لال خان

پاکستانی حکمرانوں کا اپنے بھارتی ہم منصبوں کو لکھا گیا ایک اور خط بھی وہی پیام دے رہا ہے جو پچھلے 72 سال سے ایسی خط وکتابت میں دیا جاتا رہا ہے۔ محض ترسیل کے ذرائع بدل گئے ہیں۔ دو طرفہ بحرانات میں اضافہ ہی ہوا ہے۔

”دونوں ممالک کو مل کر غربت کے خلاف جنگ لڑنے کی ضرورت ہے“ کا فقرہ جو اس خط میں تحریر کیا گیا ہے سب سے پہلے شاید جواہر لال نہرو نے استعمال کیا تھا۔ مذاکرات کی ایک اور پیشکش اور امن کی خواہش کااظہار بھی نیا نہیں ہے۔

1947ء میں جب برصغیر کا بٹوارہ ہوا اور یہاں کے مقامی حکمران طبقات کی انگریزوں کیساتھ مفاہمت کے ذریعے جو آزادی حاصل ہوئی اس میں سامراجی ماہرین اور پالیسی ساز اداروں کی شرائط حاوی تھیں۔ کانگریس اور مسلم لیگ کے ”اختلافات“ کو استعمال کرتے ہوئے سامراجیوں نے ایسے نازک اور متنازعہ عناصر جان بوجھ کر چھوڑے جو تنازعات کا باعث بنتے رہیں۔ اس سے جو مسلسل عدم استحکام پیدا ہوا اس میں سامراجی تسلط اور استحصال بھی جاری رہا۔

یہاں کی طفیلی سرمایہ داری اتنی کمزور اور بدعنوان تھی کہ حکمران طبقات سامراجی قوتوں کے کاسہ لیس اور کمیشن ایجنٹ ہی رہے۔ ان کے اسی رجعتی کردار کی وجہ سے پاکستان اور بھارت دونوں ممالک میں صنعتی انقلاب برپا نہیں ہو سکا۔ نتیجتاً دنوں ممالک جدید اور یکجا قومی ریاستیں نہیں بن سکے۔ بلکہ مغربی طرز کی ترقی یافتہ اور کلاسیکی ریاستوں کی مسخ شدہ شکلیں بن کے رہ گئے۔

انگریز سامراج کے چھوڑے ہوئے تنازعات کو حل کرنے کی بجائے برصغیر کے حکمرانوں نے انہیں اپنے مفادات کے تحت مزید بھڑکایا۔ ان میں سرفہرست کشمیر کے عوام پر لگائے گئے بٹوارے اور قبضے کے زخم تھے جو آج بھی رس رہے ہیں۔

برصغیر کے معاملے میں حبیب جالب کا یہ سوال بہت معقول ہے کہ ”ظلم رہے اور امن بھی ہو؟“

درحقیقت یہاں جبر و استحصال کے خاتمے کے بغیر امن اور استحکام کبھی ممکن ہی نہیں تھا۔ یعنی امن سے ترقی نہیں آئے گی بلکہ ترقی سے امن آئے گا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہاں کی بوسیدہ سرمایہ داری کے تحت کوئی دیرپا، ہموار اور دوررس ترقی ان سماجوں میں ممکن نہیں ہے۔

یہاں کے حکمران طبقات جس نظام کے نمائندے اور کارندے ہیں اسے چلانے کے لئے عوام پر ظلم و استحصال جاری رکھنا ناگزیر ہوتا ہے۔ اور اپنی انہی پالیسیوں کو جاری رکھنے کے لئے انہیں دوستی و دشمنی، جنگ و امن، کشیدگی و مذاکرات کے ناٹک قسط وار چلانے پڑتے ہیں۔

جناح، نہرو اور ابوالکلام آزاد جیسے رہنماؤں کا خیال تھا (یا کم از کم خواہش تھی) کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان امریکہ اور کینیڈا جیسے تعلقات ہوں گے۔ آج بھی یہاں کے لبرل حلقے یورپی یونین کی طرز کے بارڈر استوار کرنے کے خواہشمند نظر آتے ہیں۔ لیکن ان خطوں کے تاریخی ارتقا اور پس منظر میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ مغرب کے ان ترقی یافتہ ممالک کا آج جو بھی حال ہو (یورپی یونین ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور ٹرمپ امریکہ کے گرد آہنی دیوار کھڑی کرنا چاہتا ہے!) لیکن ماضی میں وہاں جو صنعتی اور قومی جمہوری انقلابات برپا ہوئے ان سے وہ معاشی بنیادیں کسی حد تک قائم ہو سکیں جن پر مستحکم سیاسی اقتدار اور سفارتی تعلقات کی استواری ممکن تھی۔

لیکن یہاں کے حکمرانوں کو نوآبادیاتی آقاؤں کی پیوند کردہ جو سرمایہ داری ورثے میں ملی وہ روزِ اول سے ہی اپاہج اور سامراجی بیساکھیوں کی محتاج تھی۔ برصغیر کی ریاستیں انقلابات کے ذریعے نہیں بلکہ ایک ردِ انقلاب کے نتیجے میں قائم ہوئیں۔ اس نظام میں یہاں کے معاشروں کو مغرب جیسی ترقی اور استحکام دینے کی صلاحیت نہیں تھی۔ اور جب جب اس نظام کا بحران داخلی طور پر بڑھا یا اس کے خلاف نیچے سے بغاوتوں کے خطرات نے جنم لیا‘ حکمرانوں نے بیرونی تضادات کو ابھارنے کی روش اپنائی۔ بٹوارے کے زخموں کو دوبارہ کریدا گیا، طبقاتی تضادات کو زائل کرنے کے لئے قومی اور مذہبی تضادات کو ہوا دی گئی۔ کبھی جنگی حالات پیدا کیے گئے اور کبھی نوبت واقعی جنگوں تک آن پہنچی۔

بیرونی تضادات ابھارنے کی اس پالیسی کا مقصد عوام کی توجہ ان کے بنیادی مسائل و محرومیوں سے منتشر کروانا رہا ہے۔ تاکہ وہ اپنی نجات کی جدوجہد سے منحرف ہو کر‘ قومی شاونزم، مذہبی تعصب اور جنگی جنون کا شکار ہو کر استحصالی حاکمیتوں کو برداشت کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ ہندوستان کے حالیہ انتخابات میں نریندرا مودی اور بی جے پی نے یہ واردات ایک دیوہیکل پیمانے پر کی ہے۔

سات دہائیوں میں اس خطے کے حکمران طبقات اور ان کے سیاسی و سرکاری نمائندے انگریز سامراج کے لگائے ہوئے زخموں کو محض کریدتے چلے آئے ہیں۔ ساڑھے تین جنگیں ہوئی ہیں۔ بے شمار مرتبہ جنگی صورتحال پیدا ہوئی ہے۔ اس جنگی جنون اور اسلحے کی دوڑ نے وسائل کا بے پناہ زیاں کیا اور مزید غربت، تشدد اور محرومی کو جنم دیا۔ پھر درمیانی عرصوں میں مذاکرات (بلکہ مذاکرات کیلئے مذاکرات) کے کئی ادوار بھی آئے۔ تاشقند سے لے کر شملہ اور لاہور سے لے کر آگرہ تک کے مصنوعی معاہدے بھی ہوئے۔ لیکن ایسے ہر دور کے بعد صورتحال ماضی سے زیادہ ابتر ہوتی چلی گئی ہے۔

پچھلی کچھ دہائیوں سے کھلی جنگ کی بجائے ”حالت جنگ“ کی پالیسی کو پروان چڑھایا گیا ہے۔ دونوں ممالک نے ایٹمی دھماکے کر ڈالے۔ محاذوں پر جھڑپیں بھی جار ی رہیں اور حالیہ کشیدگی کی قسط ابھی بمشکل ہی ختم ہوئی ہے۔

ہندوستان کی ترقی اور بلند معاشی شرح نمو کا بڑا چرچا کیا جاتا ہے۔ لیکن حالیہ انتخابات میں مودی کو جس طرح پاکستان دشمنی کو نئی انتہاؤں تک پہنچانا پڑا ہے اس سے اِس ترقی کی حقیقت کھل کے سامنے آئی ہے۔ ہندوستان میں حکمران طبقات کی لوٹ مار اور دولت کا چند ہاتھوں میں ارتکاز انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔ تقریباً ایک ارب عام انسانوں کی زندگیوں میں مودی سرکار کی پالیسیاں مزید مشکلات اور تلخیاں ہی لائی ہیں۔ اس لئے ”سب سے بڑی جمہوریت“ کے انتخابات میں کھربوں روپے خرچ کر کے مذہبی اور قومی نفرتوں کو ہوا دی گئی۔ المیہ یہ بھی ہے کہ کانگریس سے لے کے بائیں بازو کی پارٹیوں تک نے کوئی متبادل پروگرام پیش نہیں کیا۔ اس طرح مودی کی فتح امید یا خوشی سے زیادہ”خوف“ اور مایوسی کی کامیابی ہے۔ اس کو ہندوستان کا محنت کش طبقہ زیادہ عرصہ برداشت نہیں کرے گا۔ یہ ”جیت“ ایسی اشتعال انگیزی بنے گی جو ہندوستان کے حالات کو یکسر بدل سکتی ہے۔

پاکستان میں بھی ظاہری سکو ت کے نیچے عوام کی تنگی ناقابل برداشت ہوتی جا رہی ہے۔ عمران خان کی حکومت جو مودی سرکار کی طرح ہی دائیں بازو کے رجعتی پاپولزم پر مبنی ہے اور جو شدید معاشی بحران اور سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے‘ بار بار مذاکرات اور امن کی پیشکش سرحدوں پر تناؤ کو کم کرنے کے لئے کر رہی ہے۔ مودی کھوکھلی رعونت کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ لیکن لمبے عرصے تک وہ بھی اس رویے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ہندوستان میں سماجی بحران کئی حوالوں سے پاکستان سے بھی زیادہ ہے۔ بڑی معیشت کے ثمرات بڑے لوگوں تک ہی محدود ہیں۔ اس لئے جنگ کا واویلا دم توڑنے لگے گا تو مودی جیسا ناٹکی امن و دوستی کا کوئی نیا ڈرامہ رچائے گا۔ جیسے نواز شریف کی نواسی کی شادی پر چلا آیا تھا۔

ہوسکتا ہے آنے والے دنوں میں امن مذاکرات کے لئے مذاکرات کا آغاز بھی ہو جائے لیکن یہ حکمران نہ فیصلہ کن جنگ لڑ سکتے ہیں نہ دوررس امن قائم کر سکتے ہیں۔ وقتاً فوقتاً نیم جنگی کیفیات سامراجی اسلحہ ساز صنعت اور یہاں اس سے مستفید ہونے سرکاری دھڑوں کے لئے بہت ضروری اور منافع بخش ہے۔

مسئلہ گورننس یا پالیسی سازی میں نہیں ہے۔ مسئلہ اس نظام میں ہے جو پالیسیاں بنواتا ہے۔ سرمایہ داری کو کسی دیوہیکل کالی دیوی کی طرح غریبوں کے خون کی بَلی چاہیے ہوتی ہے۔ مارکس کے بقول سرمایہ جب تاریخ کے میدان میں نمودار ہوا تو اس کے ہر ایک مسام سے لہو ٹپک رہا تھا۔