ظفر اللہ

دنیا کے مختلف خطوں میں محنت کشوں کی حالیہ ابھرنے والی بغاوتوں اور تحریکوں نے ایک مرتبہ پھر ثابت کر دیا ہے کہ محنت کی طاقت کتنی لازوال ہے۔ ہانگ کانگ سے لے کر لبنان تک ابھرنے والی تحریکوں نے بیشتر جگہوں پہ حکمران طبقات کو شرمناک پسپائی پر مجبور کیا ہے۔ چِلی میں دس لاکھ لوگوں کے عظیم الشان مظاہرے نے ریاستی مشینری کو بے بس کر کے رکھ دیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ تمام تحریکیں محنت کش عوام کی روز مرہ زندگی پر ہونے والے سرمایہ دارانہ معاشی حملوں کے خلاف ابھری ہیں جو عوام کے بڑھتے سیاسی شعور کی غمازی کرتی ہیں۔ انقلابی رجحانات کی مداخلت اس تمام منظر نامے کو یکسر بدل سکتی ہے۔

پچھلے عرصے میں دائیں بازو کے پاپولزم کا مظہر بھی بیشتر ممالک میں نظر آیا ہے۔ امریکہ میں ٹرمپ، ہندوستان میں مودی، تْرکی میں اردگان، برازیل میں بولسنارو اور پاکستان میں عمران خان اس کی مثالیں ہیں۔ لیکن دائیں اور بائیں بازو کے پاپولزم کی اپنی محدودیت ہوتی ہے‘ خاص طور پر سرمایہ داری کی اس عالمی زوال پذیری کی کیفیت میں جس میں حکمران طبقہ عوام کو ایک بہتر معیار زندگی دینے کی صلاحیت کھو چکا ہے۔ عوام کی سماج کو بدلنے کی عظیم الشان توانائیاں بھاپ بن کر اْڑ رہی ہیں۔ لیکن لوگ سیکھ بھی رہے ہیں اور عظیم الشان انقلابی واقعات مختلف خطوں میں معیاری طور پر اپنا اظہار کر سکتے ہیں۔

سرمایہ داری کی کمزور کیفیت نے کئی ملکوں میں سیاسی بھونچال برپا کیا ہوا ہے۔ پرانے اتحاد ٹوٹ کر بکھر رہے ہیں اور نئے تضادات جنم لے رہے ہیں۔ امریکہ اور چین کی تجارتی جنگ اس آگ کو مزید بھڑکا رہی ہے اور حکمران شدید اضطراب میں مبتلا ہیں۔ پاکستان کا حکمران طبقہ اس حقیقت کا واضح اظہار کر رہا ہے کہ وہ تاریخی طور پر کتنا کمزور، لاغراور خصی ہے۔عمران خان کے حالیہ امریکی دورے کی جھلکیاں دیکھیں تو ایک بے بس اور سامراج کے کاسہ لیس حکمران طبقے کا مجسم اظہار دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس کے کچھ ہی دنوں بعد کشمیر کے مسئلے پر مودی کے اقدامات نے پاکستانی حکمرانوں کی کشمیر کی 72 سالہ سفارتکاری کو پرزے پرزے کر دیا اور پاکستانی پالیسی سازوں کو بند گلی میں دھکیل دیا ہے۔ مسئلہ کشمیر پر دونوں طرف کے حکمرانوں کی ملی بھگت کی سازشی تھیوریوں (جن میں کچھ سچائی یقینا موجود ہے) سے اگر ایک لمحے کے لئے صرفِ نظر کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ کمزور معاشی صورتحال نے انہیں جارحانہ اور خطرناک اقدامات پر مجبور کر دیا ہے۔ آنے والے دنوں میں پاکستان کی طرف سے مایوسی کے عالم میں کسی مہم جوئی کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح بھارتی معیشت بھی جوں جوں مزید تنزلی کا شکار ہو گی‘ مودی سرکار مسئلہ کشمیر کو مزید بھڑکائے گی اور ہندوستانی سماج میں جنگی جنون اور مذہبی منافرت کو ہوا دے گی۔

در اصل یہ دونوں ریاستیں آزاد اور خوشحال معاشرے تعمیر کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ سامراجیت کے عہد میں ان مصنوعی اور پسماندہ ریاستوں کا جدید معیشتوں اور ریاستوں کے ہم پلہ ہونا ایک ناممکن بات تھی۔ جیسے نوبل انعام یافتہ معیشت دان پال کرگمین نے کہا تھا کہ ”پیداواریت (Productivity) سب کچھ نہیں ہوتی لیکن آخری تجزئیے میں پیداواریت ہی سب کچھ ہوتی ہے۔“ یہاں ٹراٹسکی کے نظریہ مسلسل انقلاب نے اپنے آپ کو ایک ناقابل تردید حقیقت کے طور پر ثابت کیا ہے۔ پاکستان ایک بدترین معاشی اور سیاسی زوال پذیری کا شکار ہے اور اس میں مزید اضافہ ہوگا۔ یہاں کی بورژوازی کے ریاست پر انحصار اور پھر اس کے اداروں کے ساتھ اختلافات کی گہری تاریخی وجوہات ہیں۔ بالخصوص افغان جہاد کے بعد پاکستانی معیشت کی بنیادوں میں گہری تبدیلی رونما ہونے سے یہ تضاد ناقابل حل شکل اختیار کر گیا ہے۔ یہاں کی نام نہاد کلاسیکی بورژوازی کے نمائندے نواز شریف کی ریاست کے ساتھ مخاصمت کچھ عرصہ پہلے جہاں اپنے عروج کو پہنچی وہیں ریاستی پالیسی سازوں سے ایک فاش غلطی بھی سرزد ہوئی۔ عمران خان ٹولے شکل میں نودولتیوں اور نووارد سرمایہ داروں کے نمائندوں پر جوا کھیلنے کے اس عمل نے نظام کے بحران کو زیادہ شدید کر دیا ہے۔ اس سے اسٹیبلشمنٹ کا رہا سہا اعتماد اور جڑت بھی ختم ہو گئی ہے۔

معاملات کو کمرشل اور سوشل میڈیا کے اس دور میں اس بھونڈے طریقے سے انجینئر کرنے کی کوشش کی گئی کہ وہ ادارے جو بالعموم پس پردہ رہتے ہیں یا جن کے ’نیوٹرل‘ ہونے کا تاثر دیا جاتا ہے، بہت بری طرح ایکسپوز ہوگئے ہیں۔ یہ بات ریاست کے سنجیدہ نمائندوں اور پالیسی سازوں کے لئے تشویشناک بھی ہے۔ صدیوں سے موجود ریاستی تنظیم کا بنیادی مقصد یہی ہوتا ہے کہ اس کی حقیقت عوام کے سامنے آشکار نہ ہو۔ محلاتی سازشیں ہوتی ہیں، اقتدار بدلتے ہیں۔لیکن ریاست سماج پر اپنی گرفت ایک دبدبے اور تقدس کے زور پہ قائم رکھتی ہے۔ لیکن جب ریاستی اداروں کی وارداتیں اس قدر سرِ عام ہو جائیں تو پھر ان کا دبدبہ اور تقدس بھی ٹوٹنے لگتا ہے۔ جس سے پھر ہمیں بجلی کی طرح کوندتی ہوئی کچھ تحریکیں بھی نظر آتی ہیں جنہوں نے ریاست کے ایسے حصوں کو چوٹ لگائی ہے جس کا ماضی میں گمان بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ لیکن ان تحریکوں کی محدودیت اور بالخصوص محنت کش عوام کی کسی بڑی تحریک میں عدم شمولیت ایسے حالات پر منتج ہوئی جیسے سمندر کی لہریں ساحلی چٹانوں سے ٹکرا کر واپس سمندر میں غرق ہو جاتی ہیں۔

موجودہ حکومت کی چھاتی پر جو تمغے سجے ہیں وہ تاریخ میں اپنی مثال آپ ہیں۔ اتنی تیزی سے شاید ہی کوئی حکومت غیر مقبول ہوئی ہو گی۔ معیشت کو دیکھیں تو تاریخی طور پہ کم ترین شرح ترقی، بلند ترین مہنگائی (افراط زر) اور صنعت کا ہر شعبہ زوال پذیر نظر آتا ہے۔ 2019ء میں 3.3 فیصد شرح ترقی ریکارڈ کی گئی جو کہ2018ء سے 2.2 فیصد کم ہے۔ حقیقی اعدادو شمار اس سے کہیں زیادہ خراب ہیں۔جاری مالی سال میں شرح ترقی صرف 2.4 فیصد رہے گی۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق مہنگائی میں 2023ء تک مزید اضافہ اور شر ح ترقی میں مزید گراوٹ آئے گی اور اس کے بعد حالات کچھ نارمل ہونے کی طرف جا سکتے ہیں بشرطیکہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں اور شرح سود میں مزید تبدیلی نہ ہو۔ اس حکومت نے شرح سود میں 5.5 فیصد اضافہ کر کے اور کرنسی کی قیمت کو 25 فیصد تک گرا کے معیشت پر ایک طرح کا ایٹمی حملہ کیا ہے۔ جس کا سارا بوجھ غریب عوام کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے نے لوگوں کی قوت خرید پر کاری ضرب لگائی ہے جو جی ڈی پی میں مزید گراوٹ کا باعث ہے۔ معیشت کو مستحکم کرنے کی پالیسیوں نے وسیع تر عوام کومعاشی سائیکل سے ہی باہر کر دیا ہے۔ سرمایہ کاری میں کمی(شرح سود میں اضافے کی وجہ سے) سے بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔

معاشی اصلاحات اور ٹیکس ریفارمز کی پالیسیوں نے معاشی سرگرمیوں کو مزید محدود کیا ہے۔ جس کی وجہ سے کالی معیشت کے بل بوتے پر جو سفید معیشت چلتی تھی اس کا پہیہ رک گیا ہے۔ کالی معیشت کو دستاویزی بنانے کی کوشش نے مشکل سے قائم اس توازن کو بری طرح خراب کر دیا ہے۔ عام لوگوں کے نفسیاتی ہیجان میں اضافہ ہوا ہے جس سے ان کا اس معیشت پر اعتماد مزید کمزور ہوا ہے۔ لوگ جائز آمدنی سے بھی خرید و فروخت کرنے اور بینکوں میں رقوم رکھنے سے گھبرا رہے ہیں اور کوئی بھی معیشت اسی اعتماد پر چلتی ہے جس کے بل بوتے پر لوگ سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ سیاست کی حالت یہ ہے کہ خود وزیر اعظم عمران خان کو بار بار کہنا پڑتا ہے کہ فوج میرے ساتھ ہے۔ در اصل آئی ایم ایف کی پالیسیوں کو مکمل طور پر لاگو کرنے (جس کے نتیجے میں عوام کے غم و غصے میں ابال آسکتا ہے) ریاست کا سہارا ضروری ہے۔ یہ بات بنیادی طور پر عمران خان کے خود پر اعتماد کی بجائے عدم اعتماد کی غمازی کرتی ہے۔ جنرل باجوہ خود معاشی سلامتی کونسل کے ممبر ہیں۔ آئی ایم ایف کا ایک نمائندہ گورنر اسٹیٹ بینک اور دوسرا وزیر خزانہ ہے۔ لیکن معاملات پھر بھی خراب ہیں۔

موجودہ گورنر اسٹیٹ بینک نے جس جارحانہ انداز میں روپے کی قدر میں کمی کی ہے اس کے بھیانک اثرات اس معیشت پر طویل عرصے تک پڑتے رہیں گے۔ اس سے برآمدات میں اضافہ بھی نہیں ہوا‘ اُلٹا بیرونی قرضے بے تحاشہ بڑھ گئے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت کا گراف جتنی تیزی سے نیچے آیا ہے اس کی بھی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ معیشت کے گہرے مسائل اور بحرانات شخصی کرشموں سے حل ہونے والے نہیں۔ مسئلہ گورننس کا کم اور نظام کے نامیاتی بحران کا زیادہ ہے۔ کرپشن کو ختم کرنے کے اعلانات اور وعدوں نے کرپشن کا ریٹ بڑھا دیا ہے۔ وزرا آخری اقتدار سمجھ کر لوٹ مار کر رہے ہیں کیونکہ وہ بھی جانتے ہیں کہ اگلی باری مشکل ہے۔ وزیر اعظم کو خود کہنا پڑا کہ مجھے ٹیم اچھی نہیں ملی۔ ایسی مایوس کن صورتحال نے جہاں عوام کا اعتماد حکومت پر کم ترین سطح پر لا کھڑا کیا ہے وہاں مولانا فضل الرحمان جیسے شاطر سیاستدانوں کو موقع فراہم کیا ہے کہ وہ عوام کی بے چینی اور مایوسی کو استعمال کرتے ہوئے ان کا رخ ایک لاحاصل جدوجہد کی طرف موڑ دیں۔

بعض اطلاعات کے مطابق مولوی فضل الرحمان کا یہ آزادی مارچ مقتدر حلقوں کی آشیر باد سے ممکن ہوا ہے جس کے امکانات کم ہیں۔ یہ ہو سکتا ہے کہ تضادات سے بھر پور ریاست کے کئی دھڑوں میں سے کسی ایک کی حمایت حاصل ہو۔ ن لیگ کے مختلف دھڑے بھی اس مارچ میں شمولیت پر اختلافات کا شکار ہیں اور پیپلز پارٹی کا موقف بھی بہت کنفیوژن پر مبنی ہے۔ نواز شریف فی الوقت تو اُسی طرح اپنے موقف پر قائم ہے لیکن ”ووٹ کو عزت دو“ کے فلاپ شو کے بعد کسی حد تک مایوس ہے۔ اگرچہ تحریک انصاف حکومت کی ناکامی کے بعد پیٹی بورژوازی میں نواز شریف کی حمایت مزید بڑھ گئی ہے۔ لیکن ایک تو یہ حمایت متحرک نہیں بلکہ مجہول ہے اور نواز شریف دھڑے کے اہم رہنماؤں (بالخصوص مریم) کے اندر ہونے کی وجہ سے بکھری ہوئی ہے۔ دوسرا ن لیگ خود دھڑے بندی اور تقسیم کا شکار ہے۔ لیکن نواز شریف کی صحت خاصی خراب ہے اور کسی حادثے کی صورت میں ایسے حالات جنم لے سکتے ہیں جو حکمرانوں کے قابو سے باہر ہوں۔ معاشرے کے اندر ایک لاوہ پک رہا ہے جو کسی غیر معمولی واقعے سے پھٹ سکتا ہے۔ ایسے امکانات ان حالات میں بہت بڑھ گئے ہیں۔

سودے بازی میں مولوی فضل الرحمان اور اس کی پشت پناہی کرنے والوں کا پلڑا کتنا بھاری رہتا ہے اس کا انحصار آخری تجزئیے میں میدان عمل میں طاقتوں کے توازن سے ہی ہو گا۔ مولانا نے اب تک خاصی بڑی تعداد میں اپنے پیروکاروں کو متحرک کیا ہے۔ کراچی، ملتان اور لاہور میں خاصے بڑے جلسے کیے ہیں۔ اگر اسلام آباد میں وہ غیر معمولی طور پہ بڑی تعداد میں لوگ جمع کرنے میں کامیاب رہتا ہے تو ساری صورتحال یکسر بدل سکتی ہے۔ موجودہ حکومتی اور ریاستی سیٹ اپ کے ڈھے جانے کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ لیکن ایسا یقینی بھی نہیں ہے۔ اگر حکومت اس دھرنے سے بازیاب ہو گئی تو زیادہ جارحانہ انداز میں عوام پر معاشی اور سماجی حملے کرے گی۔ دوسری طرف فضل الرحمان کوئی انقلابی یا ترقی پسند بھی نہیں ہے۔ اس کے دھرنے سے حکومت کے خاتمے کی صورت میں سماج پر رجعت مزید حاوی ہو گی۔ ایک بات بہرحال طے ہے کہ اس نظام میں کوئی بھی حکومت آ جائے‘ آئی ایم ایف کی عوام دشمن پالیسیاں جاری و ساری رہیں گی۔

لوگوں کی زندگیاں بہت تلخ ہیں۔ نچلا درمیانہ طبقہ بڑی تیزی سے مزید نیچے گرتا جا رہا ہے۔ ایک خوفناک سماجی اضطراب ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان پالیسیوں کے نتیجے میں لمبے عرصے میں میکرو اکنامک اعشاریئے کچھ بہتر ہو جائیں۔ لیکن اس سے بہت پہلے سماجی دھماکے بھی ہو سکتے ہیں۔ فضل الرحمان کے مارچ سے موجودہ حکومت کی بوکھلاہٹ اس چیز کی غمازی بھی کرتی ہے کہ حکمران جانتے ہیں کہ اس عمل میں عوام متحرک ہو سکتے ہیں۔ اگر موجودہ سیٹ اپ جاری رہتا ہے تو آنے والے دنوں میں وسیع نجکاری اور چھانٹیوں کے اقدامات ناگزیر ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ شعبہ صحت کے محنت کشوں کی موجودہ تحریک جیسی کئی نئی تحریکیں جنم لینے کے امکانات موجود ہیں۔ یہ تحریکیں ایک دوسرے سے جڑ کے زیادہ جارحانہ انداز بھی اختیار کر سکتی ہیں اور مہنگائی و بیروزگاری جیسے سلگتے مسائل کے خلاف ایک وسیع تر عوامی تحرک کے امکانات کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا ہے۔ بہر صورت موجودہ معمول کے زیادہ عرصہ جاری رہنے کے امکانات کم ہیں۔