لال خان

کامریڈ لال خان کا یہ مضمون پہلی بار 2019ء میں شائع کیا گیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی 41 ویں برسی کے موقع پر ہم اپنے قارئین کے لئے اسے دوبارہ شائع کر رہے ہیں۔

چالیس سال قبل آج کے روز اِس ملک کی تاریخ کا سب سے بہیمانہ عدالتی قتل کیا گیا۔ ضیا الحق کی خونی آمریت کے تحت دو مرتبہ منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا قتل نہ صرف اِس ملک بلکہ ہر طبقاتی معاشرے میں انصاف کے اصل کردار کو بے نقاب کرتا ہے۔ دہائیوں بعد اس واقعے کی بازگشت آج بھی سنائی دیتی ہے اور محنت کش عوام میں ایک غم و غصے کو مشتعل کرتی ہے۔ دوسری طرف ہر تاریخی واقعے کی طرح اِس قتل کو بھی مروجہ دانش اور فکر کے مختلف رجحانات کے نمائندے جس طرح اپنے طبقاتی مفادات اور مقاصد کے تحت پیش کرتے ہیں اس میں حقیقی پس منظر اور وجوہات کو چھپایا جاتا ہے۔

ہر شخصیت کی طرح بھٹو کی سیاسی زندگی اور نظریات کا ارتقا بھی کئی طرح کے داخلی تضادات کا شکار تھا۔ جب سماجی فہم گر جائے تو حکمرانوں کے لئے تاریخی عوامل کو ذاتی اچھائی برائی اور دوستی دشمنی تک محدود کر دینا بڑا آسان ہو جایا کرتا ہے۔ عام طور پر یہ باور کروایا جاتا ہے کہ تاریخ کے دھارے کا دارو مدار چند افراد پر ہی ہوا کرتا ہے۔ بڑی شخصیات کی صلاحیتوں اور عملداری کو بڑی مبالغہ آرائی سے پیش کیا جاتا ہے۔ یہ بالکل درست ہے کہ تاریخ میں فرد کے کردار کی اہمیت سے انکار کسی طور ممکن نہیں ہے۔ ایسے غیر معمولی لمحات آتے ہیں جب کسی فرد کا کردار فیصلہ کن اہمیت کا حامل ہو جاتا ہے۔ لیکن پھر ایسے وقت بھی آتے ہیں جب بڑی بڑی نامور اور دیوہیکل شخصیات بھی حالات کے رحم و کرم پر ہوتی ہیں۔ سب کچھ ’نیک‘ یا ’بد‘شخصیات کا مرہونِ منت نہیں ہوا کرتا۔ تاریخی عمل کی اپنی بھی ایک منطق ہوتی ہے جو ایسے واقعات کو جنم دیتی ہے جو انسانوں کی مرضی و منشا سے ماورا ہوتے ہیں۔ جب واقعات میں وقت، عہد، معروضی حالات، سماجی و معاشی کیفیات کے کردار کو فراموش کر دیا جائے تو تاریخ کی اِس منطق کو سمجھنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ اسی تناظر میں کارل مارکس نے لکھا تھا کہ ’’انسان اپنی تاریخ خود بناتے ہیں لیکن وہ ایسا اپنی من مرضی سے نہیں کرتے۔ وہ اپنی تاریخ خود سے چنے ہوئے حالات میں نہیں بلکہ اُن حالات میں بنا رہے ہوتے ہیں جو انہیں ماضی سے ورثے میں ملے ہوتے ہیں۔ ‘‘

ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی زندگی کو بالعموم تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلے دور میں وہ سکندر مرزا حکومت میں متعارف ہو کر اقتدار کا حصہ بنے۔ دوسرے دور میں ایوب خان سے بغاوت کی اور پھر پیپلز پارٹی کے ذریعے انقلابی سوشلزم کا پروگرام دے کر 1968-69ء کی تحریک کے مرکز و محور بنے۔ جبکہ تیسرا دور اقتدار میں آنے کے بعد والے بھٹو کا ہے جو بالخصوص بعد کے سالوں میں مصلحتوں کا شکار ہو کے دائیں جانب جھکتا چلا گیا اور پھر جیل کی کال کوٹھری میں اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی سیاسی زندگی کا سبق ’اگر مجھے قتل کیا گیا‘ میں یوں درج کیا: ’’میں اس آزمائش میں اس لئے مبتلا ہوں کہ میں نے متضاد مفادات رکھنے والے طبقات کے درمیان آبرومندانہ اور منصفانہ ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی تھی… اس فوجی بغاوت کا سبق یہ ہے کہ درمیانی راستہ، قابل قبول حل یا مصالحت محض یوٹو پیا (دیوانے کاخواب) ہے۔ فوجی بغاوت ظاہر کرتی ہے کہ طبقاتی کشمکش ناقابل مصالحت ہے اورا س کا نتیجہ ایک یا دوسرے طبقے کی فتح کی صورت میں ہی نکلے گا۔‘‘

جو لوگ تاریخ کی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھتے وہ ناگزیر طور پر انہیں دہراتے ہیں۔ بھٹو کے عدالتی قتل کا سب سے اہم سبق یہ ہے کہ استحصال پر قائم اس نظام کے اندر رہتے ہوئے استحصال زدہ طبقات کے حق میں اصلاحات کی کوشش کرنے والوں کا انجام خوشگوار نہیں ہوتا۔ ادھورا انقلاب کرنے والے اپنی قبر خود کھودتے ہیں۔ استحصالی طبقہ موقع ملتے ہی انہیں راستے سے ہٹا دیتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی نے 1968-69ء میں سوشلسٹ انقلاب کا نعرہ تو بلند کیا تھا لیکن اس انقلاب کو مکمل کرنے کا لائحہ عمل، طریقہ کار اور تنظیمی ڈھانچے موجود نہیں تھے۔ لیکن انقلابی تحریکیں نہ تو انفرادی خواہشات کے تابع ہوتی ہیں نہ ہی انقلابی پارٹیوں کی تعمیر کا انتظار کیا کرتی ہے۔ لینن کی پارٹی جیسی انقلابی تنظیم میسر نہ آئے تو ایسی شخصیات اور سیاسی رجحانات سیاسی خلا کو پر کرتے ہیں جو سماج کو بدلنے کی عوامی آرزو سے جزوی طور پر میل تو کھاتے ہیں لیکن اسے منطقی انجام تک پہنچانے کے قابل نہیں ہوتے۔ 1968۔69ء میں پیپلز پارٹی بھی ایسا ہی سیاسی مظہر تھا اور تیسری دنیا کے اس پسماندہ سماج کی نفسیاتی اور ثقافتی کیفیات، جو فرد کے کردار کو مبالغہ آرائی کی حد تک بڑھا دیتی ہیں، کے پیش نظر بھٹو اس کے تشخص کے طور پر نمودار ہوئے تھے۔ ایک ملک گیر انقلابی تحریک کے زور سے 1970ء میں پیپلز پارٹی کو اقتدار کی منتقلی ایک کڑوا گھونٹ تھا جو یہاں کی ریاستی اسٹیبلشمنٹ کو بھرنا پڑا۔ ان کے پاس کوئی دوسرا چارہ نہیں تھا۔ اس اقدام کا مقصد بحیثیت مجموعی پورے نظام کو بچانا تھا۔ بھٹو سمیت پیپلز پارٹی کے کئی رہنما ریڈیکل اصلاحات کے ذریعے عوام کی حالت زار میں بہتری چاہتے تھے۔ ان میں سے بیشتر بہت خلوص سے انقلابی اقدامات کے طور پر ان اصلاحات کو دیکھ رہے تھے۔ اصلاحات کی بھی گئیں۔ لیکن یہاں کا سرمایہ دارانہ نظام اتنا گلا سڑا تھا کہ اس میں رہتے ہوئے یہ انتہائی ریڈیکل اصلاحات بھی سماج کی وسیع اکثریت کو غربت، محرومی اورذلت کی دلدل سے نہیں نکال سکیں۔ اُلٹا کئی طرح کے نئے تضادات اور پیچیدگیوں نے جنم لیا۔ عوام مایوس اور پژمردہ ہونے لگے۔ ریاست جوں جوں سنبھلتی گئی، حکمران طبقے کے جبر کے اوزار کے طور پر اس کا حقیقی چہرہ سامنے آتا گیا۔ چند سالوں میں بھٹو عملی طور پر اس ریاست کی مشینری کا اسیر بن چکا تھا جسے سہارا دینے کی غلطی اُس نے کی تھی۔ اُس کے بونارٹسٹ طرز کے اقدامات اور لفاظی کے باوجود اب حقیقی فیصلہ ساز ریاستی مشینری ہی تھی۔ یہ بھی تاریخ کا سبق ہے کہ فیصلہ کن کردار ہمیشہ اُس ریاست کے ڈھانچوں کا ہی ہوتا ہے جس کی حدود و قیود میں سیاسی اقتدار قبول کیا جاتا ہے۔ پارٹی میں دائیں بازو کے رجحانات اور سرمایہ داری کے پالیسی ساز بھٹو کو یقین دلا رہے تھے حکومت کے دوام کے لئے نظام سے مصالحت ناگزیر ہے۔ بھٹو کو بھی غلط فہمی تھی کہ وہ یہ سہارا لے کر ایک ’توازن‘ قائم رکھتے ہوئے معاملات کو چلا سکتا ہے۔ کراچی میں محنت کشوں کا قتل، ریڈیکل ٹریڈ یونینوں پر جبر، بلوچستان میں فوجی آپریشن، پارٹی میں سے بائیں بازو کی تطہیر، قومی شاونزم کا استعمال اور ملاؤں کو خوش کرنے کے لئے سیاست اور ریاست میں مذہب کی آمیزش جیسے اقدامات کیساتھ وہ رفتہ رفتہ دائیں جانب سرکتا چلا گیا۔ اور آخر میں جب اُس نے مزاحمت کی کوشش کی تو بہت دیر ہو چکی تھی۔

اگر غور کیا جائے تو اس نظام کی حدود و قیود میں بھٹو کا اقتدار میں آنا ہی اس کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ باقی سب اِس مفلوج اقتدار کے تقاضے تھے۔ لیکن اگر تاریخ سے کسی نے سبق نہیں سیکھا تو وہ بینظیر سے لے کے آج تک‘ پیپلز پارٹی کی قیادتیں ہیں۔ جنہوں نے آج کی پیپلز پارٹی کو اس کے ماضی کی پرچھائی بنا کے رکھ دیا ہے۔ جن اقدامات کو آخری وقتوں میں بھٹو نے خود اپنی غلطی تسلیم کیا آج انہیں ہی کارنامہ بنا کر بھٹو کے کردار کو مسخ کیا جاتا ہے۔ جس طبقے نے بھٹو کا قتل کیا آج اسی کے بدعنوان اور رجعتی ترین نمائندے پارٹی پر مسلط ہیں۔ پارٹی کو ایک ٹولے کی بدعنوانی کا اوزار بنا کے رکھ دیا گیا ہے جس کی ’ایجی ٹیشن‘ کا دارومدار مقدمات اور پیشیوں کی آنچ پر ہے۔ لیکن جس طبقے نے پیپلز پارٹی کو جنم دیا اور پھر پے درپے کئی اقتدار دئیے وہ آج کہیں زیادہ محکوم، محروم اور بدحال ہے۔ پارٹیاں بنتی بکھرتی رہتی ہیں لیکن طبقاتی کشمکش جاری رہتی ہے۔ موجودہ ’تبدیلی‘سرکار نے مہنگائی، بیروزگاری اور نجکاری کی جو انتہا کر دی ہے وہ محنت کش عوام کے صبر کے پیمانے لبریز کر رہی ہے۔ اس دھرتی پہ صدیوں سے پسنے والی اَن گنت خلق کی بغاوت نوشتہ دیوار ہے جو اس نظام کو پاش پاش کرنے کے سیاسی اوزار بھی تخلیق کرے گی۔