ظفراللہ

قیام پاکستان سے لے کر اب تک تمام وزرائے اعظم اور فوجی و سول حکمرانوں نے امریکہ کے دورے کیے ہیں۔ ان دوروں کا حتمی مقصد فوجی اور اقتصادی امداد کے حصول کیلئے عالمی سامراجی آقا کے ساتھ تعلقات کو استوار کر نا رہا ہے۔ عمران خان 43 ویں ملکی سربراہ ہیں جنہوں نے امریکہ کا دورہ کیا۔ اپنے آغاز سے ہی اس معاشی، اقتصادی اور دفاعی حوالے سے کمزور ریاست کو دنیا کی سب سے بڑی فوجی اور معاشی طاقت کی چوکھٹ پر اپنا ماتھا ٹیکنا ہی پڑا۔ اس پس ِ منظر میں پاکستانی سرمایہ داری کو چلانے کیلئے اس نظام کے سامراجی ان داتا سے ہمارے حکمرانوں نے جوا مداد حاصل کی وہ ایک ایسا زہر ِ قاتل تھی جس سے پاکستانی معیشت مسلسل سامراجی جکڑ میں دھنستی چلی گئی۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے بھی سرد جنگ کے آغاز میں سوویت یونین کی بجائے امریکہ کا دورا کیا اور معاشی اور فوجی امداد کی درخواست کی۔ بدلے میں امریکیوں نے بھی پاکستا ن میں سوویت یونین کے خلاف کاروائی کیلئے اڈے بنانے کی درخواست کی جو کہ مسترد کر دی گئی۔ اسی طرح حسین شہید سہروردی سے امریکی صدر آئزن ہاور نے سوویت یونین کے خلاف کاروائیوں کیلئے پشاور ائیر سٹیشن کی درخواست کی جس کی انہیں اجازت دے دی گئی۔ بعد ازاں اِسی ہوائی اڈے سے ’امریکی B-2‘ جاسوس طیارے کی اُڑان کے کچھ دیر بعد سوویت یونین نے اسے مار گرا یا، پائلٹ کو قیدی بنا لیا، پوری دنیا میں امریکہ کو ذلیل کیا اور پاکستان کو دھمکی دی کہ وہ پشاور کا نام و نشان صفحہ ہستی سے مٹا دے گا۔ اس کے بعد یہ اڈہ امریکہ سے واپس لینا پڑا۔

پاکستان کے فوجی صدر ایوب خان کے جان ایف کینیڈی کے ساتھ گہرے مراسم تھے۔ کہتے ہیں کہ امریکی خاتون اول جیکولین کینیڈی ہزارہ کے اس خوبرو پاکستانی فوجی صدر کی شخصیت کے سحر میں مبتلا تھی۔ دونوں ملکوں کے یہ عظیم تعلقات صدر ایوب کی کتاب ”فرینڈزناٹ ماسٹرز“ کی شکل میں ہمارے سامنے ہیں۔ اس کے بعد یحییٰ خان اور بھٹو کے ادوار میں پاک امریکہ تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتے رہے۔ لیکن امریکیوں کو پاکستان کی جیو سٹرٹیجک ضرورت سب سے زیادہ افغانستان میں ثور انقلاب اور پھر سوویت مداخلت کے بعد محسوس ہوئی۔ جہاں سے پھر ایک خونریز ڈالر جہاد کا آغاز کیا گیا اور اس کے بھیانک اثرات آج بھی خطے کے دونوں ممالک کے معاشروں میں موجود ہیں۔ سامراجی جارحیت اور اس وقت کے نام نہاد مجاہدین اور بعد کے دہشت گردوں نے دونوں ملکوں کے عوام کو اس تباہی سے دوچار کیا۔ جس سے یہ بدقسمت ملک تاراج ہوئے اور افغانستان کو واپس پتھر کے دور میں دھکیل دیاگیا۔

بدلے میں معاشی اور اقتصادی امداد سے پاکستان کی سرکاری اشرافیہ نے دولت کا بھرپور اجتماع کیا۔ پاکستان کو انڈیا کے معاملے میں فوجی امداد مہیاکی گئی جو کہ امریکہ کے افغانستان میں اپنے عزائم کی مکمل تکمیل کیلئے مجبوری تھی۔ جنرل ضیا کی موت اور افغان ڈالر جہاد کے خاتمے کے بعد امریکیوں نے پاکستان سے منہ پھیر لیا۔ ضیادور میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر خاموشی اختیار کیے ہوئے امریکہ نے 1990ء میں پاکستان کی اقتصادی اور فوجی امداد اور خرید و فروخت پر سخت پابندیاں عائد کر دیں اور ایٹمی پروگرام ترک کرنے کو کہا۔

بے نظیر دور میں سفارتی کوششوں کے نتیجے میں پابندیاں کچھ نر م پڑیں تو 1998ء میں نواز حکومت کی طرف سے ایٹمی دھماکوں کے نتیجے میں کلنٹن انتظامیہ نے پھر پابندیاں عائد کر دیں۔ لیکن اسی سال 4 جولائی 1998ء کو نواز شریف کے امریکی دورے کے دوران ان پابندیوں کو ختم کر دیا گیا۔

1960ء کی دہائی میں چین کی طرف رجوع کرنے سے بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ چونکہ امریکہ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے اور سامراجی ان داتا سے دشمنی مول لینا ناممکن ہے۔ نتیجتاً پاکستان کے حکمرانوں کو 1947ء کی نام نہاد آزادی کے باوجود بھی حقیقی آزادی نصیب نہیں ہوئی۔ جب تک معاشی اور اقتصادی ترقی اور خود مختاری کسی ملک کو حاصل نہیں ہوتی‘ سامراجی تسلط میں اس ملک کی آزادی بے معنی رہتی ہے۔ جس کی قیمت کروڑوں غریب لوگوں کو مہنگائی، غربت، بے بسی اور لاچارگی کی شکل میں ادا کرناپڑتی ہے۔

دوسری مرتبہ امریکہ کو پاکستان کی زیادہ ضرورت 9/11 کے واقعے کے بعد پیش آئی جب اسے طالبان حکومت کے ساتھ مذاکرات میں اسامہ بن لادن کی حوالگی کی ناکامی کے نتیجے میں حملے کی ضرورت پڑی۔ بعد ازاں جنرل پرویز مشرف نے کہا تھا کہ”ہمارے پاس امریکی احکامات ماننے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کیونکہ ہمارے اس ’عظیم دوست‘ نے ہمیں تعاون نہ کرنے کی صورت میں واپس پتھر کے دور میں پھینکنے کی دھمکی دی تھی۔“ پرویز مشرف نے اپنے 10 سالہ دورِحکومت میں کسی بھی پاکستانی حکمران کے مقابلے میں سب سے زیادہ امریکی دورے کیے اور بے بہا فوجی اور اقتصادی امداد حاصل کی۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان نے کولیشن سپورٹ کی مد میں بیس ارب سے زائد کی رقم وصول کی۔ اُس وقت پرویز مشرف امریکہ کی آنکھ کا تارا تھا اور اُس نے اس مجبوری والے بلادکار کو خوب انجوئے کیا۔

ان 72 سالوں میں ایک بات بہت واضح ہے کہ جب بھی امریکہ کو پاکستان کی جیو سٹرٹیجک حوالے سے ضرورت پڑی تو اس نے پاکستان کی ہر معاشی و فوجی امداد بحال کی اور پابندیاں بھی ہٹالیں۔ لیکن خطے میں اپنے مقاصد پورے ہونے کے بعد نہ صرف یہ کہ یہاں سے آنکھیں پھیر لیں بلکہ اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار یہاں کے گماشتہ حکمرانوں کو ٹہراتے ہوئے دوبارہ پابندیاں لاگوکرنے کے ساتھ ساتھ امداد بھی بند کی جس سے پاکستان کا لاغر حکمران طبقہ اور اس کی کمزور معیشت گہرے بحران میں چلے گئے۔

آج کی کمزور اور حد سے زیادہ سامراجی امداد پر انحصار کرنے والی اس ریاست کی یہ کیفیت ہے کہ اپنے جنم سے لے کر اب تک کے 72 سالوں میں معاشی اور اقتصادی خود مختاری حاصل کرنا تو دور کی بات‘اپنی بقا کے چکر میں انہی سامراجیوں کا منت ترلہ کرنا پڑتا ہے۔

عمران خان کے حالیہ امریکی دورے کی میڈیا پربڑے پیمانے کی تشہیر کی گئی اور ایسا باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ جیسے یہ کسی بھی پاکستانی حکمران کا آج تک کا سب سے اہم اور ناگزیر دورہ تھا۔ اس دورے کے بھیانک نتائج آنے ابھی باقی ہیں۔ ایک کمزور معیشت کے غلام حکمرانوں کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ ہمیشہ طاقتور سامراج کی چاپلوسی کے ذریعے اپنی بد نصیب اور برباد عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسی میں ہی ان کی نجات پوشیدہ ہے اور ان کے مسائل کا حل موجود ہے حالانکہ:

ہر راہ جو ادھر سے جاتی ہے مقتل سے گزر کر جاتی ہے

یہاں کے کٹھ پتلی وزیر اعظم کا امریکہ میں یہ دورہ کم‘ امریکی سامراج پر مسلط جوکر کا بلاوہ زیادہ تھا۔ کیونکہ تاریخ کی یہ دیوہیکل معاشی اور فوجی مشین افغانستان کی دلدل میں بری طرح پھنسی ہوئی ہے۔ اسے باعزت واپسی کا راستہ چاہیے جو پاکستان کی فوجی و سول اشرافیہ کی حمایت کے بغیر بہت مشکل ہے۔ پاکستان کے گماشتہ حکمرانوں کو ایک مرتبہ پھر امریکی دلالی کرتے ہوئے طالبان سے ڈیل طے کرانی ہے۔ جو بالآخر کسی منطقی انجام کی طرف بڑھے گی کیونکہ افغان طالبان نے افغان حکومت کے ساتھ براہ ِراست مذاکرات سے انکار کر دیا ہے۔ افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان طاقت اور علاقوں میں حکمرانی کی تقسیم کے فارمولے طے ہونے ابھی باقی ہیں جو کہ یہاں کے حکمران امریکہ کی مدد سے کریں گے۔

اسی طرح پاک چین تعلقات اور سی پیک کے حوالے سے امریکی سامراج خوش نہیں ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے ایک سال پہلے کھلم کھلا سی پیک کی مخالفت کی تھی اور اس حوالے سے پاکستان کے کردار کو تنقید کا نشانہ بنا یا تھا۔ چین اور امریکہ کے مابین حالیہ تجارتی جھگڑوں کے پس ِمنظر میں امریکہ نے پاکستان پر پاک چین تعلقات کے حوالے سے دباؤ ڈالا ہو گا۔ امریکی سامراج کے پاس دباؤ کے کئی ہتھکنڈے ہیں۔

پوری دنیا پر بلا شرکت غیر حکمرانی کرنے والوں کے پاس کئی سامراجی ادارے ہیں جو غریب ممالک کا گلہ دبانے کیلئے کافی موثر ہیں۔ پاکستان پر بھی ’FATF‘کی طرف سے گزشتہ دو سالوں سے سخت دباؤ ہے اور پابندیوں کے نتیجے میں اس کو انتہائی سنگین نتائج بھگتنے پڑ سکتے ہیں۔ اسی طرح آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دوسرے مالیاتی ادارے امریکی کنٹرول میں ہونے کی وجہ سے دباؤ کا اوزار بن جاتے ہیں۔

آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان حالیہ مذاکرات اور قرضوں کی منظوری وہ جال ہے جس میں پاکستانی معیشت مزید دھنستی چلی جائے گی۔ جس کے بھیانک سماجی اثرات پہلے سے ہی ناتواں ملک کو مزید بحران میں ڈالنے کا موجب بنیں گے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ اس سب کی قیمت یہاں کے محنت کشوں اور غریب عوام کو ہی بجلی، گیس اور دوسری بنیادی ضروریات کی عدم دستیابی و مہنگائی، ٹیکسوں میں اضافے اور قرضوں کی واپسی سمیت کئی نئی معاشی مشکلات کی صورت میں چکانی پڑے گی۔

تاریخ گواہ ہے کہ حکمران ایک وقت میں سماج سے اتنے لاتعلق اور بیگانہ ہو جاتے ہیں کہ جہاں وہ اپنی خوشیوں اور کامیابیوں کے جشن منا رہے ہوتے ہیں وہاں عوام کے دلوں میں بغاوت کی چنگاریاں سُلگ رہی ہوتی ہیں۔ ایسے امکانات ہیں کہ اس کٹھ پتلی حکومت کے عوام دشمن اقدامات محنت کش طبقے کے اجتماعی شعور میں ایسی تبدیلیوں کا موجب بنیں کہ جس سے یہاں کی پسی ہوئی مخلوق ایک سماجی انقلاب کو ہی اپنی نجات کا واحد راستہ سمجھے اور اس تاریخی فریضے کی جانب بڑھے۔