نادر گوپانگ

سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کی وجہ سے دنیا بھر میں عوام کی اکثریت شدید مشکلات کا شکار ہے جبکہ دوسری جانب حکمرانوں نے سامراجیوں اور عالمی ساہوکاروں کی دلالی میں انتہاکردی ہے۔ اس مکروہ فعل سے بیروزگاری، مہنگائی اورتنخواہوں میں کمی کی وجہ سے محنت کش طبقے کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔ معاشی جبر کو لاگو کرنے کی خاطر ریاستی تشددمزید بڑھ چکا ہے۔ کوئی بھی واقعہ اچانک رونما نہیں ہوتا بلکہ لمبے عرصے سے چلی آرہی چھوٹی تبدیلیوں کا معیاری اظہار ہوا کرتا ہے۔ روزمرہ بنیادوں پر ہونے والی ناانصافیوں اور استحصال سے سطح کے نیچے ایک لاوہ مسلسل پکتا رہتا ہے جو پھر اپنا اظہار عوامی تحریکوں کی شکل میں کرتا ہے۔

حالیہ کچھ عرصے میں دنیا کے بیشترممالک میں رونما ہونے والی عوامی تحریکوں نے بڑی بڑی حکومتوں کے در و دیوار ہلا دیے ہیں۔ لبنان، چلی، ایکواڈور، ایران، عراق اور ہانک کانگ میں ابھرنے والی عوامی بغاوتیں پوری دنیا کے محنت کش طبقے کے لئے امید کا سرچشمہ ثابت ہوئی ہیں۔ یہ تحریکیں کسی ایک واقعے کے ردِ عمل میں پھٹیں لیکن پھر انہوں نے پورے نظام کو چیلنج کرنا شروع کر دیا۔ ان تحریکوں کے اثرات پوری دنیا کے ممالک پر پڑے ہیں اورخاص طور پر لاطینی امریکا میں ایک طرف تو عوام کو حوصلہ اور بغاوت کرنے کی جرات ملی ہے تو دوسری جانب حکمران طبقے میں خوف پھیلا ہوا ہے۔

عوامی تحریکوں کے اس سلسلے میں جنوبی امریکہ میں ایکواڈور، بولیویا اور چلی کے بعد اہم ملک کولمبیا میں بھی لاکھوں لوگ اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کی خاطر سڑکوں پر ہیں۔ 21 نومبر کو بارش کے دوران لوگ برساتیاں پہنے اور چھتریاں لیے کولمبیا کے دارالحکومت بوگوٹا میں واقع تاریخی عمارت دی سائمن بولیوار کے باہر اکٹھے ہوگئے۔ جن میں طالبعلم، اساتذہ، پنشنرز اور یونین ممبران وغیرہ شامل تھے۔ یہ تحریک اس وقت شروع ہوئی جب دائیں بازو کی حکمران جماعت کی طرف سے پنشنوں میں کٹوتیوں کی بات کی گئی۔ کولمبیا میں ایک سال سے دائیں بازو کے رجعتی صدر آئیون ڈیوک کی حکومت ہے جو بنیادی طور پر سابقہ صدر الواریورائب ویلور کی کٹھ پتلی ہے۔ موجودہ تحریک کولمبیا کی تاریخ کی سب سے بڑی عوامی شورش ہے کہ جس میں عوام معاشی نابرابری، بیروزگاری، بنیادی ضروریات کی عدم فراہمی، کرپشن اور سکیورٹی کے مسائل حل کرنے کی آواز بلند کر رہے ہیں۔ مظاہرین کی طرف سے سڑکیں بلاک کردی گئی ہیں اور حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے پورے سیاسی نظام کی افادیت پر سوال اٹھایا گیا ہے۔ پولیس نے بیشتر جگہوں پر مظاہرین پر آنسو گیس سے حملے اوران کو منتشر کرنے کی کوشش کی۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق حالیہ تحریک کے دوران ہونے والی جھڑپوں میں تین لوگوں کی موت واقع ہوئی ہے اور درجنوں مظاہرین زخمی ہوئے ہیں۔ مظاہرین یکجہتی کے طور پر چلی اور ایکواڈور کے جھنڈے بھی لہرا رہے تھے اور اس حوالے سے بینر بھی اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا ”جنوبی امریکا جاگ اٹھا ہے!“

کولمبیا جنوبی امریکا میں چوتھی بڑی معیشت ہے جس کی برآمدات کا 30 فیصدتیل کی مصنوعات پر مشتمل ہے اور عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں کے اتارچڑھاؤ کی وجہ سے ملکی معیشت پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس مسئلے کے پیش نظر لمبے عرصے سے حکومت اپنی معیشت کو دیگر شعبوں کی طرف منتقل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ معاشی زبوں حالی اور آئی ایم ایف کی خونخوار معاشی یلغار نے روزگار کے مواقع محدود کر دیے ہیں اور حکومتی اعداد شمار کے مطابق ملک میں بیروزگاری کی شرح 9 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔ آئی ایم ایف کا کولمبیا کے ساتھ تعلق ایسا ہی ہے جیسے ایک استحصالی طبیب اور غریب بیمار کے درمیان ہوتا ہے جس کی بنا پر غریب مریض کی حالت روزبروز ابتر ہوتی جاتی ہے اور طبیب اس کا معاشی استحصال جاری رکھتا ہے۔ 28 سال سے کم عمر والے افراد میں بیروزگاری کی شرح عمومی بیروزگاری سے 61 فیصد زیادہ ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کولمبیا کے نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بے چینی نے اپنا اظہار اساتذہ، محنت کشوں، مزدور یونینوں اور عام لوگوں کے ساتھ ملکر حالیہ عوامی تحریک کی شکل میں کیا ہے۔

پچھلی پانچ دہائیوں سے ریوولیوشنری آرمڈ فورسزآف کولمبیا (FARC) جو انتہائی بائیں بازو کی ایک گوریلا تحریک ہے (خود کو مارکسسٹ لیننسٹ کہتے ہیں) نے کولمبین حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے۔ اس لڑائی کے نتیجے میں لاکھوں لوگ موت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اور دسیوں لاکھ لوگوں کو ہجرت کا سامنا کرنا پڑاہے۔ سابقہ صدر نے اپنے دور اقتدار میں امریکہ کی ایماپر ”FARC“ کے خلاف بڑے پیمانے پر فوجی کاروائیاں کیں جن میں بڑے پیمانے پر عام لوگوں کی اموات ہوئیں۔ اس قتل عام نے عوام کے اندر غم و غصے کو بڑھایا۔ 2010ء سے 2018ء کے دوران کولمبیا کے صدر رہنے والے مینوئیل سینٹوس نے پچاس سالہ خانہ جنگی کو ختم کرنے کے لئے کوششیں کی۔ اکتوبر 2016ء میں حکومت اور باغیوں کے درمیان امن معاہدہ طے پایا جس کی بنیاد پر صدر سینٹوس کو امن کا نوبل انعام بھی دیا گیا تھا۔ اس امن معاہدے کے تحت باغیوں نے ہتھیار ڈال دیے اور ان کو قومی سیاسی دھارے میں لاتے ہوئے پارلیمنٹ کی سیٹیں دینے کی بات طے ہوئی تھی۔ اس معاہدے کی توثیق کی خاطر ملک بھر میں ریفرنڈم کرایا گیا۔ وہ ریفرنڈم الوار یورائب کی پارٹی نے اس معاہدے کے خلاف 0.5 فیصد ووٹوں سے جیت لیاتھا۔ جس کی وجہ سے یہ معاہدہ تاخیر کا شکار ہوا اور اس کے بنیادی نکات میں تبدیلی کرکے لاگو کرنے کی بات کی گئی۔ موجودہ صدر چونکہ سابقہ صدر کی کٹھ پتلی ہے تو اس کے ایک سالہ دور اقتدار میں گوریلا جنگ نے پھر سے سر اٹھانا شروع کردیاہے۔ اکتوبر 2019ء میں ”FARC“ کے سابقہ ڈپٹی کمانڈر نے اپنے ساتھیوں سمیت دوبارہ ہتھیار اٹھا لیے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت امن معاہدے پر عمل نہیں کررہی اور سابقہ باغیوں کو جبر کا نشانہ بنا رہی ہے۔ اس اعلان کے بعد حکومتی فوج نے باغیوں پر حملہ کرنے کی غرض سے بمباری کی جس میں کئی بچوں کی موت واقع ہوگئی۔ اس صورت حال میں عوام کے اندر حکومت کے خلاف غصہ مزید بڑھا ہے اور حالیہ تحریک کی سب سے بڑی وجہ امن کی کوششوں میں حکومت کی ناکامی بھی ہے جس پر کئی مظاہرین کی طرف سے بات کی گئی اور امن کے نعرے بلند کیے گئے۔

اس خطے میں امریکہ کا سب سے بڑا اتحادی کولمبیا ہے جس کی سرحد وینزویلا سے ملتی ہے۔ وینزویلا کی حکومت کے خلاف خاص طور پر اور پورے خطے میں اپنی سامراجی یلغار کو جاری رکھنے کی خاطر بالعموم واشنگٹن کی سفارت کاری میں کولمبیا بہت زیادہ اہمیت کا حامل ملک ہے۔ سامراج کے اس بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی بنیاد پر مقامی حکمران طبقات نے امریکہ کی دلالی کی انتہا کر دی ہے۔ جس کا نتیجہ لامحالہ طور پر عوام کی کسمپرسی اور خطے میں عدم استحکام کی صورت میں نکلا ہے۔ عوام نے بدترین استحصال کے خلاف خود کو بہت بڑی تحریک میں منظم کیا ہے اور نہ صرف مقامی حکمران طبقے بلکہ ان کے سامراجی آقاؤں کی یلغار کے خلاف بغاوت کا علم بلند کیا ہے۔ حالیہ تحریکوں کی لہر نے جہاں لبنان میں سعد حریری کو استعفیٰ دینے پر مجبور کردیا ہے وہاں ایکواڈور میں آئی ایم ایف کے خلاف عوام کی جیت نے کولمبیا کے محنت کش طبقے کو اپنا حق چھین لینے کا ولولہ عطا کیا ہے۔ ان تمام واقعات میں حکمرانوں کا خوف دیدنی تھا۔ ایران کی ملاں آمریت نے عوامی تحریک کے پھیلاؤ کے خوف کی بنا پر انٹرنیٹ سروس معطل کردی ہے اور ہانک کانگ میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان ہونے والی جھڑپیں تاحال جاری ہیں۔

درجنوں ممالک میں پھٹنے والی عوامی تحریکوں نے ایک طرف تو عالمی سطح پر نوجوانوں اور محنت کش طبقے کو حوصلہ فراہم کیا ہے تو دوسری طرف انقلابی قیادت کے فقدان کو موجودہ عہد کی سب سے بڑی کمزوری کے طور پر آشکارکیاہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے تاریخی بحران کی وجہ سے آنے والے عرصے میں حالیہ تحریکوں سے بھی بڑی تحریکیں عالمی سیاسی افق پر رونما ہونے کی طرف جائیں گی۔ ان حالات میں انقلابی پارٹی کی تعمیر اس عہد کا سب سے بڑافریضہ ہے تا کہ تحریکوں کو زائل ہونے سے بچایا جاسکے اور انسانیت کے روشن مستقبل کی طرف بڑھا جائے۔