احسن جعفری

سرمایہ داری نے تکنیک کی ترقی کو جو بلندی فراہم کی ہے اس کے متعلق ماضی میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا لیکن تکنیک کی اس ترقی نے انسانی سماج کے مسائل کو نہ صرف بڑھاوا دیا بلکہ ان کی پیچیدگی میں بھی اضافہ کیا۔ منافع اور شرحِ منافع ہی تمام ترقی کے پیچھے قوتِ محرکہ کے طور پر موجود رہے جس نے ان میدانوں کو ترقی سے بالکل عاری رکھا جہاں منافع میں خاطرخواہ اضافہ ہونے کے امکانات نہیں پائے جاتے۔ دوسری طرف ان جہتوں میں ترقی کے ریکارڈ توڑ دیئے گئے جہاں سے زیادہ سے زیادہ منافع نچوڑا جا سکتا ہے۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی ایسی ہی ایک جہت ہے کہ جس میں ہونے والی ترقی کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ کالی سفید کمپیوٹر اسکرینوں اور صرف ورڈ پروسیسنگ پرگراموں سے ہوتا ہوا یہ سفر آج ٹچ اسکرین اسمارٹ فونز کی صورت میں ہمارے اطراف میںبکھرا پڑا ہے۔ ترقی یافتہ خطوں میں ہی نہیں بلکہ پسماندہ خطوں میں بھی کہ جہاں بنیادی انسانی ضروریات میسر نہیں ہوتیں وہاں بھی اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ کنکشن ضرور مل جاتا ہے۔ ایک طرف جہاں یہ مظہر مشترک اور ناہموار ترقی کا شاخسانہ نظر آتا ہے تو دوسری طرف اس کے پیچھے سرمایہ داری کی ایسی جدید جکڑ بندیاں اور استحصال پوشیدہ ہے جو آنے والے وقت میں سماجوں کو مکمل غلاموں کے معاشروں میں تبدیل کر دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

کلاسیکل انداز میں اگر دیکھا جائے تو کمپیوٹر یا انفارمیشن ٹیکنا لوجی سے منافع یا تو ہارڈ ویئر یا پھر سافٹ ویئر فروخت کرکے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ یہ ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر کسی نہ کسی مسئلے کے حل کے لئے فروخت کئے جاتے تھے اور خریدنے والا براہ راست اس سافٹ ویئر یا ہارڈ ویئر کو استعمال کرتا تھا۔ لیکن آج ایسا نہیں ہے۔ ہم فیس بک یا گوگل نہیں خریدتے۔ اگر فیس بک اورگوگل فروخت نہیں ہو رہے توکیا فروخت ہو رہا ہے؟ آج یہ دیوہیکل کمپنیاں سافٹ ویئر یا ہارڈ ویئر فروخت کر کے اربوں ڈالر منافع نہیں کما رہے بلکہ وہ ایسی چیز فروخت کر رہے ہیں جو نہ ہارڈ ویئر ہے اور نہ سوفٹ ویئر۔ وہ ہے لوگوں کا پرسنل ڈیٹا۔ ایک طرف ان کمپنیوں نے ہماری ذاتی معلومات کو بازار کی جنس کے طور پر بیچنا شروع کیا جو ہماری مرضی کے بغیر گوگل، فیس بک یا دوسرے ڈیجیٹل پلیٹ فارم غیر محسوس طریقے سے اکٹھا کر تے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک اورچیز جسے مارکیٹ میں بڑے کاروباروں کو فروخت کیا جاتا ہے اور وہ ہے مارکیٹ میں ہونے والی تبدیلیوںکے متعلق مستقبل کی پیش گوئیاں اور انسانی رویوں میں ہو سکنے والی ممکنہ تبدیلیاں اور ان انسانی رویوں کو کمپنیوں کی مرضی سے تبدیل کر دینے کی صلاحیت۔

یہ ہے جدید سرمایہ داری کے نئے ڈیجیٹل ڈیٹا عہد کا آغاز جسے نگران یا سرویلنس سرمایہ داری کہا جا تا ہے۔ نگران یا سرویلنس کا لفظ اس لئے استعمال کیا جا رہا ہے کیونکہ یہ معلومات غیر محسوس طریقے سے نگرانی کرکے حاصل کی جاتی ہےں۔

جس طرح کلاسیکل سرمایہ داری نے دنیا کی ہر شے کو بازار کی جنس بنا دیا تھا بالکل اسی طرح سرویلنس سرمایہ داری نے ہمارے تجربات، احساسات اور رویوں تک کو بازار میں ڈیٹا کی صورت میں جنس بنا کر بیچنا شروع کردیا ہے۔ اس جدید عہد میں سرمایہ داری نے انسانی رویوں اور ان کے ذاتی تجربات کے ذریعے سے منافع کمانے کا کام شروع کر دیا ہے۔

اس نئے عہد کا آغاز 2004ءمیں فیس بک کی ایجاد کے ساتھ ہوا اور 2008ءمیں اینڈرائڈ آپریٹنگ سسٹم نے اس میںنئی روح پھونک دی۔ مقصد تھا زیادہ سے زیادہ افراد کے زیادہ سے زیادہ ذاتی ڈیٹا اور ذاتی تجربات کو اکٹھا کیا جائے تاکہ غلطیوں سے عاری پیش گوئیاں کی جاسکیں اور پھر وہ پیش گوئیاں مارکیٹ میں مختلف کمپنیوں کو بیچی جا سکیں تاکہ ان کی بنیاد پرکسٹمرز کو ٹارگٹ کیا جاسکے۔ اس کے ساتھ ہی یوزرز کے پرسنل ڈیٹا کو پراسس کرکے روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی انسانی رویوں کی تبدیلیوں کا ریکارڈ رکھا جائے تاکہ اس کی بنیاد پر مستقبل میں ممکنہ رویوں کی تبدیلی کے متعلق پیش گوئی کی جا سکے اور اس کے مطابق اس فرد کے فون پر اشتہار بھیجا جا سکے۔

زیادہ ڈیٹا پروسیسسنگ کے لئے زیادہ کمپیوٹنگ پاور کی ضرورت ہے۔ جس میں بے انتہا بڑی سرمایہ کاری کی گئی اور کمپیوٹر پروسسنگ پاور کو مہینوںاور سالوں میں ہزاروں لاکھوں گنا بڑھادیا گیا۔ نہ صرف بڑھایا گیا بلکہ ٹیکنالوجی کو اس حد تک سستا کیا گیا کہ سماج کی ہر پرت تک یہ ٹیکنالوجی آسانی سے پہنچ سکے۔ اگر ہم صرف 20 سال پہلے نظر ڈالیں تو جتنی کمپیوٹنگ پاور والے کمپیوٹرز پوری یونیورسٹی کا ڈیٹا پراسیس کیا کرتے تھے آج اتنی کمپیوٹنگ پاور والے اسمارٹ فون بچے استعمال کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی سافٹ ویئرز کو عام پبلک کے لئے مفت کر دیا گیا تاکہ ہارڈ ویئر کے ساتھ ساتھ سافٹ ویئر کا استعمال بڑھایا جاسکے۔

اس سے اگلا مرحلہ ہے بڑے ڈیٹا سینٹرز کی تعمیر جہاں اس تمام ڈیٹا کو جمع کیا جا سکے اور پراسیس کیا جا سکے۔ صرف گوگل کے ڈیٹا سینٹر کے ڈیٹا جمع کرنے کی صلاحیت 15 ارب گیگا بائٹ ہے جسے مستقبل میں مزید توسیع دی جائے گی۔ صرف ڈیٹا اکٹھا کرنا ہی اہم نہیں بلکہ سب سے اہم کام کا آغاز اب ہونا ہے یعنی اس ڈیٹا کے ذریعے وہ پیش گوئیاں کی جاسکیں جن کو فروخت کرنا ہے۔ اب آتی ہے مصنوعی ذہانت، جس کے ذریعے یہ کام سر انجام دیا جاتا ہے۔ سینکڑوں ہزاروں سپر کمپیوٹرز جو مصنوعی ذہانت پر ڈیزائن کئے گئے الگورتھمز کو دن رات پراسیس کرتے رہتے ہیں اوریہ الگورتھمز جس مخصوص کام کو کرنے کے لئے بنائے گئے ہیں اسے بہتر سے بہتر طریقے سے کرنے کے لئے خود اپنے آپ میں ارتقا پذیر رہتے ہیں۔ گوگل اور فیس بک پر صرف کچھ انجینئر جانتے ہیں کہ یہ آرٹیفیشل سسٹم کیسے کام کرتے ہیں۔ لیکن وہ بھی مکمل ادراک نہیں رکھتے کیونکہ یہ مشین لرننگ پراسیس مسلسل جاری رہتا ہے۔

اگلا مرحلہ ہے دنیا کے ہر حصے میں انٹرنیٹ کی فراہمی تاکہ دنیا کی ہر جگہ سے ڈیٹا اکٹھا کیا جا سکے۔ اس مقصد کے لئے گوگل انٹرنیٹ بیلون (Internet Ballon) کا استعمال کرتا ہے تاکہ دور دراز علاقوں سے ڈیٹا اکٹھا کیا جا سکے۔ فیس بک نے کچھ عرصے قبل شمسی توانائی سے چلنے والے انٹرنیٹ ڈرون کے لئے بھارت سے بات کی تھی جو کہ وہ مفت میں فراہم کر نے کے لئے تیار تھا لیکن کسی وجہ سے بات نہیں بن سکی۔ اس کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ کی قیمت میں کمی کی گئی اور ڈیٹا ٹرانسفر اسپیڈ جس کو بینڈ وڈتھ (Bandwidth) کہا جاتا ہے کو مسلسل بڑھایا جاتا رہا تاکہ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ ڈیٹا ٹرانسفر کر کے جلد سے جلد نتائج فراہم کیے جا سکیں۔ آپٹیکل فائبر کیبل (Optical Fiber Cable) جو کسی زمانے میں صرف بڑی ٹیلیفون کمپنیوں کے استعمال میں ہوتی تھی آج کیبل ٹی وی کی نشریات کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہے اور گھریلو انٹرنیٹ کے کنکشن فراہم کرنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ آپٹیکل فائبر کی صلاحیت کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک آپٹیکل فائبر، جو کہ انسانی بال کے دسویں حصے کے برابر موٹائی کی حامل ہوتی ہے، پر ایک وقت میں 25000 ٹیلیفون کالیں کی جا سکتی ہیں۔ یقینا ایک عام گھرمیں اتنی زیادہ بینڈ وڈتھ کا کوئی استعمال نہیں ہے لیکن ڈیٹا کا کا روبار کرنے والی کمپنیوں کے لئے اب بھی یہ بینڈ وڈتھ کم ہی ہے۔

انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کو چھوڑ کر اگر آپ باقی تمام ٹیکنالوجیوں پر نظر ڈالیں تواس قدر تیز ترقی آپ کو نظر نہیں آئے گی۔ گاڑیوں، ٹرینوں اور جہازوں کی اسپیڈ اور ان کے انجنوں کی کارکردگی میں کسی قسم کی کئی بڑی تبدیلی نہیں آئی اور شاید یہ پچھلے 20 سال میں ڈبل بھی نہیں ہوئیں۔ بجلی کی پیداوار آج بھی کوئلہ اور معدنی تیل جلا جلا کی جا رہی ہے جو ایک الگ مسئلہ ہے۔

آج ہر وہ ڈیوائیس (Device) جو انٹرنیٹ سے منسلک ہے یہ ڈیٹا فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ سی سی ٹی وی کیمروں سے لے کر آپ کے اپنے موبائل فون کا کیمرہ، مائیکرو فون حتیٰ کہ ہیٹ سنسر تک مسلسل ڈیٹا اکٹھا کر رہے ہیں۔ حد یہ ہے کہ ان ڈیوائیسوں میں بھی مائیکرو فون اور کیمرے پائے گئے ہیں جن میں ان کا کوئی مصرف نہیں ہوتا لیکن دراصل مصرف ہے اور وہ ہے ڈیٹا اکٹھا کرنا تاکہ اسے ٹیکنالوجی سے متعلق کمپنیوں کو بھیجا جا سکے۔ یہ ڈیوائیسیں استعمال کرنے والوں کی مرضی کے بغیر مسلسل ڈیٹا ٹرانسفر کرتی رہتی ہیں۔ سال 2013ءمیں امریکی سی آئی اے اور این ایس اے کے ایک سابقہ ملازم ایڈورڈ سنوڈن کے انکشافات نے ساری دنیا کو ورطہِ حیرت میں ڈال دیا۔ ایڈورڈ سنوڈن نے بتایا کہ کس طرح امریکی خفیہ ایجنسیاں عام شہریوں کی خفیہ طریقے سے نگرانی کر رہی ہیں اور اس تمام کام کو کرنے کے لئے امریکہ نے خفیہ قوانین بھی بنائے ہوئے ہیں جن کے متعلق عام لوگوں کو بالکل خبر نہیں ہے۔ ایڈورڈ سنوڈن کے انکشافات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ آئس برگ کی ٹپ ہیں۔ اصل حقائق اس سے بھی زیادہ خوفناک ہیں۔ اسامہ بن لادن والا آپریشن (آپریشن نیپچون سپیئر) امریکی ہائی کمان نے ہزاروں کلومیٹر دور بیٹھ کر ”لائیو“ دیکھا تھا۔ یہ تمام نگرانی جدید انٹرنیٹ سے منسلک ڈیوائیسوں کے بغیر ناممکن ہے۔

بہت سی تحقیقات کی گئی ہیں جس میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ سماجی رابطوں جیسے فیس بک اور انسٹا گرام وغیرہ کا استعمال ایک طرح کی نشے کی عادت یا لت کی طرح پڑ جاتا ہے اور استعمال کرنے والوں کو مسلسل فون کے ساتھ باندھ دیتا ہے۔ امریکہ میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق سوشل میڈیا کے نمودار ہونے کے بعد لڑکپن سے پہلے کی عمر والوں اور لڑکپن کی عمر کے بچوں میں خودکشی کا رجحان 100 فیصد سے زیادہ بڑھا ہے۔ ایک کے بعد دوسرا نوٹیفیکشن، لائک، کلک اور ٹیگنگ‘ استعمال کرنے والوں کو فون کومسلسل استعمال کرنے کے لئے راغب کرنے کی مختلف تکنیکیں ہیں۔ مقصد صرف ایک ہے کہ افراد مسلسل فون استعمال کرتے رہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ ان تمام چیزوں کے استعمال کرنے والوں کی نفسیات پر کیا اثرات ہو رہے ہیں یہ سماجی رابطوں کی سائٹس اور ایپلی کیشنز مسلسل ایسی چیزیں متعارف کر رہی ہیں جو لوگوں کو ان کا زیادہ سے زیادہ عادی بنا رہی ہیں۔ مقصد ہے زیادہ سے زیادہ ڈیٹا کا اکٹھا کرنا تاکہ اس کی بنیاد پر زیادہ سے زیادہ درست پیش گوئیاں کی جاسکیں جن کو پھر مارکیٹ میں بیچا جاسکے۔ یہ بالکل اس طرح ہے جیسے آئل اور گیس کے مستقبل پر سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔ یہ سرمایہ کاری انسانی رویوں کے مستقبل پر ہے۔ ڈیٹا اکٹھا کرنے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کی اسکرین پر کوئی اشتہار کتنی دیر رہا، آپ کون سا ایموجی (Emoji) زیادہ استعمال کرتے ہیں‘ اس کی بنیاد پر مصنوعی ذہانت آپ کی شخصیت کی پیش گوئی کرتی ہے اور اس کی بنیاد پر اگلے اشتہار کے لئے آپ کو اشتہاری کمپنی کو بیچا جاتا ہے اور پھر اسی حساب سے آپ کی قیمت لگتی ہے۔ ماضی کے غلاموں کو کم از کم معلوم ہوتا تھا کہ وہ بک رہے ہیں۔ آج سوشل میڈیا استعمال کرنے والے لاعلمی میں روزانہ کی بنیاد پر لاکھوںمرتبہ بک جاتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ آن لائن آپ کے اطراف ایک ایسی دنیا تخلیق کی جاتی ہے جس کو استعمال کرنے والا حقیقت سمجھتا ہے۔ تمام دوست، ان کی نیوز فیڈز اور وڈیوز سب کچھ اس یوزر کے مزاج اور رویے کے مطابق نظر آتا ہے اور یہ سب اس کی ماضی کی آن لائن ایکٹیوٹی کی بنیاد پر بنتا ہے۔ یوزر جتنا زیادہ آن لائن رہتا ہے اتنا زیادہ ڈیٹا دیتا ہے اور اتنا ہی زیادہ اس کے متعلق درست پیش گوئیاں کی جاسکتی ہیں۔ اگر آپ گوگل پر سرچ کریں تو ابھی آپ لکھنا شروع کریں گے اور تجاویز نیچے آنے لگیں گی۔ لیکن یہ تجاویز ہر علاقے میں ایک جیسی نہیں ہوں گی بلکہ آپ کے علاقے میں جس قسم کی سرچ زیادہ کی جا رہی ہو گی یا جس چیز کے متعلق رائے عامہ ہموار کرنی ہو گی ویسی ہی تجاویز آپ کو گوگل میں نظر آئیں گی۔ بعض دانشوروں کا کہنا ہے کہ اس قسم کی تجاویز پر مبنی سرچنگ حقیقی دنیا میں پولرائزیشن کا باعث بن رہی ہے۔ آپ کی فرینڈ لسٹ، نیوز فیڈ یا وڈیوز میں سب کچھ وہ ہی ہو گا جو وہ آپ کو دکھانا چاہتے ہیں نہ کہ وہ جو آپ دیکھنا چاہتے ہیں۔ بچوں سے متعلق آن لائن مواد بنانے والے بعض سافٹ ویئر انجینئرز کا کہنا ہے کہ یو ٹیوب فار کڈز پر کسی قسم کا کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے اور اس پر آنے والی وڈیوز بعض دفعہ انتہائی نامناسب ہوتی ہیں۔ پوکی مون گو گیم کو ڈیزائن ہی اس طریقے سے کیا گیا تھا کہ جب تک آپ حقیقی دنیا میں اس جگہ تک نہیں پہنچ جاتے آپ کا ٹاسک مکمل نہیں ہو گا اور حقیقی دنیا میں اس جگہ تک آپ کو لے جانے والی وہ کمپنیاں ہیں جن کے بڑے بڑے سٹور وہاں پر واقع ہیں۔

سرمایہ داری کے دانشوروں کو بھی معاملے کی سنگینی کا اندازہ ہے لیکن ان کی تان قوانین بنانے اور اس پر عمل پیرا ہونے پر آکر ٹوٹ جاتی ہے۔ لیکن طبقاتی سماجوں اور خصوصاً سرمایہ داری کی تاریخ گواہ ہے کہ قوانین ہمیشہ حکمران طبقے کے مفاد میں ہی بنائے جاتے ہیں اور اگر کوئی قانون ایسا بن بھی جائے جو حکمران طبقوں کے مفادات کے خلاف ہو تو اس پر عمل پیرا ہی نہیں ہوا جاتا یا اس سے نکلنے کے چور دروازے بنا لیے جاتے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلوں سے متعلق قوانین کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔ ہر سال ماحولیاتی کانفرنسیں کی جاتی ہیں، قوانین بنائے جاتے ہیں لیکن قدرت میں بگاڑ ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہا۔

آج کے عہد کی جدید ٹیکنالوجی تمام انسانی نسلوں کی مشترکہ محنت اور ذہانت کا نتیجہ ہے اور ہر انسان کو اس کو استعمال کرنے کا حق ہے لیکن سرمایہ داری کی حدود و قیود میں ہر سہولت اور ایجاد سرمایہ داروں کے منافعوںمیں اضافوں کا باعث بنتی ہے نہ کہ انسانی بھلائی کے۔ بے پناہ ذرائع، انسانی ذہانت اور مصنوعی ذہانت صرف اس لئے استعمال کیے جا رہے ہےں کہ چند بڑے سرمایہ داروں کی جیبوں میں اربوں ڈالر کے منافع ڈالے جا سکیں۔ تصور کریں کہ اگر ان ذرائع کا صرف 10 فیصد بھی کینسر، ایڈز یا شوگر کی ریسرچ پر خرچ کیا جائے تو ان بیماریوں سے چند سالوں میں ہی انسانیت کو نجات مل جائے۔ لیکن منافع پر مبنی نظام میں ایسا ہونا ناممکن ہے۔ یہ تمام ذرائع اور انسانی ذہانت ایک منصوبہ بند معیشت یعنی سوشلزم میں ہی انسانی بھلائی کے کام آ سکیں گے۔