لال خان

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی صدارت کے پہلے دو سو دنوں میں امریکی سامراج کو بھی پریشان کرکے رکھ دیا ہے۔ وہ ایک کے بعد دوسری بیوقوفی کرتا جا رہا ہے۔ ورجینیا میں سفید فارم نسل پرستوں کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں پر قاتلانہ حملے کے معاملے میں دونوں اطراف کو قصور وار ٹھہرانے کے اُس کے بیان نے امریکہ میں ایک طوفان کھڑا کردیا ہے۔ حتیٰ کہ ریپبلکن پارٹی اور اس کی کابینہ کے وزرا بھی شرمندہ دکھائی دیتے ہیں۔ خارجہ پالیسی کے محاذ پر ٹرمپ نے ایسے غیض و غضب کی دھمکی دی ہے جو دنیا نے پہلے کبھی نہ دیکھی ہو، جس کا مطلب ایٹمی ہتھیار استعمال کرنا ہے۔

ہیروشیما اور ناگاسا پر ایٹم بم گرائے جانے سمیت دنیا نے امریکی سامراج کی بے شمار تباہ کاریاں دیکھی ہیں ۔ شمالی کوریا پر کسی بھی طرح کے حملے کی کوشش پورے جزیرہ نما اور آس پاس کے خطوں کے لیے انتہائی خطرناک نتائج کی حامل ہوگی۔ ٹرمپ کی اکثر بیان بازیاں امریکی سامراجی مفادات سے میل نہیں کھاتیں۔ حتیٰ کہ امریکی کانگریس میں دائیں بازو کی اکثریت بھی اُس کے خلاف ہے۔ مسند صدارت سنبھالنے کے بعد ٹرمپ کی مقبولیت تیز گراوٹ کے ساتھ 30 فیصد پر آگئی ہے۔

اس لیے یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ ٹرمپ اپنی حمایت میں اضافے کے لیے عسکری دھمکیوں اور جنگی نعرہ بازی کا سہارا لے رہا ہے۔ داخلی محاذ پر بعض اوقات کانگریس امریکی صدور کو لگام ڈالتی ہے، لیکن امریکی افواج کے کمانڈر اِن چیف کی حیثیت سے صدر کے پاس اعلان جنگ جیسے وسیع اختیارات ہوتے ہیں۔ جب امریکی صدور معاشی جبر کے خلاف امریکی محنت کشوں اور نوجوانوں کی تحریک کو دبانے اور سیاسی بحران کو ٹالنے کے لیے بیرونی جنگوں کی بات شروع کرتے ہیں تو کارپوریٹ میڈیا بھی یہی باتیں کرنے لگتا ہے۔

تاہم دی گارڈین نے حالیہ دنوں لکھا ہے، ’’لیکن اکثر تجزیہ نگار یقین رکھتے ہیں کہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس دونوں صدور کے الفاظ کی جنگ میں مشغول ہونے کے باوجود جنگ کے امکانات بعید ہیں۔ شمالی کوریا اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو حملے کی بجائے صرف سودے بازی کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔‘‘ اِسی ٹرمپ کا وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن چند دن پہلے شمالی کوریائی قیادت سے کہہ رہا تھا کہ امریکہ حکومت کی تبدیلی نہیں چاہتا اور ’’ہم تمہارے دشمن نہیں ہیں۔‘‘

شمالی کوریا کے حکمران ’کم جونگ اُن‘ کی ایٹمی ہتھیاروں کی شیخیاں کچھ لوگوں کو شاید احمقانہ لگیں لیکن ’اس حماقت میں بھی ایک منطق ہے‘۔ ماضی میں کِم خاندان کی سٹالنسٹ حکومتوں کی بڑھک بازی کے نتیجے میں مختلف امریکی صدور سے منافع بخش معاہدے ہوئے جس سے شمالی کوریا کے حکمرانوں کو بڑی معاشی امداد ملی۔ مثلاً 1994ء میں بل کلنٹن اور موجودہ حکمران کے والد کِم جونگ اِل کے درمیان ہونے والا معاہدہ۔ شمالی کوریائی رہنماؤں نے جزیرہ نما کوریا کے عوام پر امریکی سامراج کے تاریخی ظلم و جبر اور جنگی جرائم کو ہمیشہ استعمال کیا ہے۔ امریکہ کا بیرونی خطرہ اور جنوبی کوریا کے ساتھ دشمنی وہ ہتھیار ہیں جن کے ذریعے شمالی کوریا کے عوام کو حکومتوں کا مطیع بنایا جاتا ہے۔لیکن مکمل خوف اور مستقل ایمرجنسی کی حالت کے ذریعے لوگوں کو ہمیشہ خاموش نہیں رکھا جا سکتا۔

کوریائی جنگ 1950-53ء کے دوران سامراجیوں نے پورے جزیرہ نما کوریا کو بمباری کرکے برباد کردیا تھا۔ بعض اندازوں کے مطابق ایک تہائی آبادی کو قتل کیا گیا۔ واشنگٹن پوسٹ کے ایک نامہ نگار بلائن ہارڈن نے لکھا، ’’اگرچہ آج شمالی کوریا کا زیادہ تر پراپیگنڈا بے سروپا اور احمقانہ ہے لیکن یہ نفرت اتنی بھی جعلی نہیں۔ اس کی بنیادیں حقائق پر مبنی ہیں جسے شمالی کوریا شدت سے یاد رکھتا ہے اور امریکہ قصداً بھلا دیتا ہے۔‘‘ ڈین رسک، جو کوریائی جنگ کا حامی تھا اور بعد میں امریکہ کا وزیر خارجہ بنا، نے سامراجی جارحیت کی وحشتوں کا اعتراف کیا اور کہا، ’’امریکہ نے شمالی کوریا میں ہر حرکت کرنے والی چیز پر بمباری کی۔ امریکی جنگی جہازوں نے شہری علاقوں میں نچلی پروازوں کے دوران ہائیڈروالیکٹرک اور اریگیشن ڈیموں اور فصلوں کو تباہ کردیا۔ اگرچہ دنیا میں اس بمباری کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور اسے نسل پرستانہ اور غیرمنصفانہ کہا گیا لیکن امریکہ میں اسے نظرانداز کیا گیا۔ اس کی بجائے امریکی میڈیا میں فضائی جنگ کی توجہ ’میگ ایلی‘ پر ہی مرکوز تھی جو چینی سرحد کے قریب شمالی کوریا کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا تھا۔ جنگی رپورٹر شاذونادر ہی امریکی کارپٹ بمباری کی وجہ سے شہری ہلاکتوں کا ذکر کرتے تھے۔ یہ اس فراموش شدہ جنگ کا سب سے فراموش شدہ حصہ تھا۔‘‘

امریکہ اور شمالی کوریا کا تازہ تنازعہ پیسیفک کے چھوٹے سے جزیرے ’گوام‘ کی ملکیت پر ہے۔ اگست کے شروع میں شمالی کوریا نے گوام پر میزائل داغنے کی دھمکی دی جس سے امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان جنگی نعرے بازی میں تیزی آئی اور یہ چھوٹا سا جزیرہ عالمی توجہ کا مرکز بن گیا۔ تاریخی اور کسی حد تک نام نہاد عالمی قانون کے حساب سے بھی جزیرے پر شمالی کوریا کا دعویٰ کسی حد تک برحق ہے۔ گوام امریکہ کو 1898ء کی سپین امریکہ جنگ میں مال غنیمت کے طور پر ملا تھا۔ ہسپانوی سامراجیوں کے ساتھ اسی جنگ بندی کے معاہدے کے تحت امریکہ نے ’پورتو ریکو‘ اور فلپائن پر قبضہ کیا تھا۔ فلپائن نے بعد میں آزادی حاصل کی لیکن گوام ابھی تک ایک امریکی علاقہ ہے جو دراصل امریکہ کی کالونی ہے۔

تاہم کِم جونگ اس وجہ سے تشویش میں مبتلا ہے کہ اس جزیرے میں امریکی ہتھیاروں کا وسیع ذخیرہ موجود ہے۔ اس کے شمال میں ایک وسیع امریکی ایئر بیس ہے جو ایک گھنے جنگل میں پوشیدہ ہے اور جہاں جدید B1 بمبار طیارے ہیں جو کسی جنگ کی صورت میں شمالی کوریا پر حملہ کرسکتے ہیں۔ گوام کے مغربی ساحل پر ایک اور خفیہ بیس ہے جہاں ایٹمی حملوں کے قابل بحری جہازوں کا ایک سکواڈرن ہے۔ امریکہ کی طرف سے گوام کا مقرر کردہ گورنر، ڈونلڈ ٹرمپ کا شیدائی ہے۔ اُس نے بی بی سی کو دیئے گئے انٹرویو میں امریکی سٹریٹجک مقاصد کے لیے اس جزیرے کی اہمیت پر بات کی، ’’گوام میں امریکہ کی کسی بھی جگہ کی نسبت اسلحے کا زیادہ بڑا ذخیرہ ہے … یہاں گوام کے پہاڑوں میں کافی تعداد میں بم اور میزائل ہیں جن سے ہفتوں جنگ کو جاری رکھا جا سکتا ہے۔‘‘

فی الوقت عارضی طور پر جنگی لفاظی میں ایک ٹھہراؤ آیا ہوا ہے۔ شمالی کوریا کے ریاستی میڈیا نے کہا ہے، ’’کِم جونگ نے گوام پر میزائل داغنے کے منصوبے پر نظرثانی کی ہے۔ اگرچہ وہ میزائل داغنے کو تیار ہیں لیکن کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے احمق امریکیوں کی حرکتوں پر نظر رکھیں گے۔‘‘

پیسفک خطے کے ممالک اور ہمسائے اس صورت حال سے پریشان ہیں اور تنازعے کا حل چاہتے ہیں۔ چینی حکمران صلح کرانے کی کوشش کر رہے ہیں اور امریکہ کے ساتھ اُن کے متضاد تعلقات اس تنازعے میں واضح ہوئے ہیں۔ چینی حکومت نے ’دو طرفہ گریز‘ کے اپنے پرانے مؤقف کو دہرایا ہے۔ جس کے تحت شمالی کوریا سے اپنے ایٹمی اور میزائل تجربات اور امریکہ اور جنوبی کوریا سے علاقے میں اپنی فوجی مشقیں روکنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے شمالی کوریا کے وزیر خارجہ ری یونگ ہو سے منیلا میں ملاقات کی۔ سرکاری اخبار’چائنا ڈیلی‘ نے لکھا، ’’صرف پابندیاں پیانگیانگ کے ہوش ٹھکانے نہیں لا سکتیں۔‘‘ اگرچہ چین نے نمائشی پابندیاں لگائی ہیں لیکن وہ اپنے ’’سپر پاور‘‘ کے نئے مقام کو واضح کرنا چاہتا ہے۔ ’کمیونسٹ پارٹی‘ کے اخبار گلوبل ٹائمز نے کہا، ’’اگر شمالی کوریا نے گوام پر حملہ کیا تو چین نیوٹرل رہے گا… لیکن اگر امریکہ اور جنوبی کوریا نے شمالی کوریا پر حملہ کیا تو چین شدت سے مداخلت کرکے اُنہیں روکے گا۔‘‘ جاپانی اخبار ’اساہی شمبن‘ مایوسی سے لکھتا ہے، ’’دونوں اطراف سے بیان بازی جنگ کے خطرے کو بڑھا رہی ہے۔‘‘

اس تنازعے کی شدت امریکی سامراج کے زوال اور سرمایہ داری کے بڑھتے ہوئے بحران کی غمازی کرتی ہے جس سے سفارتی تنازعے بڑھ کر ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ملکوں کے درمیان جنگ کی دھمکیوں تک جا رہے ہیں۔ اِس نظام کے تحت برصغیر سمیت دنیا بھر میں کھینچی گئی درجنوں سامراجی لکیروں کی طرح نہ تو شمالی اور جنوبی کوریا کی سامراجی تقسیم ختم ہو سکتی ہے، نہ ہی دور رس امن و استحکام کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔