لال خان

آزادی کے نام پر برصغیر کا جو بٹوارہ ہوا وہ آج بھی اس قدیم ترین تہذیب کو خونریزی، محرومی و غربت کی آگ میں جھلسا رہا ہے۔ اس کرہ ارض کی تقریباً 22 فیصد آبادی رکھنے والے اس خطے میں دنیا کی 43 فیصد غربت بستی ہے۔ اسلحے، بارود اور انسانی بربادی کے آلات پر سب سے زیادہ اخراجات کرنے والے ممالک کے حکمران تعلیم و علاج پر سب سے کم اخراجات کرنے کے مجرم ہیں۔ سامراجی اجارہ داریاں یہاں کبھی امن نہیں ہونے دے سکتیں اور یہاں کے حکمرانوں کے پیٹ اور تجوریاں کمیشنوں کے بغیر بھر نہیں سکتیں۔

بٹوارے میں 27 لاکھ معصوموں کا قتل عام سامراجیوں اور مقامی حکمران اشرافیہ کی پھیلائی ہوئی منافرتوں کا نتیجہ تھا۔ اگر مذہبی بنیادوں پر وحشت اور جنون کا پاگل پن سماجی نفسیات پر طاری نہ کیا جاتا تو برصغیر کے محنت کشوں کی یکجہتی اور جدوجہد نہ صرف انگریز سامراجیوں سے قومی آزادی چھین کر حاصل کرتی بلکہ اس تحریک نے قومی مرحلے پر رکے بغیر سماجی و معاشی انقلاب برپا کر چھوڑنا تھا۔ یعنی بٹوارہ سب سے پہلے سرمایہ دارانہ نظام کی ضرورت تھا۔ اس نظام کے مقامی حکمران طبقات نے سامراجیوں سے مذاکرات اور مصالحتیں کر کے جو ’آزادی‘ حاصل کی تھی اس میں سرمایہ دارانہ استحصال اور سامراجی لوٹ کا عمل یقینی بنایا گیا تھا۔ پہلے 1853ء میں پشتونوں کو ڈیورنڈ معاہدے کے تحت دولخت کیا گیا۔ پھر پنجاب اور بنگال کی ہزاروں سال پرانی تہذیبوں کو چیر کر لہو لہان کر دیا گیا۔ اس کے بعد کشمیر کا ایسا مسئلہ پیدا کیا گیا جس کا مقصد آنے والی نسلوں میں بھی تناؤ اور عدم استحکام کو برقرار رکھنا تھا۔ خطہ کشمیر میں آج ہر طرف ریاستی جبر انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔

اس بٹوارے نے قدیم ہندوستان کو نہ صرف جغرافیائی بلکہ سماجی طور پہ بھی قتل کر دیا۔ 1947ء کے بعد کوئی ہندوستان نہیں رہا۔ صرف پاکستان، مشرقی بنگال اور بھارت ہی باقی بچے۔ ان ممالک میں کوئی قومی یکجہتی اور قومی ریاست استوار نہیں ہو سکی۔ جوں جوں یہاں کے سرمایہ دارانہ نظاموں کا بحران بڑھتا گیا‘ حکمران قوم پرستی کی جگہ مذہبی جنون اور رجعت کو قومی شکل دینے پر مجبور ہوتے گئے۔

یہ سامراجی لکیروں سے تشکیل دی گئی مصنوعی ریاستیں ہیں۔ اگر صرف جغرافیے پر نظر دوڑائیں تو شمال میں جو لکیر بھارت اور پاکستان کو چین سے الگ کرتی ہے اس کا نام (جیفری) مکموہن لائن ہے۔ بھارت کو پاکستان اور بنگلہ دیش سے الگ کرنے والی لکیر کا نام ریڈکلف لائن ہے۔ ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف پشتون آباد ہیں۔ سمندر تک ’سر کریک‘ جیسی سامراجی لکیروں کی تقسیم سے پاک نہیں ہیں۔

بی جے پی جیسے ہندو بنیاد رجحان بھارت میں جو نظریہ کئی دہائیوں سے ٹھونسنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ کوئی قدیم مذہب نہیں بلکہ چند پرانی فروعی اور رجعتی توہمات کو ایک نئے انداز میں توحیدی مذاہب سے مماثلت دینے کی کوشش ہے۔ مثلاً دو بڑے دیوتاؤں رام اور کرشنا میں سے کرشنا کو کسی حد تک غائب کر کے ایک دیوتا رام کا ہی پرچار کیا جا رہا ہے۔ اس سارے کھلواڑ کا مقصد عوام کو ذہنی طور پر مجروح اور طبقاتی طور پہ منقسم کر کے تابع رکھنا ہے۔

پاکستان تو بنا ہی مذہب کے نام پر تھا۔ لیکن آج کے بھارت میں سیکولرازم نام کا ہی بچا ہے (بلکہ اب نام لینا بھی جرم بنتا جا رہا ہے) اور سیاست و ریاست میں مذہب کا استعمال پاکستان سے بھی زیادہ ہو چکا ہے۔ یہ ان دونوں ممالک کے حکمران طبقات کا جرم ہے جن کا نظام ان معاشروں میں کوئی استحکام، ترقی، خوشحالی اور سماجی ہم آہنگی لانے سے قاصر رہا ہے۔ مذہبیت اور دہشت کو تقویت دینے اور مسلط کرنے کے لئے دونوں ممالک نے ایٹمی پروگرام اپنائے۔ جوں جوں ان کے نظام کا بحران بڑھتا جا رہا ہے یہ حکمران زیادہ سے زیادہ وحشت پہ اتر رہے ہیں۔ آج اس خطے کے ہر ملک میں برائے نام جمہوری آزادیاں بھی صلب کی جا رہی ہیں۔

72 سال میں 4 جنگیں ہو چکی ہیں۔ جو تمام کی تمام وقتی تھیں۔ لمبی جنگیں پلاننگ کے تحت نہیں لڑی گئیں کیونکہ معیشتوں میں اتنی سکت نہیں تھی اور پورے نظام کے ٹوٹ کر بکھر جانے کا خطرہ تھا۔ عظیم ا نقلابی روایات والی اس دھرتی پہ نئے انقلابی ریلے پھوٹ سکتے تھے۔

انگریز سامراج نے ”تقسیم کے ذریعے حکمرانی“ کی جو پالیسی قدیم روم کے پالیسی سازوں سے سیکھی تھی وہ ورثے میں اپنے چیلوں کو دے گئے۔ اس کے بعد یہ طریقہ واردات اقتداروں کے ساتھ ہی منتقل ہوتا رہا۔ نہ صرف بیرونی بلکہ داخلی سطح پر بھی قومی، لسانی اور مذہبی تعصبات کو ابھار کر جابرانہ حکومتیں چلائی گئیں۔ لیکن پھر جب تحریکیں رکتی نہیں اور اقتدار سنبھلتے نہیں تو یہ حکمران جنگوں کے ترانے بجانے لگتے ہیں۔ کشمیر کے مسئلے کو اس جنگی واردات کا نسخہ بنا دیا گیا ہے۔ پھر مذاکرات ہوتے ہیں اور امن کے گھٹیا قسم کے ڈرامے چلائے جاتے ہیں۔ لیکن کب تلک؟

بھارتی ریاست کا کشمیر کے عوام پر بڑھتا ہوا تشدد اس کی طاقت نہیں بلکہ کمزوری کا آئینہ دار ہے۔ یہ بھارت کی نام نہاد ”ترقی“ (جس کا بڑا چرچا کیا جاتا ہے) کا پردہ بھی چاک کرتا ہے۔ یہ ایسی ترقی ہے جس نے ریاست کو زیادہ زہریلا کر دیا ہے اور جو پورے سماج کو بربریت میں دھکیلنے کے درپے ہے۔ یہاں سے انفرادی دہشت گردی اور جہادی پراکسیوں کی پالیسی نے بھارتی ریاست کے جبر کو زیادہ وحشی اور گہرا ہی کیا ہے۔ لیکن دہائیوں کے جبر کے باوجود گزشتہ سالوں کے دوران کشمیر کے مقامی نوجوانوں کی عوامی تحریک نے بھارتی ریاست کی طاقت کو چیلنج کر دیا ہے۔ بلکہ دونوں ممالک کے حکمران ہی اس تحریک سے خو فزدہ ہیں۔

تاریخ کے مکافات عمل کا قانون یہاں بھی کارفرما ہے۔ جس کشمیر کو مسئلہ بنا کر بے دریغ استعمال کیا گیا وہیں سے بغاوت کے علم بلند ہو رہے ہیں۔ اسی کے نوجوانوں نے بھارتی حاکمیت کو 72 سال میں سب سے زیادہ جرات اور بے باکی سے ایسے چیلنج کیا ہے کہ یہ ریاست دہل گئی ہے۔ ان کی تحریک سارے برصغیر کے محکوموں اور مظلوموں کے لئے مزاحمت، قربانی اور جدوجہد کی درخشاں مثال بن گئی ہے۔ بھارتی ریاست کے جبر کی ناکامی اس کا مقدر بن کر رہے گی۔ اس تحریک کی کامیابی کے لئے پورے خطے سے طبقاتی یکجہتی کو منظم اور متحرک کرنا انقلابیوں کا فریضہ ہے۔

بھارت کی طرح پاکستان میں بھی فسطائیت کے رحجانات بڑھتے جا رہے ہیں۔ جمہوریت کا فریب اور دھوکہ عوام کے سامنے تیزی سے بے نقاب ہو چکا ہے۔ اتنا جبر کبھی آمریتوں میں بھی نہیں رہا۔ تحریک انصاف کا ’نیا پاکستان‘ عوام سے ایک بیہودہ مذاق بن کے رہ گیا ہے جس میں مہنگائی، بیروزگاری اور ذلت پرانے پاکستان سے بھی زیادہ ہے۔ اس سے ایک بار پھر ثابت ہوتا ہے کہ یہاں کے خستہ حال سرمایہ داری کو اصلاحات کے ذریعے ٹھیک نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ذلت اور ظلم کی انتہا ہو جائے تو بھی طبقاتی کشمکش مٹ نہیں سکتی۔ آج ان حکمرانوں کو نیچے سے کسی بڑی مزاحمت کا سامنا نہیں ہے۔ لیکن خوف سے پھر بھی ان کا برا حال ہے۔ شاید شعوری یا لاشعوری طور پہ وہ جانتے ہیں کہ یہ مسلط کردہ نحیف اور مصنوعی سیٹ اپ عوامی تحرک کی معمولی سی ٹھوکر سے ڈھے سکتا ہے۔ لیکن سات دہائیوں کے تجربات نے ثابت کیا ہے کہ حقیقی آزادی کے لئے حکومتوں یا چہروں کی نہیں بلکہ نظام کی تبدیلی درکار ہے۔ انقلابی سوشلزم کے بغیر خطے کے ڈیڑھ ارب انسانوں کے مستقبل میں بہتری کی کوئی امید جنم نہیں لے سکتی۔