جے پرکاش / ایسرداس

سال 1990ء کے آغاز میں کراچی شہر کے آشو آڈیٹوریم میں قومی انقلابی پارٹی (جو مختلف بائیں بازو کی پارٹیوں کا انضمام تھی) کی ’سندھ باڈی‘ کے انتخاب کے لئے سندھ کانگریس کا انعقاد کیا گیا۔ وطن دوست انقلابی پارٹی (جس کے ہم ممبر تھے) بھی دیگر پارٹیوں کی طرح اس انضمام کا حصہ تھی۔ ہمیں وہاں اعجاز چانڈیو عرف اے جی چانڈیو کے ہمراہ شرکت کا موقع ملا۔ سندھ میں بائیں بازوں کی سیاست کرنے والے سینکڑوں نوجوان اور سیاسی کارکنان اس کانگریس کا حصہ بنے مگر جس طرح اُس اجلاس میں پارٹی عہدوں کے گرد تنازعات نے جنم لیا اور آپسی رسہ کشی اور دشمنی کے مناظر دیکھنے کو ملے، اے جی چانڈیو سمیت ہم دونوں نے یہ طے کیا کہ ہمیں بائیں بازوں کی سیاست سے کنارہ کشی کر لینی چاہیے اور آئندہ کسی بھی پارٹی کا حصہ نہ بننے کا ہم نے ایک مشکل فیصلہ لے لیا۔ کچھ ہی عرصے بعد اکتوبر 1990ء میں اے جی چانڈیو نے ہمیں شہر ٹنڈو آدم چلنے کی دعوت دی۔ ہم اے جی کے ہمراہ جب ٹنڈو آدم ریلوے اسٹیشن کے دروازے تک پہنچے تو وہاں مارکسی اور انقلابی نظریات سے لیس ایک شخص سے ہماری ملاقات ہوئی جس نے اپنا نام کامریڈ لال خان بتایا۔ کامریڈ لال خان کی بائیں بازوں کی سیاست پر بحث نے ہمارے اندر ایک نئی تڑپ اور ولولہ پیدا کر دیا۔ مایوسی اب طاقت میں بدل گئی اور اُس پہلی ملاقات میں ہی کامریڈ لال خان کی انقلابی باتوں نے ہمیں ایک نئی سیاسی زندگی بخش دی۔ وہ گزشتہ کئی ماہ سے کبھی ٹنڈو آدم تو کبھی بھٹ شاہ میں مقیم تھے اور سندھ میں کام کا آغاز کرنا چاہتے تھے۔ مگر جو ساتھی وہاں انہیں میسر ہوئے وہ وہی ماضی کی بائیں بازو کی سیاست کرنا چاہ رہے تھے اور محض چھوٹے قصبوں تک ہی اس عظیم انقلابی پیغام کو محدود کیے بیٹھے تھے۔ اُس پہلی ملاقات میں ہی کامریڈ لال نے ہم سے اصرار کیا کہ وہ محنت کشوں کے شہروں تک رسائی چاہتے ہیں اور اس کام کا مرکز کسی بڑے شہر کو بنانا اُن کا مقصد ہے۔ ہم یہ سوچ کر بہت خوش اور حیران تھے کہ مارکسی و انقلابی سیاست پر یہ کسی انقلابی کی طرف سے ایک نئی کوشش ہے۔ ہم اُس ملاقات میں ہی یہ سمجھ گئے کہ وہ کچھ الگ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ مسلسل اس بات پر زور دے رہے تھے کہ انہیں یہاں نئے نوجوانوں کے ساتھ کام کرنا ہے۔ ہماری اُس چھوٹی سی ملاقات میں ہی کامریڈ لال خان نے ہمارے دل یوں جیت لیے اور ہمارے درمیان ایک ایسا دوستانہ رشتہ پیدا ہوگیا کہ انہوں نے ہمیں یہ ٹارگٹ دیا کہ ہم حیدرآباد شہر میں کوئی جگہ تلاش کریں جہاں ہم ’جدوجہد‘ کا دفتر قائم کرسکیں۔

اُس ملاقات کے بعد ہم مسلسل رابطے میں رہے اور کچھ ہی عرصے میں حیدرآباد میں ہم نے ’حبیب ایوینیو‘ ٹنڈو ولی محمد میں اپنا پہلا آفس قائم کیا جہاں تقریباً تین سال مسلسل کامریڈ لال خان مقیم رہے۔ اورسندھ کے مختلف اضلاع میں میٹنگز اور پروگرامات منعقد کرواتے رہے اوراس طرح سندھ کے کام کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ ہم اپنی مشقت بھری زندگی سے تھوڑا وقت نکال کر جب شام کو دفتر آتے تو کامریڈ لال خان سے کی گئی مختلف موضوعات پر بحث جن میں آرٹ، فلم، کلچر، معیشت اور سیاست شامل ہوتے، سے ہماری تھکن اتر جاتی اور ہم توانا محسوس کرنے لگتے۔ حالات چاہے جیسے بھی ہوتے وہ خوش اور پرامید رہتے۔ بائیں بازو کی سیاست کے متعلق بہت سی باتیں جو ہم نہیں جانتے تھے ان سے اب باخبر ہورہے تھے۔ خاص طور پر سندھ چونکہ ہمیشہ بائیں بازو کے سٹالنسٹ نظریات کی سیاست کامرکز ر ہا تو باقیوں کی طرح ہمیں بھی ٹراٹسکی انقلاب کا غدار ہی لگتا تھا۔ مگر کامریڈ لال خان کی گفتگو اور ان کی بتائی ہوئی کتابوں تک جب ہماری رسائی ہوئی تو ہم حیران ہوکر رہ گئے اورٹراٹسکی کی حقیقی زندگی، اُس کی قربانیوں اور اُس کے انقلابی نظریات پرہم بالکل الگ سطح پر سوچنے لگے۔ ایک بار جب کامریڈ لال خان کی عوامی تحریک کے رہنما رسول بخش پلیجو سے ملاقات ہوئی تو پلیجو صاحب نے انہیں یہاں تک کہہ ڈالا کہ ”ٹراٹسکی ازم ایک بانجھ نظریہ ہے جو سندھ کی زمین پر کبھی بچہ پیدا نہیں کرسکتا۔ “ اس قسم کی باتیں ہر جگہ ہی سے سننے کو ملتی رہیں مگر کامریڈ لال خان کبھی ان باتوں سے مایوس نہیں ہوئے اور خاموشی سے اپنے کام میں مگن رہے۔ وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ انہیں سندھ سمیت پوری دنیا میں نظریات سے لیس سچے انقلابیوں کی تلاش ہے جو ان کا اس عظیم مقصد میں ساتھ دے سکیں۔ وہ اکثر یہ بھی کہا کرتے تھے کہ سندھ میں انہیں جو کشش کھینچ لائی وہ بنیادی طور پر یہاں تاریخی طور پر آخری دم تک مظلوموں کی لڑی جانے والی لڑائیاں ہیں۔ وہ ہمیشہ ایم آر ڈی جیسی تحریکوں کا ذکر کرتے اور جنرل ضیا کے خلاف یہاں چلنے والی تحریکوں کی خصوصیات پر ہم سے گھنٹوں گفتگو کرتے رہتے۔ آج جب سندھ میں اُن کے کیے گئے کام کے نتیجے میں ہم تیس برس بعد سینکڑوں کامریڈوں کو دیکھتے ہیں تو اُن کا وہ بھروسہ، اعتماد اور جستجو ہمیں ایک شکتی کی طرح محسوس ہوتے ہیں۔ اُن کی یہاں دی گئی قربانیا ں اور وقف کیا گیا قیمتی وقت سندھ کی سیاست پر ایسے انمٹ نشان چھوڑ گیا ہے جو آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ بن چکاہے۔

کامریڈ لال خان کی رہائش حیدرآباد کے اُسی آفس میں ہوا کرتی تھی۔ جب بھی ہم آفس جاتے تو وہ وہاں بیٹھے مطالعہ کر رہے ہوتے۔ محنت کشوں کی خبریں اور آرٹیکل انڈر لائین کرتے۔ ہمیں حوصلہ دیتے اور چھوٹی سے بڑی ہر قسم کی تحریک جہاں انہیں شکتی دیتی وہیں وہ ہم سے اُس تحریک کا تناظر بیان کرتے اور اُن مظاہروں و احتجاجوں میں ہمیں مداخلت کا درس دیتے۔ جہاں اُن کی دانش مندی یہاں ایک فیصلہ کن حیثیت اختیار کرتی جا رہی تھی وہیں اُن کی عاجزی نے یہاں کام کو ایک نئی تقویت بخشی۔ ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے تھے کہ وہ اپنے روز مرہ کے کام انتہائی خوشی سے کرتے۔ خود تین منزلہ سیڑھیاں اتر کر پانی بھرتے اور دفتر کی صفائی کا معاملہ ہو یا پھر کوئی بھی کام، کسی کام کو کرتے اُن کی پیشانیاں سل نہیں کھاتیں۔ وہ دوسرے کامریڈ وں کا اس قدر خیال رکھتے کہ ایک بار ہمیں یاد ہے کہ جب ہم صبح سویرے کسی کام سے دفتر گئے تو کامریڈ لال خان ایک اینٹ اپنے سرہانے رکھے سوئے ملے۔ ہم نے جب اُن سے پوچھا کہ وہ اتنی تکلیف میں کیوں سو رہے ہیں تو کہنے لگے ”رات اندرون سندھ سے کچھ کامریڈ دفتر آگئے تو میں نے اپنا بستر انہیں دے دیا۔ “ وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ ”جو عاجز نہیں ہو سکتا وہ کامریڈ تو درکنار کبھی اچھا انسان بھی نہیں بن سکتا۔ “ وہ جتنا عرصہ بھی یہاں موجود رہے ہر کامریڈ کے پاس خودچل کر جاتے اور ان کی تمام چھوٹی بڑی خوشیوں میں شامل ہوتے۔ ہمیں آج بھی یاد ہے کہ راہول کی پیدائش پر انہوں نے خود کامریڈوں کو ایک دعوت دی جہاں پوری رات وہ ہمارے ہمراہ جشن مناتے رہے، گنگناتے رہے اور اپنی پسندیدہ نظم ’پیشہ ور قاتلو‘ ہمیشہ کی طرح ہماری نذر کی۔

اپنے استاد کامریڈ ٹیڈ گرانٹ کی طرح کامریڈ لال خان بھی مایوسی کو موت قرار دیتے تھے۔ جب کبھی بھی کوئی انہیں مایوس محسوس ہوتا تو انہیں بڑے فنکارانہ انداز میں کوئی کام دے دیتے جیسے کبھی پی پی پی کے جلسوں میں پرچہ فروخت کرنا یا پھر کسی بھی مظاہرے میں مداخلت وغیرہ۔ ہمیں آج بھی وہ دن یاد ہے جب محترمہ بینظیر بھٹو کا ایک جلسہ بدین میں منعقد ہوا اور ہم مداخلت کے لئے بدین پہنچے۔ ہمارے لئے وہ پہلی دفعہ تھا جب ہمیں پرچہ سیل کرنا تھا۔ ہم دونوں پرچہ ہاتھ میں لیے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کررہے تھے۔ کامریڈ ہمیں کافی دیر دیکھتے رہے اور ہم سے پرچے لے کر بے باکی سے خود ہی سیل کرنے لگے۔ اُس دن کے بعد ہمیں ایک نئی ہمت ملی اور ہم ہر جلسے میں کامریڈ کے ہمراہ پرچہ سیل کرنے لگے۔ ہم نے کامریڈ لال خان کو جتنی شدت سے تقاریر کرتے اور لیڈ آف دیتے سنا اُس سے کئی زیادہ شدت سے وہ پرچہ سیل کرتے اور اپنے ہمدردوں، دوستوں اور کامریڈوں سے چندہ اکھٹا کرتے تھے۔ ہر نئے کامریڈ پر گہری نظر رکھتے اور اُسے اس کی صلاحیت کے مطابق کام مہیا کردیتے۔ تنظیمی اداروں پر ہمیشہ زور دیتے اور آخری دم تک کوشش کرتے کہ کوئی بھی کامریڈ ضائع نہ ہو۔ کیونکہ اُن کا ماننا تھا کہ ہمیں کامریڈوں کی صلاحیتوں کو اُن کی خامیوں پر ترجیح دینی چاہیے۔ فیصلے لینے کی اُن میں ایک الگ ہی جرات تھی۔ ہمارے سامنے بہت سارے مشکل وقت آئے۔ انٹرنیشنل تقسیم ہوئی لیکن وہ ایک لمحے کے لئے کبھی پریشان نہیں دکھائی دیئے۔ وہ برے سے برے حالات میں بھی کام کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ایک کیڈر ایسا ہونا چاہیے جو خراب سے خراب حالات میں بھی اپنی پیشانی پر لکیر نہ آنے دے۔

سندھ کی بائیں بازوں کی سیاست میں وہ ٹراٹسکی ازم کے پہلے علمبردار تھے۔ قومی مسئلے پر ان کی بے باک پوزیشن اس قدر مضبوط تھی کہ وہ بڑی آسانی سے قومی مسئلے کو محنت کشوں کی تحریک سے جوڑدیتے اور کوئی بھی اُن سے اختلافات کے باوجود بھی ان کے منہ پر انہیں غلط قرار دینے کی جرات نہیں کرتا۔ سندھ میں اُن سے قبل بہت بڑے بڑے نام بائیں بازوں کی سیاست سے منسلک رہے مگر وہ سب سے بڑے احترام سے ملتے اور ان کی دی گئی قربانیوں کی قدر کرتے۔ کامریڈ جام ساقی سے اُن کا رشتہ ہم نے کچھ الگ ہی طرح کا پایا۔ جہاں یہاں موجود بائیں بازو نے جام ساقی کی پیپلزپارٹی میں شمولیت پر کھلی تنقید کر کے اُن کی پوری زندگی کی جدوجہد کو مسخ کرنے کی کوشش کی وہیں کامریڈ لال خان کامریڈ جام ساقی کو ایک غیر معمولی کمیونسٹ قرار دیتے، جس نے ہر محاذ پر سوشلزم کے جھنڈے کو بلند رکھا۔ کامریڈ جام ساقی اور ان کے درمیان ہوئی بحث مباحثوں نے بہت جلد دونوں کے درمیان بے حد قریبی رشتہ پیدا کر دیاجو کہ کامریڈجام ساقی کی آخری سانس تک برقرار رہا۔

کامریڈ لال خان کی پوری زندگی کو ہم نے ایک غیر معمولی زندگی کے طور پر دیکھا۔ انہوں نے ایک ایسے دور میں انقلابی سوشلزم کی تحریک کو منظم کرنے کی جدوجہد کی جب پوری دنیا میں انقلابی تحریکوں کو شکست کا سامنا تھا۔ ہر کوئی یہاں مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں غرق ہوچکا تھا۔ بہت سوں نے این جی اوز کے دروازے کھٹکھٹائے تو کئی صوفی بن کر رہ گئے۔ مگر اُن کٹھن معروضی حالات میں وہ چٹان کی طرح ڈٹے رہے۔ اتنے بڑے طوفانوں میں جب بہاؤ کے الٹ سمت میں تیرنا تھا تو اس وقت ہمیں صبر، عاجزی اور ٹھوس دلیل کے ساتھ بات کرنے کا ڈھنگ سکھایا۔ آج یہ کہنا کسی طور بھی غلط نہیں ہوگا کہ لینن جیسا مارکسی تنظیم بنانے کا فن اگر کوئی رکھتا تھا تو وہ کامریڈ لال خان تھے۔ جس عہد میں انہوں نے تنظیم کے ڈھانچوں کی بنیادیں رکھیں وہ ناقبل یقین محسوس ہوتا ہے۔ انہیں اپنی حیاتی میں کبھی اپنی تعریف سننے کا شوق نہیں تھا کیونکہ مرتے دم تک انہوں نے جو کچھ بھی کیا وہ اُسے ہرانسان کا فرض سمجھتے تھے۔ مگر آج جب وہ یہاں موجود نہیں ہیں تو ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ جن عظیم نظریات سے وہ لیس تھے بالکل انہی کی طرح وہ عظیم تر ہوئے۔ آج بے شک تیس سال کی گہری دوستی کے بعد وہ ہمارے ساتھ جسمانی طور پر موجود نہیں ہیں لیکن اُن کے دیئے ہوئے آدرش، کام کا طریقہ کار، ان کے نظریات، صبر، حوصلہ، عاجزی اور پیارہمارے ساتھ ہیں۔ آج ہم سب اُن میں اور وہ ہم سب میں زندہ ہیں۔ اُن کی دی گئی قربانیاں اور انقلاب کے لئے وقف کی گئی زندگی کسی طور پر بھی رائیگاں نہیں جاسکتی۔ اُن کی زندگی کل بھی ہمارے لئے مشعل راہ بنی اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے بھی بنتی رہے گی۔ ایسے ہی کرداروں کے لئے شاید حسرت جیپوری اور شیلندرا نے یہ گانا لکھا تھا۔

کہ مر کے بھی کسی کو یاد آئیں گے
کسی کے آنسوؤں میں مسکرائیں گے
کہے گا پھول ہر کلی سے بار بار
جینا اسی کا نا م ہے…