راہول

وینزویلا میں گزشتہ کئی ہفتوں سے جاری انتشار ہر روز شدت اختیارکرتا جارہا ہے۔ پچھلے کچھ دنوں میں پچاس سے زائد افراد پولیس اور مظاہرین کے درمیان چھڑپوں میں ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ لاطینی امریکہ اور پوری دنیا میں اکیسویں صدی کے سوشلزم کے نام سے پہچانا جانے والا یہ ملک آج مغربی میڈیا کی شہ سرخیوں کا عنوان بنا ہوا ہے۔ مرحوم ہوگو شاویز کی سوشلسٹ پارٹی (PSUV) سے تعلق رکھنے والے صدر نکولس مادورو کے خلاف دائیں بازو کی اپوزیشن کے مظاہروں سمیت بڑے پیمانے پر وینزویلا کے معاشی اور سیاسی بحران کا چرچہ عالمی میڈیا میں کیا جارہا ہے۔ یاد رہے کہ دسمبر 2015ء میں ہونے والے قومی اسمبلی کے انتخابات میں دائیں بازو کی اپوزیشن نے اکثریت حاصل کر لی تھی تاہم ملک میں صدارتی نظام ہونے کی وجہ سے صدر کا تعلق فی الوقت سوشلسٹ پارٹی سے ہی ہے۔

جیسا کہ روایت ہے عالمی کارپوریٹ میڈیا نے وینزویلا میں ہونے والے گزشتہ کئی دنوں کے واقعات کی رپورٹنگ میں بھی سامراج کے مفادات کے مطابق کھلی جانبداری کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وینزویلا آج بدترین معاشی بحران کا شکار ہے لیکن اس سب کے باوجود بھی آج وینزویلا میں جاری واقعات کو جس طرح پیش کررہا ہے انہیں با لکل اسی طرح بھی تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ شاویز کی موت کے بعد وینزویلا میں پیدا ہونے والی صورتحال میں صدر مادورو کی جانب سے اختیار کی گئی ادھوری معاشی و سیاسی پالیسیوں نے آج وینزویلا کو جس بحران میں دھکیلا ہے اس کا موردِ االزام سوشلزم کو ٹھہرانے کی روایتی واردات کی جا رہی ہے۔

حالیہ مظاہروں کا آغاز سپریم کورٹ کی جانب سے دیئے گئے 29 مارچ کے فیصلے کے بعد ہوا جس کے مطابق حزب اختلاف کی اکثریت رکھنے والی قومی اسمبلی توہین عدالت کی مرتکب ہوگئی، اس فیصلے کے بعد اسمبلی کے تمام تر اختیارات کو یا تو سپریم کورٹ (TSJ) اپنے قبضے میں لے گی یا کسی ایسے ادارے کے حوالے کئے جائیں گے جس کا تعین خود سپریم کورٹ کرے گی۔ فیصلے کے فوراً بعد قومی اسمبلی کے صدر جولیو بورجز نے اِسے اپنے خلاف ایک ’’کُو‘‘ قرار دے دیا۔ یکم مئی کو ایک تقریر کرتے ہوئے صدر مادورو کی جانب سے قومی آئین ساز اسمبلی کے انعقاد کا اعلان کیا گیا جسے اپوزیشن کی جانب سے فوری طور پر رد کردیا گیا، صدر مادورو کے اس فیصلے کو بھی آمریت قرار دیتے ہوئے انہوں مظاہرے جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے جاری ان مظاہروں میں بڑے پیمانے پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ دائیں بازو کے یہ مظاہرین خود بھی مسلح ہیں اور ہر طرح کی تخریب کاری کر کے حالات کو خراب کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق حزب اختلاف صدر مادورو کے استعفے، انتیس مارچ کا فیصلہ دینے والے سپریم کورٹ کے ججوں کی برطرفی، اسی سال جنرل الیکشن کروانے اور سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کررہی ہے۔ درحقیقت ان مظاہروں میں اپوزیشن کو بڑے پیمانے پر امریکی سامراج کی مدد بھی حاصل ہے جبکہ میڈیا کے ذریعے مسلسل پر تشدد واقعات کو حکومت کے خلاف بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ بائیں بازو کے ٹیلی سرٹی وی کی رپورٹ کے مطابق 2009ء سے لیکر اب تک امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے تقریبا 49 ملین ڈالر وینزویلا میں موجود حزب اختلاف پر جمہوری طریقے سے منتخب ہوئے صدر مادورو کے خلاف خرچ کئے ہیں۔ اسی طرح ایڈورڈ سنوڈن کے انکشاف کے مطابق وینزویلا امریکی سامراج کے چھ اہم مخالف ممالک میں سے ایک ہے۔ ہوگو شاویز کے برسراقتدار آنے کے بعد سے ہی امریکی سامراج اور اس کی بغل بچہ اپوزیشن نے بائیں بازو کی اس حکومت کو سبوتاژ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور حالیہ دنوں شدید معاشی بحران اور اس کی بدولت پیدا ہونے والی صورتحال کو جواز بنا کر حکومت پر شدید تنقید کی جارہی ہے، لیکن جہاں ایک طرف مادورو کی مصالحتی اور ادھوری پالیسیوں کی بدولت یہ بحران شدت اختیار کرتا جارہا ہے وہاں دوسری طرف اپوزیشن کا پروگرام بولیوارین انقلاب کی تمام حاصلات کو کچلنا اور وینزویلا کے محنت کشوں پر سرمائے کی بدترین آمریت مسلط کرنا ہے۔ سامراج اور سرمایہ داروں کے اِن گماشتوں کے اقتدار میں آنے سے عوام بدترین جبر و استحصال کا شکار ہو جائیں گے اور بڑے پیمانے پر نجکاری اور عوامی سہولیات میں کٹوتیاں کی جائیں گی۔

وینزویلا کے انقلاب کا المیہ یہ ہے کہ شاویز کے دور اقتدار سے لے کر آج تک کئی سارے جرات مندانہ اقدامات کے باوجود بھی منڈی کی معیشت کا خاتمہ نہیں کیا گیا تھا۔ معیشت کا بڑا حصہ تب بھی سرمایہ داروں کی ملکیت میں تھا، آج بھی ہے۔ بعض اندازوں کے مطابق دو تہائی معیشت نجی ملکیت میں ہے۔ شاویز کے دور اقتدار میں تیل سے حاصل ہونے والی دولت کو بڑے پیمانے پر سماجی پروگراموں میں عوام کی فلاح وبہود اور عالمی مارکیٹ سے خوراک کی درآمدات پر خرچ کیا گیا لیکن 2014ء کے بعد عالمی طور پر تیل کی قیمتوں میں ہوئی کمی کے باعث حکو مت کو اپنے کئی سماجی پروگراموں سے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے دستبردار ہونا پڑا، جبکہ زر مبادلہ گرنے کی وجہ سے افراط زر میں شدت آئی۔ 2000ء سے 2013ء تک درآمدات کے لئے سات ماہ سے زائد کے زرِ مبادلہ کے ذخائر موجود رہے لیکن بعد میں ان میں مسلسل کمی واقع ہونے لگی۔ زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی کے باعث عالمی مارکیٹ سے خوراک اور ادوایات کی درآمدات میں کمی آئی اور سارا انحصار نجی کمپنیوں پر رہا جنہوں نے سرکاری ریٹ پر چیزوں کے فروخت سے انکار کر دیا۔ آخر میں حکومت نے نوٹ چھاپ کر چند پروگراموں کو جاری رکھا جس کی بدولت افراط زر تو بڑھتا گیا لیکن نہ تو خوراک کی کمی مکمل طور پر ختم ہوسکی نہ ہی ادوایات اور دوسری اہم ضروریات زندگی کی۔ اکانومسٹ میں شائع ہوئے ایک مضمون کے مطابق گزشتہ سال سے وینزویلا کی معیشت دس فیصد سکڑ چکی ہے جو رواں سال کے اختتام پر 2013ء سے اب تک تقریبا 23 فیصد چھوٹی ہوجائے گئی، جبکہ افراط زر1600 فیصد سے تجاوز کرجائے گا۔ عوام کا معیار زندگی مسلسل گر رہا ہے۔ مسلسل مہنگائی اور خوراک کی قلت کے باعث دن میں تین وقت کھانا کھانے والے افراد کی تعداد 69.5 فیصد سے کم ہوکر 34.3 فیصد ہوگئی ہے جبکہ دو مرتبہ کھانے والوں کی تعداد 24.3 فیصد سے بڑھ کر 45.5 فیصد اور دن میں صرف ایک مرتبہ غذا حاصل کرنے والے 4.8 فیصد سے بڑھ کر 19.8 فیصد ہوچکے ہیں۔ لوگوں کے وزن میں اوسطاً انیس پاؤنڈز کی کمی واقع ہوئی ہے۔ شدید خوراک کی کمی کے باعث کئی جگہ چڑیا گھروں کے جانوروں کو کھانے کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔ جبکہ کچرے میں خوراک تلاش کرنے کے واقعات میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

اس تمام تر صورتحال میں مادورو کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ جس کا واضح اظہار 2015ء کے پارلیمانی انتخابات تھے۔ ان انتخابات میں شکست بنیادی طور پر مادورو اور سوشلسٹ پارٹی کی قیادت کے لئے ایک تنبیہ تھی، جسے بدقسمتی سے نظر انداز کیا گیا۔ حالیہ دنوں میں بھی شکست سے خوفزدہ ہوکر اس نے الیکشن کی تاریخ کو آگے بڑھایا ہے، صدر مادورو کا خیال ہے کہ شاید تیل کی عالمی قیمتوں میں رواں سال اضافہ ہوگا اور وہ اصلاحات کے ذریعے دوبارہ اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرسکے گا، لیکن یہ حقائق سے انتہائی بھونڈا فرار ہے۔ دوسری طرف آئین ساز اسمبلی کے انعقاد وغیرہ جیسی باتوں نے عوام میں مزید بے چینی پیدا کردی ہے اور انہیں ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ صدر مادورو کو حقیقی مسائل کی کوئی فکرہے اور نہ ہی ان میں دلچسپی۔ 2015ء کے انتخابات میں شکست کے بعد سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ پارٹی قیادت نے عوام سے انقلاب کے دفاع کی اپیل کرنے کے بجائے اُن پر اعتماد کو ترک کردیا ہے اور بورژوازی سے مصالحت کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ لیکن جیسا کہ صورتحال بتا رہی ہے کہ اِس سے حالات بد تر ہی ہوئے ہیں۔ حالات یہی رہے تو آنے والے میونسپل اور ریجنل الیکشنوں میں سوشلسٹ پارٹی کی شکست یقینی ہو جائے گی۔ دوسری جانب حزب اختلاف اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ وہ کسی طور بھی مسائل کو حل کرنے سے قاصر رہے گی اور مکمل طور پر انتخابات میں کامیابی بھی حاصل نہیں کرسکتی لیکن ان کا فوری مقصد صرف صدر مادورو سے اقتدار چھیننا ہے اور اس کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ 2014ء سے لیکر اب تک مختلف طریقوں سے امریکی سامراج نے ان اپوزیشن جماعتوں کو استعمال میں لاتے ہوئے کئی لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے، عین ممکن ہے کہ صورتحال کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلا جائے۔

مادورو سمیت سوشلسٹ پارٹی کی قیادت اپنے سوشلسٹ منشور اور شاویز کی میراث سے مسلسل دور ہوتی چلی گئی ہے۔ شاویز نے سابق امریکی صدر بش کو سرعام شیطان قرار دیا تھا، لیکن مادورو آج ’’کامریڈ ٹرمپ ‘‘ سے امیدیں وابستہ کر رہا ہے کہ وہ وینزویلا کو خوراک کے بحران سے نکالے گا، اِسی طرح بولیوارین انقلاب کے اِس سب سے بڑے دشمن سے تعلقات کی بحالی کی باتیں کی جارہی ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے صدر مادورو نے اس بات کا کھل کر اظہار کیا ہے کہ وہ کوئی کمیونسٹ ملک کا صدر نہیں اور نہ ہی نجی تجارت کا مخالف ہے، بلکہ اس کا کہنا ہے کہ نوے فیصد کمپنیاں نجی ملکیت میں ہیں اور ان (مقامی اور بیرونی سرمایہ داروں) کے لئے اس نے مراعات کا اعلان بھی کیا ہے۔ مادورو کے اس قسم کے اقدامات نے محنت کش عوام میں شدید غصہ اور مایوسی کی لہر پیدا کی ہے۔ اگراس معاشی بحران کو حل نہیں کیا گیا تو بعید نہیں ہے کہ اپوزیشن کی حمایت میں اضافہ ہونے لگے۔

وینزویلا کے محنت کشوں اور نوجوانوں نے گزشتہ تقریباً بیس سالوں کے دوران انقلاب کے لئے ہر قربانی دی ہے اور ہر حد تک جا کر جدوجہد کی ہے۔ ردِ انقلاب کے حملوں سے بار بار انقلاب کو بچایا ہے۔ لیکن قیادت کے تذبذب کی وجہ سے ہی انقلاب اب تک مکمل نہیں ہو سکا ہے۔ آج سوال مادورو کے اقتدار کا نہیں بلکہ بولیوارین انقلاب کا ہے۔ ہم نے جنوری 2013ء میں لکھا تھا: ’’بولیوارین حکومت کے اقتدار میں آنے کے کئی برس بعد بھی، انقلاب مکمل نہیں ہو سکا اور وینزویلا میں ابھی تک سرمایہ داری ہی مروجہ معاشی نظام ہے۔ اس وجہ سے بے پناہ افراطِ زر اور شکستہ انفرا سٹرکچر کی وجہ سے بجلی کی طویل بندش جیسے مسائل پیدا ہو رہے ہیں… سرمایہ دارانہ رشتوں کی موجودگی میں کی جانے بڑی اصلاحات کے نتیجے میں ہونے والی ترقی کا کردار ناہموار ہے، جس کی وجہ سے نئے تضادات جنم لے رہے ہیں… شاویز کی موت کی صورت میں شاویز کی حمایت کی وجہ سے اگر مادورو صدر منتخب ہو جاتا ہے تو یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چلے گی اور دس برس سے خوف میں مبتلا ظالم بورژوازی انتہائی بے رحم ردِ انقلاب کر سکتی ہے…‘‘ اِسی طرح ایک سال قبل مئی 2016ء میں ہم نے لکھا تھا: ’’جب تک سرمایہ داری موجود ہے سرمایہ دار موقع ملنے پر پلٹ کر وار کریں گے۔ مادورو نے بند فیکٹریوں کو نیشنلائز کرنے کا جو عندیہ دیا ہے اس کو پوری معیشت تک پھیلائے بغیر انقلاب مکمل نہیں ہو سکتا۔ بصورت دیگر رد انقلاب آئے گا اور اب تک جو مراعات بھی عوام کو حاصل ہوئی ہیں نہ صرف انہیں چھینے گا بلکہ جبر و استحصال اور وحشت کی انتہا کر دے گا۔ انقلاب کی طرح اس رد انقلاب کے اثرات بھی پورے لاطینی امریکہ اور دنیا پر مرتب ہوں گے۔ شاید PSUV کی قیادت اور مادورو کے لئے یہ آخری موقع ہے کہ وہ سوشلسٹ انقلاب کو مکمل کر کے تاریخ میں سرخرو ہو سکیں۔‘‘

آج یہ آخری موقع بھی ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے۔ مصالحت اور تذبذب آج بد ترین جرم بن چکے ہیں۔ سرمایہ دار کبھی بھی مصالحت نہیں کریں گے۔ وہ سامراج کی پشت پناہی سے معیشت کو برباد کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے۔ پیداوار، رسد اور مالیات پر مکمل ریاستی کنٹرول قائم کئے بغیر حالیہ بحران سے نہیں نکلا جا سکتا۔ اِس کا دوسرا مطلب منڈی کی سرمایہ دارانہ معیشت کا یکسر خاتمہ اور سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کی تعمیر کا آغاز ہے۔ فوری اقدامات کے طور پر سوشلسٹ پارٹی کی قیادت کو پارٹی اور طبقے کو متحرک کرنا ہوگا، ہوگو شاویز کی طرح اپوزیشن کے غنڈوں کے خلاف بولیوارین ملیشیا کو عمل میں لانا ہو گا، معیشت کے کلیدی حصوں کو نیشنلائز کرتے ہوئے سرمایہ داروں کے ہاتھوں سے معاشی سبوتاژ کا ہتھیار چھیننا ہو گا اور اِن انقلابی اقدامات کے خلاف ممکنہ سامراجی یلغار کے خلاف دنیا بھر کے محنت کشوں سے یکجہتی کی اپیل کرنا ہو گی۔ صرف اسی طریقے سے سامراج اور مقامی حکمران طبقات کی جکڑ کو توڑکر انقلاب وینزویلا کو مکمل کرتے ہوئے پوری دنیا کے محنت کشوں کے لئے مشعل راہ بنایا جاسکتا ہے۔