بدر رفیق

دسمبر 2019ء میں چلی کی طرف سے میزبانی سے انکار کے بعد سپین کے شہر میڈرڈمیں ہونے والی کانفرنس ’COP25‘ دو ہفتے جاری رہنے کے بعد ماحول میں ہونے والی منفی تبدیلیوں کی روک تھام کے لئے کوئی خاطر خواہ نتائج حاصل کرنے اور تمام ممالک کے درمیان مزید کسی معاہدے پر پہنچنے میں ناکام رہی۔ اس سے قبل اس سلسلے میں 2015ء میں ہونے والے پیرس معاہدے کے تحت زمینی درجہ حرارت میں اضافے کو 2 سینٹی گریڈ تک محدود کرنے اور مزید کوششوں سے اس صدی میں 1.5سینٹی گریڈ تک کم کرنے کے لئے گرین ہاؤس گیسوں اورکاربن کے اخراج کی روک تھام سمیت مختلف طرح کے خطرناک مواد کو کنٹرول کرنے، ماحول دوست ٹیکنالوجی متعارف کروانے اور اس کے لئے وسائل مہیا کرنے پر اتفاق کیا گیا تھاجس کو اب تک پورا نہیں کیا جا سکا۔ تاہم پیرس معاہدے کے بعد بھی مختلف سطح پر کوششیں جاری رہیں۔ ماحول کوزندگی کے لئے سازگار بنانے کے سلسلے میں حالیہ سپین کانفرنس دنیا کی امیدوں کا مرکز بنی رہی۔ جو غریب اور امیر ممالک میں اختلافات کی بنا پر اپنے مقررہ وقت پر ختم نہ ہو سکی۔ حالانکہ اس کے بعد بھی کانفرنس میں شامل تمام ممالک کسی معاہدے یا اتفاق پر نہیں پہنچ پائے۔ کانفرنس کے اختتام پر اقوام متحدہ کے چیف انٹانیو گٹرز نے بھی حالیہ کانفرنس ’COP25‘ کوناکام اور مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ”عالمی برادری نے ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کا ایک اہم موقع گنوا دیا ہے۔“

موجودہ کانفرنس کی ناکامی میں غریب ممالک کے اختلاف کو بڑی وجہ قرار دیا جا رہا ہے جبکہ غریب ممالک کے مطابق ماحولیاتی آلودگی میں ان کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے اور دوسری طرف بحران سے نمٹنے کے لئے سرمایہ اور وسائل کی کمی سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔

گرین ہاؤس گیسوں اور کاربن کے زائد اخراج سے زمینی درجہ حرارت کے بڑھنے اور ماحولیات میں تبدیلی کے سلسلے میں ایک نیامنفی رجحان پروان چڑھ رہا ہے۔ اس رجحان کے تحت دنیا بھر میں قدرتی آفات کا ایک تسلسل جنم لے رہا ہے جس کی ہر کڑی ایک نئی آفت کو جنم دے رہی ہے۔ جن میں سائیکلون، سونامی، سیلاب، کلاؤڈ برسٹ، قحط سالیاں، گرد آلود طوفان، ہیٹ ویوز (گرمی کی لہریں) اورجنگلوں میں لگنے والی آگ سمیت مختلف آفات شامل ہیں۔ ان آفات سے بڑے پیمانے پر فوری اموات، انفراسٹرکچر کی ٹوٹ پھوٹ، وبائی بیماریوں کے پھیلاؤ، ہوا اورپانی کی آلودگی، جاندار انواع اور آبی حیات کے مسلسل خاتمے اور ماحول کے مزید بگاڑ سمیت مختلف مسائل کا سامنا ہے۔ بنگلہ دیش میں 2007ء کے سائیکلون سے لے کر جاپان میں 2011ء کے سونامی تک سب اسی رجحان کی کڑیاں ہیں جو اپنی شدت اور وسعت کی وجہ سے معاشی بحران میں مبتلا دنیا کو مزید بربادی میں دھکیلتے ہوئے بالخصوص پہلے سے معاشی طور پر آفت زدہ تیسری دنیا کے غریب ممالک میں مزید بڑے پیمانے پر بربادی کا باعث بن رہا ہے۔ اقوام متحدہ سمیت کئی عالمی اداروں اور دانشوروں نے انتباہ کر دیا ہے کہ اگر جلد از جلد ماحولیاتی بحران کا حل نہ نکالا گیا تو کچھ عرصے میں ماحولیاتی بگاڑ ناقابل واپسی سطح پر پہنچ جائے گا جو سیارہ زمین پر نہ صرف انسانیت بلکہ بیشتر زندگی کے خاتمے پر منتج ہو گا۔

گزشتہ ہزاروں سالوں کی ترقی کی بنیاد پرجہاں پچھلے دو سو سال میں تیز رفتار ترقی سے انسان فطرت پر تصرف حاصل کرنے اور فطرت ثانیہ تخلیق کرنے میں کامیاب ہوا ہے وہیں اس دو سو سالہ عرصے میں ترقی کے اس عمل میں فطری ماحول میں گزشتہ لاکھوں سالوں سے زائد بگاڑ بھی پیدا کرنے کا باعث بنا ہے۔ صنعتی انقلاب سے لے کر اب تک پیداواری عمل کے دوران کاربن ڈائی آکسائیڈاور دوسری گرین ہاؤس گیسوں کے زائد اخراج سے زمینی درجہ حرارت پچھلے لاکھوں سالوں کی نسبت صرف دو صدیوں میں خطرناک حد تک بڑھ کر فطری ماحول میں انتہائی سطح کا بگاڑ پیدا کر چکا ہے۔ جبکہ پلاسٹک سمیت دیگر خطرناک صنعتی مواد سے ماحولیاتی آلودگی میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس خطرناک اخراج کا سب سے بڑا ذریعہ عالمی سرمایہ دارانہ صنعت ہے اور اخراج میں شراکت داری کے حوالے سے دنیا کی بڑی معیشتیں بالترتیب شمالی امریکہ، یورپ، روس اور چین سر فہرست ہیں۔ کاربن ڈائی آکسائیڈکے اخراج میں شمالی امریکہ کا حصہ تقریباً 34 فیصد، یورپ کا 26 فیصد، روس کا 14 فیصد جبکہ چین کا 6 فیصد کے قریب رہا اور غریب ممالک کا حصہ تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے جس کی بنیادی وجہ بڑے پیمانے کی صنعت کاری کا فقدان ہے۔ گرین ہاؤس گیسوں کے زائد اخراج پر قابو پانے کے لئے صنعتی اجارہ داریوں اور بڑی معیشتوں کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے جبکہ موجودہ سرمایہ دارانہ سماجی ڈھانچوں میں یہی طاقتیں عالمی معیشت اور سیاست پر بھی کنٹرول رکھے ہوئے ہیں۔ یہ شرح منافع کی ہوس میں اس قدر اندھی ہو چکی ہیں کہ منافع ان کے لئے خود زندگی ہی سے زائد اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ ایسے میں موجودہ عالمی معاشی اور سیاسی ساخت ماحولیاتی بگاڑ جیسے اہم ترین مسئلے کو حل کرنے میں خود سب سے بڑی رکاوٹ بن چکی ہے۔

موجودہ نظام میں تمام بڑے ذرائع پیداوار اور عالمی صنعت چند نجی ہاتھوں میں مرتکز ہیں جبکہ ان اجارہ داریوں کے 7 بڑے مالکان دنیا کی پچاس فیصد آبادی سے زائد دولت بھی رکھتے ہیں اور بڑی بڑی عالمی معیشتیں ان کی مقروض ہیں۔ دوسری طرف یہی صنعتی اجارہ داریاں ماحولیاتی آلودگی کا سب سے بڑا ذریعہ بھی ہیں۔ اس عالمی نظام میں سرمایہ کاری اور پیداوار کا مقصد انسانی ضروریات کی تکمیل کی بجائے منافع ہے۔ دنیا کی نصف سے زائد آبادی آج بھی بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہے اور سرمائے کے ارتکاز کی دوسری جانب غربت کا پھیلاؤ مجموعی طور پر انسانی سماج کو تباہی اور بربادی میں غرق کرتا جا رہا ہے۔ ایک طرف اصلاح پسندوں کی طرف سے ماحول دوست ٹیکنالوجی کے استعمال کو سب سے بنیادی حل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جبکہ دوسری جانب زائد پیداوار کا بحران بھی عروج پر ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی جانب سے بھاری سرمایہ کاری کر کے نئی ماحول دوست ٹیکنالوجی کو بڑے پیمانے پر متعارف کروانا اور خطرناک ایندھن پر چلنے والی کروڑوں گاڑیوں کو ضبط کر کے ان کی جگہ الیکٹرک گاڑیوں کو لانا موجودہ نظام میں کم و بیش ناممکن ہو جاتا ہے۔ اس کے راستے میں فاسل فیول کی اجارہ داریاں بھی حائل ہیں۔ موجودہ ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کے لئے عالمی سطح پر ذرائع پیداوار کو چند نجی ہاتھوں سے نکال کر اکثریتی محنت کش طبقے کی اشتراکی ملکیت میں دے کر پیداوار کا مقصد منافع خوری کی بجائے انسانیت کی فلاح و بہبود بنانا ہو گا۔

بیسویں صدی میں سرمایہ داری کے بحرانوں نے جہاں جنگوں کو جنم دیا وہاں اکیسویں صدی میں اسی نظام کے پیدا کردہ ماحولیاتی بحران نے سیارے پر زندگی کو ہی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اس کے رد عمل میں ستمبر 2019ء کے آخری عشرے میں ماحولیاتی بحران کے حوالے سے تاریخ کا سب سے بڑا عوامی تحرک بھی نظر آیا جس میں ایک اندازے کے مطابق 150 سے زائد ممالک میں 75 لاکھ کے قریب لوگوں نے شرکت کی۔ اس تحریک نے ماحولیات کے حوالے سے ایک پاپولر شخصیت ’گریٹا تھنبرگ‘ کو بھی ابھارا ہے لیکن فی الوقت ایسے رجحانات زیادہ تر اصلاح پسندی کی طرف مائل ہیں۔ آنے والے دنوں میں ایسی مزید تحریکیں بھی اٹھیں گی جہاں ماحولیات کے مسئلے کا انقلابی سوشلسٹ حل عوام کے سامنے پیش کرنا مارکسسٹوں کا فریضہ ہے۔ ماحولیاتی بحران نے انسانیت کو اس نہج پر لا کھڑا کر دیا ہے جہاں انسانوں کے پاس دردناک موت اور معدومی سے نجات کا سوشلسٹ راستہ ہی بچا ہے۔ جس کے تحت ذرائع پیداوار کو اجتماعی کنٹرول میں لیتے ہوئے نہ صرف پیداوار کے طریقہ کار اور مقصد کو بدلا جائے گا بلکہ قلت اور مانگ کا خاتمہ کرتے ہوئے غربت، بیروزگاری و ناخواندگی میں غرق بڑی آبادی کو ایک صحت مند معاشرے کا فعال حصہ بنایا جائے گا۔