لال خان

کرہِ ارض پر نسل ِ انسان کی وسیع تر اکثریت ذلت، محرومی، ریاستی و غیر ریاستی دہشت گردی اور خونریزی کی کھائی میں دھنستی چلی جارہی ہے۔ حکمران طبقات اور کارپوریٹ میڈیا شدت سے نان ایشوز پر مبنی نسلی، مذہبی، قومی اور دوسرے رجعتی تعصبات کو ابھار کر محنت کش عوام میں پھوٹ اور منافرتیں پھیلا رہے ہیں۔ آج کی شناخت(Identity) کی سیاست حکمرانوں کی ناکامی اور نظامِ زر کی معاشرے کو ترقی دینے کی نااہلی کی غمازی کرتی ہے۔ ساتھ ہی جبر کی نئی انتہائیں اور زہریلی وارداتیں بھی بڑھتی جارہی ہے۔ سچ لکھنا بند کروا دیا گیا ہے۔ مزاحمت کو کچلنے کے لئے ریاستی دہشت نے نئی ترکیبیں اور عیاریاں اختیار کرلی ہیں۔ ایسے میں کارپوریٹ میڈیا جس مکاری سے حاکمیت کو مسلط کروا رہا ہے اسکے بڑے بڑے اینکر پرسنز کی بے ضمیری اور عوام کے معاشی قتل عام میں انکے ملوث ہونے کا انتقام تحریکیں لے کر چھوڑیں گی۔ آج جو جو ملوث ہے ان کا حساب کتاب بھی یہیں پہ ہوگا۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ دولت کا یہ نظام مزید چلنے کی سکت نہیں رکھتا اور لہو بہا کر اس کو زبردستی عوام پر مسلط کیا جارہا ہے‘ لیکن کب تلک! عالمی طور پر 2007-8 ء کے کریش کے بعد سرمایہ دارانہ بحالی کا یہ عہد انتہائی کمزور، کھوکھلا اور سماجی ترقی سے عاری رہا ہے۔ ”اکانومسٹ“اور ”وال سٹریٹ جنرل“ جیسے بورژوازی کے سنجیدہ جرائد سمیت مشہور بورژوا معیشت دانوں نے ان 11سالوں میں مسلسل زوال یا نئے کریش کے خوف بھرے تجزیے ہی پیش کیے ہیں۔ جس سے اس نظام ِ زر کے بارے میں انکے ماہرین اور نمائندوں میں پائی جانے والی بد اعتمادی ظاہر ہوتی ہے۔ اس عرصے میں اگر بڑا زوال نہیں آیا تو تمام تر معاشی پالیسیاں محض کریش اور زوال کو ٹالنے یا اس میں تاخیر پر مبنی نظر آتی ہیں۔ ان میں ایک ذریعہ قرضوں کا لاامتناہی سلسلہ تھا جس نے تاریخی طور پر ہر ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ سرمایہ داری کی اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسے ہوا ہے کہ آج کوئی ایساملک نہیں ہے جو مقروض نہ ہو اور اس میں قرضے اتارنے کی صلاحیت کا کوئی امکان ہو۔ اس اقدام کی وجہ یہ بھی بنی ہے کہ بڑے بڑے سرمایہ داروں نے اپنا سرمایہ لگانے کی بجائے قرضوں کے ذریعے معمولی سرمایہ کاری کی ہے۔ لیکن بعد از کریش کے دور کی ”بحالی“ والی یہ سرمایہ داری اتنی بیمار ہے کہ اب نئی صنعتی یا پیداواری سرمایہ کاری کی شرح بری طرح گر گئی ہے۔ آف شور کمپنیوں اور سرمائے کے چھپانے والے دیگر ٹھکانوں میں ملکی قرضوں کی نسبت نقد رقوم یا قیمتی نوادرات کی مقدار اور معیار کہیں زیادہ ہے۔ اب تو مصوری کے تاریخی فن پاروں سے لے کر سنگ تراشی کے قدیم نوادرات پر قرضے لینے کا رحجان مزیدابھر آیا ہے۔ صرف2017ء میں امریکی سیٹھوں نے اپنے جمع کردہ فن پاروں (جو اب اثاثوں میں تبدیل ہو چکے ہیں) پر 20 ارب ڈالر سے زائد کا قرضہ حاصل کیا۔ اس ”کالے“کاروبار میں اب مزید شدت آگئی ہے۔ مستند بنیادوں پر انکے جدیداعدادوشمارظاہر ہی نہیں ہوتے لیکن اس کاروبار کے سوداگروں اور ماہرین کے مطابق اس میں ڈبل ڈیجٹ اضافہ ہوا ہے۔ اب تو بینکوں اور سٹاک مارکیٹ کے بیوپاریوں نے بھی ان نوادرات پر قرضوں کے لین دین میں زیادہ توجہ دینا شروع کردی ہے۔

آج سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کی اہم ترین وجوہات میں سے ایک سرمایہ کاری کا سکڑ جانا اور اس میں تنزلی کی روش ہے۔ سرمایہ داری کا کلاسیکل انداز اب ناقابل عمل ہے۔ محنت پر مرکوز عالمی سرمایہ کاری اب نہ ہونے کے برابر ہے۔ منافعوں میں بڑھوتری اور اجرتی اخراجات میں کمی کے لیے مستقل سرمائے (جدید ٹیکنالوجی، مشینری اور آٹومیشن وغیرہ)پر سرمایہ کاری کا رحجان بھی اب ماند پڑ چکا ہے، جس کا اس صدی کے پہلے چند سالوں میں بڑی شدت سے آغاز ہوا تھا۔ اسکی بنیادی وجہ یہی ہے کہ بہت وسیع پیمانے پر بیروزگاری اور پھر منڈی کے سکڑنے سے کریش اور شرح منافع کی شدید گراوٹ کا خطرہ پورے نظام کو لاحق ہوگیا تھا۔ لیکن مختلف ہتھکنڈوں اور ٹریڈیونین کی مزدور تحریک کی کمزوری کو استعمال کرتے ہوئے حکمرانوں نے مزدوروں کی اجرتوں کو نہ صرف جامد رکھا بلکہ ان میں مزید کٹوتیاں بھی کی گئیں۔

ٹھیکیداری نظام اور دیگر ہتھکنڈوں کے ذریعے مزدوروں کے حقوق پر بڑے حملے اب بھی جاری ہیں۔ امریکہ میں بیروزگاری کی سرکاری شرح میں کمی نہ ہونے کے باوجودمزدوروں کے معیار زندگی اور اوقات کار کی کیفیتں مزید اذیت ناک ہوگئی ہیں۔ ہر طرف غربت میں اضافہ ہواہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی غربت بڑھی ہے اور غریب ممالک کی طرح یہاں بھی غربت کے ناپ تول کے لئے عیارانہ معیار لاگو کر کے معیاز زندگی میں گراوٹ کو چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ گو مزدور تحریک کے خوف کی وجہ سے حکمران طبقات پچھلے70 سال کی جدوجہد سے حاصل کردہ عوامی مراعات کو اتنی تیزی سے ختم نہیں کرسکے لیکن پھر بھی عیارانہ حملے جاری ہیں۔

سرمایہ دارانہ نظام عوام کو حاصل ان سہولیات کا ”بوجھ“ اٹھانے کے قابل نہیں رہا ہے۔ جبکہ عالمی تجارتی تنازعات، محصولات اور قومی تحفظاتی پالیسیوں کا ابھار اس گلوبلائزیشن کی نفی کررہا ہے جسکی بنا پر خصوصی طور پر 1990ء کی دہائی کے بحرانوں سے سرمایہ داری نے عارضی چھٹکارا حاصل کیا تھا۔

آج دنیا کی پہلی اور دوسری سب سے بڑی معیشتوں‘ امریکہ اور چین کے درمیان ایک تجارتی جنگ کا آغاز ہوچکا ہے۔ چونکہ دونوں طاقتوں کے اقتصادی معاملات بھی ایک دوسرے سے گہرائی میں وابسطہ ہیں اس لیے یہ تجارتی جنگ ماضی کی جنگوں سے قدرِ مختلف ہے۔ یہ جہاں تجارتی جنگ ہے وہاں ٹیکنالوجی کی لڑائی بھی ہے۔

اس کو ایک ”نئی سرد جنگ“ کا نام بھی دیا جارہا ہے۔ دونوں ممالک نے تجارتی پابندیاں بڑھا دی ہیں اور انکی برآمدات گر گئی ہیں۔ یہ لڑائی اتنی متضادہے کہ جب یہ اس تجارتی جنگ سے نکلنے کے لئے مذاکرات کررہے ہوتے ہیں تواسی دوران یہ ایک دوسرے کی کمپنیوں کو بلیک لسٹ بھی کررہے ہوتے ہیں۔ اس سے دنیا کی نئی تقسیم کو جنم دینے والی ایک نئی آہنی دیوار کھڑی ہوسکتی ہے۔ لیکن تجارتی جنگ کے آغاز کے بعد چینی اور مغربی سامراجیوں کے درمیان مالیاتی روابط بڑھ رہے ہیں اور یہ مزید گہرے ہونگے۔ اس کیفیت میں چینی حکمران بیرونی مالیاتی اجارہ داریوں کو چین میں کہیں زیادہ مراعات دے رہے ہیں۔ 2018ء کے وسط سے ان کو ملکیت کا 51 فیصد حصہ رکھنے کی اجازت مل گئی ہے۔ 2020ء تک مکمل ملکیت کی اجازت کی بازگشتیں بھی ہو رہی ہیں۔ اس مالیاتی تعاون سے مغربی سرمایہ داروں کے چین کی معیشت میں 75 ارب ڈالر ہیں۔ چین نے یہ رعایتیں اس لیے بھی دی ہیں کہ ماضی کی نسبت آج چین کو بیرونی مالیاتی ذخائر کی کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ 2007ء میں چین میں موجود زر مبادلہ کے ذخائراسکے ’GDP‘ کا 10 فیصد تھے‘اب ایک فیصد سے بھی کم پر ہیں۔ اگر یہ بیرونی سرمایہ نہیں آتا تو چینی یوہان (کرنسی) عدم استحکام کا شکار ہو کر تیزی سے گر جائے گا۔ امریکہ اور یورپ میں قدامت پرست سخت گیر حکمران چین کے خلاف مزید پابندیوں کا پرچاکررہے ہیں۔ لیکن گھاگ مغربی معیشت دان چین کی ان رعایتوں اور سرمائے کی کھپت کو ”لندن سٹی“ اور ”وال سٹریٹ“ کی منڈیوں کے لیے مدد گار قرار دے رہے ہیں ۔

اگر سخت گیروں کے تحت امریکی ریاست چین کو عالمی مالیاتی نظام سے الگ کردیتی ہے تو چین 1945ء سے ڈالر پر مبنی عالمی مالیاتی نظام کامتبادل نظم ونسق تعمیر کرنے پرمجبورہوگا۔ تجارت اور ٹیکنالوجی پر متحارب رحجانات رکھنے کے باوجود چین کا مغربی سرمایہ کاروں کو مراعات دینا درحقیقت عالمی سرمایہ داروں کے تحفظ کی ہی کاوش ہے۔ جہاں یہ مغربی سامراجیت سے تصادم ہے وہاں یہ پالیسی مفاداتی مفاہمت کو بھی جنم دیتی ہے۔ اقتصادی عالمگیریت نے ایک طرف گرتی ہوئی معیشتوں کوایک دوسرے سے منسلک کردیا ہے جبکہ سرمایہ داری کا موضوعی بحران انہی طاقتوں کے درمیان تجارتی، ٹیکنالوجی، سفارتی اور بلواسطہ پراکسی عسکری جنگوں کو ابھار رہا ہے۔

عالمی سامراجی ماہرین جتنی بھی کوششیں اور ترکیبیں ایجاد کرلیں‘نظام کی تاریخی متروکیت اور اقتصادی دیوالیہ پن کرہ ارض پر عدم استحکام، غربت، محرومی، خونریزی اور بربادی کے علاوہ کچھ نہیں دے سکتی۔