اویس قرنی

ہمالیہ سے اونچی، سمندر سے گہری اور شہد سے میٹھی پاک چین دوستی کا آجکل شور کچھ زیادہ ہی ہے، خاص طور پر پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کے بعد اس میں شدت آئی ہے۔ لیکن شاید حکمران طبقات یا تو یہ جانتے نہیں کہ سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت میں رشتے، ناطے، یاریاں اور دوستیاں سب پیسے کے گرد گھومتی ہیں، یا پھر یہ سب کچھ جاننے کے باوجود وہ عام عوام کو بے حس اور بے وقوف سمجھتے ہیں کہ وہ ان کی ایسی چال بازیوں کو سچ سمجھ کر خوش آئند مستقبل کی آس میں ہر حملے اور زخم پر چپ سادھے بیٹھے رہیں گے۔ آجکل ایسا نا ممکن ہے کہ کسی بھی حکومتی اہلکار سے پاکستا ن کی بہبود، معیشت یا صنعت پر کوئی بات کی جائے اور اس میں سی پیک کا ذکر نہ ہو۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جو رقم پاکستان میں آرہی ہے کیا وہ امداد ہے، سرمایہ کاری ہے یا پھر کوئی قرضہ۔ ۔ ۔ اس بات پر آج تک کوئی حکومتی اہلکار واضح طور پر کو ئی صاف جواب نہیں دے سکا۔ 62 ارب ڈالر، جوکہ تقریباً 65 کھرب روپے بنتے ہیں، کی ریاستی ذمہ داری کے عوض یہ بھاری سرمایہ کاری ایک ایسی سرمایہ کاری ہے جس میں چین پاکستان کو پیسے دیکر اپنے سامراجی مقاصد کے لیے بنیادی انفراسٹرکچر کی تعمیر کروا رہا ہے جس کے ذریعے وہ اپنی منافع خوری میں اضافہ کر سکے اور اس کے ساتھ ہی اپنے لیے بنوائے جانے والے اس انفراسٹرکچر پر دی جانے والی رقم پر بھاری سود بھی لگایا جا رہا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہے کہ جیسے کوئی شخص اپنی گاڑی کی گزر گاہ بنوانے کے لیے اپنے ہمسائے کو گلی پکی کروانے کے لیے پیسے دے، جس سے خود اُس کو کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ ہو، اور اس پیسے کے ذریعے سود بھی حاصل کرے۔

چینی سرمایہ کاری کاایک سب سے اہم نقطہ چین کے جنوب مغربی علاقے، خصوصاً کاشغر، میں مسلسل بڑھتی ہوئی غربت ہے، جہاں 50 فیصدسے زائد آبادی انتہائی غربت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ ملکی مراکز سے طویل فاصلے کی بنیادپر ان علاقوں میں ترقیاتی کام ناقابل عمل ہیں۔ لیکن سی پیک کی بدولت ان علاقوں میں جہاں ریاستی بالادستی قائم کی جا سکے گی وہیں یہاں موجود بڑے پیمانے پر بے روزگاروں سے انتہائی کم اجرتوں پر اس منصوبے کی تکمیل کے لیے ان کی محنت کا استحصال بھی کیا جائے گا۔

اس سرمایہ کا ری کا ایک حصہ قرضوں کی شکل میں چینی بینک دے رہے ہیں جبکہ دوسرا بڑا حصہ خصوصاً توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے ہے۔ قرضوں کی ادائیگی حتمی طور پر پسے ہوئے طبقے سے بھاری ٹیکس وصولی کے ذریعے ہوگی جبکہ سرمایہ کاری کے ذریعے عام انسانوں کو مہنگی ترین بجلی کی فراہمی سے بھاری منافعے اکٹھے کیے جائیں گے۔ سی پیک کی شکل میں چین پاکستان کو پیسے عنایت نہیں کر رہا بلکہ اس کے برعکس یہ ہر موڑ پر بھاری منافع بٹورے گا۔ پہلے سے طے شدہ ’Debt-to-Equity Ratio‘ کے مطابق، جوکہ 80-20 فیصد رکھی گئی ہے، یہ اتنا ہی تناسب بنتا ہے جتنا 90ء کی دہائی میں آئی پی پیز لگاتے وقت تھا۔ اور آج تقریباًدو دہائیاں گزرنے کے باوجود بجلی کی لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ تمام تر چینی سرمایہ کاری صرف 26 مہینوں کے مختصر عرصے میں تمام تر اخراجات وصول کر لے گی، لیکن 25 سالہ معاہدے کے زد میں پاکستان کے عوام، مہنگی بجلی کے ساتھ مزید دگر گوں کیفیت میں دھکیل دیے جائیں گے۔

پاکستان و چین سمیت عالمی سرمایہ داری اس وقت شرح منافع کی گراوٹ کی زد میں ہے جسکی وجہ سے زائد پیداواریت اور زائد پیداواری صلاحیت کا بحران در پیش ہے۔ چین اس وقت کینشین طرز کی معیشت کی سب سے تجربہ گاہ بن چکا ہے۔ بڑے پیمانے پر ریاستی اخراجات کر کے معیشت کو سنبھالنے کی کو شش کی جارہی ہے۔ پورے کے پورے شہر بنا دیے گئے ہیں لیکن ان میں رہنے والا کو ئی نہیں ہے اور اب یہ ’گھوسٹ سٹی‘ بن چکے ہیں۔ سڑکوں کو اکھاڑ کر از سر نو تعمیرات کی گئیں، غیر ضروری طور پر فلائی اوور اور پُل تعمیر کیے جا رہے ہیں، جس کی حتمی وجہ کسی نہ کسی طور معیشت کو سرگرم رکھنا ہے، تاکہ ان منصوبوں سے صنعت چلتی رہی۔ اب جبکہ چین کی حدود و قیود میں اس کی گنجائش کم سے کم ہوتی جا رہی تو سرمایہ اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لیے چینی حدود کو پھلانگ کر دوسرے خطوں میں جانا شروع ہوا ہے۔ پاکستان میں اقتصادی راہداری بھی اسی کا حصہ ہے اور نہ صرف پاکستان بلکہ بیشتر ممالک میں چینی سرمایہ سر گرم عمل ہے۔ چین میں بھی ایک بڑی تعداد بیروز گاروں کی ہے جس کو ان منصوبوں میں کھپایا جائے گا۔ سی پیک منصوبے کے لیے بیشتر مزدور، مشینری اور دیگر سامان و آلات چین سے براہ راست منگوائے جائیں گے۔ نہ صرف یہ بلکہ اس منصوبے کی انشورنس بھی 13 فیصد خرچے پر چینی کمپنیاں ہی کر یں گی۔ دوسرے لفظوں میں تمام تر چینی پیسہ پاکستان کا چکر لگا کر سود سمیت واپس چین میں منتقل ہو جائے گا۔ مینیجنگ اور ڈویلپمنٹ منصوبوں کے نام پر 23 سال تک کی مدت کے لیے ٹیکسوں میں چھوٹ ہو گی، بھاری مشینری سمیت تمام تر سامان امپورٹ ڈیوٹی سے مستثنیٰ ہو گا، وسیع اراضی 20 سال کی مدت کے لیے پانی، بجلی اور دیگر انفراسٹرکچر سمیت لیز پر مہیا کی جائے گی۔ دوسرے لفظوں میں پورا ملک چینی کمپنیوں کی جھولی میں ڈال دیا جائے گا۔

اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ملکی انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے کن کن شعبوں میں سرمایہ کاری کی جارہی، اور کیا ان شعبوں میں واقعی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے بھی یا نہیں۔ مطلب ایسا کرنا بے وقوفی ہو گا کہ ایک انسان جس کے گھر میں اگلے پہر کا راشن نہ ہو اور وہ سود خور سے بھاری رقم قرض لے کر گھر کی سفیدی کر انا شروع کر دے۔ بظاہر سی پیک کے تقریباً تمام بڑے منصوبوں کا رحجان سڑکوں اور توانائی کے شعبے میں ہے۔ اکانومسٹ کے مطابق پاکستان میں پہلے سے موجود سڑکوں کا جال ہی پاکستانی ضروریات سے بہت وافر ہے۔ اور بجلی کے شعبے میں پہلے سے موجود پاور پلانٹس موجودہ ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ بجلی کا نہ ہونا، اس وجہ سے نہیں ہے کہ پیدوار کم ہو رہی ہے بلکہ بجلی کی پیداوار کرنے والے پاور پلانٹس جن سرمایہ داروں کی ملکیت ہیں، ان کی منافع خوری کی ہوس کی وجہ سے بجلی کم اور مہنگی بنائی جا رہی ہے۔

حالیہ بجٹ میں فیڈرل پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ (PSDP) کا تقریباً پانچواں حصہ ’180 ارب روپے‘ راہداری کے منصوبوں کے لیے وقف کیا گیا ہے، اس کے علاوہ سڑکوں کے لیے 320 ارب روپوں سمیت 411 ارب روپے ٹرانسپورٹ اور مواصلات کے لیے جبکہ 401 ارب روپے راہداری کے توانائی کے منصوبوں کے لیے رکھے گئے ہیں۔ ساتھ ہی راہداری کے لیے کام کرنے والے چینی لوگوں کی حفاظت کے لیے 1500 سکیورٹی اہلکاروں کی ٹریننگ کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ اور اس وقت 8100 چینی ورکروں کے لیے8000 سکیورٹی افسروں کو تعینات کیا جا چکا ہے۔ معا ہدے کے مطابق ان تمام تر سکیورٹی معاملات کے عوض پاکستانی حکمرانوں کو ایک دھیلا تک وصول نہیں ہونا۔ جس کے لیے پھر پاکستان کے محکوم طبقات پر یوٹیلیٹی بلوں میں اضافی سر چارج لگایا جارہا ہے تا کہ سی پیک کے حفاظتی خرچے کے پیسے اکٹھے کیے جا سکیں۔ نہ صرف یہ بلکہ سڑکوں کی حفاظت، مرمت اور دیکھ بھال بھی پاکستان کے ذمہ ہو گی۔ چین اِس وقت سب سے بڑے ساہوکار کے طور پر پاکستان کو قرضہ دینے والا ملک بن گیا ہے۔

زراعت

سی پیک کے پس پردہ عزائم جوکہ’ ماسٹر پلان‘ لیک ہونے کے بعد زیادہ وا ضح ہوئے ہیں، سے اس بات کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل کام نہیں کہ اس سرمایہ کا ری کا کردار خطے میں سامراجی بالادستی پر مبنی ہے۔ سڑکوں اور توانائی سے ہٹ کر سی پیک کی ایک سنجیدہ انوسٹمنٹ ’زراعت ‘ کے شعبے میں بھی کی جا رہی ہے۔ اس معاملے میں چینی افسر شاہی کے تحفظات دور کرنے کے لیے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے حالیہ بجٹ میں سب سے بڑی رعایتیں بھی زراعت کے شعبے سے منسلک انڈسٹری کو دی ہیں۔ لیکن ان رعایتوں کا قطعاً کو ئی فائدہ مقامی دہقانوں کو نہیں پہنچنے والا۔ ان رعایتوں کا مقصد اس گراؤنڈ کو بنانا ہے جو چینی سرمایہ کاری سے پہلے درکار ہے، یعنی اس شعبے سے متعلق تمام مشینری پر ٹیکس اور ڈیوٹی کی چھوٹ دی گئی ہے۔ اب چینی سرمایہ کار بیج سے لیکرہل اور ٹریکٹر و تھریشر تک اپنے ساتھ بغیر کسی ٹیکس یا پھر اضافی خرچے کے لا سکیں گے۔ اس سے بھی بڑھ کر بہت بڑی سرکاری اراضی چینی کمپنیوں کو انتہائی ارزاں داموں پر لیز پہ دی جا رہی ہے۔ معاہدے کے مطابق ان چینی کمپنیوں کو چین کی گورنمنٹ انتہائی سستے اور بعض مقامات پر بغیر سود کے قرضوں کی فراہمی کرے گی اور دونوں ممالک کی حکومتیں اور وزارتیں ان کمپنیوں کے ساتھ مکمل تعاون کرنے کی پابند ہوں گی۔ پاکستان کے خستہ حال انفراسٹرکچر کی وجہ سے سبزیاں، پھل اور دیگر زرعی اجناس کا 50 فیصد منڈی تک آتے آتے ناقابل استعمال ہوجاتا ہے۔ اس صورت حال میں ریاستی پشت پناہی کی حامل چینی کمپنیوں کو یہاں پر ایک بڑی منڈی تک رسائی حاصل ہو پائے گی۔ اسی مخصوص ضمن میں 17 پروجیکٹس پر کام ہو گا جن میں سے ایک این پی کے فرٹیلائزر پلانٹ کی تعمیر ہے جس کی سالانہ پیداوار 8 لاکھ ٹَن تک ہوگی۔ ناگزیر طور پر ان کمپنیوں کا مقابلہ نہ کر سکنے کی وجہ سے پہلے سے مفلوک الحال زرعی کسان مزید ابتری کی طرف جائیں گے اور ان کمپنیوں میں زرعی ملازمت کی طرف راغب ہوں گے۔ پاکستان کی بڑی آبادی دیہاتوں میں مقیم ہے اور زراعت کے شعبے سے وابستہ ہے جن پر آنے والے دنوں میں بیگاری کی تلوار لٹک رہی ہے۔ جبکہ چینی کمپنیوں میں زیادہ تر کام مشینوں کے ذریعے کیا جائے گا۔ جس کی وجہ سے آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ حصول روزگار سے محروم ہونے کی طرف جائے گا۔

گلہ بانی کا شعبہ صدیوں سے زراعت کے ساتھ منسلک رہا ہے، چین کی اقتصادی راہداری کے منصوبے میں بھی گلہ بانی میں بھاری سرمایہ کاری کا عندیہ دیا گیا ہے۔ سکھر میں لگائے جانیوالے گوشت کے پلانٹ سے سالانہ 2 لاکھ ٹَن کی پیداوار متوقع ہے اور اسی طرح سے دیگر دو پلانٹوں سے 2 لاکھ ٹَن کی سالانہ دودھ کی پیداوار کی جائے گی۔ دیگر پلانٹس کے ساتھ کپاس کے لیے بھی ایک پلانٹ تجویز شدہ ہے جس کی سالانہ پیداوار ایک لاکھ ٹَن تک ہو گی۔ پنجاب میں 6500 ایکڑ پر محیط زمین صرف بیجوں کی پیداوار کے لیے مختص کی گئی ہے۔ کل ملا کر تقریباً ہر منافع بخش شعبے میں چینی کمپنیاں سرمایہ کاری کرنے کی طرف جا رہی ہیں۔

صنعت

سامراجی مداخلت کے ذریعے میں مقامی انڈسٹری، صنعت و حرفت کو تاراج کرنے کی چین کی ایک تاریخ موجود ہے۔ پاکستان نے چین کے ساتھ پہلے ہی 2007ء میں ’فری ٹریڈ ‘ معاہدہ کیا ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے چین کی سستی مصنوعات نے پاکستان کی صنعتی معیشت پر انتہائی منفی اثرات ڈالے ہیں۔ اس معاہدے کی وجہ سے 2013ء میں چین کے ساتھ تجارتی خسارہ 4 ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا جو کہ 2016ء میں 9.1 ارب ڈالر کی خطر ناک حد تک تجاوز کر گیا۔ سی پیک کی آمد سے یہ خسارہ مزید بڑھنے کی طرف جائے گا۔ چینی کو اضافی پیداوار اور پیداواری صلاحیت کامسئلہ درپیش ہے۔ بڑے پیمانے پر پیداوار کرنے والی کمپنیاں وہاں موجود ہیں جو بڑے پیمانے پر برآمدات کرتی ہیں۔ یہی ون بیلٹ ون روڈ (OBOR) کی سب سے بڑی وجہ بھی ہے تاکہ چین اپنی اشیا کو بیشتر منڈیوں تک آسانی سے لے جا سکے۔ پاک چین تجارتی تعلقات اور تجارتی خسارے کے حوالے سے پاکستان میں چینی سفیر ’سن وے ڈونگ‘ نے کہا ہے کہ ’’پاکستان کی کوئی بھی ایسی پیداوار نہیں ہے جس کی چین کو ضرورت درپیش ہو۔‘‘

صنعتی حوالوں سے چینی حاکموں نے ملک کو تین مختلف حصوں میں بانٹا ہے، جن میں مغربی اور شمال مغربی حصوں میں بلوچستان اور پختونخواہ کے صوبوں سمیت کوہستان گلگت اور خضدار کے علاقوں میں دبی معدنیات خصوصاً سونے اور ہیرے کی کانوں پر انکی رال ٹپک رہی ہے۔ وسطی حصے کی زرخیزی کی وجہ سے کپاس پر نظریں جمی ہوئی ہیں، اس کے علاوہ میانوالی، داؤد خیل، خوشاب اور عیسیٰ خیل کی سنگلاخ چٹانوں سے سیمنٹ کے خام مال کی لوٹ مار کے لیے منصوبے ترتیب دیے جا رہے ہیں۔ جنوبی حصے میں خصوصاً کراچی اور گوادر پورٹ کی وجہ سے سٹیل، لوہا اور آٹو سپیئرپارٹس کی پیداوار کی جائے گی۔

بجلی

پاکستان کی بجلی جنوب ایشیا میں سب سے مہنگی ہے۔ پاکستان میں فی یونٹ بجلی کے 0.13 ڈالر بنتے ہیں جبکہ انڈیا میں 0.12 ڈالر، چین میں 0.11 ڈالراور بنگلہ دیش میں 0.9 ڈالر ہیں۔ بجلی کی مہنگی فراہمی کی وجہ سے پاکستان کی انڈسٹری کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ ملکی برآمدات میں 60 فیصد حصہ رکھنے والی ٹیکسٹائل کی صنعت مہنگی پیداوار کی وجہ سے چین، بنگلادیش اور انڈیا کامقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ عام صارفین کو صرف استعمال شدہ بجلی کے رقم کی ادائیگی نہیں کرنی پڑتی بلکہ اس کے علاوہ دیگر بے شمار سر چارج، جی ایس ٹی اور ٹیکسوں کی بھی ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ کسی کے گھر ٹی وی ہے یا نہیں، وہ دیکھے یا نہ دیکھے لیکن حکومت کو 35 روپے پی ٹی وی چارجزکی مد میں بجلی کے بل کے ساتھ دینے پڑتے ہیں۔

مہنگی بجلی کے علاوہ سب سے بڑا مسئلہ لوڈ شیڈنگ کا ہے۔ پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کے انڈیا اور بنگلہ دیش میں منتقل ہونے کی ایک بڑی وجہ متواتر لو شیڈنگ بھی ہے۔ 8 سے 14 گھنٹے کی لوڈشیدنگ ایک معمول بن گیا ہے اور بعض دیہی علاقوں میں تو یہ دورانیہ 18 گھنٹے تک بھی چلا جاتا ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ بجلی کا نہ ہونا نہیں ہے، جس کا اعتراف خود بورژوازی کے دانشور بھی کرتے ہیں، بلکہ بجلی کی عدم دستیابی اور لوڈشیڈنگ کی بڑی وجہ پیسوں کی کمی بتائی جاتی ہے۔ لیکن یہ پیسہ کیسے کم ہوتا جا رہا ہے اور لوڈشیڈنگ کیسے طویل تر ہوتی جا رہی ہے جبکہ عام صارفین اپنی آمدن کا ایک اچھا خاصا حصہ اس بجلی کے استعمال کی مد میں حکومت کوادا کرتے ہیں۔ اس کی وجہ جو کمپنیاں بجلی کی پیداوار کے پلانٹس کی ملکیت رکھتی ہیں، اُن کے ساتھ کیے گئے معاہدے ہیں جن کی رو سے وہ مہنگی ترین بجلی حکومت کو بیچتی ہیں اور اس کے ساتھ ہی اس بجلی کے لیے درکار خام مال جیسے تیل پر بھاری رعایتیں بھی حاصل کرتی ہیں۔ ان معاہدوں کی رو سے حکومت نے ان کو صارفین کے خون سے نچڑے پیسوں کی فراہمی کرنی ہی ہوتی ہے چاہے یہ کمپنیاں بجلی پیدا کریں یا نہ کریں۔ سامراجی کمپنیوں کا بجلی کی پیداوار کا واحد مقصد بھاری منافع جات ہیں، جس کی وجہ سے بجلی مہنگی بھی ہے اور اس کی عدم دستیابی بھی۔ بجلی پیدا کرنے کے دوسرے سستے اور ماحول دوست طریقہ کار کی بجائے فوسل فیول سے بجلی کی پیدا وار پر بھاری سرمایہ کاری کا مقصد بھاری منافع خوری ہے۔ سی پیک معاہدوں میں توانائی کے شعبوں میں ایک خطیر رقم صرف کی جارہی ہے اور آئے دن شریف برادران ملک کے کسی نہ کسی علاقے میں ان پاور پلانٹس کا افتتاح کر تے ہوئے نظر آتے ہیں۔ لیکن جتنے زیادہ پاور پلانٹس بنتے جا رہے ہیں لوڈشیڈنگ اور بجلی کی قیمتوں میں اتنا ہی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس کی کُل پیداواری صلاحیت 2015ء میں 23,928 میگا واٹ تھی اور گزشتہ دو سالوں میں ہر روز نئے لگنے والے نئے پلانٹس کی بدولت اس صلاحیت میں ناگزیر طور پر اضافہ ہوا ہوگا۔ اس تناسب سے پاکستان کی کُل طلب اپنی بلند ترین شرح میں ہرسال 10 فیصد اضافے کے با وجود 19,000 میگا واٹ سے تجاوز نہیں کرتی۔ چینی سرمایہ کاری سے اگر نئے پلانٹس بننے کی طرف جاتے ہیں اور پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہو تا بھی ہے، جوکہ پہلے ہی طلب سے زیادہ ہے، تو بھی بجلی کی ترسیل کا انفراسٹرکچر بے حد بوسیدہ ہونے کی وجہ سے بجلی کی مکمل ترسیل یقینی نہیں بنائی جا سکتی۔ بجلی کی ناقص ترسیل کی وجہ سے بے شمار توانائی ضائع ہو جاتی ہے، اس کے علاوہ بہت سارے علاقوں میں بجلی صرف اور صرف چوری کی ہی استعمال ہوتی ہے، ملکی اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے نمائندے، ملوں، فیکٹریوں ا ور محلات کے لیے بجلی کی چوری کرواتے ہیں یا پھر بجلی کی بل کی ادائیگی ہی نہیں کرتے جو کچھ عرصہ گزرنے کے بعد خود بخود معاف بھی ہو جاتی ہے۔ جس کے سبب آج پاکستان کا گردشی قرضہ پھر 402 ارب روپے کی سطح تک پہنچ چکا ہے۔ اس تمام تر بجلی چوری اور ضیاع کا خمیازہ پھر عام صارفین کو چکانا پڑتا ہے، ایک اندازے کے مطابق عام صارفین اس بجلی کی مد میں، جو انہوں نے کبھی استعمال نہیں کی، ہرسال تقریباً 200 ارب روپے ادا کرتے ہیں۔

انفراسٹرکچر

جس طرح کسی بھی ملٹی نیشنل کمپنی کومشہوری کے لیے ’ISO‘ سرٹیفکیٹ درکار ہوتا ہے، جو کہ سرمایہ داروں کا ایک بنایا ہوا لائحہ عمل ہے جس میں’’ بہتر معیار ‘‘کا تعین کیا جا تا ہے، جس کا مقصدخصوصاً درمیانے طبقے کی نسبتاً خوشحال پرتوں کو اپنی طرف راغب کرنا ہو تا ہے۔ بالکل اسی طرح چینی سرمایہ کاروں نے ایک لائحہ عمل اور ضابطہ ترتیب دیا ہے جو کہ سرمایہ کاری سے پہلے طے کرنا، یعنی خود کو اُن کی سرمایہ کاری کے معیار پر لانا، لازم ہے۔ جس کے لیے ملک میں آجکل فائبر آپٹک کیبل، تیز ترین انٹر نیٹ کے لیے کوششیں تیز ہو گئی ہیں۔ لاہور، روالپنڈی و اسلام آباد میں میٹرو بس کی تکمیل کی گئی اور اب ملتان و کراچی میں تعمیر ہو رہی ہے۔ لاہور کی اورنج ٹرین اور اسلام آباد میں نئی بننے والی میٹرو بس اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اسی لیے 93 ارب 40 کروڑ روپے کے اورنج ٹرین منصوبے پر’سول سوسائٹی‘ اورعدلیہ چاہے جتنا مرضی شور کر لیں، اس کو رکوایا نہیں جا سکتا۔ جہاں پیداوار میں اتنی زیادہ سرمایہ کاری ہورہی ہے وہیں پر اس پیداوار کی ترسیل کے لیے ملکی پیمانے پر ٹرانسپورٹ اور مواصلاتی شعبے میں بھاری سرمایہ کاری کی جارہی ہے۔ گوادر، اسلام آباد، کراچی، لاہور اور پشاور میں بڑے بڑے سرد خانوں کی تعمیر کی جائے گی۔ ان تمام شہروں میں دہشت گردی کے واقعات کا بھی خدشہ ہے جس کے لیے ہر سڑک، چوک اور مارکیٹ میں 24 گھنٹے کار آمد کیمرے نصب کیے جا رہے ہیں۔ جس سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ ہمارے حکمران عوام الناس کی حفاظت یا خوشحالی کے لیے نہیں بلکہ اپنے بیرونی آقاؤں کے ڈنڈے کی بدولت یہ کاروائیاں سر انجام دے رہے ہیں۔ ان منصوبوں کا مطلب حکمرانوں کی عوام پر قطعاً کوئی مہربانی نہیں ہے، بلکہ یہ شہروں اور ملک کو بالکل اسی طرح سجا رہے ہیں جیسے عید کے موقع پر بیوپاری مال مویشی کو تیار کرتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ مال وصول کیا جا سکے۔

سی پیک منصوبوں میں ’’انٹرٹینمنٹ انڈسٹری‘‘ کو بھی ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔ جس میں پارک، کروز، یاچ، گالف کورس، سپا، جم، کلب اور دیگر اس قسم کے بے شمار پلان شامل ہیں۔ پاکستان کے شہروں میں پہلے سے موجود پارکوں کی حالت دیکھ اندازہ لگایا جا سکتا ہے ان سی پیک پارکوں میں جانا اور ان کو استعمال کرنا کس حد تک حقیقت بن سکے گا۔ فلمی دنیا میں رہنے والے نودولتیوں اورکسی تہذیب سے عاری مڈل کلاس کے لیے یہی پراجیکٹ ہی سی پیک کی نیک نیتی کے ضامن ہیں۔ لیکن پاکستان کی وسیع اکثریتی محنت کش آبادی کے پاس ان عیاشیوں سے مستفید ہونے کے لیے نہ تو اتنا وقت میسر ہے اور نہ ہی وسائل۔

ان تمام تر دعوؤں کے بر عکس آج اکیسویں صدی میں بھی گوادر کا انفراسٹرکچر انیسویں صدی سے مماثلت رکھتا ہے۔ ملحقہ سڑکوں کے علاوہ سی پیک کی گوادر میں سرمایہ کاری برائے نام ہے۔ گوادر ابھی بھی نیشنل الیکٹرک گریڈ سے منسلک نہیں ہے یعنی وہاں اب بھی بجلی ایران سے ترسیل ہوتی ہے، وہاں پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے، معمولی بیماریوں کے علاج کے لیے لوگوں کو کراچی جانا پڑتا ہے، سکول کا لجوں کا نام و نشاں تک نہیں ہے۔ 2002ء میں شروع ہونے والا گوادر انٹر نیشنل ائیر پورٹ ابھی تک نہیں بن سکا۔ گوادر کے محنت کشوں کو دہائیوں سے سوائے کھوکھلے وعدوں اور دعوؤں کے کچھ نہیں ملا۔ گوادر پورٹ کے پہلے مرحلے کی تکمیل آج سے 12 سال پہلے ہو چکی ہے لیکن آج تک گوادر میں کوئی بڑاکام نہیں کیا جا سکا۔ ان جھوٹے وعدوں کا سلسلہ سی پیک منصوبے کے اعلان کے بعد زیادہ شدت اختیار کر گیا ہے۔

بدعنوانی

پاکستان کرپشن اور بدعنوانی میں دھنسی ہوئی معیشت ہے جہاں کالادھن، سفید دھن کی نسبت کئی گنا بڑا ہے اور کہیں زیادہ تیزی سے بڑھ بھی رہا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری میں بھی کئی ایسے معاملات دیکھنے میں آئے ہیں۔ جہاں حکمران طبقات کمیشن اور ٹھیکوں کے لیے مظلوم قومیتوں کے حقوق کی ڈھال میں ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں وہیں بہت سارے پراجیکٹ ان کمپنیوں کو نہیں دیے گئے جن کی ٹینڈر میں سب سے کم بولی تھی، جس واضح ہوتا ہے کہ اپنی ابتدا سے ہی اس منصوبے میں کرپشن و بدعنوانی سرایت کر چکی ہے۔ اس منصوبے کے تمام معاہدے چینی کمپنیوں سے براہ راست طے پائے ہیں، ٹھیکیداری اور دسرے سب کنٹریکٹ پاکستانی کمپنیوں کے کھاتے میں آئیں گے۔ نہ صرف اتنا بلکہ یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ بہت سارے پراجیکٹس میں چینی’بلیک لسٹ ‘کمپنیوں کو نوازا گیا ہے۔ جن کے معیار پر خاصے تحفظات ہیں۔ ماضی کچھ پراجیکٹس اس کی واضح مثال ہیں جن میں نندی پور ہائیڈرو پاور الیکٹرسٹی پلانٹ، اَپر چناب ہائیڈرو پاور پراجیکٹ، تربیلا ڈیم اور داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ شامل ہیں۔ چینی خبر رساں ایجنسی گلوبل میڈیانے یہ انکشاف کیا ہے کہ’ ’کچھ چینی کمپنیوں کی پاکستان میں واضح کوتاہیاں ہیں، وہ طویل المدت منصونہ بندی کی بجائے فوری حاصلات پر زور دیتی ہیں۔ بے شمار چینی کمپنیوں نے پاکستان کے قوانین، سماجی و ثقافتی اقدار کی خلاف ورزی کی ہے جس سے چینی لوگوں کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا ہے۔‘‘

ریاستی ادارے خود اس کرپشن کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔ پاکستان اسٹیٹ بینک کے مطابق پچھلی ایک دہائی سے ٹیکسوں کی وصولی اور جی ڈی پی کی نسبت 8.5 فیصد سے 9.5 تک ہی رہی ہے، جو کہ عالمی طور پر کم ترین سطح ہے۔ 22 کروڑ کی آبادی میں سے صرف 12 لاکھ افراد اور کمپنیاں ٹیکس جمع کراتی ہیں، جس کی وجہ سے ایک بھاری رقم کی وصولی پہلے سے دگر گوں حالات میں زندگی گزارنے والے عام صارفین سے بالواسطہ ٹیکسوں کی شکل میں کی جاتی ہے۔ پاکستانی عوام شاید پوری دنیا میں سب سے زیادہ بالواسطہ ٹیکس دینے والوں میں سے ایک ہے۔ پچھلی ایک دہائی سے ملک میں بیرونی سرمایہ کاری متواتر گراوٹ کی شکار ہے۔ 2007-8ء میں 5.2 ارب ڈالر تھی جوکہ 2016ء میں 1 ارب ڈالر سے بھی کم پر چلی گئی۔ جس کی بڑی وجوہات دہشت گردی اور سیاسی عدم استحکام بتائی جا تی ہیں، جبکہ ایک کلیدی وجہ عالمی سطح پر سرمایہ داری کا بحران ہے۔ اس کے علاوہ ’ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کرپشن پر سیپشن انڈیکس ‘ کے مطابق پاکستان دنیا کے سب سے زیادہ کرپٹ ممالک میں شمار ہوتا ہے۔

ون بیلٹ-ون روڈ

چینی حکمرانوں کی تمام تر توانائیاں اس وقت ون بیلٹ -ون روڈ (OBOR) پر مرکوز ہیں۔ 5 ٹریلین ڈالر کا یہ منصوبہ ایشیا، مشرق وسطیٰ، یورپ اور افریقہ کے 60 سے زیادہ ممالک میں سرمایہ کاری پر مبنی ہے۔ ون بیلٹ ون روڈ میں شاہراہ ریشم (Silk Road) اور سمندری شاہراہ ریشم (Maritime Silk Road) کے رُوٹ شامل ہیں۔ اِن میں سے خشکی کا رُوٹ چین سے شروع ہو کر وسط ایشائی ممالک سے گزر کر ایران، ترکی اور روس سے ہوکر یورپ میں جرمنی سے وینس تک جائے گا۔ سمندری رُوٹ یونان سے ہوتا ہوا افریقہ، انڈیا، سری لنکا، انڈونیشیا سے گزر کر ویتنام کے راستے سے واپس چین میں داخل ہو جائے گا۔ پاکستان کی اقتصادی راہداری بھی چین کے اس وسیع معاشی اور اسٹریٹجک منصوبے کا چھوٹا سا حصہ ہے۔

’OBOR‘ کی اس چھتری تلے قریباً 270 اہداف طے کیے گئے ہیں۔ لیکن یہ تمام اہداف ایک سطحی انداز میں زیر بحث آئے ہیں جس کی وجہ ابھی تک ان اہداف کی ترجیحات واضح نہیں ہو سکیں۔ 2009ء سے چین نے غیر ضروری انفراسٹرکچر کی تعمیرات میں 6.8 ٹریلین ڈالر جھونک دئیے ہیں، جبکہ چین کا اپنا قرضہ جی ڈی پی کے 250 فیصد تک جا پہنچا ہے۔ بیشتر چینی سرمایہ کار اس منصوبے کو ’ون روڈ-ون ٹریپ‘ تک کا نام دے رہے ہیں۔

چین کی بیرونی سرمایہ کاریاں اور اسباق

چین کی اس وقت بیرونی ممالک میں سرمایہ کاری 1.5 ٹریلین ڈالر سے بھی تجاوز کر چکی ہے، جوکہ بہت ایک بڑا عدد ہے اور یہ محض پچھلے 12 سال کے موجود ریکارڈکا تخمینہ ہے۔ اِن میں 2200 معاہدے توانائی، رئیل اسٹیٹ، ٹیکنالوجی اور دیگر شعبوں میں کیے گئے ہیں۔ میانمار سے لیکر افریقہ، مشرق وسطیٰ، افغانستان اور حتیٰ کہ امریکہ اور یورپ تک، کوئی بھی ایسا خطہ اس سیارے پر نہیں جہاں چینی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی سرمایہ کاری نہ ہو۔

چینی سرمایہ کاری کی وحشت کا اندازہ سری لنکا سے لگایا جا سکتا ہے۔ CPEC کی طرح 2007ء میں سری لنکا نے بنیادی انفراسٹرکچر کو جہت دینے کے لیے چین سے تقریباً 65 ارب ڈالر قرضوں کی مد میں لئے۔ گوادر کی طرح ’ہمبنتوتا‘ پورٹ کے لیے 6.3 فیصد سود پر 301 ملین ڈالر لیے گئے۔ عام طور پر ان بڑے پبلک منصوبوں کے لیے دی جانے والی رقم پر عالمی بینک اور ایشین ڈیویلپمنٹ بینک 0.25 سے 3 فیصد تک سود وصول کرتے ہیں۔ تاہم فوربز کے مطابق آج ’’سری لنکا کو قرضوں کی ادائیگی کا شدید مسئلہ درپیش ہے۔ انفراسٹرکچر کی تعمیرات کے لیے ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک (چین سے) قرضے لیے گئے مگر اب ملک قرضوں کی واپسی کے لیے متبادل راستوں کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔ ‘‘وزیراعظم وکرم سنگھ بڑے پراجیکٹوں کا کنٹرول چینی کمپنیوں کو دینے پر تیارہے مگر فوربز کی اطلاعات کے مطابق چینی سفیر نے واضح طور پر وزیراعظم کو جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ہمیں آپکے خالی ائیرپورٹ نہیں بلکہ اپنا پیسہ واپس چاہیے۔‘‘ قرضے کی رقم کی عدم ادائیگی کی وجہ سے اب ایک ائر پورٹ، پاور پلانٹ اور ہمبنتوتا پورٹ 99 سال کی لیز پر چینی کمپنیوں کی ملکیت میں آ چکے ہیں۔ گوادر کی طرح پورٹ کے نواحی علاقوں میں انڈسٹریل یونٹس قائم کرنے کے لیے 15000 ایکڑ کی طویل اراضی بھی چین کو دی گئی اور حکومت نے عوام کو نئی جگہ منتقل کر نے کے منصوبے تیار کر لیے ہیں۔ ’ون بیلٹ ون روڈ‘ کے منصوبے اور سری لنکا میں اپنی بالادستی برقرار رکھنے کے لیے سری لنکا کو ’اکنامک ایڈ‘ بھی دی جارہی ہے۔ بھاری بیرونی قرضوں کی وجہ سے اس وقت سری لنکا اپنی قومی آمدن کا 95.4 فیصد قرضوں کی ادائیگیوں پر صرف کرنے پر مجبور ہو چکا ہے۔

اسی طرح کی ایک اور مثال وینزویلا کی ہے جہاں 2007ء کی 57 ارب ڈالر کی چینی سرمایہ کاری 2016ء میں 125 ارب ڈالر کی واجب الادا رقم بن گئی ہے۔ جس کے عوض چین، وینزویلا کے بیش قیمتی خزانے ’تیل‘ سے مالا مال ہو رہا ہے۔ ریاستی تیل کی کمپنی ’PDVSA‘ کے آڈٹ کے مطابق پچھلے سال روزانہ کی بنیاد پر 5 لاکھ 79 ہزار بیرل تیل کی چین میں ترسیل ہوتی رہی ہے۔

سامراجی سرمایہ کاری

چین کی پاکستان میں یہ پہلی سرمایہ کاری نہیں ہے بلکہ اس سے پیشتر بھی پاکستان اور چین نے کئی مشترکہ منصوبوں پر کام کیا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اُس وقت چین منڈی کی معیشت کی دوڑ میں شامل نہیں تھا بلکہ ایک منصوبہ بند معیشت کے تحت ان پراجیکٹوں کی تکمیل کی گئی تھی۔ 1960ء اور بعد کی دہائیوں میں چین نے پاکستان کو کئی جنگی آلات بغیر کسی منافع کے مہیا کیے، اسی طرح چین کے تعاون سے ہی دیوہیکل ’ہیوی انڈسٹریل کمپلکس ٹیکسلا ‘ کا قیام عمل میں آیا تھا۔ لیکن آج کا چین ’سوشلسٹ چین‘ نہیں ہے بلکہ ایک وحشی سامراجی ریاست میں بدل چکا ہے۔

پاکستانی معیشت پہلے ہی گہری دلدل میں دھنسی ہوئی ہے۔ سی پیک پر ہونے والے اخراجات کی رقم چین سے ہی پیدا ہورہی ہے اور واپس چینی کمپنیوں کو ہی منتقل ہورہی ہے۔ لیکن سود اور منافع سمیت اِس ’’سرمایہ کاری‘‘ کے دہندگان پاکستانی عوام ہوں گے۔ تاریخی طور پر ریکارڈ بجٹ خسارے اور تجارتی خسارے، قرضوں میں مسلسل اضافے اور برآمدات میں کمی کے ساتھ چین کی یہ تقریباً 60 ارب ڈالر کی سامراجی سرمایہ کاری ملکی کو معیشت کو کس طرف لے جائے گی، اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ سمجھنے کے لئے سری لنکا کی مذکورہ بالا مثال ہی کافی ہے۔ تاہم سرمایہ داری کے ہر منصوبے کی طرح سی پیک کے مضمرات بھی متضاد نوعیت کے حامل ہوں گے اور نئے تضادات کو جنم دیں گے۔ ایک بات واضح ہے کہ دودھ اور شہد کی نہریں بہہ جانے کے جو خواب حکمران دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ سراب اور دھوکہ ہیں۔ یہ منصوبے حکمرانوں کی لوٹ مار اور استحصال کے منصوبے ہیں۔ اِس نظام میں محنت کش طبقے کے لئے ذلت اور محرومی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ پاکستان کا محنت کش طبقہ جب بغاوت کرتے ہوئے تحریک میں سر گرم عمل ہو گا تو تمام تر دولت و معیشت کو اشتراکی ملکیت میں لیکر ہی سوشلسٹ بنیادوں پر سماج کی از سر نو تعمیر ممکن ہو سکے گی۔