عمر شاہد

ہانگ کانگ اور چین کے مابین ’مجرموں کے تبادلے‘کے مجوزہ معاہدے کے خلاف مارچ سے شروع ہونے والی تحریک اب عوامی سرکشی میں تبدیل ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ ریاست کی جانب سے تحریک کو زائل کرنے کے لئے مظاہرین پر تشدد اور آنسو گیس کی شیلنگ کرنے کے ساتھ ساتھ گرفتاریاں بھی عمل میں لائی جا رہی ہیں۔ مارچ 2018ء میں تائیوان میں ایک قتل کے مقدمے میں مطلوب شخص ہانگ کانگ فرار ہو گیا۔ جہاں اس نے سیاسی پناہ کی درخواست جمع کروا دی۔ اس کے خلاف سخت احتجاج کرتے ہوئے تائیوان حکومت نے ہانگ کانگ انتظامیہ سے اس شخص کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔ دونوں ممالک کے مابین مجرموں کی حوالگی کا کوئی رسمی معاہدہ نہ ہونے کی وجہ سے ہانگ کانگ انتظامیہ نے اس شخص کو تائیوان کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ چین سے بھی کئی مطلوب افراد نے ہانگ کانگ کے ذریعے دیگر ملکوں کی جانب راہ ِفرار اختیار کی۔ کمیونسٹ پارٹی کے کئی اہم عہدے داران بھی کرپشن کے خلاف جاری کریک ڈاؤن سے بچنے کے لئے ہانگ کانگ میں پناہ لینے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اس پس منظر میں فروری 2019ء میں ہانگ کانگ سکیورٹی کونسل کی جانب سے چین اور تائیوان کے ساتھ مجرمو ں کی حوالگی کے معاہدے پر گفت و شنید کا آغاز ہوا۔ تاہم جب ہانگ کانگ قانون ساز اسمبلی میں اس بل پر بحث کا آغاز ہوا تو اس کے خلاف سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے مظاہرے شروع کر دیے۔ یہ مظاہرے پولیس سے باقاعدہ اجازت طلب کر کے اور ایک کنٹرولڈ ماحول میں کیے گئے جن میں حکومت پر براہ راست تنقید کی بجائے رحم کی اپیلیں اور مغرب کی طرز پر جمہوری آزادیوں کی باز گشت سنائی دی۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ اس قانون میں نرمی لائی جائے۔ یہ خدشہ بھی ظاہر کیا گیا کہ اس قانون کا استعمال حکومت کی پالیسیوں سے اختلاف رائے رکھنے والے افراد کے خلاف بھی کیا جاسکتا ہے۔ اس بل کے خلاف جون کے آغاز میں لاکھوں افراد سڑکوں پرنکل آئے۔ 12 جون کو قانون ساز اسمبلی میں جب بل پر بحث کے دوسرے مرحلے کا آغاز ہوا تو لاکھو ں افراد نے پورے ہانگ کانگ کو جام کر دیا۔ جس میں ٹرینوں کی آمد و رفت اور معمول زندگی بری طرح متاثر ہوا۔

ا س تحریک کو کچلنے کے لئے بڑی تعداد میں پولیس نے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کیا۔ لیکن تحریک تھمنے کی بجائے مزید پھیلتی گئی اور 15 جون کو ہانگ کانگ کی چیف ایگزیکٹو ’کیری لیم‘ نے مظاہرین کے مطالبات کو جزوی طور پر تسلیم کرتے ہوئے بل کی معطلی کا اعلان کیا تاہم اسے مکمل طور پر واپس لینے سے انکار کر دیا۔ یکم جولائی کو ہانگ کانگ کی برطانیہ سے چین کو منتقلی کے 22 سال مکمل ہونے پر حکومتی جشن منانے کی تیاریاں کی جا رہی تھیں کہ تحریک کی اٹھان نے حکمرانوں کے جشن کو ماند کرتے ہوئے قانون ساز اسمبلی اور کمیونسٹ پارٹی کے دفاترپر حملے کر دیے۔

اس دوران’کمیونسٹ پارٹی مردہ باد‘ اور’ہانگ کانگ کے انقلاب کی حفاظت کرو‘ کے نعرے لگائے گئے۔ چینی ریاست کی جانب سے یہ صورتحال مرکزی حکومت کی رِٹ پر حملہ تصورکی گئی اور تحریک کو کچلنے کے لئے مزید پرتشدد ذرائع استعمال کیے گئے۔

یاد رہے کہ ہانگ کانگ ”ایک ملک‘ دو نظام“ کی پالیسی کے تحت چین کا حصہ ہے۔ یعنی چین میں شامل ہونے کے باوجود اس کا اپنا معاشی، سیاسی اور قانونی نظام ہے۔ لیکن اب لوگوں کو ڈر ہے کہ چین اپنی ریاستی گرفت ہانگ کانگ پر مضبوط کر رہا ہے اور چین والے قوانین ہی ہانگ کانگ پر نافذ کیے جا رہے ہیں۔ مظاہرین اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں چین کے ساتھ مجرموں کی حوالگی کے معاہدے سے ہانگ کانگ کے شہریوں کی چینی حکام کے ہاتھوں گرفتاری اور ان پر چینی عدالتوں میں مقدمات چلائے جانے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔

مجرموں کے تبادلے کا معاہد ہ دراصل ’شی جن پنگ‘کی آمرانہ سوچ کی عکاسی کرتا ہے جس کا مقصدسماجی اور سیاسی معاملات کو اپنی گرفت میں رکھنا ہے۔ شی جن پنگ کے دورِ حکومت میں شخصی آزادیوں پر قدغنیں کہیں زیادہ سخت ہو گئی ہیں۔

چین شایددنیا کا پہلا ملک بن چکا ہے جو کہ بیرونی دفاع کی بجائے اندرونی دفاع پر زیادہ اخراجات کر رہا ہے۔ 2017ء میں بیرونی دفاع پر 1.02 ٹریلین یوان کے مقابلے میں اندرونی دفاع پر 1.24ٹریلین یوان خرچ کیے گئے۔ ہانگ کانگ کے ساتھ’مجرموں کے تبادلے‘کے معاہد ے کے بل کا حقیقی مقصد حکومت مخالف عناصر کو کچلنا اور ان کی راہِ فرار کے تمام تر راستے بند کرنا ہے۔ ساتھ ہی ماضی میں دی گئی معمولی آزادیوں کو ختم کرتے ہوئے اس قانون کے ذریعے ریاستی کنٹرول کو مزید سخت کرنا ہے۔

ہانگ کانگ کی تاریخ میں پہلی دفعہ چین کے پولیس اہلکاروں کو یہاں کی سر زمین پر تعینات کیا جا رہا ہے۔ انتظامیہ کے حق میں فیصلے نہ دینے والے جج تبدیل ہو رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی اس تحریک میں نام نہاد جمہوریت پسند عناصر کی جانب سے ’جمہوری آزادیوں‘ کے تحفظ کے لئے امریکی صدر ٹرمپ سے بھی گزارشات کی جا رہی ہیں۔ لیکن اس تحریک کا اہم عنصر نوجوانوں کی شمولیت ہے جو کہ کسی جمہوریت کی بجائے اپنے بنیادی مسائل کے لئے میدان عمل میں اترے ہیں۔ تحریک کو زیادہ ریڈیکل کرنے میں ان کا اہم کردار ہے۔ جریدے ’اکنامسٹ‘نے اپنے حالیہ شمارے میں واضح کیا ہے کہ”اس وقت (ہانگ کانگ میں) دو تحریکیں جاری ہیں۔ ایک جانب تو انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے باقاعدہ انتظامیہ کی اجازت سے مظاہروں کا انعقاد کیا جا رہا ہے تو دوسری جانب سرکش نوجوانوں کے ’غیر قانونی‘ مظاہرے جاری ہیں اوریہ مظاہرے بغیر کسی قیادت کے منظم کیے جا رہے ہیں۔“

22 جولائی کو سو سے زائد افراد کی جانب سے مظاہرین پر حملہ کیا گیا۔ جس کا مقصد اس تحریک کو مزید پر تشدد کرتے ہوئے ریاست کو مزید طاقت کے استعمال کے لئے جواز فراہم کرنا تھا۔ ا س کے جواب میں 27 جولائی کو لاکھوں افراد نے مظاہرہ کیا اور مظاہرین کی جانب سے حکومتی دفاتر پر حملے کیے گئے اور پہلی بار چینی میڈیا نے ان مظاہروں کی خبریں نشر کیں۔ اگلے روز کمیونسٹ پارٹی کے ترجمان پیپلز ڈیلی کی جانب سے بڑی شہ سرخی دی گئی کہ’’یہ نہ صرف ہانگ کانگ میں قانون کی حکمرانی پر حملہ ہے بلکہ اسے مرکزی حکومت کی بالا دستی پر حملہ تصور کیا جائے گا۔“ مرکزی حکومت کی جانب سے پیپلز لبریشن آرمی کی براہ راست مداخلت کا عندیہ بھی دیا گیاہے کیونکہ صورتحال میں مقامی حکومت مکمل طورپر مفلوج نظر آتی ہے۔ مظاہرین کی جانب سے ہانگ کانگ کے چیف ایگزیکٹو کی برطرفی اور شفاف انتخابات کے مطالبات بھی کیے جا رہے ہیں۔ اس عوامی تحریک کے ایک مکمل سرکشی میں تبدیل ہونے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ خود چینی کمیونسٹ پارٹی کے سنجیدہ پالیسی سازوں کے مطابق فوج کا استعمال صورتحال کو مزید بگاڑ سکتا ہے جس سے’تیانمن سکوائر‘ جیسی صورتحال بھی پیدا ہو سکتی ہے۔

بنیادی طور پر اس تحریک کا محرک نوجوانوں میں موجودہ معاشی نظام اور اس کی اذیتوں کے خلاف پایاجانے والا اضطراب بھی ہے۔ اس کا اظہار پہلے 2014ء میں ’چھتریوں کی تحریک‘کی صورت میں ہوا جس کو ریاست نے سختی سے کچل دیا تھا۔ بی بی سی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ”ہانگ کانگ کی موجودہ نوجوان نسل سب سے ناخوش نسل بن چکی ہے۔ 80 فیصد سے زائد نوجوان موجودہ سیاسی نظام سے اکتا چکے ہیں۔ معاشی اعتبار سے بیروزگاری کی شرح 2.8 فیصد بتائی جاتی ہے لیکن ملک میں ملازمت پیشہ افراد بھی آرام دہ نیند سے محروم ہیں۔ شہری علاقے میں کرائے ناقابل برداشت حد تک بڑھ چکے ہیں‘جس کی وجہ سے ’کفن گھروں‘ کا رحجان بڑھ چکا ہے جس میں نہایت محدود جگہ میں آبادی کی اکثریت رہنے پر مجبور ہے۔“

مئی میں سرکاری طور پر کم از کم اجرت 34.50 ہانگ کانگ ڈالر سے بڑھا کر 37.50 ہانگ کانگ ڈالر (تقریباً 4.80 ہانگ کانگ ڈالرفی گھنٹہ) کر دی گئی ہے‘ لیکن آکسفیم اور چینی یونیورسٹی کے اشتراک سے جاری ایک رپورٹ کے مطابق ہانگ کانگ میں بنیادی ضروریات ِزندگی کے حصول کے لئے 54.70 ہانگ کانگ ڈالر درکار ہیں۔ عالمی بحران اور چین امریکہ تجارتی جنگ کے پیش نظرمعاشی ترقی کی شرح 0.6 فیصد رہی جو کہ حکومتی اہداف سے کافی کم ہے۔ یہ تو طے ہے کہ ماضی کا معیار زندگی واپس نہیں آسکتا اور بحران کے بڑھنے سے مشکلات میں مزید اضافہ ہی ہو گا۔
پوری دنیا کی طرح ہانگ کانگ بھی سماجی خلفشار کا شکار ہے۔ جہاں ایک طرف حکمرانوں کی جانب سے محنت کشوں پر سخت حملے کیے جا رہے ہیں تو دوسری جانب عوامی بغاوت اپنا سر اٹھا رہی ہے۔ میڈیا کی شہ سرخیوں کی برعکس اس تحریک میں شامل مظاہرین کے اصل مسائل کا حل نام نہاد جموریت پسندوں کے پاس نہیں‘نہ انہیں جمہوریت سے کوئی خاص لگاؤ ہے۔ یہ ناقابل برداشت سماجی اور معاشی صورتحال کے خلاف بغاوت کا اظہا ر ہے۔ تحریک کی کوئی انقلابی قیادت نہ ہونے کی وجہ سے وقتی طور پر جمہوریت پسند عناصرحاوی نظر آتے ہیں جن کا مقصد پھر ریاست سے مذاکرات کر کے اقتدار میں حصہ داری ہے۔ رواں سال نومبر میں لوکل باڈیز کے انتخابات ہونے جا رہے ہیں اور ریاست پوری کوشش میں ہے کہ موجودہ سیاسی ڈھانچے کو بچایا جا سکے۔ عوام براہ راست انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں اور قوی امکان ہے کہ آنے والے وقت میں یہ تحریک اپنا اظہار بڑے پیمانے پر چین کے اندر بھی کرے۔ اس تحریک میں طاقتور چینی محنت کش طبقے کی آمد پورے منظر نامے کو یکسر تبدیل کرتے ہوئے ایک نئے انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔