حسن جان

دسمبر 2018ءمیں سوڈان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بنیادی اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے خلاف شروع ہونے والی عوامی تحریک جلد ہی معاشی مطالبات سے آگے بڑھتے ہوئے سیاسی مطالبات یعنی تیس سالوں سے حکمرانی کرنے والے جابر آمر عمرالبشیر کی برطرفی کے مطالبے تک پہنچ گئی۔ بالآخر 11اَپریل کو تحریک کے مزید آگے بڑھنے کے خوف سے فوج نے مداخلت کرتے ہوئے عمرالبشیر کو برطرف کرکے عبوری ملٹری کونسل تشکیل دے کر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ اس عبوری ملٹری کونسل کے سربراہ جنرل احمد عوض بن عوف نے تین مہینے تک ایمرجنسی نافذکرنے اور دو سال تک ’عبوری‘ حکمرانی کرنے کے بعد اقتدار ’سویلین‘ نمائندوں کو منتقل کرنے کا وعدہ کیا لیکن تحریک کا دباﺅ اتنا زیادہ تھا کہ اگلے ہی دن 12 اَپریل کو جنرل احمد عوض کو مستعفی ہونا پڑا۔ اس کے باوجود عوام میں بجا طور پر اپنے انقلاب کے چھن جانے اور سابقہ حکمرانوں کے جبر کے تسلسل کے جاری رہنے کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اور اسی لیے عمر البشیر کے جانے کے بعد بھی یہ انقلابی تحریک تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔

نئے فوجی حکمرانوں نے تحریک کو ٹھنڈا کرنے کے لیے عمرالبشیر اور اس کے قریبی حواریوں کو گرفتار کرنے اور کچھ اعلیٰ عدالتی افسرشاہی کو عہدوں سے ہٹانے کے کچھ علامتی اقدامات بھی کیے ہیں لیکن تحریک کا مطالبہ ہے کہ اقتدار فوری طور پر’ سویلین ‘نمائندوں کو منتقل کیا جائے ۔ اسی وجہ سے دارالحکومت خرطوم میں فوجی ہیڈکوارٹر کے سامنے دھرنا تادمِ تحریر جاری ہے۔

تمام تر چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ دارالحکومت خرطوم میں ہونے والے مظاہرے میں شرکت کے لیے جوق در جوق آرہے ہیں جو عبوری فوجی کونسل کی برطرفی اور اقتدار کی سویلین نمائندوں کو منتقلی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔عوام بجا طور پر عمر البشیر کی جگہ لینے والی فوجی کونسل کو سابقہ صدر کی جابرانہ حکمرانی کا تسلسل قرار دے رہے ہیں کیونکہ اس کونسل میں شامل زیادہ تر وہی فوجی افسران ہیں جنہوں نے عمرالبشیر کی تیس سالہ وحشیانہ آمریت میں اس کا بھرپور ساتھ دیا اور مختلف عہدوں پر فائز رہ کر عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑے۔ جمعرات 9 مئی کو خرطوم میں فوجی کونسل کے خلاف دیوہیکل مظاہرے ہوئے۔ مظاہرین کا سب سے اہم نعرہ تھا، ”ہم اپنے لہو سے انقلاب کی حفاظت کریں گے۔“ مظاہرے میں شریک ایک طالب علم سمیر بخیت نے کہا، ”فوج ہمارے انقلاب پر ڈاکہ ڈالنا چاہتی ہے لیکن ہم ایسا نہیں ہونے دیںگے!“

مظاہرے میں شریک ایک طالب علم سمیر بخیت نے کہا، ”فوج ہمارے انقلاب پر ڈاکہ ڈالنا چاہتی ہے لیکن ہم ایسا نہیں ہونے دیںگے!’

مظاہرین کے دباﺅ میں آکر فوجی کونسل کے تین جنرل عمر زین العابدین، الطیب بابکر علی اور جلاالدین الشیخ نے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے۔ مظاہرین کے نمائندوں اور فوجی کونسل کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں مظاہرین نے ان تین جرنیلوں کے استعفے کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ تینوں عمرالبشیر کی حکومت میں مذہبی بنیاد پرستی کے جبر کو لاگو کرنے میں پیش پیش تھے۔ بالخصوص الطیب بابکر علی امن عامہ کی پولیس کا سربراہ تھا جو ہر سال چالیس سے پچاس ہزار خواتین کو’فحش‘ لباس یعنی ٹراﺅزر اور جینز وغیرہ پہننے اور سکارف نہ پہننے کی پاداش میں گرفتار کرتا تھااور لوگوں کی نجی محفلوں پربھی چھاپے مارتا تھا۔ اس کے علاوہ فوجی کونسل کے دیگر ارکان بھی ماضی میں عمرالبشیر کے تمام تر جرائم میں برابر کے شریک رہے ہیں۔ اسی وجہ سے عمرالبشیر کے استعفے کے بعد بھی مظاہرین کی تعداد کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ رہی ہے۔

سوڈان کی مختصر تاریخ

مشرق وسطیٰ، جہاں سامراجیوں نے اپنی لوٹ مار کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے مصنوعی ریاستیں تخلیق کی ہیں، کی ریاستوں کی طرح سوڈانی ریاست بھی برطانوی سامراج کی تخلیق کردہ ہے۔ اس کی شمالی اور شمال مغربی سرحدیں مقامی آبادی کی نسلی و لسانی نوعیت اور جغرافیے کو خاطر میں لائے بغیر ہزاروں میلوں کی سیدھی لکیر یں کھینچ کر بنائی گئی ہیں جو نقشے پر فٹے سے کھینچی گئی لکیروں کی مانند ہیں ۔دوسری طرف جنوبی سوڈان ،شمالی سوڈان کی نسبت زیادہ متنوع تھا۔شمالی سوڈان، جہاں زیادہ تر مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے عرب مسلمان آباد تھے، کی نسبت جنوبی سوڈان میں مرکزی افریقی نسلی گروہوںکی اکثریت تھی جو عیسائیت اور دیگر مقامی مذاہب سے تعلق رکھتے تھے۔ اس لیے ان دونوں خطوں کو ایک ریاست میں یکجا کرنا انتہائی مضحکہ خیز تھا۔ حتیٰ کہ ایک وقت میں برطانوی سامراج نے جنوبی سوڈان کو یوگانڈا میں شامل کرنے کے بارے میں بھی سوچا تھا لیکن بعد میں اس منصوبے کو ترک کردیا گیا۔

برطانوی سامراج نے شمال اور جنوب کے دونوں خطوں کو الگ الگ انتظامی یونٹوں میں تقسیم کیا ہوا تھا اور مذہبی منافرت کو ہوا دیتے رہتے تھے۔ اس طرح کی مصنوعی لکیروں کے ذریعے ایک ریاست بنانے کا نتیجہ یہ نکلاکہ 1955ءمیں آزادی سے ایک سال قبل ہی جنوبی سوڈان کے فوجی افسران نے شمال کے حکمرانوں کی پالیسیوں (بالخصوص شمال کے افسران کو جنوب میں تعینات کرنا) کے خلاف بغاوت کردی۔ اگرچہ اس بغاوت کو کچل دیا گیا لیکن سوڈان کی پہلی خانہ جنگی کے بیج بوئے جا چکے تھے۔

ملک کی خراب معاشی صورت حال کے سبب نومولود سوڈانی ریاست کی حکومت کے خلاف عوامی بے چینی میں اضافہ ہورہا تھا۔ اسی بے چینی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جنرل ابراہیم عبود نے ایک فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ جہاں اس بغاوت کی فوری وجہ معاشی بحران کے خلاف عوامی غم و غصہ تھا وہیں امریکہ سامراج کا بھی اس میں کردار تھا کیونکہ وہ سوڈان کو مصر کے جمال عبدالناصر کے دائرہ اثر سے باہر نکالنا چاہتا تھا۔ ابراہیم عبود نے آتے ہی تمام سیاسی پارٹیوں اور ٹریڈ یونینز پر پابندی عائد کردی اور کسی حد تک معاشی بحران کو قابو کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اس کے جابرانہ اقدامات اور بالخصوص جنوبی سوڈان کو ’عربی ‘ (Arabization) اور’ اسلامی‘ بنانے کی کوشش میں جنوب میں اس کے خلاف غم و غصے میں اضافہ ہواجو شمالی سوڈان میں بھی پھیل گیا۔ مزدوروں اور محنت کشوں کے مظاہرے اور ہڑتالیں شروع ہوگئیں جس کی قیادت میں کمیونسٹ پارٹی آف سوڈان پیش پیش تھی۔ بالآخر 26 اَکتوبر 1964ءکو نیشنل فرنٹ (جو مذہبی پارٹیوں، کمیونسٹ پارٹی اور دیگر غیرقانونی ٹریڈیونینوں کا اتحاد تھا) نے ایک عام ہڑتال کی کال دی۔ اس ہڑتال کو کچلنے کے لیے فوج کو بھیجا گیا لیکن فوج نے ہڑتالیوں اور مظاہرین پر گولی چلانے سے انکار کردیا۔ ابراہیم عبود کے پاس اقتدار چھوڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔ اس نے اقتدار نیشنل فرنٹ کے حوالے کردیا۔

لیکن جلد ہی نیشنل فرنٹ میں شامل مذہبی، قوم پرست اور کمیونسٹ پارٹی کی سویلین حکومت بھی کسی طرح کی معاشی خوشحالی لانے میں ناکام ہوگئی۔ 1969ءمیں ’فری آفیسرز ایسوسی ایشن‘ کہلانے والے بائیں بازو کے فوجی افسران کی قیادت کرتے ہوئے کرنل جعفر محمد نمیری نے حکومت کو برطرف کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ اسے ’مئی انقلاب‘ کہا گیا۔ اس نے بھی آتے ہی تمام سیاسی پارٹیوں پر پابندی لگادی۔ جعفر محمد نمیری نے بہت سے بینکوں اور صنعتوں کو قومی تحویل میںلے لیا اور زرعی اصلاحات متعارف کرائیں۔ 1972ءمیں اس نے ادیس ابابا معاہدے کے ذریعے جنوبی سوڈان کو خودمختاری (Autonomy) دے کر سترہ سالہ (1955-72ئ) خانہ جنگی کا خاتمہ کردیا۔ 1973ءمیں ایک نئے آئین کو متعارف کراکے ملک کو ڈیموکریٹک سوشلسٹ ریاست قرار دے دیا۔ لیکن جلد ہی ستر کی دہائی کے اواخر میں اس کا جھکاﺅ مغرب کی طرف ہونے لگا جو بینکوں اور صنعتوں کی نجکاری اور ہالینڈ، فرانس، سوئٹزر لینڈ اور مصر کے ساتھ سرمایہ کاری کے معاہدوں سے واضح نظر آرہا تھا۔

1981ءمیں یہ بائیں بازو کی گراوٹ ایک اور انتہا کو اس وقت پہنچی جب جعفر نمیری نے اسلامی بنیادپرستوں کے دباﺅ میں آکر ملک میں اسلامی نظام نافذ کرنے کا اعلان کر دیا اور اخوان المسلمین سے اتحاد کرلیا۔ 1983ءمیں اس نے جنوبی سوڈان کی اکثریتی غیرمسلم آبادی کو نظرانداز کرتے ہوئے ملک میں شریعت نافذ کرنے کا اعلان کردیا۔ جنوبی سوڈان کی حکومت کو برطرف کردیا اور ادیس ابابا معاہدے کی دھجیاں بکھیر دیں جس سے سوڈان کی دوسری خانہ جنگی کا آغاز ہوا۔

اصلاح پسند اسلامی اسکالر محمود محمد طاہا کی پھانسی بھی اسی کے دور میں ہوئی جسے عدالت نے کافر اور مرتد قرار دے کر موت کی سزا سنائی تھی۔ اسی سال ہی غذائی اجناس پر سبسڈی کے خاتمے کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے۔ تین ہفتوں تک جاری رہنے والے ان مظاہروں کے بعد اپریل 1985ءمیں فوج نے مداخلت کرکے جعفر نمیری کو برطرف کردیا۔ اس کے بعد الیکشن کے نتیجے میں ایک نیشنل اسلامک فرنٹ کی اتحادی حکومت بنی۔ لیکن تین سال بعد ہی 1989ءمیں بریگیڈیئر عمرالبشیر نے حکومت کو برطرف کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔

عمرابشیر نے ملک کو مزید رجعت اور بنیاد پرستی کی طرف دھکیل دیا۔ ملک میں سخت ترین مذہبی قوانین نافذ کردیئے۔ تعلیمی نصاب کو عرب برتری اور مذہبی تنگ نظری سے بھر دیا ۔ اخلاقی پولیس عورتوں کو برقع پہننے پر مجبور کرتی تھی۔ سنگسار کرنے کے قوانین بنائے گئے۔ خانہ جنگی کے دوران سرکاری فوج کی جنوبی سوڈان میں غیرمسلم آبادی کے خلاف جنگ اور فوجی کاروائیوں کو جہاد قرار دیا گیا۔ اسی طرح سیاسی مخالفین کو بے رحمی سے کچل دیاجاتا تھا۔

سامراجی مداخلت کی تباہ کاریاں

براعظم افریقہ کے تمام جنگ زدہ ممالک مختلف سامراجی ممالک کی پراکسی جنگوں کا شکار رہے ہیں۔ یہ جنگیں دراصل ان افریقی ممالک میں موجود معدنی وسائل پر قبضے کی جنگیںہیں جس میں اگر کچھ سامراجی ممالک حکومت کی حمایت کرتے ہیں تو کچھ دوسرے حکومت کے ساتھ برسرپیکار باغیوں کو اسلحہ اور مالی کمک فراہم کرتے ہیں۔ یہی صورت حال سوڈان کی بھی ہے۔ سوڈان کی خانہ جنگی میں جنوبی سوڈان کے باغیوں کو امریکی سامراج اپنے علاقائی گماشتوں بالخصوص یوگانڈا کے ذریعے اسلحہ فراہم کرتا تھا تاکہ خرطوم کی حکومت کو کمزور کیا جاسکے اور تیل و دیگر وسائل کے ٹھیکے حاصل کرنے کے لیے دباﺅ ڈالا جاسکے۔ دوسری طرف خرطوم کی حکومت کو نہ صرف چین، ایران اور خلیجی امارات بلکہ فرانسیسی سامراج بھی اسلحہ اور سیاسی کمک فراہم کررہے تھے۔ اسی طرح 2003ءمیں دارفر میں سوڈانی حکومت کی جانب سے کیے جانے والے قتل عام پر امریکی اور برطانوی سامراجیوں کی جانب سے مگرمچھ کے آنسو بہائے جانے کے پیچھے بھی ان کے معاشی مفادات وابستہ تھے۔ امریکہ نے سوڈان پر پابندیاں لگانے کی دھمکیاں صرف اسی وجہ سے دی تھیں۔ اس کا اصل مقصد چین، فرانس، انڈیا اور ملایا کو وہاں سے بھگانا تھا کیونکہ ان کے پاس سوڈان کے تیل کے سارے ٹھیکے تھے۔

سوڈان میں تیل کے زیادہ تر ذخائر اس کے جنوبی حصے میں تھے۔ امریکی سامراج نے تیل کے انہی ذخائر کو حاصل کرنے اور دیگر سامراجی ممالک کا راستہ روکنے کے لیے جنوبی سوڈان کے علیحدگی پسند مسلح گروہوں کی مکمل حمایت شروع کی اور بالآخر 2011ءمیں امریکی سامراج کی سرپرستی میں جنوبی سوڈان کو ایک الگ ملک بنادیا گیا۔ اگرچہ جنوبی سوڈان کی علیحدگی کے بعد بظاہر حالات معمول پر آجانے چاہیے تھے لیکن اس سامراجی واردات کے نتیجے میں جنوبی سوڈان میں 2013ءمیں ایک اور خانہ جنگی کا آغاز ہوا جس میں اب تک چار لاکھ سے زائد افراد ہلاک اور لاکھوں ہجرت کرچکے ہیں۔

موجودہ تحریک

جنوبی سوڈان کے الگ ہونے کے بعد سوڈان کی آمدنی کا ایک بہت بڑا حصہ ختم ہوگیا کیونکہ تیل کے 70 فیصد سے زائد ذخائر جنوب میں واقع تھے۔ اس سے پہلے سے امریکی اقتصادی پابندیوں کی زد میں آئے ملک پر مزید معاشی بوجھ بڑھا۔ بیروزگاری کی شرح جو 2011ءمیں 12 فیصدتھی 2018ءمیںبڑھ کر 20 فیصد تک پہنچ گئی جبکہ نوجوانوں میں یہ شرح 27 فیصد تک ہے۔ رائٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق دارالحکومت خرطوم میں ایک غیرہنرمند فیکٹری مزدور ماہانہ 18 سے 27 ڈالر کماتا ہے جو ایک انسان کے زندہ رہنے کے لیے بھی کافی نہیں ہے۔ دوسری طرف ملک میں افراط زر 70 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ آدھی سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔

دسمبر 2018ءسے شروع ہونے والے مظاہروں کی قیادت میں’ سوڈانیز پروفیشنلز ایسو سی ایشن‘ (Sudanese Professionals Association) پیش پیش ہے جس میں ڈاکٹر، انجینئر، صحافی، وکلا اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اس انقلابی تحریک میں خواتین کی بھی بڑی تعداد شریک رہی ہے اور اکثر مظاہروں اور جلسوں میں خواتین کی تعداد مردوں سے بھی زیادہ رہی ہے۔ بیشتر مظاہروں میں ان کی تعداد 70 فیصد تک ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ عمرالبشیر کی رجعتی بنیادپرست حکومت کے دوران خواتین کو سب سے زیادہ جبر کا نشانہ بنایا گیا۔

6اَپریل کو مظاہرین نے خرطوم میں فوج کے ہیڈکوارٹر کی طرف مارچ شروع کیا۔ مظاہرین کو کچلنے والی سکیورٹی فورسز اور فوج میں تقسیم واضح نظر آ رہی تھی۔ فوج کے سپاہیوں نے مظاہرین کو بچانے کے لیے پولیس پر فائرنگ شروع کردی۔ صورت حال کو ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر فوج نے بالآخر مداخلت کرتے ہوئے عمرالبشیر کو فارغ کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ اگر ایسا نہ کرتے تو شاید یہ انقلابی تحریک فوج کو طبقاتی بنیادوں پر اندر سے چیر دیتی۔

اس تحریک کی ایسی کوئی قیادت نہیں ہے جس کے پاس کوئی واضح اور ٹھوس نظریہ اور لائحہ عمل ہو جو سوڈان کے عوام کو دہائیوں سے چلی آرہی خانہ جنگی، سامراجی جبر، غربت، پسماندگی اور محکومی سے نجات دلا سکے۔ ایسی صورت حال میں سامراجی ممالک کو آسانی سے مداخلت کا موقع ملتا ہے۔ پہلے ہی سعودی عرب، عرب امارات ،مصر اور دوسری طرف قطر، ترکی اور ایران ملک کی نئی صورت حال میں اپنا اپنا اُلو سیدھا کر رہے ہیں۔ براعظم افریقہ سرمایہ داری کے آغاز سے ہی مختلف سامراجی ممالک کی لوٹ مار اور نسل کشی کا شکار رہا ہے۔ سامراجی ممالک نے معدنی وسائل سے مالامال اس براعظم کو لوٹنے کے لیے مصنوعی لکیریں کھینچ کر مختلف ممالک میں تقسیم کیاہوا ہے۔ لوٹ مارکے اس بے رحمانہ کھیل میں دہائیوں سے لاکھوں انسانوں کا خون بہہ چکا ہے۔ یہ خونریزی اور لوٹ مار اس نظام زر کی ضرورت ہے۔ اس لیے براعظم افریقہ کے بیش بہا معدنی وسائل کو یہاں کے عوام کی صحت، تعلیم، علاج اور خوشحال زندگی کی تخلیق کے لیے اسی وقت استعمال کیا جاسکتا ہے جب سرمایہ داری کو اکھاڑ کر تمام مصنوعی لکیروںکو مٹاتے ہوئے تمام تر وسائل کو عوام کے جمہوری کنٹرول میں لایا جائے گا۔