ولادیمیر لینن

تلخیص و ترجمہ: حسن جان

روسکوئے سلوو (شمارہ نمبر 198)، جو روس میں سب سے کثیرالاشاعت لبرل اخبار ہے، اس حقیقت کی جانب اشارہ کرتا ہے اور صحیح نتائج اخذ کرتا ہے کہ روس میں روسی زبان کے خلاف نفرت ’صرف اور صرف‘ اس کے ”مصنوعی“ (صحیح لفظ ”زبردستی“ ہوگا) نفاذ کی وجہ سے ہے۔

اخبار میں لکھا ہے، ”روسی زبان کے مستقبل کے بارے میں گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ یہ خود ہی پورے روس میں اپنا لوہا منوائے گی۔“ یہ بالکل درست ہے کیونکہ معاشی تبادلے کے تقاضے ایک ریاست میں رہنے والی قومیتوں (اگر وہ ایک ساتھ رہنے کی خواہش رکھتی ہیں) کو اکثریت کی زبان کو سیکھنے پر مجبور کریں گے۔ روس میں سیاسی نظام جتنا جمہوری بنے گا، سرمایہ داری جتنی بھرپور طاقت، تیزی اور وسعت سے ارتقا کرے گی، اتنی ہی تیزی سے معاشی تبادلے کے تقاضے مختلف قومیتوں کو عمومی کاروباری تعلقات کے لئے سب سے موزوں زبان کو سیکھنے پر مجبور کریں گے۔

لیکن مذکورہ لبرل اخبار پھر فوراً اپنے ہی منہ پہ تمانچہ مارتا ہے اور اپنی لبرل بے ربطی واضح کر دیتا ہے۔ وہ لکھتا ہے، ”حتیٰ کہ وہ لوگ بھی جو دوسری قوموں پر روسی زبان اور ثقافت تھونپنے (Russification) کی مخالفت کرتے ہیں شاید ہی اس بات سے انکار کریں گے کہ روس جیسے وسیع ملک میں ایک سرکاری زبان ہونی چاہیے جو صرف روسی زبان ہی ہو سکتی ہے۔“

منطق کو الٹا کردیا! سوئٹزرلینڈ جیسے چھوٹے ملک میں ایک کی بجائے تین سرکاری زبانیں (جرمن، فرانسیسی اور اطالوی) ہیں اور اس سے سوئٹزرلینڈ کو نقصان کی بجائے فائدہ ہی ہوا ہے۔ سوئٹزرلینڈ میں 70 فیصد آبادی جرمن ہے (جبکہ روس میں 43 فیصد خالص روسی ہیں)، 22 فیصد فرانسیسی (روس میں 17 فیصد یوکرائینی ہیں) اور 7 فیصد اطالوی ہیں (روس میں 6 فیصد پول اور 4.5 فیصد بیلاروسی ہیں)۔ اگر سوئٹزرلینڈ میں اطالوی لوگ مشترکہ پارلیمان میں فرانسیسی زبان میں بات کرتے ہیں تو وہ کسی وحشیانہ سرکاری قوانین سے مجبور ہوکر نہیں کرتے (سوئٹزرلینڈ میں ایسا کوئی قانون نہیں ہے) بلکہ اس لئے کہ ایک جمہوری ریاست کے تہذیب یافتہ شہری خود ہی ایسی زبان میں بات کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جو اکثریت کی سمجھ میں آجائے۔ فرانسیسی زبان اطالویوں میں نفرت کو جنم نہیں دیتی کیونکہ یہ ایک آزاد تہذیب یافتہ قوم کی زبان ہے۔ ایک ایسی زبان جسے نفرت انگیز پولیس گردی کے ذریعے نافذ نہیں کیا گیا ہے۔

روس جیسا”وسیع“، بے تحاشہ متنوع اور خوفناک حد تک پسماندہ ملک کسی ایک زبان کو مراعات دے کر اپنی ترقی کو کیونکر روک دے؟ لبرل حضرات! کیا اس کے برعکس درست نہیں ہے؟ اگر روس نے یورپ کو [ترقی] میں پیچھے چھوڑنا ہے تو کیا اسے جلد از جلد [ کسی ایک زبان کو حاصل] تمام تر مراعات کو مکمل طور پر ختم نہیں کرنا چاہیے؟
اگر تمام تر مراعات ختم ہوجائیں اور واحد زبان کے جبری نفاذ کا خاتمہ ہو تو تمام سلاو (Slavs) آسانی اور تیزی سے ایک دوسرے (کی زبان) کو سمجھنا سیکھ لیں گے اور اس ”خوفناک“ خیال سے نہیں ڈریں گے کہ مشترکہ پارلیمان میں مختلف زبانوں میں تقریریں ہوں گی۔ معاشی تبادلے کے تقاضے خود ہی اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ کسی ملک کی کونسی زبان کاروباری تعلقات میں اکثریت کے فائدے میں ہوگی۔ یہ فیصلہ زیادہ مستحکم ہو گا کیونکہ اسے مختلف قومیتوں پر مشتمل آبادی رضاکارانہ طور پر اختیار کرے گی اور جتنی بااصول جمہوریت ہوگی اتنی ہی تیز اور وسیع بنیادوں پر وہ زبان اختیار ہوگی اور اتنا ہی تیز سرمایہ داری کا ارتقا ہو گا۔

لبرل’زبان‘ کے سوال کو اسی طرح دیکھتے ہیں جس طرح وہ تمام دیگر سیاسی سوالات کو دیکھتے ہیں۔ ایک منافق خوانچہ فروش کی طرح ایک ہاتھ جمہوریت کی طرف اور چپکے سے دوسرا ہاتھ جاگیرداروں اور پولیس کی طرف بڑھاتے ہیں۔ لبرل چِلّا کر کہتے ہیں کہ ہم مراعات کے خلاف ہیں اور پیٹھ پیچھے وہ جاگیرداروں سے ایک کے بعد دوسری مراعت کے لئے سازباز کرتے ہیں۔

یہ تمام تر لبرل بورژوا قوم پرستیوں کی فطرت ہوتی ہے۔ نہ صرف روسی قوم پرستی کی (جو سب قوم پرستیوں میں اپنے پرتشدد کردار اور انتہائی رجعتی شاہ پرستوں سے قریبی تعلقات کی وجہ سے بدترین ہے) بلکہ پولش، یہودی، یوکرائینی، جارجیائی اور ہر دوسری قومی پرستی کی بھی۔ آسٹریا اور روس دونوں میں ”قومی ثقافت“ کے نام پر تمام قوموں کی بورژوازی درحقیقت مزدوروں کو تقسیم، جمہوریت کو کمزور اور عوام کے حقوق اور آزادی کی فروخت پر جاگیرداروں سے ساز باز کرتی ہے۔

محنت کش طبقے کی جمہوریت کا نعرہ ”قومی ثقافت“ نہیں بلکہ جمہوریت پر مبنی عالمی ثقافت اور عالمی مزدور تحریک ہے۔ بورژوازی کو مختلف ”مثبت“ قومی پروگراموں کے ذریعے لوگوں کو دھوکہ دینے دو۔ طبقاتی شعور کے حامل مزدور کا بورژوازی کو جواب یہ ہوگا: قومی مسئلے کا صرف ایک ہی حل ہے (جہاں تک سرمایہ دارانہ نظام‘ یعنی منافعے، جھگڑے اور استحصال کی دنیا میں یہ حل ممکن ہے) اور وہ ہے یکساں و بااصول جمہوریت۔

ثبوت: مغربی یورپ میں سوئٹزرلینڈ(ایک قدیم ثقافت کا مالک ملک) اور مشرقی یورپ میں فن لینڈ‘ جو ایک نئی ثقافت کا مالک ہے۔

محنت کش طبقے کی جمہوریت کا قومی پروگرام یہ ہے: کسی خاص قوم یا زبان کے لئے قطعاً کوئی مراعات نہیں؛ قوموں کا سیاسی حق خود ارادیت یعنی بطور ریاست علیحدگی کے مسئلے کو مکمل آزادانہ جمہوری طریقے سے حل کرنا؛ ایک ایسے قانون کا بنایا جانا جو کسی خاص قوم کو مراعات دینے یا قوموں کی برابری یا کسی اقلیت کے حقوق میں رخنہ ڈالنے والے ہر اقدام کو غیرقانونی اور غیر موثر قرار دے اورریاست کے کسی بھی شہری کو یہ حق حاصل ہو کہ وہ اس طرح کے اقدامات کو غیر آئینی قرار دینے اور اسے نافذ کرنے والوں کو سزا دینے کا مطالبہ کر سکے۔

زبان وغیرہ کے سوال پر محنت کش طبقے کی جمہوریت مختلف بورژوا پارٹیوں کے قوم پرستانہ جھگڑوں کے برعکس ہے۔ ہم کسی بھی قسم کی بورژوا قوم پرستی کے برخلاف محنت کشوں کی تمام تنظیموں (ٹریڈیونینیں، کوآپریٹو تنظیمیں وغیرہ) میں تمام قومیتوں کے مزدوروں کے غیر مشروط اتحاد اور مکمل یکجہتی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ صرف اسی قسم کا اتحاد اور یکجہتی ہی جمہوریت اور سرمائے، جو پہلے ہی عالمی کردار کا حامل ہوچکا ہے، کے خلاف مزدوروں کے مفادات کا دفاع کرسکتی ہے اور انسانیت کو ایسی طرز زندگی کی طرف لے جاسکتی ہے جو تمام تر مراعات اور استحصال سے پاک ہو۔