حسن جان

اکیسویں صدی کی دوسری دہائی اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے اور ہمارے سامنے ایک ایسی دنیا ہے جو ہر سطح پر بے نظیر بحرانوں میں گھری ہوئی ہے۔ معاشی تباہ کاریاں، جس کی وجہ بظاہر کورونا وائرس کی وبا ہے، تمام براعظموں میں سماجی اتھل پتھل اور مشرق وسطیٰ سے لے کر دنیا کے دیگر حصوں میں جنگیں اس دور کا خاصہ ہیں۔ بحرانات موجودہ عہد کا ایک مستقل جزو بن چکے ہیں۔ عالمی سطح پر شاید ہی کوئی سرمایہ دارانہ ریاست ایسی ہو جو معاشی اور سیاسی بحرانوں کی زد میں نہ ہو۔ کورونا وبا نے تو صرف ظاہری استحکام اور سماج کی گہرائیوں میں برپا خلفشار اور تضادات سے پردہ ہٹایا ہے۔ وبا کے نتیجے میں ہونے والے لاک ڈاﺅن نے پوری دنیا کی تمام بڑی معیشتوں کو جدید تاریخ کے سب سے گہرے معاشی بحران میں دھکیل دیا ہے۔ اگرچہ معیشتیں اس ابتدائی جھٹکے سے اپنے آپ کو نکال رہی ہیں لیکن وبا کی وجہ سے بہت سے سماجی معاشی نقصانات اب مستقل شکل اختیار کریں گے جو دنیا میں آنے والے دنوں میں سماجی دھماکوں کی وجہ بنیں گے۔

اس سال کے آغاز میں ہی امریکہ نے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو قتل کرکے مشرق وسطیٰ کو بظاہر جنگ کے دہانے پر کھڑا کر دیا تھا۔ موجودہ صورت حال تضادات اور خلفشار سے بھری ہوئی ہے۔ حکمران طبقات جنگوں اور ایک دوسرے کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی بات کرتے ہیں لیکن سرمایہ داری کے نامیاتی زوال نے ان ریاستوں کو معاشی طور پر اتنا کمزور کر دیا ہے کہ وہ ایک کھلی جنگ کی طرف نہیں جا سکتے۔ کیونکہ ایسی صورت میں نظام کے اندر موجود معاشی رمق کی معمولی مقدار بھی ختم ہو جائے گی۔ لیکن دوسری طرف مشرق وسطیٰ سے لے کر افریقہ تک سامراجی ریاستوں کے بیچ تضادات اپنا اظہار ان ریاستوں کی پراکسیوں کی شکل میں کر رہے ہیں جو ایک نہ ختم ہونے والی خانہ جنگی کا باعث بن رہی ہیں۔

عالمی سطح پر معاشی تباہ کاریاں اور اس کے نتیجے میں ہونے والی اموات اتنی زیادہ ہیں کہ جس کا موازنہ کسی کھلی جنگ کی تباہ کاریوں سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ ہر سال نوے لاکھ لوگ صرف بھوک کی وجہ سے مرتے ہیں۔ یہ تعداد پچھلے پندرہ سالوں میں عراق، شام اور یمن کی جنگوں میں ہونے والی مجموعی اموات سے زیادہ ہے۔ ایک ایسے عہد میں جب جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے دنیا میں اشیائے ضرورت کی بہتات سے بھوک اور محتاجی کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے لیکن لوگ آج بھی خوراک نہ ملنے یعنی خریدنے کی سکت نہ رکھنے کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں مر رہے ہیں۔ سرمایہ داری کی ہوس اور منافع کی اندھی دوڑ نے انسانوں کی وسیع اکثریت کو بد ترین غربت، محرومی اور بیروزگاری کی ذلت میں مبتلا کیا ہوا ہے۔

2008ءکا معاشی بحران عالمی معیشت اور سیاست کے لیے ایک نیا موڑ تھا جس نے عالمی سرمایہ داری کے لیے ایک نئے معمول کا آغاز کیا یعنی ہر ملک میں مستقل معاشی کٹوتیاں۔ آزاد منڈی کی نیو لبرل معاشی پالیسیاں ستر کی دہائی کی معاشی کساد بازاری کے بعد اختیار کی گئیں جن کے نتیجے میں ریاست کی معیشت میں مداخلت کو بتدریج کم کیا گیا۔ معیشت کے تمام کلیدی شعبوں کی نجکاری کی گئی۔ ٹریکل ڈاﺅن اکنامکس کے معاشی نسخوں کو تمام مسائل کے حتمی حل کے طور پر پیش کیا گیا۔ سبسڈیوں اور دیگر مراعات کا آہستہ آہستہ خاتمہ کیا گیا۔ تعلیم اور صحت کے شعبوں کی نجکاری کرکے عوام کو سرمایہ داروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ اس سے معاشی ترقی کے اعشاریے بڑھنے لگے لیکن زیادہ سے زیادہ منافعوں کے ہوس میں قرضوں کے ذریعے منڈی کو مصنوعی طور پر اتنا پھیلایا گیا کہ معاشی بلبلے بننے لگے جو 2008ءکے معاشی بحران کی صورت میں پھٹ پڑے اور پوری دنیا میں مالیاتی اداروں اور کاروباروں کے دیوالیہ ہونے کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔

نیو لبرل معاشی نسخوں کے انہدام کے بعد مجبوراً ریاست کو مداخلت کرکے معیشت کو مکمل انہدام سے بچانا پڑا۔ سینکڑوں ارب ڈالر جھونک کر بڑے بینکوں اور کاروباروں کو بچایا گیا جبکہ بحران کے نتیجے میں بے روزگار اور برباد ہونے والے عام لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔ اس مضحکہ خیز تماشے کوطنزیہ انداز میں ”امیروں کے لیے سوشلزم، غریبوں کے لیے سرمایہ داری“ کا نام دیا گیا۔ ان اقدامات کے ذریعے بحران کو ٹال دیا گیا لیکن ریاستیں قرضوں میں ڈوب گئیں اور اس کے ساتھ ہی ریاستوں کے قرضوں کا بحران شروع ہو گیا۔ بیشتر ممالک بشمول امریکہ اور یورپی ممالک دیو ہیکل قرضوں میں ڈوبے ہوئے ہیں جو معاشی بحالی کی راہ میں ایک مستقل رکاوٹ ہے۔ یورو زون میں تو کمزور معیشتیں بالخصوص یونان جیسے ممالک اپنے قرضوں کی وجہ سے بدترین معاشی بحران کا شکار ہوئے اور دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکے تھے جس سے یورپی یونین کا وجود خطرے میں پڑ گیا۔

امریکی سرمایہ داری کا زوال

کورونا وائرس کی وبا نے ایک شکستہ نظام کے اندرونی تضادات اور خلفشار کو مزید گہرا کر دیا۔ اس سے عالمی سطح پر نہ صرف نظام کا بحران مزید گہرا ہوا بلکہ نیو لبرل معاشی نسخوں کے نتیجے میں صحت کے نظام کی بربادی کو بھی آشکار کیا۔ کورونا وبا کے سامنے تقریباً تمام تر ممالک کے قومی صحت کے شعبے ڈھیر ہو گئے۔ صرف وہی ممالک اس وبا کے سامنے بہتر کارکردگی دکھا سکے جہاں صحت کا نظام قومی تحویل میں تھا۔ دنیا کی سب سے بڑی معاشی اور عسکری طاقت امریکہ بھی وبا کے سامنے ڈھیر ہو گئی جہاں سب سے زیادہ اموات واقع ہوئیں۔ منافعوں کی ہوس، عالمی تھانیداری کی خبط، جنگوں اور پوری دنیا میں فوجی کاروائیوں اور اخراجات نے ملک کو ایک وائرس کے سامنے بے بس کر دیا۔ ممتار مارکسی معیشت دان مائیکل رابرٹس لکھتے ہیں، ”امریکن ہسپتال ایسو سی ایشن کے مطابق 1981ءسے 1999ءکے دوران ہسپتالوں میں مریضوں کی حامل بستروں کی تعداد میں 39 فیصد کمی آئی۔ اس کا مقصد (کم بستروں کو کام میں لا کر) منافع بڑھانا تھا۔ لیکن انتظامیہ کی جانب سے 90 فیصد بستروں کو استعمال میں لانے کے ہدف کا مطلب یہ تھا کہ کسی وبا کے پھوٹنے کی صورت میں ہسپتالوں میں بڑی تعداد میں مریضوں کے لیے گنجائش نہیں ہوگی۔“ وہ مزید لکھتا ہے، ”مقامی اور ریاستی صحت کے شعبوں میں بارہ سال پہلے کی نسبت آج 25 فیصد کم سٹاف ہے۔ ’CDC‘ کے بجٹ میں پچھلی ایک دہائی میں 10 فیصد کمی آئی ہے۔ ٹرمپ کے دور میں مالی خسارہ مزید بڑھ گیا ہے۔ نیویارک ٹائمز نے حال ہی میں رپورٹ دی کہ 2017ءکے مالی سال میں مقامی صحت کے اداروں کے 21 فیصد نے بجٹ میں کمی رپورٹ کی۔ ٹرمپ نے وائٹ ہاﺅس میں وبائی مرکز کو بھی بند کر دیا جسے اوباما نے 2014ءمیں ایبولا کی وبا کے بعد قائم کیا تھا۔“ اسی مضمون میں مائیکل رابرٹس نے واضح کیا ہے کہ کس طرح صحت کی نجکاری اور منافع کی اندھی دوڑ نے ویکسین کی تیاری میں رکاوٹ پیدا کی۔”بڑی دوا ساز کمپنیاں نئی اینٹی بائیوٹکس اور اینٹی وائرل ادویات بنانے میں کم تحقیق کرتی ہیں۔ 18 بڑی امریکی دوا ساز کمپنیوں میں سے 15 نے تو یہ فیلڈ ہی چھوڑ دی ہے۔ دل کی ادویات، نشہ آور دوائیوں اور مردانہ جنسی طاقت بڑھانے والی ادویات میں زیادہ منافع ہوتا ہے جبکہ انفیکشن، وبا اور دیگر ادویات میں کم۔ انفلوئنزا کے لیے ایک ویکسین کب کی بن چکی ہوتی لیکن چونکہ اس میں منافع کم ہے اس لیے اس پر توجہ نہیں دی گئی۔“

صحت کے ساتھ ساتھ امریکہ میں دیگر عوامی شعبے بھی شکست و ریخت کا شکار ہیں۔ سڑکیں، پل، ٹرینیں، ایئرپورٹ، ڈیم الغرض پورا امریکی انفراسٹرکچر ٹوٹ پھوٹ رہا ہے۔ بعض اندازوں کے مطابق اس وقت اس شکستہ انفراسٹرکچر کی مرمت کے لیے 2 ٹریلین ڈالر کی ضرورت ہے۔

سرمایہ داری کے گہرے ہوتے ہوئے بحران کے نتیجے میں ’امیریکن ڈریم‘ (American Dream) اب ایک ڈراﺅنے خواب میں بدل چکا ہے۔ بیروزگاری اور کم اجرت کی حامل نوکریاں اب ایک مستقل کیفیت کی شکل اختیار کرگئی ہیں۔ بائیں بازو کے متبادل کی غیر موجودگی میں دائیں بازو کے لیڈران ٹرمپ کی شکل میں ان مسائل کو تارکین وطن اور مسلمانوں پر ڈال کر اپنی سیاست کرتے ہیں۔ ٹرمپ کا کرسی صدارت پر براجمان ہونا بذات خود ایک نئے معمول کی غمازی کرتا ہے۔ گہرے ہوتے ہوئے بحران کی حالت میں حکمران طبقات اب پرانے طریقوں سے نظام کو نہیں چلا سکتے۔ ٹرمپ کی پوری شخصیت ایک زوال پذیر نظام کی عکاس ہے۔

عالمی سطح پر امریکی پسپائی بھی نظام کے بحران اور امریکی سرمایہ داری کے خلفشار کی غمازی کرتی ہے۔ اسے عراق اور افغانستان سے عبرت ناک شکست کھا کر بھاگنا پڑا۔ معیشت کی اس دگر گوں کیفیت میں اب وہ مزید کسی فوجی ایڈونچر کے متحمل نہیں ہو سکتے اور یہ بات ٹرمپ جیسے احمق آدمی کو بھی پتہ ہے۔ تمام تر جنگی دھمکیوں کے باوجود وہ ایران کے ساتھ کسی بھی طرح ایک روایتی جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

امریکہ میں نسل پرستی کے خلاف ابھرنے والی تحریک نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ یہ تحریک فوراً پوری دنیا میں پھیل گئی۔ تمام یورپی ممالک میں تحریک کے حق میں مظاہرے ہوئے۔ اس تحریک کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ لوگوں نے شاہراہوں پر نصب نسل پرست اور سفید فام بالادستی پر یقین رکھنے والے تاریخی رہنماﺅں اور غلاموں کے تاجروں کے مجسمے گرانا شروع کیے۔ براعظم امریکا، افریقہ، آسٹریلیا اور ایشیا کی نو آبادکاری کی بنیادوں میں سے ایک نسل پرستی ہی تھی۔ تحریک کے دوران اس طرح کے مجسموں کو گرانا دراصل عوامی شعور کی معراج ہے جس کے ذریعے وہ پورے نظام کو ہی چیلنج کر رہے تھے۔

یورپ

کورونا کی وبا سے پہلے یورپ میں کٹوتیوں کے خلاف ایک غم و غصہ موجود تھا۔ فرانس میں میکرون کے نیو لبرل معاشی نسخوں کے خلاف پچھلے ایک سال سے پیلی جیکٹ کی تحریک چل رہی تھی۔ ہڑتالیں، احتجاج اور پولیس سے جھڑپیں روز کا معمول تھیں لیکن لاک ڈاﺅن کی وجہ سے یہ عارضی طور پر رک گئیں۔ لیکن لاک ڈاﺅن کے خاتمے کے بعد اب ایک دفعہ پھر عوامی تحریکیں سر اٹھا رہی ہیں لیکن اس بار یہ پہلے سے زیادہ جاندار ہوں گی۔ یورپ پہلے سے ریاستی قرضوں کی زد میں ہے۔ یونان کو یورپی مرکزی بینک اور آئی ایم ایف نے بدترین کٹوتیوں کے اقدامات کے بدلے بیل آﺅٹ کیا لیکن وبا کی وجہ سے ساری محنت پر پانی پھر گیا اور معیشت پھر زوال میں چلی گئی۔ لیکن وبا سے معیشتوں کو بچانے کے لیے حکومتیں جو اقدامات کر رہی ہیں اس سے ریاستی قرضوں میں مزید اضافہ ہو گا اور عالمی سطح پر ایک اور مالیاتی بحران کا بھی خطرہ ہے۔

چین

چینی معیشت بھی وبا کی وجہ سے اپنی پہلی سہ ماہی میں 6.8 فیصد سکڑ گئی لیکن ہمہ گیر حفظان صحت اور معیشت میں ریاست کی مداخلت کی وجہ سے امریکہ اور آزاد منڈی کی معیشت کے حامل دیگر ممالک کی نسبت جلد ہی وبا پر قابو پا لیا گیا۔ معیشت دوسری سہ ماہی میں دوبارہ سنبھل گئی اور 3.2 فیصد کی شرح سے ابھری۔ لیکن اس بظاہر امید افزا صورت حال کے باوجود چینی حکومت نے مئی میں سال 2020ءکے لیے معاشی نمو کا ہدف نہ رکھنے کا اعلان کیا جس کی وجہ ”کورونا کی وبا، عالمی معیشت اور تجارت کی صورت حال“ بتائی گئی۔ یہ ایک انتہائی اہم اعلان ہے۔ آج چین 1978ءکی نسبت عالمی معیشت سے زیادہ جڑا ہوا ہے اسی لیے ”عالمی معیشت اور تجارت“ کا حوالہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ چین عالمی معاشی گراوٹ اور امریکہ کے ساتھ تجارتی جنگ کے اثرات کو محسوس کر رہا ہے۔ دنیا کی دوسری بڑی معیشت بننے سے اس کے عالمی اثر و رسوخ میں بھی اضافہ ہوا ہے جس سے وہ امریکی سامراج کے ساتھ تصادم کی حالت میں ہے۔ امریکہ کی جانب سے شروع کردہ اس تجارتی جنگ کا مقصد چین کے اثر و رسوخ کو روکنا ہے لیکن اس کے نتائج عالمی معیشت کے لیے انتہائی خطرناک ہوں گے کیونکہ چین اب ماﺅ کے دور کی الگ تھلگ اور ”خود کفیل“ معیشت نہیں ہے۔

چینی معیشت کے دیو ہیکل ریاستی شعبے کی وجہ سے کمیونسٹ پارٹی نے کسی حد تک اپنی سماجی بنیادیں برقرار رکھی ہوئی ہیں اور وہ سماجی اتھل پتھل کا راستہ روکے ہوئے ہے۔ 2019ءمیں 63 فیصد روزگار اسی ریاستی شعبے کی وجہ سے ہی پیدا ہوا۔ آئی ایم ایف کے اندازے کے مطابق چین کے ریاستی سرمائے کا حجم اس کے جی ڈی پی کا 160 فیصد ہے جس کی وجہ سے ریاست کا معیشت میں ایک کلیدی کردار ہے۔ لیکن یہ حجم اب تیزی سے کم ہو رہا ہے۔ بیروزگاری کی سرکاری شرح 5.5 فیصد ہے لیکن بعض اندازوں کے مطابق یہ در اصل 15 سے 17 فیصد ہے۔ چینی افسر شاہی عالمی معیشت کی مایوس کن صورتحال اور جاندار معاشی بحالی کے دھندلے امکانات کی کیفیت میں ریاستی مداخلت کے ذریعے معیشت کو کب تک سنبھالا دے سکتی ہے یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ لیکن یہ تضادات زیادہ عرصے قائم نہیں رہ سکتے۔ دیوہیکل چینی پرولتاریہ کی موجودگی میں اگر چینی معیشت میں زوال آتا ہے تو اس کے وسیع سماجی اثرات مرتب ہوں گے۔

مشرق وسطیٰ کی انقلابی تحریکیں

پچھلے سال مشرق وسطیٰ میں عرب بہار کے بعد کی سب سے وسیع تحریکیں دیکھنے میں آئیں۔ عراق میں عوام بیروزگاری، اشیائے ضرورت کی قلت، بے تحاشا بدعنوانی اور امریکی سامراج کی مسلط کردہ فرقہ پرست حکومت سے تنگ آئے ہوئے تھے۔ امریکی سامراج کی جارحیت سے ملک کا سارا انفراسٹرکچر تباہ و برباد ہو گیا اور ملک تمام تر مذہبی جنونیوں اور بنیادپرستوں کا گڑھ بن گیا۔ عوام میں ایرانی مداخلت کے خلاف بھی کافی غم و غصہ تھا۔ ایرانی پروردہ شیعہ ملیشیا حکومت کے ساتھ مل کر عوامی احتجاجوں کو کچلنے میں پیش پیش تھی۔ اس وسیع تحریک سے حکومت گر گئی لیکن نئی حکومت بھی پرانی کا تسلسل ہے اور عوام کی محرومی جاری ہے۔

پچھلے سال ہی نومبر میں ایران میں پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے بعد عوامی غم و غصہ پھٹ پڑا اور ملاﺅں کی حکومت لرزنے لگی۔ تمام بڑے شہروں میں مظاہرے ہونے لگے جس میں ملاﺅں کی حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا۔ تیل کی گرتی ہوئی قیمتیں ملاﺅں کی حکومت کے لیے وبال جان بن گئیں ہیں۔ اس کے علاوہ امریکی پابندیوں کی وجہ سے ملک کا تجارتی اور معاشی رابطہ باقی دنیا سے کٹ گیا ہے۔ تحریک کو کچلنے کے لیے مظاہرین پر بد ترین جبر کیا گیا اور بعض اندازوں کے مطابق 1500 افراد قتل کیے گئے۔ قاسم سلیمانی کے قتل اور امریکہ کے ساتھ جنگی ماحول کی وجہ سے تحریک عارضی طور پر رک گئی اور بعد میں کورونا وبا کی وجہ سے مزید پیچھے چلی گئی لیکن معیشت کی دگر گوں صورت حال اور کورونا کی معاشی تباہ کار ی سے تحریک دوبارہ ابھرے گی۔

اسی طرح لبنان بھی ایک سال سے احتجاجوں اور تحریکوں کی زد میں ہے۔ ملک میں خطے کے سامراجی ممالک کی ایک پیچیدہ پراکسی جنگ بھی جاری ہے جس میں ایران کا ایک کلیدی کردار ہے۔ انفراسٹرکچر کی شکست و ریخت، بے تحاشا بیروزگاری اور مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ وسیع احتجاجوں کے بعد وزیر اعظم سعد حریری نے اکتوبر 2019ءمیں استعفیٰ دے دیا۔ اس کے باوجود تحریک جاری رہی اور نظام کی مکمل تبدیلی کا مطالبہ کرتی رہی۔ حال ہی میں بیروت کی بندرگاہ پر مبینہ طور پر امونیم نائٹریٹ کے ذخیرے میں تباہ کن دھماکہ ہواجس کے خلاف عوام میں بے تحاشا غم وغصہ پیدا ہوا اور اس کے نتیجے میں ہونے والے احتجاجوں کے بعد ایک سال کے عرصے میں دوسری حکومت کو جانا پڑا۔

پورا مشرق وسطیٰ خلفشار کا شکار ہے۔ سامراجی مداخلتوں اور خطے کی بڑی طاقتوں کی پراکسی جنگوں نے شام، عراق اور یمن کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ لیکن ایران، عراق اور لبنان کی حالیہ تحریکوں نے بلاشک و شبہ ثابت کیا کہ انقلابی تحریکیں مصنوعی سرحدوں کو پھلانگ لیتی ہیں۔ صرف ایک ملک میں محنت کشوں کی انقلابی تحریک جو سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینکے، پورے خطے میں انقلابی تبدیلی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔

جنوب ایشیا

جنوب ایشیا کی سب سے بڑی معیشت انڈیا لاک ڈاﺅن کے نتیجے میں گہرے سکڑاﺅ کا شکار ہے۔ اپریل سے جون کی پہلی سہ ماہی میں معیشت 24 فیصد سکڑ گئی۔ حتیٰ کہ کورونا وبا سے پہلے ہی معیشت سابقہ سالوں کی 8 فیصد کی سالانہ ترقی سے سکڑتے ہوئے 4 فیصد سالانہ تک پہنچ گئی تھی۔ بیروزگاری پچھلے چالیس سالوں کی سب سے بلند سطح پر ہے۔ پچھلے سات سالوں کے دوران ہندو بنیاد پرست بی جے پی اپنے وِکاس (ترقی) کے وعدے پورے کرنے میں مکمل ناکام ہو گئی ہے۔ کانگریس کا بھی یہی حال ہے جس کے سیکولرازم کے نعروں میں عوام کی معاشی خوشحالی کا کوئی سامان نہیں۔ بائیں بازو کی مختلف اقسام کی پارٹیاں مختلف ریاستوں میں اپنی حکومتوں کے دوران عوام کی زندگیوں میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں لا سکیں۔ انہوں نے بھی سرمایہ داری کی حدود کے اندر رہتے ہوئے سیکولرازم اور جمہوریت کو اپنا مقصد بنایا ہوا ہے۔ درحقیقت نریندرا مودی کی نیم فسطائی پارٹی کا ابھرنا انہی ’بائیں بازو‘ کی پارٹیوں کی ناکامی کا نتیجہ ہے۔

بھارتی بورژوازی نے بالآخر بی جے پی کو اپنی روایتی پارٹی کے طور پر اپنا لیا ہے کیونکہ عالمی سرمایہ داری کی موجودہ بحرانی کیفیت میں سماج کو پرانے طریقوں سے سنبھالا نہیں جا سکتا۔ یہ دراصل بڑھتی ہوئی غربت، عدم مساوات اور عوام کی بڑھتی ہوئی محرومی اور نظام کی تاریخی متروکیت کی وجہ سے حکمران طبقات کی اپنے تاریخی فرائض کے سامنے شکست خوردگی کی غمازی کرتا ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے ہجومی تشدد میں مسلمانوں اور نچلی ذات کے ہندوﺅں کے قتل کے واقعات بہت تیزی سے بڑھے ہیں۔ نظام کو بچانے اور چلانے کے لیے قصداً ہندو مسلم فسادات کرانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ شہریت کے قانون میں ترمیم اس تقسیم کو ہوا دینے کی ایک شعوری کوشش ہے۔ اس کے باوجود عوام اس امتیازی قانون کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور تمام تر مذہبی تقسیم کو مسترد کرتے ہوئے پورے ملک میں مظاہرے کیے۔ دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے پھوٹنے والی طلبہ تحریک شہریت کے قانون کے خلاف اٹھنے والی تحریک سے جڑ گئی جس سے پورے برصغیر پر اس کے اثرات مرتب ہوئے اور پاکستان میں بھی طلبہ اور بائیں بازو کے کارکنان نے تحریک سے یکجہتی کا اظہار کیا۔ اس کے علاوہ پچھلے چند سالوں میں ہندوستان کے محنت کش نیو لبرل پالیسیوں کے خلاف عام ہڑتالیں کرتے آ رہے ہیں۔

پاکستان کے حکمران طبقات بھی اپنے بھارتی ہم منصبوں سے مختلف نہیں ہیں۔ ریاست اپنی تاریخ کے بدترین بحران میں گھری ہوئی ہے۔ پہلی دفعہ معیشت کی نمو منفی میں چلی گئی ہے۔ معاشی بحران حکمرانوں کے مختلف دھڑوں کی آپسی لڑائیوں میں اپنا اظہار کر رہا ہے۔ عوام عمران خان کی حکومت کے وحشیانہ نیو لبرل اقدامات سے رُل رہی ہے۔ عوام کی نظروں میں سیاسی افق پر موجود تمام پارٹیاں بے وقعت ہو چکی ہیں۔ کوئی معمولی واقعہ بھی تحریک کے پھٹنے کا باعث بن سکتا ہے۔

پوری دنیا سرمایہ داری کی تاریخ کے بدترین بحران سے گزر رہی ہے۔ ابھی عالمی معیشت 2008ءکے زوال سے مکمل طور پر صحت یاب نہیں ہوئی تھی کہ ایک اور زیادہ گہرے بحران نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ یہ نظام کروڑوں لوگوں کی زندگیاں برباد کر رہا ہے اور انسانی تہذیب کی تمام تر حاصلات اس کی وجہ سے خطرے میں ہیں۔ منافع کی اندھی دوڑ سے ماحولیاتی تبدیلیاں جنم لے رہی ہیں اور کورونا اسی سرمایہ دارانہ ”ترقی“ کا نتیجہ ہے جو صرف منافع خوری کے لیے کی جاتی ہے۔ سرمایہ داری کا خاتمہ ہی منافع خوری کے اس پاگل پن کا خاتمہ کرسکتا ہے۔