اداریہ جدوجہد

بھارتی انتخابات، جنہیں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے سب سے بڑے انتخابات قرار دیا جا رہا ہے، کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ملک کے 1.3 ارب انسانوں کی وسیع تر اکثریت کے حقیقی مسائل اس چناﺅ کا موضوع ہی نہیں بن سکے۔ نریندرا مودی کی بی جے پی حکومت نے 2014ءکی نسبت کہیں زیادہ زہریلے انداز سے پاکستان و مسلمان دشمنی اور نسل پرستی کی مہم چلائی ہے۔ کیونکہ پچھلے پانچ سال کوئی سماجی استحکام، غربت میں کمی اور ترقی نہ دے سکنے کی وجہ سے وہ انہی منافرتوں کی بنیاد پر الیکشن لڑ سکتی تھی۔

دوسری طرف اپوزیشن پارٹیاں کوئی نیم اتحاد بنانے میں بھی ناکام رہیں۔ کانگریس کا سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی وغیرہ کے مہاگھٹ بندھن کے ساتھ سب سے زیادہ نشستیں رکھنے والی ریاست اتر پردیش میں انتخابی اتحاد نہیں ہوسکا۔ اسی طرح کیرالا میں بھی کانگریس اور لیفٹ فرنٹ انتخابی میدان میں جڑت پیدا نہیں کرسکے۔ بنگال میں ممتا بینرجی کی ترینمول کانگریس اور کانگریس کسی اتحاد میں نہیں جڑ سکے۔ لیکن اپوزیشن کی اس کمزوری اور انتشار کے باوجود بھی نریندرا مودی کی جیت لازمی نہیں ہے۔ بی جے پی کے اہم لیڈر اس خوف کا اظہار مزید برہمی اور مذہبی جنون سے کر رہے ہیں۔ لیکن جہاں اپوزیشن کی کوئی پارٹی (خصوصاً کانگریس جس سے بہت امیدیں لگی ہوئی تھیں) بی جے پی کا ٹھوس متبادل بن کر نہیں ابھر سکی وہاں بی جے پی کی شکست کی وجہ اس کی اپنی عوام دشمن پالیسیاں بن رہی ہیں۔ تاہم بھارتی سرمایہ داری کے اجارہ دار، تقریباً تمام بڑے کارپوریٹ میڈیا ہاﺅس، مذہبی و سماجی پیشوا اور فلمی ستاروں کی اکثریت بی جے پی کو جتوانے کی کاوشوں میں لگے ہوئے ہیں۔ لیکن تمام تر دولت اور طاقت کے باوجود بی جے پی اگر شکست سے دوچار ہوتی ہے یا دو تہائی اکثر یت بھی حاصل نہیں کرسکتی تو یہ عوام کی بغاوت ہوگی۔ جو تمام رکاوٹوں اور رجعتی بندھنوں کو توڑ کر انتخابی میدان میں نیم فسطائی مودی اور بی جے پی کے خلاف اپنا ووٹ دے کر حقارت کا اظہار کریں گے۔

23 مئی کو نتیجہ کچھ بھی آئے لیکن بھارت میں کوئی استحکام، ترقی اور خوشحالی نہیں آئے گی۔ اگر بی جے پی ہندو مت کے نام پر جارحانہ سرمایہ داری کے تسلط کو جاری رکھنا چاہتی ہے تو یہی کام کانگریس اور دوسری پارٹیاں سیکولر ازم، جمہوریت اور قوم پرستی کے نام سے کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ اگر کمیونسٹ پارٹیاں جمہوریت اور سیکولر ازم کے ناکام و نامراد پروگرام سے ہٹ کر ایک طبقاتی جدوجہد اور انقلابی سوشلزم کا پروگرام دیتیں تو اس سے کہیں وسیع اور کامیاب مہم چلائی جا سکتی تھی۔ جو نہ صرف بھارت بلکہ پورے خطے پہ اثرات مرتب کرتی۔

لیکن جہاں پوری دنیا میں بھارتی انتخابات میں بہت دلچسپی پائی جاتی ہے وہاں پاکستان سے زیادہ کوئی ملک ان انتخابی نتائج کے مضمرات سے متاثر نہیں ہوگا۔ مودی اور بی جے پی نے تو انتخابات کا موضوع ہی پاکستان دشمنی کو بنا دیا ہے۔ اس رجعتی نعرے کا اتنا زور اور شور پیدا کیا گیا ہے کہ اپوزیشن بھی یا تو مجرمانہ خاموشی اختیار کرتی ہے یا پھر اس کی تائید کرتی نظر آتی ہے۔ بھارتی حکمران طبقات کی اکثریت بھی اب سیکولرازم اور بورژوا قوم پرستی کی بجائے کھل کر مذہبی بنیاد پرستی اور پاکستان دشمنی کے ذریعے اپنا ہولناک جبر و استحصال جاری رکھنا چاہتی ہے۔ جب ساری سیاست قومی و مذہبی دشمنی کی بنیاد پر ہو رہی ہے تو سامراجی اسلحہ ساز صنعت بھی انسانی بربادی کے آلات دونوں ممالک کو مہنگے داموں بیچ کر خوب مال بنا رہی ہے۔ کچھ دن پہلے امریکہ نے اپنے جدید جنگی طیارے بھارت کو بیچنے کی پیشکش کی ہے۔ یہ سامراجی قوتیں ایک مکمل اور تباہ کن جنگ سے ہٹ کے بھی دونوں ممالک کے درمیان تناﺅ اور کشیدگی کے خوب مزے ہر لحاظ سے لوٹتی ہیں۔

اگر غور کیا جائے تو 1947ءکے خونی بٹوارے کے زخم آج بھی رس رہے ہیں۔ دونوں طرف کے حکمران انگریزوں کی ”تقسیم کر کے حکمرانی کرو“ کی پالیسی کو مسلسل اپناتے چلے آئے ہیں۔ جوں جوں ان کے نظام کا بحران بڑھتا ہے‘ انہیں داخلی میدانوں میں طبقاتی تحریکوںکا سامنا ہوتا ہے یا ایسے خطرات لاحق ہوتے ہیں‘ وہ منافرت کے زخموں کو مزید کریدتے ہیں۔ مذہبی فرقہ واریت کا مزید زہر سماج کی رگوں میں اتارتے ہیں۔ اِن معاشروں کو ڈستے چلے جاتے ہیں۔

مودی کا یہ مذہبی کارڈ کھیلنا بنیادی طور پر ہندوستان کے ”سیکولر“ حکمران طبقے کی تاریخی ناکامی کا اظہار ہے۔ لیکن اِس خطے میں آباد دنیا کی ایک چوتھائی آبادی کو صدا غربت اور محرومی کی دلدل میں غرق نہیں رکھا جاسکتا۔ بغاوتیں پہلے بھی ابھری ہیں‘ دوبارہ بھی ابھریں گی۔ دونوں ممالک کے رجعتی رجحانات اور انقلابی تحریکیں بھی ایک دوسرے پر اثرات مرتب کرتی ہیں۔ لیکن جب تک دونوں ممالک سرمایہ داری کی جکڑ میں رہیں گے‘ ان کے لوگوں کے درمیان نفرت اور دشمنی کے علاوہ کوئی بھی رشتہ اس خطے کے حکمران طبقات کے لئے خطرناک ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نظام میں رہتے ہوئے امن ایک سراب ہے اور جنگ عوام کے سروں پر مسلسل لٹکتی تلوار ہے! لیکن خونی ریڈکلف لائن کے اِدھر یا اُدھر کوئی بڑی انقلابی تحریک بن گئی تو پورے خطے میں بغاوت کے طوفانوں کو تحریک دے گی۔ لیکن ایسی انقلابی تحریک کو انقلابی قیادت بھی درکار ہو گی۔ جو اگر میسر آتی ہے تو ان انقلابات سے جنوب ایشیا کی سوشلسٹ فیڈریشن جنم لے گی۔ ایک نیا برصغیر ابھرے گا جو افلاس، جبر، دہشت گردی اور جنگی جنون سے پاک ہو گا۔ مشرق میں رنگون اور مغرب میں ہرات اِس نئے ’USSR‘ کی سوشلسٹ تہذیب کے گہوارے بنیں گے۔