آصف رشید

سرمایہ داری عالمی سطح پر ایک نئے بحران کے دہانے پر کھڑی ہے اور سرمایہ کاری میں تیز ترین کمی واقع ہو رہی ہے۔ تجارتی جنگ اور تحفظاتی رحجانات میں ہونے والے اضافے نے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ سٹاک مارکیٹوں میں بھونچال کی کیفیت ہے۔ 2008-9 ءکے بحران سے نکلنے کے لیے شرح سود میں کمی اور بڑے  پیمانے پر نوٹ چھاپنے کے جو طریقہ کا ر اپنائے گئے تھے وہ کار گر ثابت نہیں ہوئے۔ بلکہ اس سستے سرمائے سے مالیاتی اثاثوں میں سٹے بازی کی گئی کیونکہ پیداواری معیشت میں سرمایہ کاری کی گنجائش موجود نہیں ہے۔ اس وقت عالمی مارکیٹ میں 16 ٹریلین ڈالر کے ایسے بانڈز موجود ہیں جن پر منافع منفی میں ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ اگر سرمایہ کار ان بانڈز کو مدت پوری ہونے تک اپنے پاس رکھتا ہے تو اسے نقصان ہو گا۔ پچھلے سال کے اختتام پر ان بانڈزکی مالیت صرف 8 ٹریلین ڈالر تھی۔ آٹھ ماہ میں اس میں تقریباً دوگنا اضافہ ہوا ہے۔ پہلے ہی عالمی معیشت سست روی کا شکار ہے۔ امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی جنگ نے صورت حال کو مزید خراب کر دیا ہے اور عالمی معیشت میں نئے بحران کی پیش گوئی کی جا رہی ہے۔ جس کی وجہ سے سرمایہ کا ر محفوظ سرمایہ کاری کے لیے حکومتی بانڈز خرید رہے ہیں۔

دنیا کی سات بڑی معیشتوں کے سربراہان کی فرانس میں ہونے والی میٹنگ بغیر کسی اعلامیے کے ختم ہوئی جو پچاس سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا۔ اس اجلاس میں امریکہ اور چین کے درمیان جاری تجارتی جنگ اور زیادہ شدت اختیار کر گئی۔ چین نے جب امریکہ کی 75 ارب ڈالر کی برآمدات پر نئے ٹیکس لگانے کا اعلان کیا تو اس کے جواب میں ٹرمپ نے چین کی 250 ارب ڈالر کی برآمدات پر نہ صرف ٹیکس بڑھانے کا کہابلکہ مزید 300 ارب ڈالر کی برآمدات پر بھی ٹیکس عائد کرنے کا اعلان کیا۔ ٹرمپ نے چین میں موجود امریکی کمپنیوں کو چین سے اپنی فیکٹریاںامریکہ اور دوسرے ملکوں میں منتقل کرنے کا حکم بھی صادر کیا ہے۔ چین اور امریکہ کی تجارتی جنگ پہلے سے کمزور اور بحران زدہ سرمایہ داری کے لیے نئی مشکلات کھڑی کر رہی ہے۔ ٹرمپ کے اس اعلان کے بعد سٹاک مارکیٹوں میں شدید مندی کا رحجان سامنے آیا۔

امریکہ میں 2009ءکے بحران کے بعد پہلی دفعہ مینوفیکچرنگ انڈکس (پی ایم آئی ) 50 سے نیچے گر گیا ہے۔ یورپی یونین، جاپان اور امریکہ میں پیداواری صنعتی انڈکس 50 سے نیچے گرنے کا مطلب ہے کہ پیداواری شعبہ شدید بحران کا شکار ہے۔ موجودہ حالات میں یہ مزید گراوٹ کی طرف جائے گا۔ ابھی تک بڑی معیشتوں میں خدمات کا شعبہ کسی حد تک متاثر نہیں ہو ا تھا لیکن پیداواری شعبے کا یہ بحران نہ صرف خدمات کے شعبے کو متاثر کرے گا بلکہ امریکہ اور دوسری جگہو ں پر روزگارکی مارکیٹ بھی بری طرح متاثر ہو گی۔

دنیا کے مرکزی بینکوں کے نمائندوں کی جیکسن ہول میں ہونے والی ایک میٹنگ میں امریکی فیڈرل ریزرو کے صدر جے پاول نے کہا کہ ”موجودہ تجارتی جنگ اور دیگر مسائل پرصرف مالیاتی پالیسی سے قابو نہیں پایا جاسکتا۔“ پاول کی مالیاتی پالیسی کمیٹی میں پالیسی کے حوالے سے تضادات موجود ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ شرح سود کو ایسے ہی رہنے دیا جائے‘ اگر اسے کم کیا جاتا ہے تو سستے سرمائے سے قرضوں کے نئے بلبلے بنیں گے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتے ہیں اور دوسروں کا خیال ہے کہ شرح سود کو کم کیا جائے تاکہ بحران کو ٹالا جا سکے۔ جیکسن ہول میں موجود مرکزی بینکوں کے نمائندوںکواس بات کا بخوبی احساس ہے کہ مالیاتی پالیسی خواہ وہ شرح سود کم کر ے یا نوٹ چھاپے ‘معیشت کو کم شرح نمو اور کم پیداواریت کے بحران سے نہیں نکال سکتی۔

دنیا کے تمام بڑے معیشت دانوں کی سفارشات کینیشین ازم اور مانیٹرازم کے گرد ہی گھومتی ہیں۔ ریاستی سرمایہ کاری نے بہت سی معیشتوں کو قرضوں میں ڈبو دیا ہے۔ جبکہ نرم مالیاتی پالیسی سے اثاثوں میں سٹے بازی کے رحجان میں اضافہ ہوا ہے۔ ایسے حالات میں نہ ہی مانیٹرازم اور نہ ہی کینیشین ازم سرمایہ داری کو بحران میں داخل ہونے سے روک سکتے ہیں۔ بحران نا گزیر ہے۔

عالمی سطح پر نیو لبرل معیشت ایک بند گلی میں داخل ہو چکی ہے۔ سرمایہ داری کو زائد پیداواریت کے بحران، شرح منافع میں کمی کے رحجان، ٹیکنالوجی کے استعمال سے پیداواری صلاحیت میں اضافے، پیداواری سرگرمی میں کمی، ہوشربا بے روزگاری، تجارت کے حجم میں کمی اور قرضوں کے بحران کا سامنا ہے۔

موجودہ گلوبلائزیشن نے تیسری دنیا بالخصوص مشرقی، جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا میں سستی محنت کی موجودگی کی وجہ سے اپنی صنعت کو یہاں منتقل کیاہے۔ کیونکہ اب ترقی یافتہ ملکوں میں زیادہ اجرتوں کی وجہ سے پیداوار کرنا سرمایہ داروں کے لیے منافع بخش نہیں رہا۔ ایشیا کی لیبر فورس کو استعمال میں لا کر ترقی یافتہ ملکوں کے محنت کشوں کی اجرتوں کو منجمد کیا گیاہے۔ مثلاًامریکہ میں ایک عام مزدور کی حقیقی اجرت 2011ءمیں 1968 ءکی نسبت کم تھی۔

تیسری دنیا میں اس سرمایہ کاری کی وجہ سے بہت سے ملکوں میں مجموعی داخلی پیداور میں بے پناہ اضافہ ہو اہے لیکن کبھی بھی ان ملکوں میں مکمل روزگار حاصل نہیں کیا جا سکا۔ اور اجرتوں میں بھی بہت زیادہ اضافہ نہیں ہو سکا بلکہ یہ بدستور بہت نیچے رہیں۔ جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ گلوبلائزیشن کی وجہ سے وہ چھوٹے کاشتکار اور کاروباری جن کو پہلے عالمی اجاراداریوں سے ایک تحفظ حاصل تھا ‘ان کے کاروباروں کو بڑی اجاراہ داریوں نے برباد کر کے ان کو اجرتی غلام بننے پر مجبور کر دیاہے۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اجرتی محنت کی منڈی میں داخل ہونے والے مزدوروں میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

گلوبلائزیشن نے زائد پیداواری صلاحیت کے رحجان کو بھی جنم دیا ہے۔ روزگار پیدا کرنے کے لیے بڑے پیمانے کی ریاستی مداخلت اور اخراجات کی اِس دور میں گنجائش نہیں ہے۔ ریاستیں کہاں سے سرمایہ کاری کریں؟ سرمایہ داروں پر ٹیکس لگانے سے ان کے منافعے مزید کم ہوتے ہیں۔ مالیاتی خساروں سے ریاستوں کے قرضے بڑھتے بڑھتے پہلے ہی آسمانوں کو چھو رہے ہیں۔ اسی طرح اگر ریاست عوام پر بڑے پیمانے کے ٹیکس لگائے گی تو اس سے مجموعی طلب میں کمی واقع ہو گی۔

ریاست اور سرمائے کا تضاد گلوبل معیشت میں اور زیادہ فیصلہ کن ہو جاتا ہے۔ جب تک مالیاتی سرمائے کا کردار قومی حدود تک محدود تھا اس وقت تک ریاست کسی حد تک مخصوص حالات کے تحت اس کو کنٹرول اور ڈائریکٹ کر سکتی تھی جیسا کے دوسری عالمی جنگ کے بعد ہوا تھا جب سرمایہ دارانہ نظام اپنی بقا کی جدوجہد کر رہا تھا۔ لیکن جب سرمائے نے قومی حدود سے نکل کر وسیع تر بین الاقوامی شکل اختیار کی ہے تو ریاست اگر سرمائے کی مرضی کے خلاف پالیسیاں جاری رکھتی ہے تو سرمایہ ملک سے باہر منتقل ہوجائے گا اور ریاست مالی بحران کا شکار ہو جائے گی۔

یوں مالیاتی سرمائے کی ایما پر ریاست نے منڈی میں مداخلت ختم کر دی اور مانیٹرزم کی طرف رجوع کیا جو کہ دولت مند طبقے کے فیصلوں پر انحصار کرتا ہے اور اس سے ان کی سماجی حیثیت بھی متاثر نہیں ہوتی۔ لیکن مانیٹرزم ہمیشہ کوئی موثر طریقہ کار نہیں جیسا کہ ہم نے 2008-9ءکے بحران کے بعد دیکھا کہ شرح سود تقریباً صفر ہونے کے باوجود معاشی سرگرمی میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو سکا۔

بے روزگاری کے خاتمے کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کا تحفظاتی پالیسیوں کا سہارا لینا اس نظام کی متروکیت کا اظہار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی ترقی یافتہ ترین معیشت کو اپنے بیروزگاری کے بحران سے نمٹنے کے لیے نیو لبرل پالیسیوں کو ترک کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کیفیت سے سرمایہ داروں کو نقصان سے بچانے کے لیے بڑے پیمانے کی ٹیکس چھوٹ کے ساتھ ساتھ ایسی احتیاطی تدابیر بھی اختیارکی گئی ہیں کہ سرمائے کی آزادانہ حرکت میں کوئی خلل پیدا نہ ہو۔

بیسویں صدی کے آخری عشرے اور اکیسوں صدی کے پہلے عشرے کی نسبت اس وقت عالمی سطح پر بیروزگاری کی شرح بہت بلند ہے۔ یہ سچ ہے کہ امریکہ میں اس وقت بیروزگاری کی شرح تاریخ کی کم ترین سطح پر ہے۔ لیکن یہ گمراہ کن ہے۔ امریکہ میں مزدوروں کی لیبر فورس میں شمولیت کی شرح 2008ء کی نسبت کم ہے جو کہ مزدوروں کی مایوسی کی عکاسی کرتی ہے۔ اس کم تر شمولیت کو ایڈجسٹ کرتے ہوئے بھی اس وقت امریکہ میں بیروزگاری کی شرح 8 فیصد ہے۔ اگر سرکاری اعداد وشمار کے مطابق بیروزگاری واقعی 4 فیصدہوتی تو ٹرمپ کو امریکہ میں تحفظاتی پالیسیاں لاگو کرنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ پوری دنیا میں بیروزگاری 2008ء کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ امریکی معیشت میںمکمل روزگارکے موجودہ مسئلے کی شدت کو مینوفیکچرنگ کی پیداواری صلاحیت کے استعمال کے اعداوشمار سے سمجھا جا سکتا ہے۔ 2008ءکے بحران سے امریکہ کی موجودہ کمزور بحالی کا موازنہ دوسری عالمی جنگ کے بعد کی پہلی دہائی سے کیا جا سکتا ہے۔ جس میں پیداواری صنعت کے کسی ایک شعبے میں بھی پیداواری صلاحیت کا استعمال 80 فیصد تک نہیں پہنچ سکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ سرمایہ کاری جمود کا شکار ہے۔

ٹرمپ کی تحفظاتی پالیسیاں امریکہ سے بیروزگاری کو دوسرے ملکوں میں برآمد کریں گی۔ جس کا ناگزیر نتیجہ دوسرے ملکوں کی طرف سے انتقامی کاروائیوں کی شکل میں نظر آئے گا اور تجارتی جنگ مزید شدت اختیار کرے گی۔ اس سے یقینا عالمی معیشت کی سرمایہ کاری میں واضح کمی ہو گی اور معیشت کا بحران شدت اختیار کرے گا۔

اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ تیسری دنیا کی معیشتوں کی ترقی کا تمام تر انحصار برآمدات پر تھا۔ عالمی معیشت کی شرح نمو میں سست روی کے ساتھ ساتھ امریکہ کی تحفظاتی پالیسیوںکی وجہ سے اب برآمدات پران کا انحصار کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ تیسری دنیا کی معیشتوں کو اب داخلی منڈی پر زیادہ انحصار کرنا پڑے گا۔ یہ صورت حال ان معیشتوں کے لیے تباہ کن ثابت ہو گی۔ ان ملکوں میں داخلی منڈی میں قوت خرید پیدا کرنے کے لیے بڑے پیمانے کی اصلاحات درکا ر ہیں جس کی گنجائش ان میں موجود نہیں۔ اس کیفیت میں پہلے ہی بہت سے ملکوں کو تجارتی اور مالی خساروں کا سامنا ہے جس سے نکلنے کے لیے محنت کش طبقے پر کٹوتیوں کی پالیسیاں لاگو کی جا رہی ہیں۔

تیسرا یہ کہ تیسری دنیا کی معیشتوں کی ادائیگیوں کا توازن بری طرح خراب ہو جائے گا۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی برآمدات میں واضح کمی واقع ہو گی اور ان ملکوں میں آنے والا سرمایہ بھی کم ہو گا جس کی دستیابی ان ملکوں کی ادائیگیوں کے توازن اور کرنٹ اکاﺅنٹ خسارے کو قابو میں رکھنے میں مدد فراہم کرتی تھی۔ یہ صورت حال موجودہ نیولبرل دور میں مزید کٹوتیوں کی پالیسیاں اپنانے پر مجبور کر ے گی۔ اس سے عام لوگوں کے حالات مزید ابتر ہو جائیں گے۔ اور یہ معیشتیں اپنے اثاثے اور وسائل عالمی مالیاتی سرمائے کے حوالے کرنے پر مجبور ہو جائیں گی۔ یہ صورت حال ملکی معیشتوں کو کسی بھی قسم کی آزادانہ پالیسی اپنانے سے بھی روک دے گی۔

دوسرے لفظوں میں اب تیسری دنیا کی معیشتوں پر سامراجی کنٹرول اور تسلط زیادہ شدید ہو گا۔ خاص کر ان ملکوں کے لیے جو خسارے کی وجہ سے ادائیگیوں کے عدم توازن کا شکار ہیں۔

چوتھا عالمی پیمانے پر فسطائی رجحانات کا ابھار ہے۔ نیو لبرلزم کا نظریہ ترقی کا وعدہ تھا۔ لیکن سرمایہ داری کے ایک بند گلی میں داخل ہونے سے یہ وعدہ اپنے الٹ میں تبدیل ہو گیا ہے۔ خود کو برقرار رکھنے کے لیے سرمایہ داری نے نئے نظریاتی سہارے کی تلاش شروع کر دی ہے اور فاشزم کو ڈھونڈ نکالاہے۔ اس نے بحث کو لوگوں کی زندگی کے مادی حالات سے نام نہاد قومی خطرے کی طرف منتقل کر دیاہے۔ اور لوگوں کی تکالیف کا الزام نظام کی ناکامی کی بجائے نسلی، لسانی اور مذہبی گروہوں پر عائد کر دیاہے۔ فسطائی یا نیم فسطائی شخصیات اور پارٹیوں کو ایسانام نہاد مسیحا بنا کر پیش کیا گیا ہے کہ جو اپنی جادوئی طاقت سے تمام مسائل پر قابو پا لےں گے۔ یہ عمل ایسی گھٹیا ثقافت کو فروغ دیتا ہے کہ دوسروں کی بے حرمتی کرکے اپنے خیالی دیوتاکی جادوئی طاقت کو کسی بھی حقیقی فکری سوال سے بالاتر قرار دیا جا سکے۔ مخالفین کو دہشت زدہ کرنے کے لیے ریاستی جبر اور گلی کے غنڈوں کو استعمال کرتا ہے۔ بڑے کاروباریوں سے دوستیاں قائم کرتا ہے۔ کلاکی کے الفاظ میں ”یہ بڑے کاروباریوں اور نو دولتی فاشسٹوں کی شراکت داری ہے۔“

تمام جدید معاشروں میں مختلف قسم کے فاشسٹ گروہ موجود ہیں۔ مخصوص حالات میں جب ان کو بڑے کاروباریوں کی حمایت حاصل ہو تی ہے تو وہ طاقتور ہو جاتے ہیں‘یہاں تک کہ اقتدار میں بھی آجاتے ہیں۔ ایسے مواقع عموماً تب پیدا ہوتے ہیں جب بحران زدہ نظام کو پرانے طریقوںسے چلانا ناممکن ہو جاتا ہے ‘ جب روایتی لبرل قیادت واضح طور پر بحران پر قابو پانے میں ناکام ہو جاتی ہے اور جب بایاں بازو اتنا کمزور ہو کہ وہ عوام کو اس بحران سے نکالنے کے لیے کوئی متبادل پیش نہ کر سکے۔

لوگ سرمایہ داری کے بحران میںبورژوازی کی طرف سے فاشزم کے استعمال کو بائیں بازو کے خلاف مزاحمت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ لیکن جب بورژوازی کو بائیں بازو کی طرف سے خطرہ لاحق ہو تو وہ کچھ مراعات دے کر اسے تقسیم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ جبکہ تاریخ میں کلاسیکی فاشزم اس وقت نمودار ہوا تھا جب انقلابات کو شکست ہوئی تھی۔

آج کا فاشزم 1930ء کی دہائی کے فاشزم سے قدرے مختلف ہے۔ بہت سے فاشسٹ اپنی ریاستوں کو فاشسٹ ریاست بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں لیکن وہ اس میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں یہ وقت ہی بتائے گا۔ ایک بات طے ہے کہ آج کے فاشسٹ سرمایہ داری کے بحران پر قابو نہیں پا سکتے کیونکہ وہ مالیاتی سرمائے کی عالمگیر حکومت کے آگے سرنگوں ہیں۔

آج نہ ہی بڑے پیمانے کی کسی جنگ کے امکانات ہیں جس سے دنیا کو مختلف طاقتوں میں تقسیم کر دیا جائے جیسا کہ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے دوران ہوا تھا۔ مالیاتی سرمائے کی عالمگیریت میں مالیاتی سرمایہ کبھی نہیں چاہے گا کہ دنیا مختلف طاقتوں میں منقسم ہو جائے بلکہ اس کا مفاد اسی میں ہے کہ سرمائے کی لامحدود حرکت جاری رہے۔

لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے چھوٹے پیمانے کی پراکسی جنگوں میں شدت آئے جو بہت طویل اور مسلسل خون ریز بھی ہوں۔ موجودہ فاشزم پرانے فاشزم کی نسبت کم قاتلانہ لیکن زیادہ طویل دورانیے پر مشتمل ہو سکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ وہ اقتدار میں ہوتے ہوئے بورژوا جمہوریت کی تمام شکلوں کو ختم کر دے۔ یہ بھی ضروری نہیں کے وہ اپوزیشن کو جسمانی طور پر ختم کر دے۔ لیکن آنے والی کوئی بھی حکومت جب تک سرمایہ داری کے تحت رہے گی بحران کو ختم نہیں کر سکتی۔ فاشسٹ اقتدار میں ہوں یا اقتدار سے باہر‘ وہ کارپوریٹ مفادات کو فروغ دینے کے لیے سیاست اور معاشرے میں ایک بیماری کے طور پر موجود رہیں گے۔

آزاد منڈی کی معیشت اپنے آخری انجام کی طرف گامزن ہے۔ لیکن اپنے ساتھ یہ سارے سیارے اور اس پر موجود انسانوں کو بھی برباد کر سکتی ہے۔ محنت کش طبقہ اس کے تمام تر جبر سے اسباق حاصل کر رہا ہے۔ حالیہ تاریک عرصے میں بھی ہانگ کانگ، فرانس، سوڈان، الجزائر اور کئی دوسرے ملکوں میں محنت کش طبقے کی تحریکیں ابھری ہیں۔ خود امریکہ کے اندر مختلف شہروں میں اساتذہ، آٹو ورکرز اور دوسرے شعبوں میں تحریکیں موجود ہیں۔ برطانیہ میں پارلیمنٹ کی معطلی کے خلاف بڑے احتجاج ہو رہے ہیں۔ جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مستقبل میں محنت کش طبقہ تاریخ کے میدان میں فیصلہ کن طور پر داخل ہو گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کی انقلابی قیادت کی تیاری کے عمل کو تیز تر کیا جائے۔