لال خان

2011ء کے انقلابی طوفانوں نے بحراوقیانوس سے لیکر بحرہند تک شمالی افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ لیکن ان تحریکوں کے پسپا ہو کے بکھر جانے کی پاداش میں ابھرنے والی رجعت، دہشت گردی، سامراجی جارحیت اور قدیم تہذیبوں کو تاراج کرنے والی درندگی نے بڑے بڑے تجزیہ کاروں اور مفکروں کو مایوس اور بدظن کر دیا۔ اس خطے میں نسلی و مذہبی جنونیت، فرقہ وارانہ منافرتوں اور ریاستی جبر واستحصال کی بربادیوں کی خونریز تاریکی چھاگئی تھی۔ مذاکرات اور پراکسی جنگوں سے یہ مسائل اور عذاب کم ہونے کی بجائے مزید پیچیدہ اور سنگین ہوتے گئے۔ لیکن جہاں یہ تاریک خونریزی جاری تھی وہاں ظلم وجبر کی دیوہیکل طاقتوں کے خلاف کہیں نہ کہیں بغاوت کے علم بھی بلند ہوتے رہے۔ امریکی سفارت خانے کی یروشلم میں منتقلی اور ’یومِ نکبہ‘ (بربادیوں کا دن)، جو 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے بعد سے منایا جاتا ہے، کے موقع پر فلسطینی نوجوانوں کی انتہائی جرات مندانہ احتجاجی تحریک شروع ہوئی۔ یہ مظاہرے مارچ سے جاری ہیں جن پر اسرائیلی ریاست کے بہیمانہ جبر کے نتیجے میں سینکڑوں فلسطینیوں کی جانیں گئی ہیں اور ہزاروں زخمی ہوئے ہیں۔ صیہونی ریاست کی اس دہشت گردی اور بربریت کے خلاف ’’عالمی برادری‘‘ بشمول مغربی جمہوریتوں اور عرب حکمرانوں کی کوئی مذمت یا ٹھوس اقدامات سامنے نہیں آئے ہیں۔ ٹرمپ کی صدارت میں امریکی سامراج نے کھل کے اس صیہونی جبر اور درندگی کی حمایت کر دی ہے۔ لیکن عرب حکومتوں اور بادشاہتوں کی سردمہری اور اسرائیلی حاکمیت سے ملی بھگت بھی کھل کے سامنے آئی ہے۔ اس سے نہ صرف فلسطین میں بلکہ پورے خطے میں جو غم وغصہ سلگ رہا تھا وہ اب پھٹنے لگا ہے۔ مراکش، تیونس سمیت خطے کے کئی ممالک میں نوجوانون کی نئی بغاوت کے آثار نمایاں ہونے لگے ہیں۔

لیکن 6 جون کو اردن کے مزدوروں اور ٹریڈ یونین کے سرگرم کارکنان کی عام ہڑتال اتنی شدید تھی کہ پوری ریاست لرز کے رہ گئی۔ اس سے قبل 30 مئی کو اردن کے ہزاروں شہریوں نے محنت کشوں کو دی جانے والی معاشی رعایات میں کٹوتیوں اور عوام پر نئے ٹیکسوں کی بھرمار کے خلاف احتجاج شروع کیا تھا۔ اردن میں شاہ عبداللہ کی کٹھ پتلی حکومت کا سربراہ 2011ء سے وزیر اعظم حانی ملکی تھا۔ یکم جون کو عوام کے اِس طوفان سے گھبرا کے شاہ عبداللہ نے تیل اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ واپس لینے کا اعلان کردیا۔ لیکن لوگوں کے غیض و غضب کی شدت میں کمی آنے کی بجائے اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔ جب شاہ عبداللہ کو ناکامی منہ چڑانے لگی تو اس نے 4 جون کو ’ملکی‘ کو وزیر اعظم کے عہد ے سے برطرف کر دیا۔ اردن کا سیاسی بحران اتنا شدید ہے کہ 2011ء سے اب تک چھ وزرائے اعظم برطرف کیے جا چکے ہیں۔ لیکن اس برطرفی کے بعد 4 جون کو ہی عوام کا ایک جم غفیرگلیوں، سڑکوں اور بازاروں میں امڈ آیا۔ 2016ء میں وزیر اعظم بننے کے بعد سے ’ملکی ‘نے آئی ایم ایف اور دوسرے سامراجی اداروں کے نسخوں کے مطابق معاشی خسارے اور قرضوں کے بوجھ کو کم کرنے کے لئے تیل، بجلی اور توانائی کے شعبوں میں دی جانے والی سرکاری سبسڈی کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس دوران آئی ایم ایف نے اِن اقدامات کے عوض اردن کو 723 ملین ڈالر کا قرضہ بھی دیا۔ لیکن ساتھ ہی حکومت سے مزید ’’اصلاحات‘‘ کا وعدہ بھی لیا۔

اردن میں بڑے پیمانے پر تیل اور دوسری معدنیات نہیں ہیں۔ اس کی معیشت کی شرح نمو گزشتہ عرصے میں 2 فیصد رہی ہے۔ شام اور عراق کی جنگوں اور بربادیوں سے ملک کی برآمدت میں کمی آئی ہے۔ خطے میں جاری دہشت گردی سے یہاں سیاحت میں بھی بہت کمی واقع ہوئی ہے۔ 2011ء کے انقلابی طوفان کو اپنے اور اپنے اتحادی ممالک تک پھیلنے سے روکنے کے لئے سعودی عرب نے سماجی اخراجات کے لئے پیسے بانٹے تھے۔ ان میں سے 5 ارب ڈالر اردن کو بھی ملے تھے۔ جن کو اردن کی بادشاہت نے قیمتوں میں کمی اور توانائی اور دوسری اشیائے صرف میں سبسڈی کی مد میں خرچ کر کے عوامی بغاوت کو زائل کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن اب ایک طرف سعودی عرب کی اپنی معیشت خسارے میں ہے تو دوسری جانب اردن کے یمن میں فوجیں بھیجنے سے انکار پر سعودی بادشاہت اس سے نالاں بھی ہے۔ سرکاری اعدادشمار کے مطابق آج اردن کی 25 فیصد آبادی بدترین غربت میں رہ رہی ہے۔ زندگی گزارنا بہت مہنگا ہوگیا ہے اور وسیع تر آبادی کے لئے ناقابل برداشت ہوتا جا رہا ہے۔ اردن میں تیل کی قیمتوں میں صرف اس سال پانچ مرتبہ اضافہ کیا گیا ہے۔ بجلی کی قیمت میں بھی 55 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ روٹی کی قیمت جنوری سے اب تک دوگنا ہوگئی ہے۔ غریب گھرانوں کو حکومت تقریباً 70 ڈالر یہاں کی بینظیر انکم سپورٹ کی طرز پر خیرات دیتی ہے جو اس مہنگائی کے عالم میں مضحکہ خیز ہے۔

ایک طویل عرصے کے بعد 6 جون کی عام ہڑتال اور دوسرے احتجاجی مظاہروں میں صرف حکومت کے خلاف ہی نہیں بلکہ قدیم بادشاہت کے خاتمے کے نعرے بھی لگے ہیں۔ لیکن شاہ عبداللہ نے جو ’عمرالرزاق‘ کو نیا وزیر اعظم بنایا ہے وہ بھی ورلڈ بینک میں ملازم رہ چکا ہے۔ آخری اطلاعات کے مطابق اس کے مظاہرین کے نمائندوں سے مذاکرات بھی ناکام ہوگئے ہیں۔ چونکہ مظاہرین تمام ٹیکسوں کے خاتمے اور معیار زندگی میں بہتری کے مطالبات پیش کر رہے ہیں جو کابینہ کے ردوبدل اور سطحی اقدامات سے ممکن نہیں ہے۔ تیل اور روٹی کی قیمتوں میں بڑی چھوٹ کا مطالبہ طلبہ اور مزدور مل کے کر رہے ہیں۔ ٹریڈیونین قیادت مصالحت کے لئے مذاکرات کرنا چاہتی ہے لیکن تحریک کے سرگرم کارکنان اس طریقہ کار کو مسترد کر رہے ہیں۔ صنعتی مزدوروں کے اس احتجاج میں ڈاکٹر، انجینئر، وکلا، صحافی، اساتذہ اور دوسرے پیشہ وارانہ شعبوں سے تعلق رکھنے والے ملازمین بھی شریک ہوگئے ہیں۔ مزدوروں اور زرعی فارموں کے دہقانوں کا بنیادی مطالبہ اجرتوں میں اضافہ ہے۔ بیروزگاری کا خاتمہ یا بیروزگاری الاؤنس دیے جانے کا مطالبہ طلبہ اور بیروزگار نوجوانوں کی تحریک میں سرفہرست ہے۔

اردن میں آبادی کا ایک بڑا حصہ فلسطینیوں پر بھی مشتمل ہے۔ فلسطینیوں کی غزہ اور مغربی کنارے میں قربانیوں سے بھرپور حالیہ جدوجہد ‘ اردن کی اس تحریک کے ابھرنے میں کلیدی محرک بنی ہے۔ 1967ء میں اسرائیل نے جب مزید فلسطینی علاقوں پر قبضہ کیا تھا تو بڑے پیمانے پر فلسطینی اردن ہجرت کرنے پرمجبور ہوئے تھے۔ لیکن آزادی اور انقلاب کی جدوجہد کے شعلے ان میں بدستور بھڑک رہے تھے۔ جب ان کو احساس ہوا کہ شاہ عبداللہ کا والد شاہ حسین اس دور میں اسرائیل کے خلاف ہونے والی جدوجہد کو دبانا چاہتا ہے تو دارالحکومت میں ایک بہت بڑی انقلابی سرکشی ہوئی۔ جس کو کچلنے کے لئے شاہ حسین نے جن فوجی دستوں کو استعمال کیا تھا انکی کمان برگیڈئیر ضیا الحق کر رہا تھا۔ ستمبر 1969ء کی اس درندگی میں 18 ہزار فلسطینیوں کا قتل عام کیا گیاتھا اور اس وقت کو آج بھی ’’سیاہ ستمبر‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ 1977ء میں اسی ضیا الحق نے پاکستان میں ایک آمریت مسلط کر کے یہاں کے نوجوانوں اور محنت کشوں کے خلاف 11 سال تک وہی بربریت دہرائی۔

اردن میں محنت کشوں اور نوجوانوں کی حالیہ سرکشی اس ذلت کے خلاف بغاوت کی نشاندہی کرتی ہے جس سے پورے خطے کے عام لوگ سلگ رہے ہیں۔ یہ طبقاتی جدوجہد پورے خطے میں 2011ء جیسے ایک نئے انقلابی طوفان کا پیشہ خیمہ بن سکتی ہے۔ آج دنیا بھر میں ہر معاشرے میں بنیادی مسئلہ امیر اور غریب کے تضاد کا ہے جس کی بنیاد طبقاتی استحصال ہے۔ یہ طبقاتی کشمکش کبھی ماند ضرور پڑسکتی ہے لیکن ختم نہیں ہوتی۔ یہ پھر بھڑکتی ہے۔ 2011ء کے انقلاب کے ابھار اور زوال کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ یہ بغاوت اصل میں طبقاتی استحصال کے ڈھانچوں کے خلاف تھی۔ سیاسی ڈھانچوں کا اتنا مسئلہ نہیں تھا۔ اب اگر مشرقِ وسطیٰ اور پورے خطے کو اس بربریت اور خونریزی کی کھائی سے نکال کے خوشحالی، امن او ر استحکام دینا ہے تو پھر اس مرتبہ ابھرنے والے انقلاب کو سرمایہ دارانہ نظام اور اس خطے کی اسرائیل جیسی تمام رجعتی ریاستوں کا خاتمہ کرکے مشرقِ وسطیٰ کی ایک سوشلسٹ فیڈریشن کا قیام عمل میں لانا ہوگا۔