لال خان

پرانے قرضوں کے جرم پر واویلے کی انتہا ہے۔ نئے قرضوں کے بڑھتے ہوئے حجم پر جشن ہیں۔ ان خوشخبریوں پر حکمرانوں کے نمائندے پھولے نہیں سما رہے۔ مہنگائی کا ’سونامی‘ معاشرے میں تباہی اور بربادی پھیلا رہا ہے۔ لیکن حکمرانوں کے دعوے ہیں کہ عوام اس اذیت ناک مہنگائی سے نہ صرف بے بہرہ بلکہ خوش ہیں کیونکہ ان کی زندگیاں برباد کرنے والی ”کرپشن“ کے خلاف حکمران تاریخی مہم چلا رہے ہیں۔ لیکن کرپشن کے محض ریٹ بڑھے ہیں۔ سرمایہ داری نظام کی ضرورت اور بقا کا یہ ناسور مزید گہرا اور وسیع ہو گیا ہے۔

دنیا بھر میں یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ہر آمرانہ طرز حکومت کے دور میں بدعنوانی میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ پاکستان میں یہ فن اتنا ترقی کرگیا ہے کہ کرپشن کے ذریعے اقتدار حاصل کرنیوالے کرپشن کے خلاف سب سے زیادہ شور مچا کر اپنی کرپشن کو ہی فروغ دینے کی واردات کر رہے ہیں۔ پاکستانی سرمایہ داری پہلے سے ہی کھوکھلی ہے۔ ظاہری اعدادوشمار میں ترقی کے آثاربھی محض سطحی ہی تھے۔ لیکن پی ٹی آئی حکومت کے نومولود معیشت دانوں نے جب اپنی پیٹی بورژوا قوم پرستی میں زیادہ حب الوطنی کے ناٹک سے اس معیشت کو چلانے کی کوشش کی تو اس نالائقی نے کھوکھلی معیشت کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا۔

سرمایہ داری میں رہنا ہے تو سامراجی مالیاتی اداروں کی محکومی قبول کرنی پڑتی ہے۔ ایسے میں کیسی حب الوطنی، کیسی ملکی سا لمیت اورکیسی قومی خود داری؟ یہ تو وہ فریب ہیں جن پر پی ٹی آئی کی نظریات سے عاری قیادت اس حاکمیت میں معاشی بحران کو شدید تر کرنے کا موجب بنی ہے۔ اب تو طاقت کے سرچشموں سے بھی یہ بیان آرہے ہیں کہ ”قومی خود مختاری معاشی آزادی سے ہی حاصل ہوسکتی ہے۔ “

جہاں سامراجی استحصال اور آئی ایم ایف جیسے اداروں کی لوٹ مار کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے وہاں ان ’انجینئرڈ‘ حکمرانوں کی پیٹی بورژوا بچگانگی نے معاشی قتل عام کے ساتھ سماجی کہرام برپا کر دیا ہے۔ جونیجو سے زیادہ وفادار عمران خان کہیں زیادہ نااہل بھی ثابت ہوا ہے۔ لیکن اس نااہلی نے جہاں عوام کو عذاب میں مبتلا کردیا ہے وہاں اس کی سیاسی شکل ایک ایسے جبر کی صورت میں سامنے آئی ہے جہاں ہر سنجیدہ تنقید کا گلا گھونٹ دینے کی روش اپنی انتہاؤں پر ہے۔

ہر سیاسی تحریک اور رحجان کو تابع کرنے کا عمل جاری ہے۔ اس تسلط کو مسلط کرنے کے جنون سے ملک میں فسطائیت کا آسیب چھا رہا ہے۔ مروجہ سیاست کے کھلاڑیوں کے لئے بھی اب تنقید کا حاشیہ سکڑ گیا ہے۔ لیکن چونکہ یہ حکمران طبقات کے ہی مختلف دھڑے ہیں اس لئے یہاں کی حاکمیت کو ان سے کوئی بڑا خطرہ نہیں۔ پھر بھی نواز شریف، آصف زرداری اور رانا ثنا اللہ وغیرہ کی گرفتاریاں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ حکمران طبقات کے درمیان تضادات اب تصادم کی شکل اختیار کرگئے ہیں۔ لیکن اس تصادم نے ابھی تک خونریزی شکل اختیار نہیں کی۔ اگرحکمرانوں کی باہمی لڑائی میں یہ وحشت جاری رہتی ہے تو ان کے اپنے نظام کو خطرات لاحق ہونگے۔

اس وقت حکمران طبقات کا نودولتی دھڑا برسر اقتدار لایا گیا ہے۔ کالے دھن کے اَن داتا یا تو خود براہِ راست اقتدار پر براجمان ہیں یا پھر ان کے فنانس کردہ نمائندے اعلیٰ وزارتوں پر فائز ہیں۔ عمران خان کا متواتر اصرار کہ”فوج ہمارے ساتھ ہے“ اس بالادست دھڑے کی نفسیات کی غمازی کرتا ہے۔ جمہوریت وغیرہ ان کے لئے محض نعرے ہیں۔ یہ اندھے اور ننگے جبر کے ذریعے عوام کو کچل کر اپنی دولت اور طاقت کے تسلط اور بڑھوتی کی نفسیات رکھتے ہیں۔

درمیانے طبقے کی شورش زدہ حمایت پر مبنی ایسی ہی پارٹیاں اور لیڈر فسطائیت کی تاریخ میں بھرے پڑے ہیں۔ لیکن درمیانے طبقے کی متزلزل سوچ کی طرح انکے عروج کے عرصے بھی محدود ہی رہے ہیں۔ ایسی تبدیلیوں کی ناگزیر ناکامی جلد ہی عروج کو زوال میں بدل دیتی ہے۔ معاشرے میں درمیانے طبقے کے مبلغ سیاستدان اور مقامی چوہدری، خان، وڈیرے، سردار، زمیندار، غنڈہ گرد عناصر اور سماجی و اخلاقی معیاروں کے ٹھیکیدار اس نیم فسطائیت کی بنیادیں بنے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ عارضی ہیں۔

محرومی کے زخموں پر اس حاکمیت کے لگائے جانے والے گھاؤ محروموں کے اندر درد کو بہت بڑھا رہے ہیں۔ ایک نفرت بھی بڑھ رہی ہے لیکن ابھی تک بغاوت کی شکل میں نہیں بھڑکی۔ طبقاتی سیاست کی عارضی پسپائی اور بائیں بازو کی وقتی کمزوری بھی اس کی تاخیر میں اہم عنصرہے۔ لیکن کارپوریٹ میڈیا کا بھی ایک اہم کردار ہے۔ مگریہ بھی حقیقت ہے کہ ذرائع ابلاغ ایک وقت اور ایک عرصے تک تو عوام کا غم و غصہ زائل کروا سکتے ہیں لیکن حتمی طور پر اس کو دبا نہیں سکتے۔ کارپوریٹ میڈیا کے آزادی صحافت کی اصلیت جتنی پچھلے عرصے میں بے نقاب ہوئی ہے اتنی تو پچھلی کئی دہائیوں میں آشکار نہیں ہوئی۔

اوپر کی سیاست میں فسطائی ہتھکنڈوں کا کردار بھی طبقاتی بنیادوں پر متفرق ہے۔ کرپشن کے الزامات میں قید قومی اسمبلی کے ممبران کے پروڈکشن آرڈر تو فوری طور پر آجاتے ہیں۔ لیکن اس طبقے کے سیاسی کلب سے باہر کے ممبران کے پروڈکشن آرڈر پربات کرنا بھی بتدریج انداز میں بند کروا دیا گیا ہے۔ علی وزیر اور محسن داوڑ کے نام تک شجر ممنوعہ بنا دیے گئے ہیں۔ ان کی حمایت میں لکھا گیا کوئی بھی جملہ چھپائی کے عمل میں الٹ ہو کر ان پر تنقیدمیں تبدیل ہو جاتا کرتا ہے۔ راقم کا اپنا مضمون بھی اس ملاوٹ کی زد میں آنے سے بچ نہ سکا۔ اپوزیشن میں اگر بلاول بھٹو ان کے لئے آواز اٹھائی تو یہ آواز بھی فسطائیت کی دیواروں سے ٹکرا کر ماند پڑنے لگ گئی ہے۔ لیکن نواز لیگ تو ان کے نام لینے سے بھی گریزاں رہی۔ اس مسئلے پر شاید شہباز شریف اور مریم نواز دونوں حکومت کے ساتھ ہیں۔

اپوزیشن کا احتجاج بھی اس سسٹم کے اندر ہی مسدود ہے۔ پیپلز پارٹی، ن لیگ اور دوسری مذہبی و قوم پرست جماعتوں پر مبنی اپوزیشن کا اس حاکمیت سے اختلاف نظام کا نہیں ہے بلکہ اس کو چلانے کے طریقہ کار کاہے۔ لیکن بنیادی خرابی نظام کی ہے۔ ظاہری طور پر اپوزیشن پارٹیوں کے مطالبات حقیقی جمہوریت، اداروں کی عدم مداخلت، ووٹ کی عزت (ووٹرکا پتہ نہیں!) اور سویلین سپرمیسی وغیرہ کے ہیں۔ لیکن موجوہ نظام جس نہج پر پہنچ چکا ہے وہاں مسلسل عوام کے لہو کی بلی مانگتا ہے۔ یہاں کی سرمایہ داری کی حالت کو دیکھیں تو اس نظام میں یہ جمہوری مطالبات بھی بالکل غیر حقیقی بن جاتے ہیں۔

مشکل اقدامات کی ناگزیریت کا ذکر تو آرمی چیف سے لے کے عمران خان تک سب کر رہے ہیں۔ لیکن یہ”مشکل اصلاحات“ ہیں کیا؟ آئی ایم ایف کونسے ٹھوس اقدامات کروا رہا ہے؟ ان میں مہنگائی، مزیدبلواسطہ ٹیکسیشن، نجکاری، سرکاری سبسڈیوں کا خاتمہ، لیبر قوانین کا سرمایہ داروں کے تابع کیا جانا، ملازمتوں میں ٹھیکیداری نظام اور دیگر ایسے تلخ اقدمات شامل ہیں جو محنت کش طبقے کی زندگیوں کو مزید مشکل ہی بنا رہے ہیں۔ نواز شریف حکومت کا ایک جرم یہ بھی تھا کہ اس میں یہ”دلیرانہ اقدامات“ کرنے کی جرأت و صلاحیت نہیں تھی۔ دیسی بدیسی آقاؤں کا اصل غم و غصہ یہی تھا۔ نواز شریف کی برطرفی کے بعد پھر ایک نیم جمہوریت بھی نظام کے لئے ناقابل برداشت تھی۔ عمران خان جیسی ڈھیٹ اور مطیع قیادت کی ضرورت بھی اسی لئے تھی کہ فسطائی ہتھکنڈوں کو وہ اس وحشت سے مسلط کرسکے کہ سرمائے کی کالی دیوی کی خونی ہوس پوری ہو۔

پاکستانی سرمایہ داری کی خستہ حالی اتنی شدید ہوگئی ہے کہ وہ کسی نیم جمہوریت کی بھی متحمل نہیں ہوسکتی۔ اس نظام کو چلانے کے لئے حکمرانوں کے پاس اسی جمہوریت کے چیتھڑوں میں لپٹی نیم فسطائی حاکمیت ہی بچی ہے۔ لیکن یہی وحشت اور ظلم و بربریت عوام کو کچلنے کی بجائے ایک انقلابی بغاوت کو جنم دینے والی اشتعال انگیزی بھی بن سکتی ہے۔