مائیکل رابرٹس

ترجمہ: حسن جان

”بریگزیٹ کو مکمل کرو“ یہ موجودہ وزیر اعظم بورس جونسن کی حکومت کا انتخابی نعرہ تھا اور اسی نعرے کی وجہ سے لیبر پارٹی کے ووٹروں کی بڑی تعداد، جنہوں نے 2016ء میں یورپی یونین سے علیحدگی (بریگزٹ) کے لئے ووٹ دیا تھا، نے ٹوریز (کنزرویٹو پارٹی) کو ووٹ دیا۔ 2017ء کے الیکشن میں لیبر پارٹی کے ایک تہائی ووٹرز یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں تھے۔ یہ زیادہ تر برطانیہ کے مرکزی اور شمالی علاقوں کے چھوٹے قصبوں کے لوگ تھے جہاں تارکین وطن کی تعداد بہت کم ہے۔ انہوں نے اس بات کو قبول کر لیا ہے کہ ان کے ابتر معاشی حالات اور ناقص سہولیات یورپی یونین، تارکین وطن اور لندن اور جنوب کی اشرافیہ کی وجہ سے ہیں۔

برطانیہ جغرافیائی طور پر یورپ میں سب سے منقسم ملک ہے۔ ان انتخابات نے اس ”جغرافیائی بے چینی“ کو ثابت کیا جہاں بیشتر ترقی یافتہ ملکوں کی نسبت برطانیہ کے اندر (مختلف علاقوں کے درمیان) شرح اموات میں فرق زیادہ ہے۔ یہاں کسی بھی قابل ِموازنہ ملک کی نسبت آمدنی میں خلیج بھی زیادہ ہے اور پچھلے دس سالوں کے دوران اس میں اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح کسی بھی قابل ِموازنہ ملک کی نسبت یہاں پیداواریت کی خلیج بھی زیادہ ہے۔

بوڑھوں میں بریگزٹ کی حمایت زیادہ تھی جن کو انگریزی ”بالادستی“ کے ”پرانے اچھے دن“ ابھی تک یاد ہیں جب 1970ء کی دہائی میں یورپی یونین میں شامل ہونے سے پہلے ”معاملات ہمارے اپنے ہاتھوں میں تھے۔ “ جب ہم یورپی یونین میں شامل ہوگئے تو 1970ء کی پر انتشار دہائی دیکھنے میں آئی اور 1980ء کی دہائی میں مینوفیکچرنگ اور صنعت تباہی کا شکار ہوئی۔ 2000ء کی دہائی میں مشرقی یورپی تارکین وطن کی آمد (زیادہ تر بڑے شہروں میں) اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوا۔

دارالحکومت لندن میں لیبر پارٹی کے ووٹ بطور بریگزٹ مخالف پارٹی کے قائم رہے جبکہ لبرل ڈیموکریٹس کے ووٹ کم ہوئے۔ لبرل ڈیموکریٹس اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکے لیکن پھر بھی 2017ء کی نسبت زیادہ ووٹ (11فیصد) لیے۔ ٹوری پارٹی کے ووٹ میں 2017ء کی نسبت معمولی اضافہ ہوا (42.3 فیصد سے 43.6 فیصد) جبکہ لیبر پارٹی کے ووٹ 2017ء کے 40 فیصد سے گر کر 32 فیصد ہو گئے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ رائے عامہ اور ایگزٹ پول کے جائزے درست تھے۔ مجموعی ٹرن آؤٹ 2017ء کے 69 فیصد سے گر کر 67 فیصد تھا بالخصوص بریگزٹ والے علاقوں میں۔ ایک دفعہ پھر بریگزٹ والی پارٹی اکثریت میں تھی۔

یہ انتخابات واضح طور پر بریگزٹ کے گرد گھوم رہے تھے۔ لیبر پارٹی کا پروگرام 1945ء کے بعد سب سے زیادہ ریڈیکل تھا۔ اس کا معاشی اور سماجی منشور کافی مقبول تھا۔ لیبر کی مہم شاندار اور کارکنوں کی ووٹ حاصل کرنے کی تگ و دو مثالی تھی لیکن اس کا کوئی خاص اثر نہیں پڑا۔ بریگزٹ کا مسئلہ تمام تر دیگر مسئلوں پر چھایا رہا اور لیبر پارٹی کے ووٹ سکڑ گئے۔ یقینا ہر ووٹر ”بریگزٹ کو مکمل کرنے“ کے حق میں نہیں تھا لیکن 2016ء کے بریگزٹ ووٹروں کی اکثریت بار بار کے التوا سے تنگ آچکی تھی اور معاملات کو یکطرفہ طور پہ کرنا چاہتی تھی۔

عام طور پر انتخابات معیشت کی صورت حال کے اوپر جیتے جاتے ہیں۔ یہ انتخابات عمومی طور پر مختلف تھے لیکن اس کے باوجود 2017ء میں سابقہ وزیر اعظم تھریسا مے کی اکثریت ختم ہونے کے بعد حقیقی آمدنی اور شرح بے روزگاری کے حساب سے معاشی خوشحالی کے اشاریوں میں بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ بلا شبہ سرمایہ کاری اور پیداوار میں جمود تھا لیکن اوسط برطانوی گھرانے 2017ء کے بعد سے حالات زندگی میں بہتری محسوس کر رہے تھے۔ روزگار اور حقیقی آمدنی میں معمولی اضافہ بھی ہوا۔ جس سے جانسن کی حکومت کو فائدہ ہوا۔

اب کیا ہوگا؟ جانسن کی حکومت فوری طور پر جنوری کے آخر تک برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے لئے پارلیمان سے ضروری قانون سازی کرے گی۔ جس کے بعد یورپی یونین کے ساتھ تجارتی معاہدہ طے کرنے کا اذیت ناک عمل شروع ہوگا۔ اس عمل کو جون 2020ء تک مکمل ہونا ہے بشرطیکہ برطانیہ ڈیڈ لائن میں توسیع کی درخواست نہ کرے۔ جانسن نہیں چاہے گا کہ ایسا ہو اور وہ اپنی پارٹی میں ’بغیر معاہدے کے فوری بریگزٹ‘ چاہنے والوں کے غیض و غضب کو ابھارے بغیر یورپی یونین کو تمام تر رعایتیں دے کر ایک معاہدہ کرے گا۔ جب اگلے سال تک بریگزٹ کا مسئلہ حل ہوجائے گا تو برطانوی معیشت، جو فی الحال اپنے گھٹنوں پر ہے (شرح نمو اور سرمایہ کاری کی گراوٹ)، میں مختصر ابھار آئے گا۔ غیر یقینی کیفیت کے خاتمے کے بعد بیرونی سرمایہ کاری واپس آئے گی، مکانات کی قیمتیں بحال ہوں گی اور لیبر مارکیٹ کی مضبوطی کے ساتھ ہی اجرتیں بھی شاید بڑھ جائیں۔ جانسن کی حکومت شاید لیبر پارٹی کی چند تجاویز پر عمل کرکے تھوڑی مدت کے لیے حکومتی اخراجات میں اضافہ بھی کرے۔

لیکن طویل مدت میں بر طانوی معیشت کامستقبل تاریک ہے۔ تمام تر تحقیقات یہ دکھاتی ہیں کہ برطانوی معیشت کی حقیقی شرح نمو یورپی یونین سے نکلنے کے بعد سست رفتاری کا شکار ہوگی۔ اگلے دس سالوں میں معیشت کو ہونے والے نسبتی نقصان کا تخمینہ جی ڈی پی کا 4 سے 10 فیصد لگایا جا رہا ہے جو یورپی یونین کے ساتھ تجارتی اور لیبر معاہدوں پر منحصر ہے۔ یہ بھی ابھی تک غیر واضح ہے کہ لندن کے مالیاتی شعبے کو کتنا نقصان ہوگا لیکن یہ سب نسبتی ہے یعنی تخمین شدہ سالانہ شرح نمو کے 0.4 فیصد سے 1 فیصد کو متاثر کرے گی۔ مثلاً یورپی یونین کے اندر رہتے ہوئے برطانوی معیشت اگر 2 فیصد سالانہ ترقی کرتی تو اب اس کے باہر اس کی شرح نمو 1.5 فیصد سالانہ ہوگی۔

پھر عالمی معیشت کی غیر یقینی کیفیت بھی اہم ہے۔ تمام تر بڑی سرمایہ دارانہ معیشتیں 2008ء کے بحران کے بعد کم ترین شرح نمو سے دوچار ہیں۔ چین اور امریکا کے درمیان تجارتی جنگ میں شاید عارضی وقفہ آجائے لیکن یہ دوبارہ بھڑکے گی۔ امریکا، یورپ اور جاپان میں بڑھتے کارپوریٹ قرضوں کے ساتھ کارپوریٹ شرح منافع گر رہی ہے۔ 2008ء کے بعد ایک نئی عالمی اقتصادی کسادبازاری کے خطرات آج سب سے زیادہ ہیں۔ اگر ایک نیا عالمی معاشی بحران جنم لیتا ہے تو برطانوی ووٹروں کی رائے تیزی سے تبدیل ہوگی اور جانسن حکومت کے بریگزٹ کے بلبلے سے ہوا نکل جائے گی۔