لیون ٹراٹسکی

یہ تحریر 13 جولائی 1923ء کو ”پراودا“ میں شائع ہوئی تھی۔ اس کا پہلا انگریزی ترجمہ زیڈو نجیروا (Z.Vengerove)نے کیا جو 1924ء میں ”زندگی کی مشکلات“ میں شائع ہوا تھا۔

ایڈیٹر

خاندان کے اندرونی رشتوں اور واقعات کی چھان بین ان کی فطرت کے اعتبار سے سب سے مشکل ہوتی ہے۔ اس لئے یہ کہنا آسان نہیں ہے کہ آج کل خاندانی بندھن پہلے کی نسبت (حقیقی زندگی میں‘ صرف اخبارات میں نہیں) اتنی آسانی سے اور پے درپے کیوں ٹوٹتے ہیں۔ بڑی حد تک ہمیں اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر کے مطمئن ہو جانا چاہیے۔ مزید یہ کہ انقلاب سے قبل اور موجودہ وقت میں فرق یہ ہے کہ پہلے محنت کش طبقے کے خاندانوں کی ڈرامائی کشمکش اور مشکلات ان کی اپنی سمجھ میں آئے بغیر گزرجایا کرتیں تھیں جبکہ اب محنت کشوں کا بالائی حصہ ذمہ دار عہدوں پر فائز ہے۔ ان کی زندگی شہرت کی حامل ہے اور ان کی زندگی کا ہر گھریلو المیہ بہت زیادہ تبصرے اور تنقید کا عنوان بن جاتا ہے بلکہ اکثر بے کار گپ شپ کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔

تاہم اس سے انکار نہیں کہ بشمول پرولتاریہ طبقے کے‘ تمام خاندانی رشتے بکھر گئے ہیں۔ ماسکو میں پارٹی پراپیگنڈسٹس (Propagandists) کی کانفرنس میں اس حقیقت کو ٹھوس انداز میں پیش کیا گیا تھامگر کسی نے بھی اس کے خلاف کچھ نہیں کہا۔ وہ سب محض مختلف انداز میں اس سے متاثر ہوئے۔۔۔ ہر کوئی اپنے انداز میں متاثر ہوا۔ کچھ نے اسے بہت مشکوک انداز میں دیکھا۔بعض نے محتاط رویہ اختیار کیا اور بعض ایسے تھے جو حیران و پریشان دکھائی دیتے تھے۔پھر بھی سب پر ایک بات ضرور عیاں تھی کہ کوئی بہت بڑا عمل جاری و ساری ہے جو ایک پر اختلال کیفیت اختیار کئے ہوئے ہے جیسے نکتہ چینیاں، بغاوتیں وغیرہ۔ لیکن ایک نئی اعلیٰ پیمانے کی خاندانی زندگی کے آغاز کیلئے اور پوشیدہ امکانات کو آشکار کرنے کیلئے ابھی وقت نہیں تھا۔

خاندانی ٹوٹ پھوٹ کے متعلق کچھ خبریں چپکے سے پریس تک پہنچ جاتیں مگر یہ کبھی کبھار اور بہت ہی مبہم انداز میں ہوتا۔ایک آرٹیکل میں اس موضوع پر میں نے پڑھا تھا کہ محنت کش طبقے کے اندر خاندان کا خاتمہ”پرولتاریہ پر بورژوا اثرورسوخ“ کے طورپر پیش کیا گیا ہے۔

یہ بات اتنی سادہ نہیں ہے۔اس سوال کی جڑیں بہت گہری اور کہیں زیادہ پیچیدہ ہیں۔ ماضی اور حال کی بورژوازی کا اثر یقیناًموجود ہے مگر سب سے اہم عمل پرولتاریہ خاندان کا اپنا وہ تکلیف دہ ارتقاءہے جو اسے بحرانوں تک لے آیا ہے اور ہم اب اس عمل کی پہلی پرانتشار کیفیت کو دیکھ رہے ہیں۔

خاندان پر جنگ کا تباہ کن اثر بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ جنگ خاندان کو خود کار طریقے سے منتشر کر دیتی ہے۔ لوگوں کو لمبے عرصے کیلئے جدا کردیتی ہے یا اتفاقاً انہیں ملا دیتی ہے۔ جنگ کا یہ تاثر جاری رہا تھا جسے انقلاب نے تقویت بخشی۔جنگ کے سالوں نے وہ سب کچھ منتشر کر دیا جو تاریخی روایات کے جمود کی وجہ سے کھڑا تھا۔ جنگ کے سالوں نے زار شاہی کی طاقت، مراعات یافتہ طبقات اور پرانے روایتی خاندان سب کو بکھیر دیا تھا۔ انقلاب کا آغاز نئی ریاست کی تعمیر سے ہوا اور اس نے بہت ہی معمولی مگر انتہائی ناگزیر مقاصد حاصل کئے۔

اس لیے مسئلے کا معاشی پہلو بہت پیچیدہ ثابت ہوا۔جنگ نے پرانے معاشی نظام کو ہلا کر رکھ دیا اور انقلاب نے اسے اکھاڑ پھینکا۔اب ہم ایک نئے معاشی نظام کی تعمیر کر رہے ہیں۔ معاشی میدان میں ہم ابھی ابھی تباہ حال دور سے نکلے ہیں اور ابھی ابھی ابھرنا شروع کیا ہے۔ ہماری ترقی کی رفتار ابھی تک بہت سست ہے اور نئی اشتراکی معاشی زندگی کی حاصلات ہنوز بہت دور ہیں۔ لیکن یقیناًہم تباہی اور بربادی کے دور سے نکل آئے ہیں۔ سب سے زیادہ پستی کا دور  1920-21ء کا تھا۔

خاندانی زندگی کے اندر سے ابھی پہلے تباہ کن دور کا خاتمہ نہیں ہوا۔انتشار کا عمل ابھی تک عروج پر ہے۔ ہمیں اسے ذہن میں رکھنا چاہیے۔ خاندانی اور گھریلو زندگی ابھی تک 1920-21ء کے دور سے گزر رہی ہے اور 1923ء کے معیار تک ابھی نہیں پہنچی۔معیشت کی نسبت گھریلو زندگی کہیں زیادہ رجعتی ہے۔ اور اس کی ایک وجہ آگہی اور شعور کا فقدان ہے۔

سیاست اور معیشت میں محنت کش طبقہ اجتماعی طورپر عمل کرتا ہے اور پرولتاریہ کے تاریخی مقاصد کی تکمیل کرتے ہوئے یہ اگلی صف میں اپنے محافظ دستے (کمیونسٹ پارٹی) کو آگے کی سمت دھکیلتا ہے۔ گھریلو زندگی میں محنت کش طبقہ ان خلیوں میں تقسیم ہو جاتا ہے جو خاندان پر مشتمل ہوتے ہیں۔سیاسی حکومت کی تبدیلی، ریاست کے معاشی نظام میں تبدیلی‘فیکٹریوں اور ملوں کا محنت کشوں کے ہاتھوں میں آنا۔۔۔۔ان سب نے یقیناًخاندان کے حالات پر اثر ڈالا تھا مگر محض بالواسطہ اور بیرونی طورپر اور بغیر ان گھریلو روایات کو چھوڑے جو ماضی سے ورثے میں ملیں تھیں۔

خاندان کی بڑے پیمانے کی اصلاح اور زیادہ عمومی طورپر گھریلو زندگی کی ترتیب، محنت کش طبقے کی طرف سے بہت بڑی شعوری جدوجہد اور طبقے کے اپنے اندر ثقافت اور ترقی کے لئے خواہش کی طاقتور متحرک قوت کے وجود کی متقاضی ہے۔ مٹی کے بھاری ڈھیلوں کو الٹنے پلٹنے کیلئے زیادہ گہرے ہل کی ضرورت ہے۔ سوویت ریاست کے اندر مرد وزن کی سیاسی برابری کو عملی جامہ پہنانا ایک مسئلہ تھا۔لیکن اس سے بڑا مسئلہ ٹریڈ یونینز، فیکٹریوں اور ملوں کے اندر مرد و خواتین کی صنعتی مساوات کا تھا کہ کہیں صنعتی مساوات کے نفاذ میں مردوں کو عورتوں پر فوقیت نہ مل جائے۔لیکن خاندان کے اندر مردو خواتین کی حقیقی برابری کا حصول بے حد مشقت طلب مسئلہ ہے۔

ہمیں تمام گھریلو عادات کویکسر بدلنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ جب تک گھر کے اندربیوی اور شوہر کی حقیقی برابری نہیں ہوتی تو ہم سماجی کام کاج اور سیاست میں ان کی برابری کے بابت سنجیدگی سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔جب تک عورت سلائی کڑھائی، کھانے پکانے، خاندان کی دیکھ بھال اور دوسرے امور خانہ داری کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے، اس وقت تک سیاسی زندگی یا سماجی سرگرمیوں میں اس کے حصہ لینے کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔

سب سے آسان ترین مسئلہ طاقت کا حصول تھا مگر اسی ایک مسئلے نے انقلاب کے ابتدائی دور میں ہماری تمام تر قوتوں کو اپنے اندر جذب کر لیا۔ یہ لامحدود قربانیوں کا متقاضی تھا۔ خانہ جنگی نے حتی المقدورشدت اور سخت گیری کو جنم دیا۔ بیہودہ اجڈاور ناشائستہ لوگ چیخ اٹھے کہ یہ اخلاقی بربریت ہے۔ پرولتاریہ خونی اور بدکار ہو گیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ حقیقت میں جو ہو رہا تھا وہ یہ تھاکہ پرولتاریہ انقلابی طاقت کی شدت کے ذرائع اپنے ہاتھوں میں لے کر ایک نئی ثقافت اور حقیقی انسانی اقدار کی جدوجہد کی راہنمائی کر رہا تھا۔

پہلے چار پانچ سالوں میں ہم خوفناک معاشی ابتری کے دور سے گزر ے ہیں۔ پیداوار کا انہدام ہو گیا اور پھر پیدا شدہ اشیاءبھی خوفناک حد تک گھٹیا معیار کی تھیں۔ دشمنوں نے اس سارے عمل کو سوویت حکومت کے گلنے سڑنے کا نشان سمجھا۔ تاہم حقیقت میں یہ پرانے معاشی نظام کی تباہی کا ناگزیرمرحلہ تھا اور ایک نئے معاشی نظام کی تخلیق کی (بے یارو مدد گار ) کاوشیں تھیں۔

جہاں تک خاندانی رشتوں اور عمومی انفرادی زندگی کے طورطریقوں کا تعلق ہے تو پرانی چیزوں کے انتشار کیلئے ایک ناگزیر دور ہونا چاہیے تھا۔ جیسا کہ ورثے میں ملی ہوئیں روایات جو سوچوں کے قابو میں نہیں آئیں تھیں۔ لیکن گھریلو زندگی کے میدان میں تباہی و بربادی اور تنقیدکا دور ذرا دیر سے شروع ہوا اور لمبا عرصہ جاری رہا۔ اس نے غیر صحت مندانہ اور المناک صورتیں اختیار کیں جو بہت پیچیدہ تھیں اور سطحی مشاہدے سے سمجھ میں آنے والی نہیں تھیں۔ عمومی زندگی، معیشت اور ریاستی حالات کی تشویشناک تبدیلی کے یہ ترقی پسند سنگ میل واضح انداز میں بیان کئے جانے چاہیے تھے تاکہ وہ عجیب و غریب واقعات جن کا ہم نے مشاہدہ کیا ان سے بچا جا سکتا۔ ہمیں ان کے درست انداز میں تجزئیے کا ادراک ہونا چاہیے۔ محنت کش طبقے کی بالیدگی میں ان کے درست مقام کو سمجھنا چاہیے اور شعوری طورپر نئی صورت حال کو زندگی کے اشتراکی طرز عمل کی سمت موڑنا چاہیے۔

تنبیہ ناگزیر ہے۔ جیسا کہ ہمیں پہلے ہی خطرے کی نشاندہی کرتی ہوئیں آوازیں سنائی دیتی ہیں۔” ماسکو پارٹی پراپیگنڈسٹس“ کی کانفرنس کے موقع پر کچھ کامریڈز نے بڑی بے تابی کے ساتھ کہا کہ نئے رشتوں کی خاطر بہت بڑی تعداد میں پرانے خاندانی بندھن ٹوٹ گئے ہیں۔ تمام تر صورتوں میں ماں اور بچے ہی قربانی کا بکرا بنے ہیں۔

دوسری طرف ہم میں سے کون ہے جس نے نجی گفتگو میں سوویت کے نوجوانوں کے درمیان خاص کر کومسومولز (Komsomols) کے اندر اخلاقی انہدام کی شکایات نہیں سنیں۔ ان شکایات میں سب کچھ مبالغہ آرائی ہی نہیں بلکہ کچھ سچ بھی ہے۔اس سچ کے تاریک پہلووں کے خلاف ہمیں یقیناًلڑنا چاہیے اور ہم لڑیں گے بھی۔ یہ جنگ انسانی شخصیت کی بلندی اور اعلیٰ پیمانے کی ثقافت کے حصول کیلئے جنگ ہے۔ لیکن اپنا کام شروع کرنے کیلئے، جذباتی مغمومیت یا رجعتی وعظ و نصیحت کے بغیر مسئلے کی الف، ب کو سلجھانے کیلئے ہمیں سب سے پہلے حقائق کا یقین کر لینا چاہیے اور یقیناًجو کچھ ہو رہا ہے اسے واضح انداز میں پرکھنا چاہیے۔

جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں۔دیو ہیکل واقعات خاندان پر پرانی صورتوں (جنگ اور انقلاب) میں نازل ہوئے ہیں۔ا ور ان کے پیچھے پیچھے زیر زمین آہستہ آہستہ رینگتا ہوا چھچھوندر۔۔۔۔ ایک تنقیدی سوچ‘ خاندانی رشتوں کی اہمیت کا ایک شعوری مطالعہ۔ یہ دیو ہیکل واقعات کی میکانی طاقت تھی جو بیدار مغز کی تنقیدی طاقت کے ساتھ یکجا تھی جس نے خاندانی رشتوں کے اندر اس تباہی و بربادی کے دور کو جنم دیا جو ہم اب دیکھ رہے ہیں۔روسی محنت کش طبقے کو طاقت پر فتح کے بعد اب زندگی کے مختلف پہلووں میں ثقافت کے فروغ کیلئے اپنے پہلے شعوری اقدامات کرنے چاہیے۔ اس عظیم تصادم کی تحریک اور جذبے کے زیر اثر محنت کش کی شخصیت نے پہلی بار زندگی کی تمام روایتی صورتوں، تمام گھریلو طور طریقوں اور عادات، گرجے کی رسومات و قواعد اور تمام رشتوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

اس میں حیرانگی کی کوئی بات نہیں کہ شروع شروع میں انفرادی احتجاج اور ماضی کی روایات کے خلاف بغاوت کو انارکی سمجھا گیا یا انتہا ئی ناشائستہ آوارگی تصور کیا گیا۔ ہم نے سیاست، فوجی معاملات اور معیشت میں طوائف الملوکانہ انفرادیت کی انتہا پسندی اور کٹر پن عوامی جلسوں کی فصیح و بلیغ زبان میں دیکھا ہے۔ اس میں بھی کوئی حیرت کی بات نہیں کہ اس عمل کا انتہائی گہرے اور تکلیف دہ انداز میں خاندانی رشتوں پر رد عمل ہوا ہے۔ ایک بیدار شخصیت ہے جو نئے انداز میں تنظیم نو چاہتی ہے۔ پرانی گھسی پٹی پگڈنڈیوں سے ہٹ کر اس خاندانی انتشار کی شاہراہ کی طرف رجوع کر رہی ہے جسے ماسکو کانفرنس میں بدکار، بد اعمال اور اعلانیہ مجرم ٹھہرایا گیا۔

شوہر، رائے عامہ کی بیداری کی وجہ سے اپنے عمومی ماحول سے کٹ جاتا ہے۔ بلدیاتی محاذ پر ایک انقلابی شہری بنتا ہے۔ یہ بہت اہم تبدیلی ہے۔ اس کا نقطہ نظر وسیع ہے۔ اس کی آرزوئیں اور تمنائیں بڑی بلند اور پیچیدہ نوعیت کی ہیں۔ وہ ایک مختلف آدمی ہے اور وہ ہر چیز کی مکمل عملی تبدیلی کی تلاش میں ہے۔ گھر کے افراد اور خاندانی رشتوں کے ساتھ پرانی ہم آہنگی ختم ہو گئی ہے۔ کوئی نئی ہم آہنگی پروان نہیں چڑھی۔ باہمی اعجاز آفرینی باہمی عدم اطمینانی میں بدلتی ہے اور پھر نفرت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ خاندان بکھر جاتا ہے۔

شوہر ایک کمیونسٹ ہے۔ وہ ایک سرگرم زندگی بسر کرتا ہے۔ سماجی کام کاج میں مصروف ہے۔ اس کی ذہنی نشوونما ہوتی ہے۔ اس کی نجی زندگی اس کے اپنے کام میں غرق ہے۔ لیکن اس کی بیوی بھی ایک کمیونسٹ ہے۔ وہ سماجی کام کاج کرنا چاہتی ہے۔ عوامی جلسوں میں جانا چاہتی ہے۔ یونین یا سوویت میں کام کرنا چاہتی ہے۔ اس سے قبل کہ انہیں آگہی ہو۔ گھریلو زندگی کا وجود عملی طورپر ختم ہوتا جاتا ہے۔ گھریلو فضا کی عدم موجودگی کا نتیجہ مسلسل تصادم ہوتا ہے۔ شوہر اور بیوی میں اختلاف رائے جنم لیتا ہے۔ خاندان ٹوٹ جاتا ہے۔

شوہر کمیونسٹ ہے بیوی کا کسی پارٹی سے کوئی تعلق نہیں۔شوہر اپنے کام میں غرق ہے۔ بیوی پہلے کی طرح محض گھر کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ تعلقات”پرامن“ ہیں یا یوں کہہ لیجئے کہ تعلقات کا انحصار حسب معمول اجنبیت پر ہے۔ لیکن شوہر کی کمیٹی۔۔ کمیونسٹ ”سیل“۔۔۔۔ فرمان جاری کرتی ہے کہ اسے اپنے گھر میں ان بزرگوں کی تصویریں جنہیں اس نے خود مقدس بنا رکھا ہے، اتار دینی چاہیے۔ وہ فطری طورپر رضامند ہے۔ لیکن اس کی بیوی کیلئے یہ ایک سانحہ ہے۔ یوں ایک چھوٹا سا واقعہ اس اتھاہ گہرائی کو آشکار کرتا ہے جو بیوی خاوند کے ذہنوں کو جدا کردیتی ہے۔ تعلقات غارت ہو جاتے ہیں۔ خاندان بکھر جاتا ہے۔

ایک پرانا خاندان ہے۔دس پندرہ سال اجتماعی زندگی بسر کی ہے۔شوہر ایک اچھا ورکر ہے۔ اپنے خاندان کیلئے مکمل طورپر وقف ہے۔ بیوی بھی اپنے گھر کیلئے زندہ ہے۔ اپنی تمام تر توانائیاں گھر کو سونپ دیتی ہے۔ لیکن محض اتفاقاً خواتین کی کمیونسٹ تنظیم سے اس کا تعلق بن جاتا ہے۔ اس کی نگاہوں کے سامنے ایک نئی دنیا کھلتی ہے۔ اس کی توانائیاں ایک نیا اور وسیع مقصد تلاش کر لیتی ہیں۔خاندان نظر انداز ہو جاتا ہے۔ شوہر برہم ہوتا ہے۔ بیوی کے شعور کی نئی بیداری کوٹھیس پہنچتی ہے۔ خاندان ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے۔

ایسے تمام گھریلو المیوں کی مثالوں کا ایک ہی انجام ہے۔۔۔۔خاندان کی ٹوٹ پھوٹ۔۔۔۔اور یہ لامحدود ہے۔ ہم نے بہت ہی مخصوص صورتوں کی نشاندہی کی ہے۔ ہماری تمام مثالوں میں المیے کا باعث کمیونسٹ اور غیر پارٹی عناصر کے درمیان ٹکراو ہے۔ لیکن خاندانی ٹوٹ پھوٹ۔۔۔۔میرے کہنے کا مطلب ہے پرانی طرز کے خاندان کا انتشار، طبقے کے محض بالائی حصے تک ہی محدود نہیں ہے۔ خاندانی رشتوں میں ٹوٹ پھوٹ کی تحریک بہت گہرائی تک سرائیت کرتی ہے۔ کمیونسٹ محافظ دستے کا دھیان محض ان چیزوں کی طرف ہوتا ہے جو مجموعی طورپر طبقے کیلئے ناگزیر ہوتی ہیں۔ پرانے حالات کی طرف عیب جو رویہ اور خاندان پر نئے دعوے، مجموعی طورپر کمیونسٹ اور محنت کش طبقے کے درمیان بارڈر لائن سے بہت پرے پھیلے ہوئے ہیں۔

مرضی کی شادی کا رواج اس روایتی مقدس خاندان کیلئے ایک بہت بڑا تھپڑ تھا جو زیادہ تر دکھلاوے کیلئے زندہ تھا۔ پرانی شادی کے بندھنوں میں باہمی ربط کم تھا جبکہ بیرونی طاقتوں کو یکجا کرنے والی قوت، سماجی روایات اور خاص کر مذہبی رسومات زیادہ تھیں۔ چرچ کی طاقت پر جو تھپڑ رسید ہوا وہ خاندان کے لئے ایک زور دار مکا تھا۔ مذہبی رسومات، جن کی کوئی ریاستی شناخت یا منظوری نہیں اور جو یکجہتی کی افادیت سے بھی محروم ہیں، لڑکھڑاتے ہوئے خاندان کو سہارا دینے کیلئے ابھی تک استعمال میں ہیں۔ لیکن جب خاندان کے اندر باہمی اتحاد نہیں رہتا، جب محض جمود خاندان کو مکمل انہدام سے بچائے رکھتا ہے تب ہر ایک بیرونی ٹھوکر اسے ٹکڑوں میں بکھیر دینے کیلئے یقینی طورپر کافی ہوتی ہے۔جب کہ عین اسی وقت یہ مذہبی رسومات کے ساتھ وابستگی پر بھی تھپڑ کی حیثیت رکھتی ہے اور بیرونی ٹھوکریں اب پہلے کی نسبت لامحدود اور یقینی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خاندان لڑکھڑاتا ہے، بحال ہونے میں ناکام رہتا ہے اور پھر گر پڑتا ہے۔ زندگی اپنی شرائط پر فیصلہ کرتی ہے اور زندگی بڑے سخت اور تکلیف دہ انداز میں خاندان کو رد کرتی ہے۔ تاریخ پرانے درختوں کو کاٹ گراتی ہے۔۔۔اور ٹکڑے ہوا میں بکھر جاتے ہیں۔

لیکن کیا زندگی نئی طرز کے خاندان کے عناصر کو پروان چڑھا رہی ہے؟ یقینا۔۔۔ہمیں صرف واضح انداز میں ان عناصر کی فطرت اور انکی بناوٹ کے عمل کوسمجھناچاہیے۔ دوسرے معاملات کی طرح ہمیں طبعی حالات کو نفسیاتی حالات سے اور عمومی حالات کو انفرادی حالات سے الگ کر کے دیکھنا چاہیے۔نفسیاتی طورپر ہمارے لئے نئے خاندان کا ارتقا ءاور عمومی طورپر نئے انسانی رشتوں کا مطلب محنت کش طبقے کی ثقافت کی ترقی، انفرادی بہتری، داخلی نظم وضبط اور ضروریات کے معیار کی اٹھان ہے۔ اس پہلو سے انقلاب بذات خود آگے کی طرف ایک بڑا قدم ہے اور خاندان کے انتشار کا یہ بدترین عمل بڑے تکلیف دہ انداز میں طبقے اور طبقے کے اندر انفرادیت کی بیداری کا اظہار ہے۔ اس نقطہ نظر سے، ثقافت کے متعلق ہمارا تمام تر کام۔۔۔ وہ کام جو ہم کر رہے ہیں اور جو ہمیں کرتے رہنا چاہیے، ایک نئے خاندان اور نئے رشتوں کی تیاری ہے۔ انفرادی مرد و زن کے ثقافتی معیار کو بلند کئے بغیر اعلیٰ پائے کے نئے خاندان کا حصول ممکن نہیں۔ اس میدان میں ہم اندرونی نظم وضبط کی بات تو کر سکتے ہیں مگر بیرونی دباو اور مجبوری کی نہیں۔ یوں خاندان کے کسی انفرادی شخص کے داخلی نظم و ضبط کی قوت، داخلی زندگی کی روشن خیالی کی وسعت اور رشتوں کی اقدار کیساتھ مشروط ہے جو بیوی اور شوہر کو باہم متحد رکھتے ہیں۔

نئے خاندان اور نئی زندگی کیلئے ماحول کی تیاریوں کو بنیادی طورپر ایک بار پھر اشتراکیت کی تعمیر کے عمومی کام سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ محنت کشوں کی ریاست کو اتنا دولت مند ضرور ہونا چاہیے کہ وہ ہر ممکن طورپر بچوں کی تعلیم و تربیت اور خاندان کو باورچی خانے اور لانڈری کے بوجھ سے آزاد کروانے کے اقدامات کر سکے۔ معاشی ترقی کے بغیر بچوں کی تعلیم و تربیت اور گھریلو انتظامات کے اشتراکی طریقوں کا تصور بھی محال ہے۔ ہمیں مزید اشتراکی معیشت کی صورتیں درکار ہیں۔ صرف اسی طورپر ہم خاندان کو ان پریشانیوں اور فرائض منصبی سے آزاد کروا سکتے ہیں جو اسکو دبانے اور اس کے انتشار کا باعث ہیں۔ کپڑوں کی دھلائی عوامی لانڈریوں میں ہونی چاہیے، کھانے پینے کا انتظام عوامی ریستورانوں میں جبکہ سلائی کاکام عوامی دکانوں میں ہونا چاہیے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت ایسے اساتذہ کریں جو صحیح معنوں میں پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے مالک ہوں۔تب بیوی شوہر کے درمیان بندھن تما م تر بیرونی اور حادثاتی چیزوں سے آزاد ہوگا۔ بیوی یا شوہر میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کی زندگی کو غصب نہ کر سکے گا۔ ایک حقیقی برابری اور مساوات کا قیام ہو گا۔ بندھن باہمی محبت پر استوار ہوگا۔ یوں یہ بندھن ایک داخلی توازن حاصل کرے گا جو سب کیلئے نہ تو ایک جیسا ہو گا اور نہ کسی کیلئے لازمی۔۔۔

یوں نئے خاندان کی سمت سفر دوہری نوعیت کی ہے۔

(1 )محنت کش طبقے اور طبقے کے اندر انفرادی اشخاص کی تعلیم اور ثقافتی معیار کی بلندی۔

(2 ) طبقے کے مالی حالات کی بہتری۔

ان دونوں عوامل کا ایک دوسرے سے بڑا گہرا ربط ہے۔

مندرجہ بالا بیان کا یہ مفہوم ہرگز نہیں کہ ایک معین وقت میں مستقبل کے خاندان کومالی خوشحالی کی ضمانت سے اس کو تمام حقوق ایک دم میسر آ جائیں گے۔ نہیں! نئے خاندان کی سمت پیش قدمی ابھی سے ممکن ہے۔ یہ سچ ہے کہ ریاست ابھی نہ تو بچوں کی تعلیم و تربیت اور نہ ہی عوامی باورچی خانوں کے قیام کا بیٹرا اٹھا سکتی ہے اور نہ ہی عوامی لانڈریوں کا فوری قیام عمل میں لا سکتی ہے جہاں کپڑے نہ تو پھٹیں اور نہ ہی چوری ہوں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو جرات مند اور ترقی پسند خاندان ہیں وہ ابھی سے گروپ بنا کر اجتماعی گھریلو انتظامات کے یونٹس قائم نہیں کر سکتے۔ اس قسم کے تجربات یقیناًاحتیاط سے کئے جانے چاہئیں۔ ہر ایک یونٹ‘ گروپ کے اجتماعی مفادات اور ضروریات کیلئے جواب دہ ہونا چاہیے۔ اور گروپ کے ہر ایک ممبر کو واضح فوقیت دینی چاہیے۔ کامریڈ سیماشکو (Semashko) نے حال ہی میں خاندانی زندگی کی تعمیر نو کی ضرورت پر یوں اظہار خیال کیا ہے:

”یہ کام عملی طورپر زیادہ بہتر کیا جاتا ہے۔ محض احکامات اور وعظ و نصیحت کا اثر بہت کم ہو گا۔ ہزاروں اعلیٰ قسم کے پمفلٹس کی نسبت ایک مثال، ایک عملی وضاحت زیادہ کام دکھائے گی۔ اس عملی پراپیگنڈے کا انتظام سرجن کے اس طریقہ کار کی طرح کیا جاسکتا ہے جسے وہ اپنی پریکٹس میں ٹرانس پلانٹیشن (Transplantation) یا منتقلی کہتا ہے۔ جب جسم کا کوئی حصہ زخم یا جلنے کی وجہ سے جلد سے محروم ہو جاتا ہے اور جب جلد کی نشوو نما کی کوئی امید بھی باقی نہیں رہتی تو پھر جسم کے صحت مند حصوں سے گوشت کے ٹکڑوں کو کاٹ کر جلدسے محروم جگہوں پر لگادیا جاتا ہے۔ یوں یہ ٹکڑے وہاں چپک جاتے ہیں اور نشوونما پانا شروع کر دیتے ہیں حتیٰ کہ تمام زخمی جلد مندمل ہو جاتی ہے ایسا ہی عملی پراپیگنڈے میں ہوتا ہے۔جب کوئی ایک فیکٹری کمیونسٹ رویے اختیار کرتی ہے تو دوسری فیکٹریاں اس کی تقلید کرتی ہیں۔“
(این سیماشکو (N.Semashko) آئزوسٹیا(Izvestia) نمبر81، 14 اپریل 1923ء)

اجتماعی گھریلوانتظامات کے ان یونٹوں کا تجربہ اس کمیونسٹ طرز زندگی کی نمائندگی کرتا ہے جو ابھی اپنے آغاز میں ہے اور انتہائی نامکمل ہے اس لئے بڑی احتیاط اور غور وفکر سے اس کا جائزہ لینا چاہیے۔ا س طرح کی نجی پیش قدمی اور حکومتی تعاون، کے ملاپ کوسب سے بڑھ کر مقامی سوویتوں اور معاشی انجمنوں کی اولین توجہ درکار ہے۔ نئے گھروں کی تعمیر (اور بہر صورت ہم نئے گھر تعمیر کرنے والے ہیں!) لازمی طورپر خاندانی ضروریات کے مطابق ہونی چاہیے۔ تاہم اس سمت بظاہر پہلی اور ناقابل تردید کامیابی بہت معمولی اور محدود ہے مگر یہ ناگزیر طورپر دور دراز کے مزید گروپوں کے اندر اس خواہش کو ابھارے گی کہ وہ بھی انہی خطوط پر اپنی زندگیوں کو منظم کریں۔ ریاست کے مادی ذرائع کے نقطہ نظر سے یا بذات خود پرولتاریہ کی تیاری کے نقطہ نظر سے، اس کام کے اوپر سے آغاز کیلئے وقت ابھی مناسب نہیں ہوا۔ ہم عوام کے مثالی نمونوں کی تخلیق سے ہی موجودہ وقت میں جمود کو توڑ سکتے ہیں۔ بتدریج ہمارے پاوں جمنے چاہئیں۔بہت آگے کی طرف تیز رفتاری نہیں ہونی چاہیے اور نہ ہی ہمیں افسر شاہی کے خیالاتی تجربات میں دھنس کے رک جانا چاہیے۔ایک معین وقت میں ریاست مقامی سوویتوں کی مدد سے اور کوآپریٹو یونٹوں کے تعاون سے اس کام کو وسیع، گہرا اور اشتراکی بنانے کی اہل ہوگی۔ اس طرح انسانی خاندان، بقول اینگلز، ”ضرورت کی کیفیت سے آزادی کے میدان میں چھلانگ لگائے گا۔“