احسن جعفری

تبدیلی سرکار کی حکومت کو برسرِ اقتدار آئے سات ماہ ہونے کو ہیں۔ تبدیلی کے جو خیالی شیش محل الیکشن سے پہلے بنائے گئے تھے وہ ایک ایک کر کے چکنا چور ہوتے جا رہے ہیں۔ اقتدار تک چور دروازوں سے پہنچنے کے باوجود بھی عمران خان کا ’حزبِ اختلاف موڈ‘ آف نہیں ہو پا رہا۔ بغیر کسی واضح معاشی پلان کے اقتدار میں آجانے کے بعد نیازی حکومت بوکھلاہٹ کا شکار دکھائی دے رہی ہے۔ کل تک جو قرض لینے پر خودکشی کا مژدہ سنا رہے تھے آج وہ انہیں پیکج کا نام دے رہے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی چیزوں اور انتہائی سطحی اقدامات، جن میں سے بیشتر پچھلی حکومت کے شروع کردہ ہیں، کا انتہا سے زیادہ ڈھنڈورا پیٹنا اس حکومت کا طرہِ امتیاز بنتا جا رہا ہے۔ انہی میں سے ایک ’انصاف صحت کارڈ‘ بھی ہے جس کو پاکستان کی علاج کے لئے سسکتی عوام کے لئے مسیحا کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ یوں لگ رہا ہے جیسے اِس کارڈ میں کوئی جا دوئی طاقتیں ہیں اور پاکستان جیسے پسماندہ سماج میں ایک کارڈ ہی صحت کا جدید ترین انفراسٹرکچر بنا ڈالے گا۔ جدید سہولیات سے آراستہ سرکاری ہسپتالوں کی تعمیر سے لے کے سرکاری میڈیکل کالجز، سرکاری میڈیکل یونیورسٹیز اور پیرامیڈک ٹریننگ اداروں کاقیام کسی بھی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں رہا۔ نہ ہی تیسری دنیا کی اِس تاخیر زدہ اور دیوالیہ سرمایہ داری میں ریاست کو اتنے وسائل میسر آتے ہیں۔ عوام کو علاج کی فراہمی پر کیے جانے والے سرکاری اخراجات جی ڈی پی کے ایک فیصد سے بھی کم ہیں۔ اب یہ حکومت اِن اخراجات کو بڑھائے اور کوئی حقیقی اقدامات کیے بغیر تباہ حال نظامِ صحت پر ’صحت کارڈ‘ کا لبادہ چڑھانے کے کروں میں ہے۔
پاکستان ان ممالک میں سرِ فہرست ہے جو اپنے جی ڈی پی کا انتہائی قلیل حصہ صحت پر خرچ کرتے ہیں۔ سرمایہ داری کے اپنے معیارات یعنی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق حکومتوں کو جی ڈی پی کا کم از کم 6 فیصد صحت پر خرچ کرنا ضروری ہے جبکہ پاکستان پچھلے 11 سال سے صرف 0.5 فیصد سے 0.8 فیصد صحت پر خرچ کر رہا ہے۔ صحت کی سہولیات کے حساب سے 195 ممالک میں پاکستان 154ویں نمبر پر آتا ہے جس میں انڈیا، بنگلہ دیش، سری لنکا اور بھوٹان بھی اس سے آگے ہیں۔ یہاں پیدا ہونے والے 1000 بچوں میں سے 88 بچے زندگی کے بجائے موت لے کے ماں کے پیٹ سے باہر آتے ہیں۔ سالانہ 216000 بچے پیدائش کے پہلے ماہ ہی اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ علاوہ ازیں پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں لوگوں کو اپنی جیب سے علاج خریدنے کے لئے بھاری رقوم خرچ کرنا پڑتی ہیں۔ یہ صورتِ حا ل ’ایٹمی طاقت‘ کے حکمرانوں کے لئے باعثِ شرم ہے کیونکہ اتنا خراب حال صرف افریقہ کے پسماندہ ترین ممالک میں ہے۔ لیکن بے غیرتی اور بے شرمی کا اگر کوئی انڈیکس بنایا جائے تو پاکستان کا حکمران طبقہ یقیناً اس میں سرفہرست ہوگا۔

ڈاکٹرز کی تعداد کے حساب سے پاکستان میں 1200 افراد پر صرف ایک ڈاکٹر میسر ہے۔ صرف ڈاکٹرز ہی نہیں بلکہ پیرامیڈک اسٹاف بھی مناسب تعداد اور مکمل تربیت کے ساتھ میسر نہیں ہے۔ عطائیوں کی بھرمار ہے۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) کے مطابق صرف کراچی میں 80000 سے زائد جعلی ڈاکٹر یا عطائی موجود ہیں۔ ہر 37ویں منٹ پر ایک خاتون نئی زندگی دنیا میں لانے کی کوشش میں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے۔ پاکستان کے 44 فیصد بچے غذائی قلت اور غیر معیاری صفائی کی صورتحال کی وجہ سے نامکمل نشونما کا شکار ہیں۔ زیادہ تر افراد غیر سائنسی علاج کرانے پر مجبور ہیں۔ جس کی وجہ سے پیروں فقیروں کے پاس رش کم نہیں ہوتا۔ دنیا میں سے پولیو کے خاتمے کے باوجود بھی پولیو کے کیس رپورٹ ہو رہے ہیں۔ شاید پولیو بھی یہاں اس وجہ سے ختم نہیں ہو پارہا کہ جس دن پولیو ختم ہوگیا اس دن بہت سے فنڈ بھی ملنا بند ہو جائیں گے۔ بہت سی بیماریاں صرف اس وجہ سے جڑ پکڑ پاتی ہیں کیونکہ بنیادی صفائی کی سہولیات ہی میسر نہیں ہیں۔ نام نہاد آزادی کے 72 سال ہونے کو ہیں لیکن پینے کا صاف پانی آج بھی آبادی کی وسیع اکثریت کے لئے عیاشی سے کم نہیں۔ یہاں زیادہ تر بیماریاں پینے کے گندے پانی کی وجہ سے ہیں۔ نکاسی آب کا تباہ حال نظام بیماریوں کو گھروں سے باہر نکالنے کے بجائے واپس گھروں میں پہچانے کا موجب بن رہا ہے۔ پنجاب کے 42فیصد، خیبر پختونخواہ کے 60فیصد اور سندھ اور بلوچستان کے 82فیصد دیہی علاقوں میں نکاسی آب کا نظام سرے سے موجود ہی نہیں۔ شہروں کی ناقص منصوبہ بندی اور دیہاتوں سے مسلسل ہجرت کی وجہ سے شہروں میں گھر سکڑ کر ڈربے بنتے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے تازہ ہوا میں سانس لینا بھی ممکن نہیں رہا ہے۔ نچلی سطح پر ڈسپنسریاں اور ہسپتال اول تو موجود نہیں اور اگر ہیں بھی تو ان کی حالت یہ ہے کہ ایک ایک بیڈ پر کئی کئی مریض لیٹے ہیں۔ صحت کا پرائمری اور سیکنڈری نظام کم و بیش ناپید ہے۔ اسی وجہ سے بڑے ہسپتالوں میں حد سے زیادہ بوجھ ہے اور مریض تبھی ہسپتال تک پہنچتے ہیں جب بیماری کو قابو کرنے کا وقت گزر چکا ہوتا ہے۔ بعض دفعہ مریض ہسپتالوں کے باہر قطاروں میں ہی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ پسماندہ علاقوں سے ٹرشری ہسپتالوں تک پہنچنے کے لئے نہ تو مناسب سڑکیں ہیں نہ ہی کوئی انسانی ٹرانسپورٹ۔ شدید اور حساس نوعیت کی بیماریوں میں مبتلا افراد کو بھی گدھے گاڑیوں، گھوڑا گاڑیوں یا ریڑھیوں پر ڈال کر ہسپتالوں تک لانا پڑتا ہے کیونکہ اس کے علاوہ کوئی اور چارہ ہی نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر مریضوں کو سرکاری ہسپتالوں سے زیادہ اپنے نجی کلینکس میں دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ سرکاری ہسپتال ویسے ہی ضرورت سے انتہائی کم اور زبوں حال ہیں اور جہاں ہیں وہاں عملہ نہیں ہے اور اگر عملہ ہو تو دوائیں دستیاب نہیں ہیں اور اگر دوائیں بھی ہوں تو ان میں سے زیادہ تر جعلی یا گھٹیا معیار کی ہیں۔ ایک سروے کے مطابق پاکستانی مارکیٹوں میں بکنے والی 45فیصد ادویات جعلی ہوتی ہیں۔ ملک میں 4000 ادویات بنانے والے ادارے رجسٹرڈ ہیں جبکہ 100,000 سے زائد ادارے ادویات بنا کر بیچ رہے ہیں جن کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔ پورے ملک میں ایک بھی ایسا سرکاری سول یا ملٹری ہسپتال نہیں جہاں یہاں کے حکمران طبقات یا سرکاری افسر شاہی اپنا علاج کرانا پسند کرے۔

سرکاری شعبے کی مسلسل زبوں حالی کی وجہ سے نجی ہسپتال کینسر کی طرح پھیلتے جا رہے ہیں۔ جیسے جیسے نجی ہسپتالوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے موت کا ننگا ناچ اور وحشت انگیز ہوتا جا رہا ہے۔ کسی سنگین بیماری میں مبتلا کوئی شخص مقروض ہوئے بغیر علاج نہیں کروا سکتا۔ زندگی بھر کی جمع پونجی لٹائے بغیر بھی ضروری نہیں کہ وہ شفایاب ہو پائے۔ پیشہ ورانہ نااہلی یا غفلت کو ہمیشہ کی طرح ’’قسمت‘‘ پر ڈال دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف دواؤں کی کمپنیوں کی لوٹ مار ہے۔ ڈاکٹروں کو سرِ عام رشوت دی جاتی ہے اور اسے ’’تحائف‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ بڑے ڈاکٹروں کی بیرونِ ملک عیاشی سے لے کے ان کے بچوں کی میڈیکل کی تعلیم تک سب فارما کمپنیاں ’اسپانسر‘ کرتی ہیں اور بدلے میں ’بزنس‘ لیتی ہیں۔ حال ہی میں ادویات بنانے والی کمپنیوں نے حکومت کو بلیک میل کر کے جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کیاہے۔ میڈیکل اسٹور جو چاہے اور جہاں چاہے کھول سکتا ہے۔ دواؤں کے بھی اشتہارات چلائے جاتے ہیں۔ کارپوریٹ میڈیا کے اینکر خواتین وحضرات ویسے تو مائیک پکڑ کر ریڑھی والے کے منہ میں گھس جاتے ہیں، لوگوں کے گھروں میں کود جاتے ہیں، بھیس بدل کر فقیروں کو پکڑ لیتے ہیں لیکن ان معاملات پر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اگر کبھی بھول کر کی بھی جاتی ہے تو سارے مسئلے کو انتظامی بنا دیا جاتا ہے یا شخصیات تک محدود کر دیا جاتا ہے۔

اتنی ابتر صورتِ حال میں تبدیلی سرکار کی طرف سے صرف ایک ہیلتھ انشورنس کارڈ کا اعلان زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ یہ ہیلتھ کارڈ کم آمدنی والے گھرانوں میں تقسیم کیے جانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ویسے تو ’کم آمدنی‘ کی اصطلاح بذات خود تشریح کی متقاضی ہے۔ جس حکومت کا وفاقی وزیرِ خزانہ ملک کا سب سے زیادہ تنخواہ پانے والا شخص رہا ہو وہاں کم از کم اجرت میں دو منی بجٹ دینے کے باوجود بھی ایک پیسے کا اضافہ بھی نہیں کیا گیا۔ پھر سوال یہ آتا ہے کہ یہ ہیلتھ کارڈ کس طرح تقسیم کئے جائیں گے؟ ریاستی ڈھانچوں میں کرپشن اوپر سے نیچے تک اس حد تک سرایت کر چکی ہے کہ کسی بھی اسکیم کو صاف شفاف طریقے سے عوام تک پہنچانا تقریباً ناممکن ہے۔ یہ ہیلتھ کارڈ یقیناًسیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لئے سیاسی طریقے سے تقسیم کئے جائیں گے۔ ہر پارٹی سے فیضیاب ہونے والے لوٹے اس ہیلتھ کارڈ کو تقسیم کرنے کی اجارہ داری لیں گے۔ عوام کو ایک مرتبہ پھر ہندسوں کے گورکھ دھندے میں پھنسانے کے لئے ’720000‘ (روپے فی گھرانہ سالانہ) کی رقم کو بڑے بڑے حروف میں بار بار جگہ جگہ استعمال کیا جا رہا ہے۔

یہ کارڈ بنیادی طور پر ہیلتھ انشورنس کارڈ ہے۔ انشورنس کمپنی سٹیٹ لائف ہے جو غریب گھرانوں کی ہیلتھ انشورنس کرے گی اور اس کمپنی کو انشورنس کی رقم حکومت ادا کرے گی۔ ضرورت پڑنے پر سٹیٹ لائف نجی یا سرکاری ہسپتالوں کو علاج کا معاوضہ ادا کرے گی۔ تھوڑا سا غور کیا جائے تو یہ سارا گورکھ دھندا علا ج کے کاروبار کو سرکاری آشیر باد دینے کے لئے ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ انتہائی عیاری سے بڑے پیمانے پر شعبہ صحت کی نجکاری کے مترادف ہے۔ بجائے علاج کو ہر انسان کا بنیادی حق تسلیم کرنے اور اسے مفت قرار دینے کے‘ انتہائی مکاری سے اِسے سرکاری طور پر پیسوں میں تول کے بازار کی جنس بنایا جا رہا ہے۔ اس معاملے میں ایک اہم پہلوایم ٹی آئی ایکٹ ہے جس کے تحت سرکاری ہسپتال فیس لے کر علاج کرنے کے مجاز ہو جائیں گے۔ یہ ایکٹ تحریک انصاف حکومت خیبر پختونخواہ میں نافذ کرچکی ہے اور اس مجرمانہ ایکٹ کو اب پورے پاکستان میں نافذ کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے جس کے بعد سرکاری ہسپتالوں میں بھی علاج کی فیس نافذ کردی جائے گی۔ پنجاب کے ہسپتالوں میں علاج معالجے اور ٹیسٹوں کی فیسوں میں کئی گنا اضافہ اِسی سلسلے کی کڑی ہے جو غریب مریضوں کو زندہ درگور کرنے کے مترادف ہے۔ ایم ٹی آئی ایکٹ کے نفاذ کے بعد چونکہ سرکاری ہسپتال بھی فیس لے کر علاج کریں گے اس لئے عوامی پریشر کو کم کرنے کے لئے یہ ہیلتھ انشورنس کارڈ بانٹے جا رہے ہیں تاکہ یہ کہا جا سکے کہ کارڈ سے ادائیگی کر دی جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ ایم ٹی آئی ایکٹ سرکاری ہسپتالوں کو ’خود مختار اداروں‘ میں تبدیل کردے گا جس سے حکومتی فنڈنگ نہ ہونے کے برابر رہ جائے گی اور سرکاری ہسپتالوں کو اپنے ’فنڈ‘ خود سے جنریٹ کرنے پڑیں گے۔ یعنی یہ نجی اداروں میں بدل جائیں گے۔ اس سے ہسپتالوں میں کام کرنے والے سرکاری ملازمین (ڈاکٹر، نرسز، پیرا میڈک سٹاف وغیرہ) کے مستقبل پر بھی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان لگ جائے گا۔ اِس نام نہاد صحت انصاف کارڈ کا ایک اور پہلو پہلے سے موجود نجی ہسپتالوں کی تجوریاں بھرنا بھی ہے۔ کیونکہ بعض مستند اخباری رپورٹوں کے مطابق جہاں یہ کارڈ جاری کیے گئے ہیں وہاں 60 فیصد ادائیگیاں نجی شعبے کو کی جا رہی ہیں۔ یوں بہرصورت معاملہ یہ ہے کہ صحت کا بجٹ بڑھانے‘ نئے سرکاری ہسپتال بنانے اور پہلے سے موجود ہسپتالوں کی حالت زار کو بہتر بنانے کی بجائے لوگوں کو اِس کارڈ کی بتی کے پیچھے لگا کے نجی شعبے کی طرف ہانکا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں کارڈ حاصل کرلینے والوں کے لئے بھی علاج کی فراہمی کی کوئی ضمانت نہیں ہو گی۔ یہ سارا نظام اتنا پیچیدہ ہے کہ اکثر صورتوں میں انہیں ایک دفتر سے دوسرے دفتر، ایک قطار سے دوسری قطار اور ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال بھیجا جاتا رہے گا۔ نجی ہسپتال چند گھونٹ میں ہی کارڈ میں موجود ساری رقم پی جائیں گے جس کے بعد لوگوں کی جیب سے پیسے نکلوائے جائیں گے۔

فی الوقت انشورنس کرنے والی کمپنی سرکاری (سٹیٹ لائف) ہے جو خسارے میں یہ انشورنس کر رہی ہے۔ کل کو عین ممکن ہے حکومت نجی کمپنیوں سے بھی معاہدے شروع کر دے۔ نجی ہیلتھ انشورنس کمپنیاں صرف اور صرف منافع کمانے کے لئے بنائی جاتی ہیں اور ان کے پے رول پر ہونے والے ڈاکٹر اور ہسپتالوں کا اولین مقصد مریضوں کو علاج کی سہولیات نہ دینا ہوتا ہے تاکہ کمپنی کے زیادہ سے زیادہ پیسے بچائے جا سکیں۔ اس مقصد کے لئے ہیلتھ انشورنس کمپنیاں ان ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کو ’ایکسٹرا ہڈن انسینٹو‘ بھی دیتی ہیں جو زیادہ سے زیادہ کیس مسترد کرتے ہیں۔ ہیلتھ انشورنس کروانے سے پہلے انشورنس کروانے والے شخص کا مکمل میڈیکل چیک اپ کروایا جاتا ہے جو ان کا مقرر کردہ ڈاکٹر ہی کرتا ہے اور انشورنس کروانے سے پہلے جو جو بیماری اس شخص میں پائی گئی اس کی انشورنس نہیں کی جائے گی اور اس پر آنے والے اخراجات کا بوجھ اُسے خود اٹھا نا پڑے گا۔ انشورنس کروا لینے کے بعد اگر وہ شخص بیمار ہو جاتا ہے اور پتا چلتا ہے کہ مثلاً اسے عارضہ قلب لاحق ہے یا کوئی اور ایسی بیماری جو کچھ عرصے میں جڑ پکڑتی ہے تو اُسے’Pre-Existing Condition‘ میں ڈال کر کیس ریجیکٹ کردیا جاتا ہے۔ انشورنس کمپنیوں کے قواعد و ضوابط کی دستاویزت ایسی پیچیدہ زبان میں تحریر کی جاتی ہیں کہ اچھا خاصا پڑھا لکھا بندہ بھی انہیں سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ’ *‘ کے نشانات اور ان کی بہت ہی چھوٹے حروف میں تشریح ایک الگ کہانی ہے۔ اس سارے معاملے میں ڈاکٹر اور ہسپتال ہمیشہ انشورنس کمپنی کا ساتھ دیتے ہیں کیونکہ ’انسینٹو‘تو وہیں سے ملنا ہوتا ہے۔ اگرعلاج شروع بھی کیا جائے تو اسے بلا وجہ ایسی دواؤں سے ٹالا جاتا رہتا ہے جو کم قیمت ہوں کیونکہ اصل علاج پر خرچہ زیادہ ہوتا ہے۔ یا اگر کوئی ایسی بیماری ہو جس کا علاج آپریشن کے علاوہ موجود ہی نہ ہو تو آپریشن کو بلا وجہ تاخیر کا شکار کیا جاتا ہے تاکہ جتنے دن ہوسکیں انشورنس کمپنی کا پیسہ بچایا جائے۔ اس دوران اگر مریض کا انتقال ہو جائے تو اسے رضائے الٰہی کہہ کر کیس بند کر دیا جاتا ہے۔ بعض صورتوں میں تو ہسپتال مریضوں کو کیس کے مسترد یا قبول ہونے کا بتاتے بھی نہیں اور خاموشی سے ان سے پیسے لیتے رہتے ہیں اور یہ کہا جاتا ہے کہ ان پیسوں کا چیک آپ کو بعد میں کمپنی کی طرف سے مل جائے گا۔ جب مریض تمام رقم جمع کردیتا ہے تو اسے بتایا جاتا ہے کہ اس کا کیس ریجیکٹ کر دیا گیا ہے اس لئے یہ پیسے اب واپس نہیں مل سکیں گے۔ اِس سارے کھلواڑ کی سب سے بڑی مثال امریکہ ہے جہاں کم و بیش تمام نظامِ صحت ان انشورنس کمپنیوں اور نجی ہسپتالوں کے نرغے میں ہے۔ امریکہ میں علاج معالجے کے اوسط فی کس اخراجات ترقی یافتہ دنیا میں سب سے زیادہ ہیں جبکہ نتائج سب سے بدتر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کا نظامِ صحت دنیا بھر میں سب سے مہنگا اور غیر موثر شمار ہوتا ہے۔

اوپر بیان کی گئی صورتحال سے واضح ہے کہ ایسی وارداتوں کا مقصد صحت کے شعبے کا پہلے سے قلیل بجٹ مزید کم کرنا‘ نجکاری کی راہ ہموار کرنا اور سرمایہ داروں کے منافعوں میں اضافہ کرنا ہے۔ یہ حکومت بنیادی سہولیات پر سرکاری اخراجات میں کٹوتیوں کو نئی انتہاؤں پہ لے جا رہی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ فوری، جدید اور سائنسی علاج ہر انسان کا بنیادی حق ہے جسے کسی کارڈ کا مرہونِ منت نہیں ہونا چاہئے۔ نہ ہی کارڈ میں موجود رقم کو علاج کی ’حدود‘ کا تعین کرنا چاہئے۔ ایسی سوچ ہی غیر انسانی اور وحشیانہ ہے۔

پاکستان جیسے معاشروں میں صحت کی ایسی سہولیات جو ایک ’انسان‘ کا حق ہونی چاہئیں‘ فراہم کرنے کے لئے جتنے بڑے پیمانے کی سرکاری سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اس کے بارے میں اِس نظام کے تحت سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ اس نظام میں اتنے وسائل ہی پیدا نہیں ہو سکتے۔ ہزاروں نئے ہسپتال اور لاکھوں کی تعداد میں نئے ڈاکٹر اور نرسز درکار ہیں۔ پرائمری سطح پر لاکھوں ہیلتھ یونٹ تعمیر کرنے ہوں گے۔ طبی تحقیق کے نئے ادارے کھڑے کرنا ہوں گے۔ ایسا سماجی انفراسٹرکچر اور نظامِ صحت متعارف کروانا ہو گا جو انسان کو بیمار ہونے ہی نہ دے۔ یا ہر فرد کے باقاعدہ طبی معائنے کے ذریعے بیماری کو شروعات میں ہی قابو کر لیا جائے۔ نجی ہسپتالوں اور ادویات کی کمپنیوں کو قومی تحویل میں لے کے باہم مربوط کرنا ہوا۔ اس سب کے لئے جتنا پیسہ درکار ہے وہ شاید اِس ریاست کے مجموعی وفاقی اور صوبائی بجٹوں سے بھی تجاوز کر جائے۔ لیکن ایک سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کے تحت یہ ناممکن نہیں ہو گا۔