھ کر اُس پر امریکہ کے دیوہیکل ’ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس‘ کا دباﺅ ہے جس کے منافعوں کے لئے کسی قسم کا امن و استحکام زہر قاتل ہے۔ دوسری طرف کچھ جزوی اور سطحی معاشی بحالی کے باوجود ٹرمپ بڑے پیمانے پر روزگار پیدا کرنے، امریکی صنعت کو بحال کرنے اور ”امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے“ کے جن نعروں کے ساتھ برسر اقتدار آیا تھا‘ انہیں پورا کرنا امریکی سرمایہ داری کے بحران کے پیش نظر ممکن نہیں ہے۔ امریکی محنت کشوں اور نوجوانوں میں شدید اضطراب موجود ہے۔ مغربی ورجینیا، اوکلوہاما اور کینٹکی میں اساتذہ کی کامیاب ہڑتال، تعلیمی اداروں میں ’شوٹنگ‘ کے مسلسل واقعات کے خلاف نوجوانوں کے مظاہرے، ٹرمپ کی وحشیانہ امیگریشن پالیسیوں کے خلاف مزاحمت اور جنسی ہراسانی کے خلاف بننے والی تحریکوں سے امریکی سماج میں موجود غیض و غضب کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اِن حالات میں ٹرمپ کی آئے روزاشتعال انگیزیاں اور من مانیاں نئی عوامی تحریکوں کو مشتعل کر سکتی ہیں‘ جس کا اندازہ امریکی حکمران طبقات کے سنجیدہ نمائندوں کو بھی ہے۔ آئندہ انتخابات میں برنی سینڈرز کی مہم کئی نئے سوالات کھڑے کرے گی جس سے آنے والی امریکی حکومت کی دشواریوں میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔
لاطینی امریکہ
ایک طویل خاموشی کے بعد لاطینی امریکہ کی موجودہ صورتحال کی بدولت یہ خطہ ایک بار پھر سرخیوں کی زینت بنا ہوا ہے۔ وینزویلا اور بولیویا میں سامراجی یلغار نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ جہاں وینزویلا میں انقلاب کو نامکمل چھوڑ دینے کے نتائج سوشلسٹ پارٹی کوبھگتنے پڑ رہے ہیں وہیں پورا خطہ عدم استحکام سے دوچار نظر آتا ہے۔ بولیویا میں پیدا ہوئی حالیہ صورتحال بھی فرانسیسی انقلابی سینٹ جسٹ کے ان الفاظ کو سچ ثابت کرتی ہے کہ جو ادھورا انقلاب کرتے ہیں وہ اپنی قبر خود کھودتے ہیں۔ نومبر میں ملک کی رجعتی قوتوں کی ایما پر ایوا مورالس کے خلاف کیا جانے والا کُو عوام کے سامنے ایک سنگین چیلنج بن کر ابھر آیا ہے۔ مورالس کی پارٹی کا پروگرام بنیادی طور پر سرمایہ داری کو مکمل طور پر اکھاڑ پھینکنے میں ناکام رہا ہے۔ یہاں تک کہ لاطینی امریکہ کے دیگر ممالک میں کی گئی اصلاحات کے مقابلے میں بھی اس کی معاشی ترقی سست روی کا شکارہے۔ انہی بنیادوں کو جوا زبنا کر سامراجی قوتیں یہاں قائم ترقی پسند حکومتوں کا تختہ الٹنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اسی قسم کی صورتحال ہمیں وینزویلا میں بھی نظر آئی تھی جہاں مادورو کے خلاف سامراجی ایما پر حکومت مخالف مظاہروں کو جلا بخشی گئی۔ پورے لاطینی امریکہ میں رونما ہونے والے واقعات آج یہاں عوامی شعور کو تیزی سے جھنجوڑ رہے ہیں اور جب کبھی بھی سامراجی قوتوں کی جانب سے یہاں بائیں بازو کی حکومتوں کے تختے الٹنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے عوام نے انقلابی قوتوں کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔ اگر تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو لاطینی امریکہ کے تمام ممالک میں ایک وصف مشترک ہے کہ ان میں واقعات نہایت تیزی سے وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ ہر تحریک انتہائی تیزرفتار کے ساتھ دوسری تحریک کے لئے شکتی کا باعث بنتی رہی ہے۔ آج چلی، کولمبیا، برازیل، ارجنٹینا اور بولیویا میں جاری مظاہرے واضح کرتے ہیں پورا خطہ انقلابی شعلوں کی حدت سے تپ رہا ہے۔
مشرقی وسطیٰ
مشرقی وسطیٰ پر سامراجی یلغار کو اب دو دہائیاں مکمل ہونے کو ہیں۔ نام نہاد ’امن‘ کا شاید ہی ایسا کوئی دور تاریخ میں ملتا ہو جہاں اس قدر قتل و غارت گری عوامی مقدر بنے ہوں۔ دہشت گردی کے خلاف جس جنگ کا آغاز کیا گیا تھا وہ ایک بدترین شکست کی صورت میں سامراجیت کے منہ پر تماچہ ہے۔ خطے کی کئی ریاستوں کو برباد کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف اس نام نہاد سامراجی جنگ کے حوالے سے براون یونیورسٹی کے ویٹسن انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اینڈ پبلک آفیئرز کی جانب سے ’جنگ کی قیمت‘ کے نام سے ایک رپورٹ شائع کی گئی ہے۔ جس کے مطابق 2001ءسے 2020ءامریکی سامراج کی جانب سے اپنی جنگی پالیسوں پر 6.4 ٹریلین ڈالر خرچ کیے گئے ہیں۔ اس رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ امریکی فوج کی جانب سے دنیا کی 39 فیصد اقوام کے خلاف کسی نہ کسی صورت مداخلت موجود ہے جہاں بری طرح انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ ریسرچرز کے مطابق 2001ءکے بعد سے اب تک عراق، افغانستان اور پاکستان میں 4 لاکھ 80 ہزار سے 5 لاکھ 7 ہزار کے لگ بھگ لوگوں کا قتل عام کیا گیا جبکہ 2011ءکے بعد صرف شام میں پیدا ہوئی صورتحال و خانہ جنگی میں اب تک 5 لاکھ بے گناہوں کو بے دردی سے قتل کیا جاچکا ہے۔ امریکی سامراج کی ان پالیسیوں نے نہ صرف خطے کے امن کو تاراج کیا بلکہ یہاں آنے والی نسلوں کو بربادی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ اب جو امن کانیا ڈھونگ رچایا جارہا ہے اس سے خطے میں مزید خلفشار پیدا ہورہا ہے۔ امریکی سامراج کے یہاں سے لوٹ جانے کی خبروں سے ہی سعودی عرب، ترکی، قطر، روس اور مختلف علاقائی سامراجی قوتوں کے منہ میں پانی آ گیا ہے۔ یہ قوتیں اس خونی کھیل میں شریک ہوکر یہاں مزید بربادی پھیلانے کی تیار ی کررہی ہیں۔ ترکی کے کردوں پر حملے نے نئی خونریزی کو جنم دیا ہے۔ دوسری جانب سعودی عرب کی یمن میں مسلسل یلغار اُس کی وحشیانہ طاقت کا پرچار ہے۔
شام میں فی الوقت داعش کے خاتمے اور قیام امن کی باتیں ہورہی ہیں۔ بشارالاسد کی حکومت کی پوزیشن خاصی مستحکم ہو چکی ہے اور ملک کا بڑا حصہ جہادی گروہوں سے خالی کروا لیا گیا ہے۔ لیکن ’معمول‘ کی زندگی کی طرف واپسی اتنی آسان نہیں ہے جتنا تاثر دیا جا رہا ہے۔ سامراجی قوتوں کی مداخلت اور کھینچا تانی جاری رہے گی۔ جتنے بڑے پیمانے کی بربادی شام میں ہوئی ہے اس کی تعمیر نو سرمایہ داری کے تحت کم و بیش ناممکن ہے۔ آبادیوں کی آبادیاں تاراج ہو گئی ہیں۔ شہر کے شہر ملبے کے ڈھیر بن گئے ہیں۔ علاوہ ازیں بنیاد پرستی اور مذہبی جنونی گروہوں کی بنیادیں اِس بحران زدہ نظام میں پیوست ہیں اور محض عسکری طریقوں سے اِس ناسور کا خاتمہ نہیں کیا جا سکتا۔ ان جہادی گروہوں کی اپنی مخصوص طرز کی معیشت اور مالی مفادات ہیں۔ اِنہی سامراجی قوتوں نے ان گروہوں کو پیدا کیا ہے اور پھر کنٹرول سے باہر نکل جانے کی صورت میں انہی کے خلاف لڑائی کا ڈھونگ رچا یاجاتا ہے۔
مگر دو دہائیوں سے جاری اس خطے میں سامراجی جارحیت، قبضہ گیری اور بربادی کے بعد آج سماج میں عوامی مظاہروں کی ایک نئی لہر ابھر رہی ہے۔ سامراجی جنگ اور بنیاد پرستانہ دہشت کے ملبے سے ایک نئی طبقاتی جدوجہد کا آغاز ہورہا ہے جس نے سامراجی سرپرستی میں پروان چڑھائی گئی مذہبی اور قومی منافرتوں کو چیر دیاہے۔ عراق ہو‘ ایران یا پھر لبنان ہر طرف عوامی مظاہروں کی ایک نئی لہر نے خطے میں سامراجی دم چھلہ حکومتوں کو للکارتے ہوئے مہنگائی اور بیرورزگاری کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ طبقاتی بنیادوں پر ہونے والی موجودہ سرکشی دہائیوں تک برباد کرنے والی سامراجی خونریزی کی فضا میں ایک امید کی کرن ہے۔
افغانستان
افغانستان میں پہلے مجاہدین اور پھر طالبان کا معاملہ بھی اسی نوعیت کا ہے۔ گزشتہ اٹھارہ سالوں سے جس نام نہاد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کو یہاں جاری رکھا ہوا ہے اس نے طالبان کو کمزور کرنے کی بجائے مزید طاقت ہی دی ہے۔ آج امریکہ کی کٹھ پتلی افغان حکومت کا اثر و رسوخ چند بڑے شہروں تک محدود ہے۔ اس جنگ میں امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں نے اربوں ڈالر کے منافعے حاصل کئے ہیں جبکہ امن ان علاقوں میں دیوانے کا خواب محسوس ہوتا ہے۔ اب تک طالبان کے ساتھ لڑائی میں تیس ہزار افغان فوجی ہلاک ہوچکے ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 2017ءکے ابتدائی نو ماہ میں ملک میں ساڑھے آٹھ ہزار شہری ہلاک اور زخمی ہوئے تھے۔ ان میں سے اکثریت شدت پسندوں کے حملوں کا نشانہ بنی جبکہ کئی افراد افغان فوج کی امریکی مدد سے کی جانے والی زمینی کارروائیوں میں بھی مارے گئے۔ امریکہ اس وقت افغانستان سے نکل سکتا ہے نہ وہاں رہنے کے قابل ہے۔ کبھی مذاکرات کیے جاتے ہیں تو کبھی پھر جنگ شروع کر دی جاتی ہے۔ وقت نے ثابت کیا ہے کہ اس نظام میں افغانستان میں کوئی استحکام اور امن نہیں آ سکتا۔
ہندوستان
ہندوستان میں شہریت ترمیمی بل اور این آر سی کے خلاف احتجاجوں نے سرکشی کی نئی تاریخ رقم کردی ہے۔ پورے بھار ت میں آج مودی سرکار کے خلاف عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر سڑکوں پر امڈ آیا ہے اور اس نے مودی سرکار کی نیندیں حرام کردیں ہیں۔ کشمیر میں مظالم کے سلسلے اور آسام میں لاکھوں لوگوں کو بے دخل کرنے کے بعد طاقت کے نشے میں مودی سرکار اس قدر چُور ہوچکی تھی کہ سماج میں پلنے والی نفرت کا اندازہ انہیں نہیں ہورہا تھا۔ ایسے میں انہیں لگ رہا تھا کہ نیا شہریت قانون آسانی سے نافذ کروایا جاسکے گا۔ مگر اس بل کے خلاف آواز درحقیقت اس پوری سرکار کے خلاف ایک آواز میں تبدیل ہو رہی ہے۔ ممبئی، دہلی، احمدآباد، لکھنو، حیدرآباد، بنگلوراور چنائی سمیت ہندوستان کے کئی چھوٹے بڑے شہروں میں یہ تحریک جاری ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جے این یو کی طلبہ تحریک آخر کار پورے بھارتی سماج میں پھیل گئی ہے۔ خاص طور پر نوجوان نسل نے مذہبی تقسیموں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے طبقاتی جڑت کی ایک نئی مثال قائم کی ہے۔ واقعات کو تسلسل میں دیکھا جائے تو گزشتہ کئی سالوں سے شدید بے چینی اور اضطراب موجود تھا جو کھل کر اپنا اظہار نہیں کرپا رہا تھا اور درست سمت بھی طے کرنے سے قاصر تھا۔ مگر اب لوگوں کو ایک واضح منزل نظر آ رہی ہے۔ مظاہروں اور جلسوں میں لگنے والے آزادی کے نعرے بھگت سنگھ کی جدوجہد کی یاد تازہ کررہے ہیں۔
اس تحریک کو اپنی پہلی کامیابی جھارکنڈ کے انتخابات میں بی جے پی کو ہوئی بدترین شکست سے حاصل ہوچکی ہے۔ اس شکست نے مودی سرکار اور اس کے ’ہندوتوا‘ کے بیانیے کو مٹی میں ملا کر رکھ دیا ہے۔ یہ بھارت کا وہ علاقہ ہے جہاں گزشتہ چند سالوں میں سب سے زیادہ لوگوں کو آر ایس ایس کے غنڈوں نے قتل کیا۔ گائے کاٹنے کے الزام سے لے کر ہر چھوٹی بڑی ”غلطی“ پر لوگوں کو چوراہوں پر قتل کرنا یہاں معمول بنتا جارہا تھا۔ مگر حالیہ انتخابات میں عوام نے اس قسم کے رجحانات کو رد کرتے ہوئے اپنی رائے کا اکثریت سے اظہار کیا ہے۔ جھارکنڈ کے ریاستی انتخابات میں جارکھنڈ مکتی مورچا، کانگریس اور راشتریا جنتا دل کے الائنس نے اسمبلی کی کل 81 میں سے 47 نشستیں جیتی ہیں جبکہ بی جے پی کے کھاتے میں محض پچیس سیٹیں آسکیں۔ گزشتہ مئی سے لے کر اب تک بی جی پی کو یہ دوسری ریاستی انتخابات میں شکست ہے جوکہ عوامی غم و غصے کا اظہار کر رہی ہے۔
مودی سرکار کے تمام تر جھوٹے وعدے آج خاک میں مل چکے ہیں۔ معاشی ترقی اب مسلسل گراوٹ میں تبدیل ہوچکی ہے۔ پہلے سے معاشی طور پہ مفلوج عوام آج مزید غربت کی انتہاوں کو چھو رہے ہیں۔ اگر اعداوشمار کے حوالے سے دیکھا جائے تو ہندوستان میں نا برابری دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ ’نیو ورلڈ ویلتھ‘ کے مطابق دولت مند افراد ملک کی 54 فیصد دولت کو کنٹرول کرتے ہیں جبکہ غربت میں اضافہ ہوئے جا رہا ہے اور شدید غربت کے شکار افراد کی تعداد 77 کروڑ سے بڑھ کر 83.6 کروڑ ہو گئی ہے۔ یونیسکو کے مطابق 50 فیصد ہندوستانیوں کے پاس سر چھپانے کی مناسب جگہ نہیں، 70 فیصد مناسب ٹائلٹ سے محروم ہیں (جس سے کئی بیماریاں جنم لیتی ہیں)، 65 فیصد گھروں کے قریب پانی کا ذریعہ نہیں اور 85 فیصد دیہات میں سیکنڈری سکول نہیں ہے۔ 40 فیصدعلاقوں تک سڑک ہی نہیں جاتی۔
اس تمام تر صورتحال میں یہاں سالوں سے برباد ہوتی محنت کش عوام کے پاس سوائے جدوجہد کے اور کوئی چارہ نہیں بچتا۔ ’CAA ‘ اور ’NRC ‘کے خلاف اس تحریک کو طبقاتی بنیادوں پر جوڑتے ہوئے انقلابی نوجوانوں اور محنت کشوں کو اپنے تاریخی فریضے کو سرانجام دینا ہوگا۔ رواں تحریکوں نے تمام تر اپوزیشن پارٹیوں کو رد کردیا ہے۔ آنے والا سال بھارتی سماج کے لئے مزید دھماکہ خیز سال ثابت ہوسکتا ہے۔ حالیہ تحریک میں محنت کشوں کی یونینز نے بھی شمولیت کا اعلان کیا ہے۔ ایسے میں کئی بڑے واقعات افق پر نمودار ہوسکتے ہیں۔ محنت کش طبقہ اور اس کی تحریکیں نظام کی تبدیلی کے لئے متحرک ہو رہی ہیں۔ مارکسزم کے نظریات اور انقلابی سوشلزم کا پروگرام ہی انہیں سوشلسٹ فتح سے ہمکنار کر سکتا ہے۔
نیا سال نیا عزم
تاریخ، وقت، حالات، کیفیات، سوچیں، شعور اور انسان ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے۔ معاشرہ مسلسل ارتقا اورتغیر کا شکار رہتا ہے۔ ہر طبقاتی معاشرے میں طبقاتی کشمکش موجود ہوتی ہے۔ عام حالات میں یہ پسپائی کا شکار ہوکردب ضرور جاتی ہے‘ مرنہیں سکتی۔ وہ لاوا جو پک رہا ہوتا ہے کبھی نہ کبھی آتش فشاں بن کر پھٹ پڑتا ہے۔ لیکن سماج کے رگ و پے میں جو تغیر کا عمل جاری ہوتا ہے وہ عام طور پہ محسوس نہیں ہو رہا ہوتا۔ بیشتر زمانے کو اس کا احساس تب ہوتا ہے جب ایک معیاری تبدیلی صورتحال کو یکسر بدل دیتی ہے۔ آج دنیا بھر میں رونما ہوئی صورتحال اسی پکتے آتش فشاں کا اظہار کر رہی ہے جو پھٹنے کو بے چین ہے۔ سماجی بے چینی اب بغاوت میں تبدیل ہورہی ہے۔ ہر قسم کے ماضی کے تعصبات کو نوجوان نسل جھٹک کر طبقاتی جدوجہد کے نعروں پر خود کو منظم کر رہی ہے۔ لیکن یہاں سوال قیادت کا ہے جس کا انقلابی پارٹی کے ڈسپلن میں منظم ہونا اور سوشلسٹ انقلاب کی سچائی اور فتح پر غیر متزلزل یقین ہونا لازم ہے۔