برصغیر میں انقلابی طلبہ سیاست کی تاریخ پر ایک نظر
طلبہ کے انقلابی کردار اور مداخلت نے برصغیر کی انقلابی تحریکوں کا رخ موڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔
طلبہ کے انقلابی کردار اور مداخلت نے برصغیر کی انقلابی تحریکوں کا رخ موڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔
بھٹو کی زندگی اور موت کا سبق یہ ہے معروضی صورتحال کے ساتھ افراد بھی بدلتے ہیں اور طبقاتی جدوجہد کی حرارت میں ریڈیکل بھی ہو جاتے ہیں۔
’’اگر مجھے دوبارہ زندگی ملے تو میں دوبارہ اسی راستے پر چلوں گا کیونکہ زندگی میں سماج کی انقلابی تبدیلی کی جدوجہد کے علاوہ کوئی دوسرا عظیم مقصد ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘
تنگ نظر شعور، چھوٹی سوچ اور سطحی فکر صرف وقتی کیفیات اور ظاہریت تک محدود ہوتی ہے۔
پاکستان میں سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد اور انقلابی پارٹی کی تعمیر میں منوبھائی کا ناقابل فراموش کردار ہے جو کالم نگاری، اردو ادب، ٹی وی ڈرامے اورشاعری میں ان کے بے مثال کردار سے بھی زیادہ بلند اور اعلیٰ ہے۔
ایک متروک نظام کے نمائندے کبھی بھی ترقی پسند اور سائنسی فکر کے مالک نہیں ہو سکتے۔
اعلانِ بالفور کے ذریعے برطانوی سامراج نے مشرق وسطیٰ میں ایک یہودی ریاست کے قیام کا کھلا کھلم ارادہ ظاہر کیا۔
استحصال اور جبر کرنے والوں کی رنگت اور قومیت بدلنے سے اس نظام کی اذیتیں کم نہیں ہوتیں۔
پارٹیاں عہد سے مطابقت رکھنے والے مسائل اور کرنٹ ایشوز کے مطابق اپنے انتخابی منشور تو ہر الیکشن سے قبل تبدیل کر سکتی ہیں۔ مگر کوئی بھی پارٹی اپنے قیام کے مقاصد کو بعد ازاں تبدیل نہیں کر سکتی۔
آج پچاسویں سالگرہ پر اِس بنیادی پروگرام سے پارٹی قیادت کے کھلے انحراف کو سمجھنے کے لئے کچھ زیادہ غور و خوض کی ضرورت نہیں ہے۔
ایشیائی خطوں خصوصاً برصغیر میں کلاسیکی شکل میں غلام داری اور جاگیرداری کبھی بھی وجود نہیں رکھتی تھی۔
سوویت طلبہ بیرون ممالک سے آنے والے طلبہ سے پوچھتے کہ آپ کی حکومت تعلیم حاصل کرنے کے لیے آپکو کتنے پیسے دیتی ہے۔
انقلابِ روس انسانیت کی عظیم تاریخی جست تھی جس نے تاریخ کا دھارا ہمیشہ کے لئے موڑ دیا۔ اس کے اثرات اتنے گہرے تھے کہ پورے کرہ ارض پر حکمران طبقات کے تخت لرزنے لگے۔
تحریر: لال خان کتاب لکھنے میں ملالہ یوسف زئی کی معاونت کرنے والی مصنفہ کرسٹینا لیمب نے1989ء میں پاکستان کے بارے میں گہرے تجزیئے پر مشتمل ایک مشہور کتاب ’’Wating For Allah‘‘ ( اللہ کا انتظار) لکھی تھی۔ اس کتاب میں انہوں نے لکھا تھا کہ اگر بھٹو اپنی قبر […]
اس کی شہادت کے پچاس سال بعد بھی اس کی جدوجہد نئی نسل کے لئے مشعل راہ ہے اور کئی اسباق سمیٹے ہوئے ہے۔ اس کی یادیں آج بھی محروم اور محکوم طبقات کی امیدوں اور ارمانوں کو جلا بخشتی ہیں۔