احسن جعفری

1947ء میں ہوئے خونی بٹوارے کے زخم اب ایک ناسور بن کر اس خطے کے ایک ارب سے زائد محنت کشوں کی زندگیوں کو مسلسل عذاب میں مبتلا کیے ہوئے ہیں۔ کرہ ارض پر بسنے والے 20 فیصد افراد اور 40 فیصد غربت کو اپنے دامن میں سمیٹے یہ خطہ زمیں یہاں بسنے والوں کے لئے جہنم زار بن چکا ہے۔ بٹوارے نے نسلیں برباد کیں اور یہ بربادی مسلسل جاری و ساری ہے۔ جس وقت یہ سطور لکھی جا رہی ہیں اس وقت دہلی میں مسلمانوں کے خلاف ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے فسادات کا سلسلہ جاری ہے جسے بی جے پی سرکار کی پشت پناہی حاصل ہے۔ دونوں طرف کاحکمران طبقہ اپنی تاریخی تاخیرزدگی کے باعث ایک جدید قومی ریاست تعمیر کرنے میں مکمل ناکام رہا اور اپنی نا اہلی کو چھپانے کے لئے ہمیشہ رجعت کو سماج میں بڑھاوا دیا جس کا واضح، کھلا اور ننگا اظہار آج ہمیں مودی کے بھارت میں نظر آرہا ہے۔ ایک طرف کی رجعت دوسری طرف کے رجعت پسندوں کو شکتی اور جواز فراہم کرتی رہی ہے۔

پاکستان میں بٹوارے کو جواز فراہم کرنے اور بھارت میں ہندوتوا کے نظریئے کو بڑھاوا دینے کے لئے تاریخ کو بری طرح سے مسخ کیا گیا اور یہ کام دونوں طرف کے حکمرانوں نے اپنے اپنے طریقے سے انجام دیا۔ کسی کی جدوجہد صرف مذہبی بنیادوں تک محدود کردی گئی تو کسی کا نام ہی مٹا دیا گیا۔ بھگت سنگھ بھی ان آزادی کے سپاہیوں میں سے ایک تھا جس کی تاریخ بری طرح سے مسخ کر دی گئی۔ اس عظیم انسان نے اس خطے کے مظلوم و محکوم محنت کشوں کی حقیقی آزادی کے لئے جدوجہد کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا اور رہتی دنیا تک کے لئے انقلابیوں کے دلوں میں امر ہو گیا۔ لیکن ہندوستان کے حکمرانوں نے اسے صرف ایک قومی آزادی کا ہیرو بنا کر پیش کیا تو پاکستان میں اس کا نام لینا ہی جرم قرار دے دیا گیا۔ وہ بھگت جو اسی مٹی (موجودہ پاکستان) سے اٹھا، اسی مٹی پر بسنے والوں کی آزادی کے لئے لڑا ا ور نوعمری میں اسی مٹی میں مل گیا لیکن آج اس کا نام بھی اس سر زمین پر بسنے والے بہت سے نوجوانوں کو معلوم نہیں۔

بھگت سنگھ کی پیدائش موجودہ پاکستان کے ضلع فیصل آباد (لائل پور) کے ایک گاؤں بنگا میں ستمبر 1907ء میں ہوئی۔ صرف 23 سال بعد نوجوان بھگت سنگھ انقلاب کی راہ میں پھانسی کے پھندے کو چوم کر دنیا سے چلا گیا لیکن اپنے پیچھے ا نقلاب، جدوجہد اور نظریات پر مر مٹنے کی ایک ایسی میراث چھوڑ کر گیا کہ جس سے ہر آنے والے انقلابی نے شکتی حاصل کی۔ بھگت سنگھ سے لے کر آج تک برِصغیر کے ہر انقلابی کی رگوں میں دوڑنے والا خون بھگت سنگھ کی جدوجہد اور شہادت کی تپش محسوس کر کے مسلسل جوش و ولولے کی کیفیت میں محو رہتا ہے۔

بغاوت اور انقلاب بچپن ہی سے بھگت سنگھ کے خون میں رچ بس گئے تھے۔ اول تو گھر کے افراد پہلے ہی آزادی کی راہ میں قربانی دے چکے تھے اور دوسری سب سے بڑی وجہ سانحہ جلیانوالا باغ تھا۔ 21 مارچ 1919ء کو برطانوی سامراج نے رولیٹ ایکٹ ہندوستان میں لاگو کیا جس کے تحت برطانوی قابض افواج کو آزادی اور انقلاب کے متوالے ہندوستانیوں کو مزید کچلنے کی آزادی مل گئی۔ اسی ایکٹ کی پشت پناہی نے ایکٹنگ جنرل ڈائر کو وحشیانہ قتلِ عام کرنے کا لائسنس تھمایا اور 13 اپریل 1919ء کے دن بیساکھی کا تہوار خون کی ہولی میں تبدیل ہو گیا۔ جلیانوالا باغ کا سانحہ برطانوی راج کے جرائم کی طویل فہرست میں سب سے نمایاں جگہ پر لکھے جانے کے قابل ہے۔ معصوم اور نہتے عوام پر مسلسل گولیوں کی بارش کی گئی جبکہ باغ سے نکلنے کے تمام راستے مسدود کر دیئے گئے تھے۔ اس قتلِ عام نے بھگت سنگھ کے دل و دماغ پر انمٹ اثرات مرتب کیے۔ حالات، شعور و آگہی کے راہوار کو کس طرح سے مہمیز کرتے ہیں وہ بھگت سنگھ سے زیادہ کسی اور کی زندگی میں شاید ہی نظر آئے۔ ایک نوجوان سر پہ کفن باندھ کر اپنے لوگوں کو برطانوی سامراج کے جبر سے آزادی دلانے کے لئے گھر سے نکلتا ہے اور اس کا یہ سفر پھانسی کے پھندے پر جا کر ختم ہوتا ہے۔

گاندھی کی نان کو آپریشن موومنٹ اور پھر اس کو یکدم واپس لینے کے گاندھی کے فیصلے نے بہت سے نوجوانوں اور آزادی کے متوالوں کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ گاندھی برِ صغیر کی آزادی کا لیڈر نہیں ہو سکتا۔ اسی وجہ سے رام پرساد بسمل اور ان کے بہت سے انقلابی ساتھی کانگریس سے الگ ہوئے اور ہندوستان ریپبلکن ایسوسی ایشن (HRA) کی بنیادرکھی گئی۔ بھگت سنگھ اور اس کے دوستوں نے ایچ آر اے کالج کے زمانے میں جوائن کی۔ آغاز میں مسلح کاروائیوں کے ذریعے برطانوی راج کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کی گئیں لیکن جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ یہ کاروائیاں عوام میں ان کی مقبولیت کو ختم کر رہی ہیں اور ان کو جواز بنا کر برطانوی سرکار مزید جبر و استحصال کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔ بھگت سنگھ کا وہ تاریخی خطاب، جس میں ہندوستان ریپبلکن ایسوسی ایشن کو ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسو سی ایشن میں تبدیل کیا گیا، واضح کرتا ہے کہ حالات اورانقلابی نظریئے کے مطالعے نے ان انقلابیوں کو یہ سکھا دیا تھا کہ ہندوستان کی آزادی صرف گورے آقا کے جانے اور بھورے آقا کے آجانے سے مشروط نہیں ہے بلکہ جب تک طبقاتی نظامِ سرمایہ داری کو اکھاڑ کر نہیں پھینکا جاتا اور ایک سوشلسٹ سماج کی تعمیر نہیں کی جاتی اس وقت تک ہندوستانیوں کو حقیقی آزادی حاصل نہیں ہو سکتی۔ بلکہ سماج کے مسائل اور زیادہ گہرے اور پیچیدہ ہوتے چلے جائیں گے۔

آج جب ہم مذہبی رجعت کی بنیاد پر ہونے والے بٹوارے اور اس کے نتیجے میں بننے والے پہلے دو اور پھر تین ملکوں کے محنت کشوں کی زندگیوں کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ مذہبی تعصب ہو یا خالی خولی قوم پرستی‘ دونوں کے پاس محنت کشوں کے مسائل کا کوئی مستقل حل موجود نہیں ہے۔ پسماندہ سماجوں میں سرمایہ داری کی حدود و قیود میں رہتے ہوئے ایک جدید اور فلاحی ریاست بنانا ایک دیوانے کے خواب سے زیادہ نہیں ہے اور یہ بات بھگت سنگھ اور اس کے انقلابی ساتھی اچھی طرح سمجھ چکے تھے۔ اسی لئے انہوں نے آزادی کی بجائے انقلاب زندہ باد کا نعرہ بلند کیا جو نہ صرف برطانوی سامراج کی نیندیں حرام کر رہا تھا بلکہ مقامی اشرافیہ کے لئے بھی آنے والے وقت میں مسائل کھڑے کرسکتا تھا۔ گاندھی کا بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کی پھانسی سے متعلق غیر سنجیدہ رویہ اسی مقامی اشرافیہ کی اندر کی بے چینی کا آئینہ دار تھا کہ جن کو بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں سے خوف محسوس ہو رہا تھا۔ گاندھی چاہتا تو یہ پھانسی رک سکتی تھی لیکن وہ ایسا چاہ نہیں سکتا تھا کیونکہ وہ ہندوستان کے محنت کشوں کے بجائے ہندوستان کی اشرافیہ کا نمائندہ تھا۔ برلا ہاؤس میں بیٹھ کر کوئی کیسے فیکٹری مزدوروں کے حقوق کی بات کرسکتا ہے۔ گاندھی کے لئے ٹراٹسکی نے ”جھوٹا پیغمبر“ کی اصطلاح یوں ہی نہیں استعمال کی تھی۔

بھگت سنگھ کی انقلابی جدوجہد اور اس کی شہادت کا انقلابیوں کے لئے یہی سبق ہے کہ طبقاتی جدوجہد نا قابلِ مصالحت ہے اور اس راستے پر ڈٹے رہنا ہی اصل انقلابی ہونے کی پہچان اور دلیل ہے۔ آج بھگت سنگھ کی شہادت کے 90 سال بعد برِ صغیر کا سماج پہلے سے کہیں زیادہ پراگندہ اور گھائل نظر آ رہا ہے۔ ایسے میں حکمرانوں کے کاسہ لیس دانشوربھی محنت کشوں کو نظریاتی اور روحانی طور پر گھائل کرنے میں پیچھے نہیں ہیں اور مسلسل مایوسی پھیلاتے رہتے ہیں تاکہ محنت کش کسی انقلابی امید کی کرن کو سہارا بنا کر اٹھ کھڑے نہ ہوں۔ دوسری طرف وہ نام نہاد انقلابی ہیں جو ابھی تک مرحلہ وار انقلاب میں پھنسے سرمایہ دارانہ جمہوریت میں محنت کشوں کے مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

لیکن اس سب میں امید کی مشعلیں تھامے اور انسانیت کو ایک باوقار، انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال سے پاک اور تابناک مستقبل کی نوید سنانے والے صرف وہی تھے اور ہیں جنہوں نے ماضی کی غلطیوں سے سیکھا، پوری دنیا میں رونما ہونے والے واقعات کا سائنسی بنیادوں پر تجزیہ کیا اور اس تجزیئے کی بنیاد پر سوشلسٹ سماج کے قیام کے لئے کی جانے والی جدوجہد میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے کے لئے ٹھوس اور اٹل نظریات پر مبنی انقلابی پارٹی کی بنیادوں کی تعمیر کے عمل کو مسلسل جاری رکھا۔ آنے والا وقت اور دور یقینا ان کا ہو گا جو انسانیت کے مستقبل سے مایوس نہیں ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑنے سے کم پر سمجھوتہ کرنے کو تیار بھی نہیں۔