لال خان

پچھلی ایک دہائی سے چین کے ’ماڈل‘ کا بہت شور ہے۔ اسکی صنعتی اور اقتصادی ترقی کا تاثر دنیا بھر اور خصوصاً پاکستان میں بہت وسیع ہوتا چلا گیا ہے۔ پہلے سے ہی پرانے ترقی یافتہ ممالک، جن میں امریکہ، یورپ اور جاپان سرفہرست ہیں، ایک مسلسل معاشی تنزلی کا شکار تھے۔ ایسے میں 2007-08ء میں چین کی معاشی شرح نموبڑھتے بڑھتے تقریباً 14 فیصد تک جا پہنچی ، وسیع پیمانے پر صنعتی اور انفراسٹرکچر کے منصوبوں کے پھلاؤ سے چین کے ’ ترقیاتی ماڈل‘ کا بڑا چرچا ہوا۔ چین میں ایک ’’کمیونسٹ پارٹی‘‘ برسراقتدار ہے، جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ چین شاید ایک سوشلسٹ معیشت ہے۔ جبکہ درحقیقت چین میں تمام اقتصادی سرگرمیاں، اسکی معیشت کی طرز اور اس کا کردار وہی ہے جو سرمایہ دارانہ معیشت کا ہوتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ چین میں یہ ترقی ہوئی کیسے اور اتنی تیز ی سے اسکی صنعت اور معیشت کے پھیلاؤ کی وجوہات کیا ہیں؟

پچھلی صدی میں چین میں ایک نہیں، تین انقلابات برپا ہوئے تھے۔ ان میں پہلا 1910-11 ء میں سن یات سن کی قیادت میں جمہوری یعنی سرمایہ دارانہ انقلاب تھا، جو ایک مسخ شدہ شکل میں برپا ہوا تھا۔ اس کا جلد ہی ٹوٹ کر بکھر جانا ناگزیر تھا، کیونکہ سرمایہ دارانہ انقلابات کا عہد گزر چکا تھا۔ دوسرا انقلاب 1924-25ء کا انقلاب تھا، جس کی قیادت چین کی نومولوکمیونسٹ پارٹی کے پاس تھی۔ اس کا سیکرٹری جنرل چن ڈوشو تھا۔ لیکن ماسکو سے سٹالن نے پارٹی کو ایسی مصالحتی پالیسیوں پر موڑ دیا گیا جس سے انقلاب کو ایک خونریز شکست ہوئی۔ تقریباً 80,000 کمیونسٹ کارکنان اور محنت کشوں کا قتل عام چینگ کائے شیک کی قوم پرست فوجوں نے سامراجی پشت پناہی سے کیا۔ چین میں تیسرا انقلاب ماؤزے تنگ کی قیادت میں 1949ء میں برپا ہوا۔ یہ انقلاب ایک طویل عرصے کی گوریلا جنگ اور لانگ مارچ کے ذریعے ایسی صورتحال میں کامیاب ہوا جہاں دوسری عالمی جنگ کے بعد سامراجی فوجوں میں بغاوتیں تھیں اور چین کی قومی فوج اور ریاست بکھر چکی تھی۔ ماؤ کے اقتدار میں آنے کے بعد اس کو شہری مزدور طبقے کی ہڑتالوں اور تحریکوں کے اتنے دباؤ کا سامنا تھا کہ اس کو سرمایہ داروں اور سامراجیوں کی صنعتوں اور اثاثوں کو نیشنلائز کرنا پڑا۔ اس سے چین میں ایک مسخ شدہ افسرشاہانہ شکل میں ہی سہی لیکن ایک منصوبہ بند (سوشلسٹ) معیشت استوارہوئی۔ لیکن یہ کوئی بالشویک انقلاب کی طرح کلاسیکی مارکسی انقلاب نہیں تھا۔ لیکن مزدور جمہوریت کی بجائے افسرشاہانہ کنٹرول کے باوجود جب منافع اور منڈی کے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ ہو اتو چین نے تیز سماجی اور معاشی ترقی کی اور دوسرے سابقہ نوآبادیاتی ممالک کو کہیں پیچھے چھوڑ گیا تھا۔ تعلیم، علاج، صحت اور دوسری اجتماعی ضروریات اور سہولیات کو ایک منصوبہ بند معیشت میں اولیت ملتی ہے اور معاشرتی ترقی کے لیے زیادہ سے زیادہ وسائل وقف ہوتے ہیں۔ لیکن اس انقلاب کے بعد تین دہائیوں کے دوران پھیلتی ہوئی معیشت کا دم افسرشاہانہ جکڑ میں گھٹنے لگا۔ معاشی بحران پیدا ہوا۔ 1976ء میں ماؤزے تنگ کی وفات کی بعد کمیونسٹ پارٹی کا سرمایہ داری نواز دھڑا ڈینگ ژیاؤپنگ کی قیادت میں اقتدار میں آگیا۔ اُن کی ’’اصلاحات‘‘ سرمایہ داری کو ’’محتاط‘‘ طریقے سے ریاستی کنٹرول میں بحال کرنے پر مبنی تھیں۔

بحران زدہ عالمی سرمایہ داری کو اپنی شرح منافع بڑھانے یا برقرار رکھنے کے لیے جس سستی مگر ہنر مند محنت اور انفراسٹرکچر کی تلاش تھی، چین کا سماج اور محنت کی منڈی اس کے لیے سب سے زیادہ موزوں تھے۔ چین میں ہندوستان یا پاکستان اور بنگلہ دیش وغیرہ کی طرح صرف سستی محنت نہیں تھی بلکہ ہنر مند،صحت مند اور خواندہ لیبر فورس موجود تھی۔ یہ سرمایہ داری کے نہیں بلکہ اس انقلاب اور منصوبہ بند معیشت کے ہی ثمرات تھے جس نے سرمایہ داری کو ختم کیا تھا۔

چین کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ جس انقلاب نے چین کے معاشرے کو چند دہائیوں میں منصوبہ بند معیشت کی بنیاد پر اتنی ترقی دی، اسی کے خلاف وہاں سرمایہ دارانہ ردِ انقلاب برپا ہوا اور اسی کے ثمرات کو استعمال کرتے ہوئے سرمایہ داری تیزی سے پروان چڑھی۔ بالخصوص پچھلے 20 سالوں میں چین میں وسیع پیمانے پرسامراجی سرمایہ کاری ہوئی۔ اس سے جہاں چین کے مشرقی بحرالکاہل کے علاقوں میں وسیع صنعت کاری ہوئی، وہاں ’’کمیونسٹ‘‘ لیڈر بھی بہت بڑے سرمایہ اور اجارہ دار بنتے چلے گئے۔ پارٹی کی افسر شاہی اب ایک مراعت یافتہ پرت سے طبقے میں بدل رہی تھی۔ لیکن سرمایہ داری جہاں بھی جاتی ہے وہا ں استحصال، معاشی ناہمواری، جوا، سٹہ بازی، سٹاک مارکیٹ، جسم فروشی، خودغرضی، جرائم، منشیات اور لالچ کو تیزی سے فروغ دیتی ہے۔ چین میں بھی یہ سب ناگزیر تھا۔ معاشرتی و معاشی ناہمواری میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ اس وقت جنوبی افریقہ کے بعد چین میں دنیا کی سب سے بڑی امارت اور غربت کی تفریق پائی جاتی ہے۔ لیکن مارکس کے وقتوں سے لے کر آج تک ،سرمایہ داری کا سب سے المناک رحجان بیروزگاروں کی فوج پیدا کرنا ہوتاہے۔ اس سے ملازمت رکھنے والے مزدوروں پر مسلسل دباؤ بڑھتا ہے اور انکی اجرتوں اور دوسری مراعات میں کٹوتیاں کی جاتی ہیں، تاکہ سرمایہ دار کی شرح منافع میں اضافہ ہوسکے۔ چین میں حقیقی بیروزگاری کی شرح سرکاری اعداد و شمار سے کم از کم تین گنا زیادہ ہے۔ سرکاری شعبے کے مزید 60 لاکھ مزدوروں کو فارغ کیا جا رہا ہے اور یونیورسٹیوں سے ڈگریاں لینے والے 30 لاکھ نوجوان بیروزگاروں کی فوج میں ہر سال شامل ہو رہے ہیں۔ 27 کروڑ مہاجر مزدور اپنے وطن میں جلا وطن اور بدترین حالات زندگی سے دو چار ہیں۔ 95 کروڑ افراد 5 ڈالر یومیہ سے کم روزانہ آمدن پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، جبکہ بالخصوص بڑے شہروں میں مہنگائی یہاں سے کئی گنا زیادہ ہے۔

2008ء کے بعد مغرب کی منڈیوں میں گراوٹ سے چین کی ترقی اور شرح نمو پر کاری ضرب لگی ہے جو اب آدھی سے بھی کم ہو کر 6.5 فیصد رہ گئی ہے۔ اس سے بڑے پیمانے پر سماجی انتشار، تحریکیں اور ہڑتالیں بڑھ رہی ہیں۔ 2015ء میں چین میں 1400 ہڑتالیں ہوئیں جبکہ 2016ء میں یہ 2700 سے تجاوز کرگئیں۔ بڑی بغاوت کے خطرے سے چین کے حکمران پریشان ہیں۔ ان کی آمرانہ حاکمیت اس کو زیادہ عرصہ دبا نہیں سکتی۔ اس لیے چینی ریاست بڑے پیمانے پر ریاستی قرضوں کوبڑھا کر وسیع پراجیکٹوں کے ذریعے ملکی اور عالمی معیشت کو دھکا لگانے کی کوشش کررہی ہے۔ لینن نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’’سامراجیت: سرمایہ داری کی آخری منزل‘‘ میں لکھا تھا کہ جب کوئی سرمایہ دارانہ ریاست سرمایہ برآمد کرنے لگتی ہے تو سامراجی کردار اختیار کر لیتی ہے۔ چین آج دنیا کا سب سے بڑا سرمایہ برآمد کرنے والا ملک ہے۔ وہ ایشیا، افریقہ، یورپ اور امریکہ کے علاوہ لاطینی امریکہ میں بھی بڑے پیمانے پر سفاک سامراجی سرمایہ کاری کررہا ہے، جس کا مقصد قدرتی وسائل اور منڈیوں پر تسلط حاصل کرنا ہے۔ چین کا مجموعی قرضہ 2007ء کے بعد سے چار گنا اضافے کے ساتھ جی ڈی پی کے 250 فیصد سے تجاوز کر چکا ہے۔ یوں یہ دنیا کا سب سے مقروض ملک بھی ہے۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی اور نیشنل پیپلز کانگریس میں امریکی کانگریس سے زیادہ ارب پتی بیٹھے ہیں۔ نہ صرف طبقاتی استحصال بہت شدید ہے بلکہ علاقائی طور پر مغربی چین کے علاقے انتہائی پسماندگی اور محرومی کا شکار ہیں۔

چین میں سرمایہ داری کی استواری سے’’کمیونسٹ‘‘ لیڈر اور ایک قلیل سی پرت تو ارب پتی بن گئی لیکن محنت کش عوام ذلتوں کا شکار ہیں۔ اگر غورکریں تو چین کی ’’کمیونسٹ پارٹی‘‘ نہ تو کمیونسٹ اور نہ ہی پارٹی ہے، بلکہ سرمایہ دار طبقے اور کرپٹ افسر شاہی کا ایک حکمران ٹولہ ہے۔ ان کو آنے والے دنوں میں بڑی بغاوتوں اور محنت کشوں کے انقلابی طوفانوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ چین میں سرمایہ داری کی بحالی کے اس عمل میں سامراجیوں اورچینی حکمرانوں نے اگر خوب دولت کمائی ہے تو تقریباً 80 کروڑ محنت کشوں پر مشتمل دنیا کا سب سے بڑا محنت کش طبقہ آج چین میں پیدا ہوچکا ہے۔ اور مارکس نے ڈیڑھ سو سال پہلے واضح کیا تھا کہ سرمایہ داری اپنے گورکن خود پیدا کرتی ہے!