عمر عبداللہ

1929ءکے گریٹ ڈپریشن کے بعد امریکہ کی مزدور تحریک نے شدت پکڑی۔ یہ تحریک امریکہ کے سوشلسٹ اور کمیونسٹ ٹریڈ یونین رہنماﺅں کے ساتھ مل کر چلائی گئی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ تحریک اتنی شدید ہو گئی کہ امریکہ کے افق پر انقلاب کے بادل منڈلانے لگے جس سے خوفزدہ ہو کر روزویلٹ نے امریکہ کے سرمایہ دار طبقے کی نمائندگی کرتے ہوئے ٹریڈ یونین رہنماﺅں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا۔ اس معاہدے کے نتیجے میں تحریک کو ختم کرنے کی شرط پر امریکہ کے مزدورں کو بے شمار مراعات دی گئیں۔ یوں 1933ءکے الیکشن میں روز ویلٹ ایک زوردار اصلاحاتی ایجنڈے جسے ”نیو ڈیل“ کہا جاتا ہے کے ساتھ امریکہ کا صدر منتخب ہوا۔ روزویلٹ کوئی مزدور دوست سیاست دان نہیں تھا بلکہ ہمیشہ طبقاتی سیاست کو رد کرتا رہا۔ یہ مزدوروں کی تحریک تھی جس نے امریکہ کی سرمایہ داری کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا تھا۔

نیو ڈیل کے اصلاحاتی پروگرام اور دوسری جنگ عظیم کے بعد انفراسٹرکچر کے اندر حکومت کی بھاری سرمایہ کاری کے نتیجے میں امریکہ کی سرمایہ داری ایک سنہرے دورسے گزری جس کا اختتام 1974ءکے معاشی بحران پر ہوا۔ اس ترقی کے پردے میں چھپ کر امریکی ریاست نے مزدور تحریک کو کچلنے کےلئے سلسلہ وار حملوں کا آغاز کیا جس میں لبرلز نے ایک ہر اول دستے کا کردار ادا کیا۔ اس سلسلے کا آغاز 1947ءمیں پاس ہونے والے ٹرفٹ ہارلے ایکٹ سے ہوا۔ یہ ایکٹ 1945-46ءکے اندر ہونے والی ہڑتالوں کے رد عمل میں یونین کی سرگرمیوں کو محدود کرنے کےلئے لایا گیاتھا۔

پھر 1950-56ءکے درمیان امریکی ریاست نے ہزاروں کی تعداد میں یونین لیڈروں، سوشلسٹوں اور کمیونسٹوں کو سویت جاسوسی کا الزام لگا کر قتل کیا۔ اس کے بعد دونوں پارٹیوں ریپبلکن اور ڈیموکریٹس نے مل کر مزدور تحریک اور مزدور یونین پر بے شمار حملے کئے اور بالآخر ریاست اپنے مقصد میں کامیاب ہوئی اور ریگن نے آکر اس تابوت پر آخری کیل ٹھوکی۔ 1981ءکے اندر ریگن نے فضائیہ کی ٹریفک کنٹرول یونین پر پابندی عائد کر دی اور یوں سرمایہ داری کے اندر ایک نئے دور جسے نیو لبرلزم کہا جاتا ہے کا آغاز ہوا۔

سرمایہ داری اپنے داخلی بحران سے نمٹنے کےلئے نیو لبرلزم کا معاشی فلسفہ لے کر آئی جس کا بنیادی مقصد سرمائے کو لبرلائز کرنا اور کٹوتیوں جیسے وحشی پروگرام کے ذریعے مزدوروں کی مراعات کو کم کر کے منافع کی بڑہوتری تھا۔ یو ں ایک ایک کر کے نیو ڈیل میں ملی تمام مراعات اور سہولیات چھین لی گئیں اور بے رحمی کے ساتھ نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا کے مزدوروں کا معاشی قتل عام کیا گیا، جو آج تک جاری ہے۔ بڑھتی ہوئی آٹومیشن اور سستی محنت کی تلاش میں صنعتوں کی منتقلی کی وجہ سے اس بحران کی شدت میں بدستور اضافہ ہوتا رہا ہے۔ نیو لبرلزم کی معاشی پالیسی کے باعث سرمایہ کار بینکوں کو قرضے دینے کی کھلی چھوٹ دی گئی جس کے نتیجے میں ایک مصنوعی سرمائے کا بلبلا بنا اور اس کے حجم میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا جو بالآخر 2008ءمیں پھٹ گیا اور سرمایہ داری ایک بار پھر 1929ءکے گریڈ ڈپریشن کی طرح ایک اور بحران میں داخل ہو گئی۔

امریکی ریاست نے نظام کو مکمل طور پر تباہ ہونے سے بچانے کےلئے بینکوں کو سات سو ارب ڈالر کا بیل آﺅٹ دیا جس کا نصف حصہ امریکی خزانے سے حاصل کیا گیا جبکہ باقی کا نصف حصہ عوام پر ٹیکس لگا کر اکٹھا کیاگیا۔ یوں ایک بار پھر ریاست نے وال سٹریٹ کے چوروں جو معیشت کو بحران میں لے گئے تھے، کو بچا لیا اور بحران کا سارا بوجھ محنت کش طبقے کے کندھوں پر ڈال دیا۔

معاشی بحران معاشرے کے اندر ایک غیر یقینی صورتحال پیدا کرتا ہے جس کے رد عمل میں عام حالات میں موجود سیاسی جمود ٹوٹ جاتا ہے اور معاشرے میں پولرائزیشن شروع ہو جاتی ہے۔ یہ عمل تب تک جاری رہتا ہے جب تک دائیں یا بائیں بازو میں ایک کو مکمل پسپائی نہیں ہو جاتی۔ گریٹ ڈپریشن کے بعد 1933ء میں جرمنی دائیں بازو کی نازی پارٹی اور بائیں بازو کی ایس ڈی پی کے درمیان تقریباً آدھا آدھا تقسیم تھا اور آسمان پر انقلاب کے بادل منڈلا رہے تھے جس سے خوفزدہ ہو کر جرمنی کے سرمایہ داروں نے طاقت ہٹلر کے حوالے کر کے سرمایہ داری کو بچایا۔

ہٹلر کے یہودیوں پر کئے گئے ظلم پر لبرلز ہر وقت شور مچاتے ہیں لیکن ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کا ذکر ہم کبھی نہیں سنتے جو ہٹلر کے ساتھ مل کر نازی جرمنی چلا رہی تھیں اور آج بھی موجود ہیں۔ 2008ءکے معاشی بحران کے بعد بھی پوری دنیا میں کچھ ایسے ہی حالات پیدا ہوئے ہیں۔ پوری دنیا میں دائیں اور بائیں بازو کی طاقتوں میں تحرک پیدا ہوا ہے۔ 2011ءکی ’آکوپائی وال سٹریٹ موومنٹ‘سے اس تحرک کا آغاز ہوا، جو امریکہ میں برنی سینڈرز کی شکل میں آج بھی موجود ہے۔ جبکہ دائیں بازو کا سیاسی اظہار ڈونلڈ ٹرمپ کی صورت میں ہوا۔

2008ءکے صدارتی الیکشن میں امریکہ نے اپنے پہلے سیاہ فام صدر باراک اوبامہ کو منتخب کیا۔ اوبامہ اور اس کے اصلاحاتی پروگرام کی امریکی عوام خاص طور پر مڈ ویسٹ ریاستوں کے محنت کش طبقے نے بھرپور حمایت کی لیکن ایک بار پھر امریکہ کے محنت کشوں کے ساتھ غداری ہوئی اور ابامہ بھی پہلے آنے والے صدور کی طرح حکمران طبقے کا دلال نکلا۔ 2016ءکے صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ دائیں بازو کے مزدور دوست پاپولر پروگرام کے ساتھ سامنے آیا تو اسی دوران ڈیموکریٹک پارٹی میں بائیں بازوکے ریڈیکل پروگرام کے ساتھ برنی سینڈرز کو مقبولیت حاصل ہوئی لیکن کارپوریٹ میڈیا نے برنی سینڈرز کے پروگرام کو ٹرمپ کے پروگرام سے مماثل قرار دیکر اس قدر تنقید کا نشانہ بنایا کہ ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی ٹکٹ کے الیکشن میں وہ کامیاب نہیں ہو سکا۔

برنی سینڈرز کی ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی ٹکٹ کے الیکشن کی شکست میں پارٹی کی اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کن کردار ادا کیا اور ہیلری کلنٹن کو صدارتی امیدوار کے طور پر سامنے لایا گیا۔ پوری دنیا کی طرح امریکہ کی بورژوازی نے بھی دائیں بازو کے ساتھ اتحاد کیا اور یوں ٹرمپ 2016ءمیں امریکہ کا صدر منتخب ہو گیا۔ اس الیکشن میں پورے امریکہ اور بالخصوص مڈ ویسٹ ریاستوں(جنہیں ڈیموکریٹک پارٹی کا گڑھ بھی سمجھا جاتا ہے) کے محنت کشوں نے ٹرمپ کو منتخب کیا۔

امریکہ کی کانگریس نے رواں سال انیس دسمبر کو ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کی قرارداد منظور کر لی۔ تاہم سینٹ میں اس قرارداد کے منظور ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سینٹ میں حاصل اکثریت کی وجہ سے ٹرمپ پر مواخذے کا کوئی سنجیدہ خطرہ نہیں ہے۔ ریپبلکن پارٹی ٹرمپ کی اپنے ووٹرز اور پارٹی میں مقبولیت سے اس قدر خوفزدہ ہے کہ وہ کسی صورت ٹرمپ کے خلاف ووٹ نہیں دے سکتی۔ ٹرمپ پر الزام ہے کہ اس نے اپنے صدارتی اختیارات کو ذاتی اورسیاسی مفادات کےلئے استعمال کیا ہے۔ پولیٹیکو کے ایک پول کے مطابق باﺅن فیصد امریکی ٹرمپ کے مواخذے کی حمایت جبکہ تینتالیس فیصد مخالفت کرتے ہیں۔ ٹرمپ نے اپنی ٹویٹ اور سپیکر کو لکھے گئے خط میں اپنے مواخذے کی صورت میں خانہ جنگی کی دھمکی دی ہے۔ امریکہ میں خانہ جنگی ہو یا نہ ہو، اس کے مواخذے کی وجہ سے ٹرمپ کے اگلے الیکشن جیتنے کے امکانات اور بھی مضبوط ہو گئے ہیں۔

ڈیموکریٹس اور ریپبلکن پارٹی کی جانب سے اس نورا کشتی کا مقصد کارپوریٹ میڈیا کےلئے مواد اکٹھا کرنا ہے جس کی مدد سے حکمران طبقات کی لوٹ مار سے عوام کی توجہ ہٹائی جاتی ہے۔ مواخذے کے اس شور شرابے کے دوران امریکی کانگریس نے 716 ارب کا دفاعی بجٹ منظور کر لیا ہے جو امریکی تاریخ کا سب سے بڑا دفاعی بجٹ قرار دیا جارہا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کے اندر چھپنے والی حالیہ رپورٹ ’افغانستان پیپرز‘ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ”امریکی حکومت عوام سے افغان جنگ کے بارے میں گزشتہ بیس سال سے جھوٹ بول رہی ہے، پینٹا گون کی جانب سے جنگ میں امریکی فوج کی فتح کی جو تصویر کشی کی جاتی رہی ہے، حقیقت اس سے برعکس ہے، امریکی فوج افغانستان میں اپنی موجودگی کے مقصد سے مکمل طور پر لاعلم ہے۔ “ مذکورہ رپورٹ کے مطابق ایک امریکی تھری سٹار جنرل ڈگلس لیوٹ نے کہا کہ ”ہم افغانستان کی بنیادی سمجھ بوجھ سے قاصر تھے اور ہمیں نہیں پتہ تھا کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ “

2001ءسے اب تک 775,000امریکی فوجیوں کو افغانستان میں تعینات کیا گیاتھا۔ جن میں سے 2300امریکی فوجی ابھی تک مارے جا چکے ہیں، جبکہ 20,589زخمی ہوئے۔ ایک اندازے کے مطابق اب تک امریکہ افغان جنگ میں ایک ٹریلین ڈالر خرچ کر چکا ہے اور ان بھاری اخراجات کے نتیجے میں ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس اور دفاعی ٹھیکیداروں نے کھربوں ڈالرز کا منافع کمایا ہے۔

ریپبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں جن کو امریکہ کے کھرپ پتی سرمایہ دار چندہ دیتے ہیں اور جواباً دونوں پارٹیاں سرمایہ دار دوست پالیسیوں کے ذریعے سے اپنے ان چندہ دینے والے آقاﺅں کی دلالی کا کردار ادا کرتی ہیںلیکن عوام کے سامنے ایک دوسرے سے دشمنی کا ڈھونگ بھی رچایا جاتا ہے۔

برنی سینڈرز 2016ءکی شکست کے بعد ایک بار پھر 2020ءکے صدارتی الیکشن کےلئے ڈیموکریٹک پارٹی کے ٹکٹ کےلئے بطور امیدوار میدان میں اترا ہے۔ وکی لیکس کے مطابق 2016ءمیں ڈیموکریٹک پارٹی کی اسٹیبلشمنٹ نے برنی کو ہرانے کےلئے الیکشن میں بھرپور دھاندلی کی اور اس بار بھی صورتحال مختلف ہونے کی کوئی وجہ موجود نہیں ہے۔ اگرچہ برنی سینڈرز اس بار دس لاکھ رضاکاروں اور دس لاکھ انفرادی ووٹرز اکٹھے کرنے میں کامیاب ہواہے لیکن کارپوریٹ میڈیا اور ڈیموکریٹک پارٹی کی اسٹیبلشمنٹ کے ہوتے ہوئے برنی سینڈرز کے جیتنے کے امکانات بہت کم نظر آتے ہیں۔ الیکشن کا نتیجہ کچھ بھی ہو آنے والے وقتوں میں برنی سینڈرز کے گرد بننے والی یہ تحریک امریکہ کے سیاسی افق پر فیصلہ کن کردار ادا کر سکتی ہے۔

برنی سینڈرز کی 2016ءکی الیکشن مہم میں موجود ترقی پسند نوجوانوں نے مل کر ’پروگریسیو پولیٹیکل ایکشن کمیٹی‘کی بنیاد رکھی جنہیں ’جسٹس ڈیموکریٹ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کمیٹی کا مقصد ڈیموکریٹک پارٹی سے کارپوریٹ ڈیموکریٹس کو ترقی پسند امیدواروں کے ذریعے شکست دیکر پارٹی کی صفائی کرنا ہے۔ 2018ءمیں ہونے والے کانگریس کے مڈ ٹرم الیکشن میں جسٹس ڈیموکریٹس اپنی سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوئے جن میں الیگزینڈریہ اور الہان عمر کے نام سرفہرست ہیں۔ ان الیکشن میں جسٹس ڈیموکریٹس کی کامیابی نے ڈیموکریٹک پارٹی کے اندرایک خانہ جنگی کا آغاز کر دیا ہے جو آنےو الے وقتوں میں شدت اختیار کرے گی اور ایک نئی پارٹی کی بنیادرکھے جانے کا امکان بھی موجود ہے۔

امریکہ کو اس وقت بے شمار مسائل کا سامنا ہے جن میں ہیلتھ کیئر سرفہرست ہے۔ امریکہ میں تیس لاکھ لوگوں کو علاج کی بنیادی سہولیات تک براہ راست دسترس نہیں ہے۔ پرائیویٹ ہیلتھ انشورنس اور دوا ساز کمپنیوں نے امریکی عوام کو یرغمال بنا کر رکھا ہے۔ جو کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں پانچ سو ڈالر کے مقروض ہو جاتے ہیں۔ ہیلتھ انشورنس کو سرمایہ دار امریکی محنت کشوں کو بلیک میل کرنے کےلئے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ چونکہ نوکری جانے کی صورت میں مزدور علاج کی سہولت سے بھی محروم کر دیا جاتا ہے۔

امریکہ میں اجرتیں گزشتہ چالیس سال سے ٹھہراﺅ کا شکار ہیں۔ بیروزگاری کی شرح اس وقت تاریخ کی سب سے کم ترین سطح پر موجود ہے لیکن ایک انسان کو گزارہ کرنے کےلئے تین تین نوکریاں کرنی پڑ رہی ہیں۔ جیلوں کی نجکاری کی وجہ سے اس وقت قیدیوں کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ ہر سینتیس میں سے ایک انسان امریکہ کی کسی نہ کسی جیل میں بند ہے۔ تعلیمی قرضہ 1.5کھرب ڈالر تک پہنچ گیا ہے جو ہر عمر کے 4.5کروڑ طلبہ نے ادا کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2020ءمیں ایک اور بحران کی پیش گوئی کی جا رہی ہے جو امریکہ کے معاشی بحران کو اور بھی شدید کر دے گا۔

امریکہ کی اس مایوس تصویر میں چالیس سال بعد مزدور تحریک کی انگڑائی امریکی محنت کشوں کےلئے ایک ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کی طرح ہے۔ حالیہ سال امریکہ کے آٹوورکرز کی چالیس دن کی ہڑتال نے سرمایہ داروں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا اور اپنے تمام مطالبات منوائے۔ گزشتہ سال ایمازون کے مزدور پندرہ ڈالر فی گھنٹہ اجرت جیتنے میں کامیاب ہوئے جس میں برنی سینڈرز کا ایک فیصلہ کن کردار تھا۔ اس سال جون میں ایمازون کے ورکرز نے اوقات کار کے خلاف بہت بڑی ہڑتال کی۔ گزشتہ سال سے میک ڈونلڈز کے مزدور کم از کم اجرت پندرہ ڈالر فی گھنٹہ اور یونین سازی کے حق کےلئے مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔ گیمنگ انڈسٹری کی تاریخ کا بہت بڑا احتجاج بھی دیکھنے میں آیا، جب مزدوروں نے کام چھوڑ کر ریلی نکالی، جو آنے والے دنوں میں یونین سازی کی طرف بڑھیںگے۔ مزدور تحریک میں تحرک اور اپنے آپ کو سوشلسٹ کہلوانے والے برنی سینڈرز کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اس بات کا قوی امکان ہے کہ آنے والے دنوں میں امریکہ کے اندر کوئی بڑی تحریک پھوٹ سکتی ہے۔

برنی سینڈرز نے 2020ءکی الیکشن مہم کا آغاز روز ویلٹ کے مشہور الفاظ”وہ سب میری نفرت میں اکٹھے ہیں اور میں انکی نفرت کو خوش آمدید کہتا ہوں“ کو دہراتے ہوئے کیا۔ طبقاتی نظام کے اندر اصلاحات کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ واپس چھین لی جاتی ہیںاور اصلاحات کرنے والوں کا حال بھی برا ہی ہوتا ہے۔ جونہی محنت کش طبقہ حاصلات کے بعد واپس کام پر جاتا ہے تو سرمایہ دار طبقہ ان حاصلات کو ختم کرنے کی سازش میں مصروف ہو جاتا ہے۔ چاہے وہ فیکٹری میں احتجاج کے ذریعے حاصل کی گئی حاصلات ہوں یا ’نیو ڈیل“ جیسا بڑا اصلاحاتی پروگرام، محنت کش طبقہ اپنی حاصلات کو بچا نہیں سکتا۔

برنی سینڈرز اور الیگزینڈریہ جیسے اصلاح پسند سرمایہ داری کے داخلی بحران کو نظر انداز کر کے سرمایہ داروں کی لالچ کو اس بحران کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ مگر اس معاشی بحران کی اصل وجہ سرمایہ دارانہ نظام کا بطور معاشی ڈھانچہ اپنی طبعی عمر پوری کر جانا ہے۔ 1930ءکی طرح سرمایہ داری آج قومی حدود کی پابند نہیں ہے اور قومی حدود سے آزاد ہو جانے کے بعد اب کوئی قانون سازی یا اصلاح اس کو واپس قید نہیں کر سکتی۔ لہٰذا امریکی محنت کشوں کے پاس نجات کا واحد راستہ اس نظام کی سوشلسٹ تبدیلی میں ہی مضمر ہے نہ کہ اصلاحاتی نظام میں۔ امریکہ میں محنت کشوں کی کامیابی اس کرہ ارض پر نسل انسانی کی بقاکےلئے روشنی کا مینارہ ثابت ہوگی۔