راہول

برطانوی سیاست آج تاریخ کے بدترین بحران کی زد میں ہے۔ یہاں گزشتہ دو سالوں سے جاری افراتفری تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ ڈیوڈ کیمرون ہو یا تھریسا مے، ہر کوئی اس بحران کا سامنا کرنے میں بے بس دکھائی دیتا رہاہے۔ یورپی یونین سے علیحدگی (بریگزٹ) کے معاملے پر تھریسا مے کی تمام تر کوششیں بھی سوائے مایوسی کے اور کچھ بھی نہ دے سکیں اور اسے مستعفی ہونا پڑا۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد برطانیہ میں پیدا ہوئی یہ صورتحال جہاں ایک پرانتشار عہد کی عکاسی کر رہی ہے وہیں حکمران جماعت کنزرویٹو پارٹی میں جاری ٹوٹ پھوٹ بھی کھل کر پوری دنیا کے سامنے عیاں ہو چکی ہے۔

حالیہ دنوں بورس جانسن کا پارٹی کے نئے لیڈر اور برطانیہ کے نئے وزیر اعظم کے طور پر عہدہ سنبھالنا کوئی حیران کن بات نہیں ہے۔ بلکہ یہ عالمی سیاست کو درپیش بحران کی محض ایک کڑی ہے جس سے آج پوری دنیا جوجھ رہی ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ جانسن کومبارکباد کا سب سے پہلا پیغام صدر ٹرمپ کی جانب سے موصول ہوا۔ بلکہ یہ کہنا کسی طور بھی غلط نہیں ہوگا کہ یہ دونوں حضرات نہ صرف اپنی عقل کے اعتبار سے مماثلت رکھتے ہیں بلکہ محنت کش طبقے پر سخت ترین معاشی حملوں کے جس پلان پر ٹرمپ یقین رکھتا ہے کم و بیش وہی عزائم جانسن کے بھی ہیں۔

بورس جانسن کا تعلق دائیں بازو کی جماعت کے انتہائی رجعتی ٹولے سے ہے اور کہا یہ جا رہا ہے کہ وہ کسی طور پر بھی بریگزٹ کے معاملے میں کوئی تعاون نہیں کرے گا۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے اس کا کہنا تھا کہ”برطانیہ بریگزٹ منصوبے پر عمل کرتے ہوئے 31 اکتوبر کو یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کر لے گا اور اس ڈیڈ لائن پر مزید کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔“ یہاں تک کہ عہدہ سنبھالتے ہی جانسن نے اہم وزارتیں ان حکومتی اراکین میں تقسیم کی ہیں جو بریگزٹ کی حمایت کرتے تھے۔ جانسن کا بنا کسی معاہدے کے یورپی یونین سے علیحدگی کا یہ منصوبہ اور آنے والے دنوں میں اس کی جانب سے کیے جانے والے کٹھن اقدامات لازمی طور پر برطانیہ کے سرمایہ دار طبقے کو بھی شدید مشکلات میں دھکیل سکتے ہیں۔

دراصل بریگزٹ اپنے آغاز ہی سے یورپی اور برطانوی سرمایہ داروں کے لئے کوئی اچھی خبر نہیں تھی اور وہ اس ریفرنڈم کے غیر متوقع نتائج آنے کے بعد سے اپنے مالیاتی مفادات کے تحفظ کی کوششوں میں سرگرم ہیں۔ برطانوی سرمایہ داروں کے لئے یورپ ایک بنیادی منڈی کی حیثیت رکھتاہے اور یورپی یونین سے علیحدگی کے پیش نظر برطانوی سرمایہ داروں کے لئے یورپی منڈی بہت محدود ہو جائے گی کیونکہ ان کی برآمدات پر محصولات عائد ہونے لگیں گے۔ یہ رکاوٹیں برطانوی کاروبار کو شدید نقصان پہنچائیں گی اور بڑے معاشی بحران کا باعث بھی بن سکتی ہیں۔ انہی خطرات کے پیش نظر تھریسا مے سرمایہ داروں کے مفادات میں ایک ’سافٹ بریگزٹ‘ کے لئے کوشاں تھی۔ مگر اب معاملات برطانوی حکمران طبقے کے ہاتھوں سے نکلتے نظر آ رہے ہیں۔ برطانوی سیاست میں پیدا ہوا یہ بحران ہر گزرتے دن کے ساتھ گہرا ہوتا چلا جائے گا۔ اس وقت تک تمام تر سیاست محض بریگزٹ کے گرد کی جارہی ہے‘مگر اصل چیلنج لوگوں کی امنگوں پر پورا اترنا ہے۔ بیروزگاری اور کٹوتیوں سے لے کے’این ایچ ایس‘(مفت سرکاری نظامِ صحت) کی نجکاری جیسے معاملات آج بھی عوام کے اہم مسائل ہیں۔ اسی لئے جانسن کی تمام تر کوششوں کے باوجود بھی نہ تو برطانیہ کو ان بحرانات سے نکالا جا سکتا ہے اور نہ ہی ایک مستحکم حکومت چلائی جاسکتی ہے۔ بریگزٹ ہو یا نہ ہو مگر عوامی دباؤ ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید شدت اختیار کرتا جائے گا۔

پہلے ہی جانسن کا استقبال عوامی احتجاجوں سے کیا گیا ہے۔ آنے والے دنوں میں مزید بڑے احتجاج دیکھے جاسکتے ہیں۔ آخری تجزیے میں آج سرمایہ داری نظام میں رہتے ہوئے‘چاہے کوئی بھی طرزِ حکمرانی اپنایا جائے عوام کے حقیقی مسائل کا حل ممکن نہیں۔

اسی طرح یورپ کے بیشتر ممالک بھی کم و بیش اسی بحرانی کیفیت کا شکار ہیں۔ یورپ میں آج قومی شاونزم اور نیم فسطائی قوتوں کا ایک واضح ابھار ہے۔ حالیہ یورپی یونین کے انتخابات میں ’انتہائی دائیں بازو‘ کی پارٹیوں کا اتحاد اور ان کی برتری انتہا ئی تشویشناک ہے۔ دراصل گزشتہ چند سالوں میں یہاں حکمران سیاست کا مرکز محض پناہ گزینوں کے خلاف آواز اٹھانا ہی رہاہے۔ جس کے نتیجے میں یہ فسطائی قوتیں کسی حد تک عوام کی پسماندہ پرتوں میں مقبولیت حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہی ہیں۔ مگریہ ابھار کسی طور پر بھی اتناسادہ نہیں جتنا اسے سمجھا جارہا ہے۔ ان رجحانات کا پروان چڑھنا دراصل سرمایہ دارانہ نظام کی غلاظت ہی کا نتیجہ ہے اور اسے سطحی بحثوں کے ذریعے’میکانکی‘ انداز سے نہیں سمجھا جاسکتا۔

درحقیقت ہم آج ایک نیم رجعتی معروضی کیفیات اور معاشی جبر و استحصال کے ایسے عہد میں رہ رہے ہیں کہ جب اس سیارے پر بسنے والے اربوں انسانوں کو سوائے اندھی کھائی کے اورکچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ زندگی مشکل اور معاشی حالات تلخ ہوتے جارہے ہیں۔ تاریخ میں پہلی بار بالخصوص مغرب میں ایک ایسی نسل جوان ہوئی ہے جواپنے آبا و اجداد سے کم تر معیار زندگی برداشت کرنے پر مجبور ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد حاصل کی جانے والی ترقی اور سرمایہ دارانہ اصلاحات کا رنگ اب پھیکا پڑچکا ہے۔ ریاست کی جانب سے دی جانے والی مفت صحت، رہائش، بیروزگاری الاؤنس، مفت اعلیٰ تعلیم اور پنشن کی سہولیات وغیرہ اب قصہ پارینہ معلوم ہوتی ہیں۔

محنت کشوں کی انتھک جدوجہد کے نتیجے میں تاریخی طور پر حاصل کی گئیں تمام تر سہولیات یورپ ا ور امریکہ سمیت پوری دنیا میں یا تو چھینی جاچکی ہیں یا چھیننے کا یہ سلسلہ تیزی سے جاری ہے۔ دنیا کی اکثریت بدترین غربت اور مشکل معاشی حالات کا سامنا کرنے پر مجبور ہے۔ اگر مجموعی طور پریہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ بنی نوع انسان کا وجود آج اس سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی بدولت پلنے والی منافع خوری کی نفسیات کی وجہ سے خطرے میں ہے۔

2008ء کے بدترین معاشی بحران کی ایک دہائی بعد بھی مکمل معاشی بحالی نہیں ہوسکی ہے بلکہ بحران مزید گہرا ہو تا جا رہا ہے۔ دنیا کی تمام بڑی معیشتیں آج پہلے سے زیادہ مقروض ہیں اور عالمی قرضہ 247 ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ جوکہ عالمی’جی ڈی پی‘کا تقریباً 250 فیصد بنتا ہے۔ مقداری آسانی سے لے کے کٹوتیوں تک، ہر حربہ آزمایا جاچکا ہے مگربحران سے نکلنے کی ہر کوشش ایک نئے بحران کو جنم دینے کا باعث بنتی جا رہی ہے۔ دراصل یہ بحران سرمایہ دارانہ نظام کا نامیاتی بحران ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی متروکیت کا کھلا اظہار بھی ہے۔

نظام ناکام ہوچکا ہے مگر یہ اپنی متروکیت قبول کرنے سے منحرف ہے۔ یہی سبب ہے کہ قدامت پرست اور نیم فسطائی سوچ رکھنے والے سیاستدانوں اور پارٹیوں کا ابھار ہو رہا ہے۔ بیشتر ممالک آج ’انتہائی دائیں بازو‘کے شکنجے میں ہیں او ر تاریخی طور پر مسترد ہوچکے نسلی و قومی رجحانات کو ایک بار پھر ابھارنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں آج شدید’پولرائزیشن‘ موجود ہے اور دائیں و بائیں کے درمیان کے سیاسی رجحانات اب کھوکھلے پڑچکے ہیں۔ انقلابی قیادتوں کا فقدان ہے۔ بائیں بازو کے حاوی رجحانات بھی زیادہ تر اصلاح پسندی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ جب لوگوں کو مستقبل میں کوئی راستہ و منزل نظر نہ آرہی ہو تو وہ ماضی کے کھنڈرات میں جھانکنا شروع کر دیتے ہیں۔

دراصل اس قسم کی کیفیات میں اکثر عمومی شعور تذبذب کا شکار ہوجاتا ہے اور نسلی، قومی و مذہبی رجحانات ایک حاوی رجحان کے طور پر سماج میں پنپنے لگتے ہیں۔ یہاں تک کہ ماضی میں عوام کی طرف سے مسترد کیے گئے فسطائی نظریات بھی زیر زبر کے فرق سے سماجی شعور کو یرغمال بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

لیون ٹراٹسکی نے 1930ء میں لکھا تھا کہ”جب تاریخی ارتقا کا دھارا ابھر رہا ہوتا ہے تو عوامی سوچ زیادہ دور اندیش، بے باک اور تیز فہم ہوجاتی ہے۔ یہ حقائق کو دور سے ہی پرکھ لیتی ہے اور انہیں عمومی صورتحال سے منسلک کرتی ہے۔ اور جب سیاسی دھارے کا رخ پستی کی طرف ہوتا ہے تو عمومی سوچ جہالت اور پسماندگی کی کھائی میں جاگرتی ہے۔ سیاسی تعمیم کا انمول تحفہ کوئی نشان چھوڑے بغیر غائب ہوجاتی ہے۔ حماقت بڑھتی جاتی ہے اور دانت نکال کر عقل مندانہ تجزیوں پر ہنستی ہے اور انہیں ذلیل کرتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ حماقت کا راج قائم ہوچکا ہے۔“

دہائیاں پہلے لکھے گئے ٹراٹسکی کے یہ الفاظ پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا یہ آج ہی کے لئے لکھے گئے ہوں۔ ٹرمپ کے امریکی صدر منتخب ہونے کا معاملہ ہو یا یورپی یونین کے حالیہ انتخابات میں ’انتہائی دائیں بازو‘ کی کامیابی‘بیشتر دنیا پر جہالت اور حماقت کا راج نظر آتا ہے۔ جس طرح خوشحال معاشروں کی عکاسی عمومی طور پر سلجھے ہوئے لوگوں سے کی جاسکتی ہے بالکل اسی طرح بحران زدہ معاشروں کی عکاسی بھی اُن معاشروں کے ’قائدین‘کی بھونڈی حرکات سے ہوتی ہے۔ چونکہ آج دنیا کے بیشتر ممالک بحرانات کی زد میں ہیں یہی وجہ ہے کہ اس کے نتیجے میں جنم لینے والی سیاست بھی اتنی ہی تعفن زدہ ہے اور اسے اتنے ہی احمق اور قدامت پرست افراد درکار ہیں۔ اسی لئے ٹرمپ، ڈیوٹرٹے، مودی، عمران خان، بولسنارو اور بورس جانسن وغیرہ کو کسی طور پر بھی بحران کی وجہ قرار دینا مناسب نہیں ہوگا بلکہ یہ لوگ بحران کا عکس ہیں۔ لیکن اس قسم کی قوتیں چاہے جتنی بھی کوششیں کرلیں مگر یہ ما ضی کی طرز پر فاشسٹ حکومتیں قائم نہیں کر سکیں گی اور نہ ہی سماجی حالات اسے قبول کرنے کے لئے تیار ہیں۔ یہ قوتیں چاہے اقتدار پر قابض ہوبھی جائیں مگر ان کی وحشت کے خلاف سب سے بڑی قوت آج پوری دنیا میں موجود دیوہیکل محنت کش طبقے کا وجود ہے جو اب تک کسی طبقاتی جنگ میں فیصلہ کن شکست سے دوچار نہیں ہوا ہے۔