مائیکل رابرٹس

ترجمہ: نوروز خان

برطانیہ میں 12 دسمبر کو ہو نے والے انتخابات کے بعد جو بھی حکومت بنے اسے بہت بڑے چیلنج کا سامنا ہو گا۔ معیشت بحران زدہ اور سماج منقسم ہے۔

دس برسوں سے کنزر ویٹو اور لبرل ڈیموکریٹ پارٹی کی حکومتوں کی کٹوتیوں کے نتیجے میں پبلک سروسز اور ویلفیئر کی سہولیات انتہائی محدود ہو چکی ہیں۔ برطانیہ میں سرکاری پنشن یورپ میں سب سے کم ہے۔ نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) آؤٹ سورسنگ، اندرونی نجکاریوں اور فنڈز کی کمی کے باعث بہت کمزور ہو چکی ہے۔ بزرگوں اور بیماروں کے لئے سوشل کیئر بہت ناقص اور بے حد مہنگی ہے۔ سکولو ں میں فی کلاس طلبہ کی تعداد بہت زیادہ ہو چکی ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے کالج بند ہو رہے ہیں اور طلبہ قرضوں کے بوجھ تلے دبتے جا رہے ہیں۔ رہائش کی قلت کی وجہ سے نوجوان اپنے والدین کے ساتھ رہنے پر مجبور ہیں یا پھر غیر میعاری اور کھچاکھچ بھری کرائے کی ہا ئش گاہیں ان کا مقدر ہیں۔ ٹرانسپورٹ بہت مہنگی اور بھیانک ہے۔ ریل، توانائی اور ایندھن کی قیمتیں پورے یورپ میں سب سے زیادہ ہیں۔

دولت اور آمدنی میں نا برابری 1930ء کی دہائی کے برابر ہے۔ برطانیہ میں 135 ارب پتی ہیں جبکہ 1 کروڑ 40 لاکھ لوگ سرکاری طور پر غریب قرار دیے جا چکے ہیں اور 40 لاکھ بچے غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ معیارِ زندگی میں علاقائی تفریق شمالی یورپ میں سب سے زیادہ ہے۔ دسیوں لاکھ افراد انتہائی قلیل معاوضے پر خود روزگار اور کچے کام کی معیشت (گِگ اکانومی) سے وابستہ ہیں اور دس لاکھ لوگ سرکاری کم از کم اجرت سے بھی کم پر‘ دہاڑی پہ کام کر رہے ہیں۔ دوسری جانب معذور اور بیمار افراد سرکاری سہولیات کے خاتمے کی وجہ سے کم اجرتوں پر کام کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔

ایسے میں برطانیہ کے لوگ منقسم ہیں کہ یورپی یونین میں رہنا بہتر ہے یا اسے چھوڑنا، سکاٹ لینڈ اور شمالی آئرلینڈ یونین سے الگ ہوں یا نہ ہوں، سماج اور معیشت کے لیے امیگریشن اچھی ہے یا بری۔

بڑھتی آبادی کے ساتھ برطانیہ کی قومی پیداوار میں اضافہ سست روی کا شکار ہے جس سے ان مسائل سے نمٹنے کے لیے درکار وسائل حاصل کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ معیشت کی شرح نمو ختم ہوتی ہو جا رہی ہے۔ برطانوی سرمایہ داری عوام کی ضروریات پورا کرنے میں ناکام ہو چکی ہے جبکہ امیروں کے منافعوں، گھروں کی قیمتوں اور سٹاک ایکسچینج میں بوم ہے۔ 2008ء کی کساد بازاری کے بعد حقیقی فی کس آمدن تقریباً منجمد ہے۔ یہ 167 سالوں میں سب سے طویل مدت ہے جس میں آمدن میں اضافہ نہیں ہوا ہے۔

بڑے پیمانے کے کاربار وں میں سرمایہ کاری گھٹ رہی ہے جس کی ایک وجہ بریگزٹ کے بعد کی غیر یقینی صورتحال ہے اورایک اور وجہ یہ ہے کہ ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کار برطانیہ میں سرمایہ کاری کو اب اتنا منافع بخش نہیں سمجھتے۔ سرمایہ کاری میں گراوٹ سے ہر برطانوی محنت کش کی پیداوار کی نمو کم ہوتی ہے اور پیداواریت کی نمو میں کمی معاشی نمو میں مستقل سست روی کو جنم دیتی ہے۔

2007ء سے 2016ء کے دوران فی گھنٹہ کام کی حقیقی پیداوار میں محض 1.4 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس معاملے میں جی 7 ممالک میں صرف اٹلی(منفی1.7) برطانیہ سے پیچھے ہے۔ برطانیہ کو نکال کرجی 7 کے ممالک میں یہ شرح 7.5 فیصد رہی جس میں امریکہ، کینیڈا اور جاپان سر فہرست ہیں۔ 2008ء کے بحران سے پہلے کے رجحان اور 2016ء میں فی گھنٹہ پیداوار میں فرق منفی 15.8 فیصد ہے جبکہ برطانیہ کو نکال کر جی 7 کے ممالک میں یہ شرح منفی 8.8 فیصد ہے۔

برطانیہ کی مثال ایک کرایہ داری کی معیشت جیسی ہے۔ یعنی دنیا کی کسی بھی دوسری بڑی معیشت سے کہیں زیادہ یہ فنانس، پراپرٹی اور سروسز پر کھڑی ہے۔ 2008-9ء میں عالمی مالیاتی کریش اور شدید بحران کی شروعات کرنے میں بھی لندن شہر کے مالیاتی شعبے کا ہاتھ شامل تھا اور اس کے بعد سے انہوں نے برطانیہ کے کاروباروں‘ بالخصوص چھوٹے کاروباروں کے لیے کچھ نہیں کیا۔ چھوٹی کمپنیوں کے لیے قرضوں میں کمی آئی ہے۔ جبکہ رئیل اسٹیٹ میں بڑے پیمانے پر قرضے دیے جا رہے ہیں۔ برطانیہ کا پیداواری شعبہ (مینوفیکچرنگ، پیشہ وارانہ سائنسی اور تکنیکی خدمات، معلومات و مواصلات اور انتظامی اور سپورٹ سروسز) حقیقی جی ڈی پی کا 28.7 فیصد ہے۔ جبکہ ان چار شعبوں کے لیے بینک قرضے جی ڈی پی کا صرف 5.5 فیصد ہیں۔ جبکہ جائیداد کی خرید و فروخت اور کرا یہ داری سے منسلک کمپنیوں کے واجب الادا قرضے جی ڈی پی کا 6.9 فیصد ہیں۔

تو پھر کیا کیا جائے؟ لیبر پارٹی کے انتخابی منشور میں اس کا احاطہ کیا گیا ہے۔ سب سے بنیادی سوال جس پر باقی سب کچھ منحصر ہے پیداواریت کو بڑھانے والے منصوبوں میں سرمایہ کاری میں اضافے کے طریقے ڈھونڈنا ہے اور ہنر مند لیبر فورس کو بہتر تربیت، مناسب حالات اور اجرت فراہم کرنا ہے۔ اس سلسلے میں لیبر پارٹی برطانیہ میں صنعت کے زوال کو روکنے اور اسے پھر سے بحال کرنے کی سنجیدہ کوشش کر رہی ہے۔ وہ ’گرین نیو ڈیل‘ لانا چاہتے ہیں جس سے وسائل غیر پیداواری سرگرمیوں سے نکال کر گلوبل وارمنگ کو آہستہ کرنے اورقابلِ تجدید توانائی کے منصوبوں میں لگائے جائیں گے جس سے ماحول دوست منصوبوں میں لاکھوں نئی ہنر مند نوکریاں اور تربیت کے مواقع پیدا ہوں گے۔

دوم، لیبر پارٹی کے منشور میں توانائی اور پانی کی فراہمی کی کلیدی کمپنیوں کو سرکاری ملکیت میں لینے کی بات کی گئی ہے جس سے موجودہ نجی اجاراداریوں کی لوٹ کھسوٹ کا خاتمہ ہو گا۔ ریل اور بس ٹرانسپورٹ بھی واپس سرکاری شعبے میں لے لیے جائیں گے جس سے فرانچائزڈ روٹوں کے انتشار، زیاں اور مہنگی اور ناکارہ لوکل بس سروسز کا خاتمہ ہو گا۔ لیبر پارٹی آئندہ دس سالوں میں ہر ایک گھر تک مفت اور انتہائی تیر رفتار براڈ بینڈ انٹر نیٹ پہنچانے کا ٹارگٹ لے رہی ہے اور اس پر آنے والی لاگت نجی شعبے کے مقابلے میں نصف ہو گی۔ اس کے لیے برٹش ٹیلی کام کے براڈ بینڈ ڈویژن کو حکومتی کنٹرول میں لیا جائے گا۔ محکمہ ڈاک (رائل میل) کو بھی ریاستی ملکیت میں لیا جائے گا۔ بڑی بڑی کمپنیوں میں محنت کشوں کو شیئر دیے جائیں گے اور انہیں کمپنی بورڈ میں نمائندگی بھی دی جائے گی۔ تھیچر کے ٹریڈ یونین مخالف اقدامات کو واپس کرتے ہوئے اجتماعی بارگینگ کے حقوق بحال کیے جائیں گے۔ ان اقدامات سے سرمایہ کاری اور روزگار کے نئے محرکات پیدا ہوں گے۔

سوئم، سرمایہ کاری میں نجی کاروباروں کی ناکامی کا خلا پر کرنے کے لیے لیبر پارٹی ریاستی سرمایہ کاری میں اضافہ کرے گی۔ ایک سٹریٹجک سرمایہ کاری بورڈ بنایا جائے گا جو تحقیق، کمرشل سروسز اور معلومات کے بہاؤ کو منظم کرے گا۔ ’ریاستی سرمایہ کار بینک‘ قائم کیا جائے گا جو منصوبوں اور انفرا سٹرکچر میں سالانہ 25 ارب پاؤنڈ کی سرمایہ کاری کرے گا۔ ڈاک خانوں کے ذریعے چھوٹے کاروباروں کے لیے نئی بینکاری کی سہولت کا اجرا ہو گا۔

لیکن اس سب کے لیے پیسہ کہاں سے آئے گا؟ موجودہ حالات میں لیبر پارٹی اوپر کی 5 فیصد آبادی (سالانہ80,000 پاؤنڈ کمانے والے) پر انکم ٹیکس بڑھانے کا منصوبہ بنا رہی ہے اور بڑے کاروباروں اور دولت مندوں کی جانب سے بیرون ملک چھپائے گئے ٹیکس چوری کے سالانہ25ارب پاؤنڈ برآمد کرنا چاہ رہی ہے۔ صحت، تعلیم اور کچھ طویل المیعاد منصوبوں پر خرچ کرنے کے لیے لیبرحکومت مزید قرض لینے پر تیار ہو گی۔ کیونکہ شر ح سود 60 سالوں کی کم ترین سطح پر ہے تو اس قرض کا سالانہ بجٹ پر بوجھ بہت کم ہو گا۔ اس کے علاوہ منصوبہ بند سرمایہ کاری سے پیداواریت اور اس کے نتیجے میں نمو اور ٹیکس آمدن میں اضافہ ہو گا۔ اندازے کے مطابق توانائی، ریل، پانی اور ٹیلی کام کو قومی تحویل میں لینے کی قیمت ان اداروں کی سات سال کی کمائی سے پوری ہو جائے گی۔

میڈیا کے تاثر کے بر عکس اس سب سے برطانیہ سب سے زیادی سرکاری اخراجات والی بڑی معیشت نہیں بن جائے گا۔ ریزولوشن فاؤنڈیشن کے مطابق حکومتی اخراجات جی ڈی پی کا 45 فیصد ہو جائیں گے جو کہ ترقی یافتہ ممالک میں درمیانی سطح ہے۔ سائمن وارن لوئس کے مطابق ”دوسرے الفاظ میں برطانیہ یورپ کی اوسط کے قریب اور امریکہ اور کینیڈا کی سطح سے دور ہو جائے گا۔“

کیا اس سے برطانیہ کے سماج میں خوشحالی، مساوات اور یگانگت میں اضافہ ہو گا؟ اس کا انحصار تین عوامل پر ہے۔ کیا صرف ایک ریاستی بینک اور سرمایہ کاری بورڈ برطانیہ کی کرایہ داری کی معیشت کو زیادہ پیداوار اور روزگار کی جانب موڑنے کے لیے کافی ہو گا؟ لیبر پارٹی نے پانچ بڑے بینکوں یا بڑی انشورنس کمپنیوں اور پنشن فنڈز کو قومی تحویل میں لینے کا منصوبہ پیش نہیں کیا ہے۔ یوں سرمایہ کاری کی فنڈنگ کا بڑا حصہ اس نجی شعبے کی جانب سے ہی آتا رہے گا (ریاست کے 4 فیصد کے مقابلے میں جی ڈی پی کا 15فیصد)۔ اس سے لیبر حکومت کی سرمایہ کاری، خدمات اور آمدن میں حقیقی بہتری لانے کی صلاحیت کمزور ہو گی۔ ٹیکس اور دیگر اصلاحات کے ذریعے آمدن اور دولت کی انتہائی دولت مندوں سے دوسروں تک از سر نو تقسیم کا منصوبہ بھی انتہائی محدود ہے۔ اگرچہ لیبر پارٹی‘ این ایچ ایس کے اخراجات میں 4 فیصد سالانہ تک کا اضافہ کرنا چاہتی ہے لیکن یہ ٹونی بلیئر کی حکومت کے دور سے بھی کم ہے اور عمر رسیدہ ہوتی آبادی کی ضروریات بمشکل ہی پوری کرے گی۔ علاوہ ازیں انتہا درجے کی عدم مساوات میں ان اقدامات سے بہت معمولی فرق پڑے گا۔

دوسرا یہ کہ بڑے کاروباروں اور میڈیا کا رد عمل نا گزیر ہے۔ وہ لیبر پارٹی کے منصوبے کو روکنے اور واپس کرنے کے لیے ہر حد تک جائیں گے اورذرا سی ناکامی پر واویلا مچا دیں گے۔ چنانچہ ملک کے اندر دولت اور طاقت کو متوازن بنانے کا لیبر پارٹی کا نسبتاً کمزور منصوبہ بھی کھٹائی میں پڑ سکتا ہے۔ بڑے پیمانے کے کاروبار اور دولت مند افراد پہلے ہی اپنی سرمایہ کاری اور پیسے کو کہیں اور لے جانے کی دھمکیاں دے چکے ہیں اور لیبر پارٹی کی حکومت آنے سے ملک سے سرمائے کی پرواز کو تحریک مل سکتی ہے اور شرح سود میں اضافہ اور پاؤنڈ کی قدر میں کمی ہو سکتی ہے۔ لیبر پارٹی کی حکومت کو سرمائے پر کنٹرول جیسے شدید اقدامات کرنے پڑ سکتے ہیں۔ لیکن بڑے بینکوں پر کنٹرول کے بغیر ملکی کرنسی اس مالیاتی دہشت گردی کا نشانہ بن سکتی ہے۔

تیسرا اور سب سے اہم خطرہ ایک نئے عالمی معاشی بحران کا بڑھتا ہوا امکان ہے۔ گزشتہ کساد بازاری کے خاتمے کو دس برس ہو چکے ہیں۔ یہ1930ء کی دہائی کے بعد سب سے بڑا بحران تھا۔ ایک اور بحران کا وقت ہو چکا ہے اور اس کی نشانیاں بھی ظاہر ہیں۔ دنیا کی بڑی معیشتیں سست روی کا شکار ہو رہی ہیں اور امریکہ اور چین میں تجارت اور ٹیکنالوجی کی جنگ شدید ہو رہی ہے جو عالمی تجارت کی شرح نمو کو تباہ کر رہی ہے۔ اگلے برس اس وقت نئی برطانوی حکومت کو بند ہوتے کاروباروں، محنت کشوں کی برطرفیوں اور سرمایہ کاری کی بندش کا سامنا ہو سکتا ہے۔

ایسے بحران کے اثرات کو کم کرنے کا واحد راستہ ’معیشت کے کلیدی حصوں‘ کو قومی تحویل میں لینا ہی ہے۔ ان شعبوں میں بینک، انشورنس کمپنیاں، پنشن فنڈز اور مینوفیکچرنگ، توانائی اور دوسرے پیداواری شعبوں کے اہم حصے شامل ہیں۔ اسی صورت میں سرمایہ کاری اور روزگار اور موسمیاتی تبدیلی سے لڑنے کا قومی منصوبہ استوار کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ سرمایہ دارانہ سرمایہ کاری پر منحصر نہیں ہو گا۔ لیبرپارٹی کی موجودہ معاشی پالیسیاں اس نہج تک نہیں گئی ہیں۔ اس کی بجائے لیبر پارٹی کے لیڈر اورمشیر ایسے شدید اقدامات کو خارج از امکا ن قرار دیتے ہیں کیونکہ ان کی نظر میں ان کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی اور ’منظم اورباضابطہ سرمایہ داری‘ اب بھی برطانوی عوام کے مسائل کو حل کر سکتی ہے۔ لیکن تاریخ کا سبق اس کے بر عکس ہے!