لال خان

حکومت کی جانب سے 5 مارچ کو ’انتہا پسند‘ سمجھی جانے والی تنظیموں پر پھر سے پابندی عائد کرنے کے اعلان کے اگلے ہی دن ایبٹ آباد میں افضل کوہستانی کو بہیمانہ انداز سے قتل کر دیا گیا ۔ افضل کوہستانی کا جرم یہ تھا کہ وہ مئی 2012ء میں کوہستان میں ایک مقامی جرگے کے ہاتھوں پانچ نوجوان لڑکیوں اور دو لڑکوں کے وحشیانہ قتل کے واقعے کو منظر عام پر لایا تھا۔ ان نوجوانوں، جن کی ایک شادی کی تقریب کے دوران رقص کرنے اور تالیاں بجانے کی موبائل ویڈیو مقامی سطح پر مقبول ہو گئی تھی، کے قتل کا فتویٰ ایک مقامی مُلّا نے دیا تھا۔ 30 مئی 2012ء کو مبینہ طور پر ٹارچر کے بعد قتل کیے جانے والے ان نوجوانوں میں افضل کوہستانی کا بھائی بھی شامل تھا۔ یہ جرگہ نہ صرف سماجی بلکہ معاشی طور پر بھی اتنا طاقتور تھا کہ ساری سرکاری مشینری اس کے سامنے سرنگوں نظر آئی۔ بالخصوص افغان ڈالر جہاد کے بعد ایسے کئی قبائلی گروہ ابھرے ہیں جن کے اثر و رسوخ کو کالے دھن دولت نے بہت بڑھا دیا ہے۔ علاوہ ازیں ایسی رجعتی قوتیں اسی قدر سفاک بھی ہوگئی ہیں۔ بالعموم 1980ء کے بعد کئی دہائیوں کی سامراجی اور سرکاری پشت پناہی سے بنیاد پرستی، رجعت اور مذہبی انتہا پسندی کو جس طرح اس خطے پر مسلط کیا گیا ہے اس سے نہ صرف پسماندہ علاقوں کی پسماندگی زیادہ زہریلی اور وحشیانہ ہو گئی ہے‘ شہری علاقوں کے درمیانے طبقات بھی زیادہ قدامت پرست ہو گئے ہیں بلکہ یہ سوچیں اور رجحانات ریاستی مشینری میں بھی گہری سرایت کر گئے ہیں۔ اسی وجہ سے کوہستان کے سرکاری اہلکاروں نے پہلے پہل تو کہا کہ ایسا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں ہے۔ یوں بات کو دبانے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ لیکن افضل کوہستانی نے کمال جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس درندگی کو بے نقاب کیا اور انتہائی طاقتور لوگوں کی دشمنی مول لی۔ پولیس حکام بدستور دعویٰ کر رہے تھے کہ ویڈیو میں نظر آنے والی بچیاں زندہ ہیں۔ تاہم 7 جون 2012ء کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے از خود نوٹس لیتے ہوئے ایک کمیشن کو کوہستان بھجوایا جس کے سامنے لڑکیوں کو پیش کر دیا گیا۔ تاہم کمیشن میں شامل سرگرم سیاسی کارکن ڈاکٹر فرزانہ باری نے خدشات ظاہر کیے کہ کچھ اور لڑکیوں کو پردہ کروا کے کمیشن کے سامنے پیش کر دیا گیا تھا اور ویڈیو میں دیکھی جانے والی لڑکیوں کو واقعتا قتل کیاجا چکا تھا۔ ان واقعات کے بعد افضل اور اس کے خاندان کو مقامی بااثر افراد کی انتہائی بے رحم انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بننا پڑا۔ ان کا گھر جلا دیا گیا جس میں ایک معصوم بچہ جاں بحق ہو گیا۔ بعد ازاں افضل کے تین بھائیوں کو قتل کر دیا گیا۔ خود افضل کو اپنی جان بچانے کے لئے زیر زمین جانا پڑا۔ پولیس سکیورٹی کے لئے دی جانے والی درخواستیں بے سود رہیں۔ اُلٹا پولیس، جسے تحریک انصاف کی حکومت کے تحت ’ماڈل پولیس‘ بنا دیا گیا تھا، قاتلوں کو بچانے کی بھرپور کوشش کرتی رہی۔ 31 جولائی 2018ء کو سپریم کورٹ کے حکم پر پالس پولیس سٹیشن میں نیا مقدمہ درج کیا گیا جس کے تحت چار ملزمان کو گرفتار کیا گیا جنہوں نے دوران تفتیش تین لڑکیوں کے قتل اور ان کی لاشوں کو نالا چوڑھ میں بہانے کا اعتراف کیا۔ تاہم افضل کا اصرار تھا کہ انہوں نے شدید تشدد اور ٹارچر کے بعد پانچوں لڑکیوں کو قتل کیا تھا اور ان کی قبروں کی نشاندہی نہیں کر رہے تھے تاکہ ان کی بربریت چھپی رہے۔ لیکن پھر 6 مارچ 2019ء کو افضل کوہستانی کو بھی بھرے بازار میں گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔

سرکاری مشینری کی ناک تلے یہ پے درپے بربریت جہاں پسماندہ معاشروں میں پھیلی رجعت اور فسطائی رحجانات کی غمازی کرتی ہے وہاں اِس طبقاتی نظام میں غریب انسانوں کی طرف ریاست کا منافقانہ رویہ بھی کھل کے سامنا آتا ہے۔ ایسے واقعات اِس مارکسی تجزئیے کو ثابت کرتے ہیں کہ سرکاری ادارے کیسے ہر حال میں سماج کی دولت اور وسائل پر قابض مٹھی بھر اقلیت کا تحفظ کرتے ہیں۔ یہ دولت اور طاقت والوں کی حکومتیں ہیں جن سے انصاف کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔ افضل کوہستانی کے قتل سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے غیر سرکاری تنظیموں اور عالمی سامراجی اداروں کی جانب سے ’انسانی حقوق‘ کا واویلا محض اپنے سفارتی اور سٹریٹجک مقاصد کے لئے ہی ہوتا ہیں۔ انسانی حقوق کا پرچار کرنے والے اداروں کے بڑھنے سے عام لوگوں پر جبر و استحصال میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا ہے۔ اس نظام میں تعلیم اور علاج کی طرح انصاف بھی اتنا مہنگا ہو گیا ہے اور ’تحریک انصاف‘ کی حکومت میں مزید ہوتا چلا جا رہا ہے کہ معاشرے کی وسیع تر اکثریت کی دسترس سے ویسے ہی باہر ہے ۔ کوہستان کا یہ واقعہ چند بے لوث ترقی پسند سیاسی کارکنان کی وجہ سے میڈیا تک رسائی حاصل کرسکا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کا منظر عام پر آنا افضل اور اس کے خاندان کے لئے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوا۔ یہ کیسا المیہ ہے کہ یہ کیس اگر اتنا نہ ابھرتا اور سپریم کورٹ خود رو نوٹس نہ لیتی تو افضل ذلت اور جلاوطنی میں ہی سہی لیکن اپنی زندگی کے دن شاید پورے کر لیتا۔

آج یہ نظام اپنے تمام اداروں سمیت جس قدر گل سڑ چکا ہے اور معاشرہ جس طرح ٹھہراؤ کا شکار ہو کے تعفن زدہ ہو چکا ہے ایسے میں رجعتی اور جنونی عناصر کا ہی راج چلتا ہے۔ بہت سے علاقوں میں کالے دھن سے مسخ شدہ قبائلیت کے تحت اکیسویں صدی میں بھی بدترین قدامت پرستانہ سوچیں مسلط ہیں۔ نام نہاد خاندانی عزت، وقار اور روایات جیسے مفروضوں کو یہ قدامت پرستی اور رجعت استعمال ضرور کرتی ہے لیکن ان کی بھینٹ ہمیشہ کمزور اور غریب ہی چڑھتے ہیں۔ عزت اور مرتبت کے معیار بھی براہِ راست دولت سے وابستہ ہو گئے ہیں۔ غریب کی معاشرے میں کوئی عزت نہیں ہے۔ محنت کر کے روٹی روزی کمانے والوں کی عظمت کو دولت والوں نے چھین لیا ہے۔

افضل کوہستانی اور اس کی حمایت کرنے والے چند ہمدردوں نے جب ایک مخصوص ذہنیت کے جبر سے انفرادی طور پر لڑنے کی کوشش کی تو اس کے نتیجے سے یہ بھی واضح ہوا ہے کہ مظلوموں کی نجات کے لئے بڑی یکجہتی اور تحریک کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس طبقاتی سماج میں میں تمام تر قوانین اور حقوق کے دعوؤں کے باوجود بالآخر اسی استحصالی طبقے کی من مانی چلتی ہے جو معاشرے پر مسلط اور قابض ہے۔ یہ واقعات اس معاشرے اور اس کے حکمرانوں کی منافقت اور دوغلے پن کی قلعی کھولنے کو کافی ہیں۔ اس طرح سرِ عام افضل کو قتل کرنے والوں کو پورا یقین ہو گا کہ وہ بچ جائیں گے۔ ویسے تو یہاں ایسے ہزاروں کیس ہیں جو اسی طرح دبا دئیے جاتے ہیں جیسے کوہستان کے مذکورہ بالا واقعے کو شروع میں دبانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن اس منظر عام پر آنے والے کیس میں بھی سب کچھ واضح ہونے، قاتلوں کے اعتراف جرم اور تمام ثبوتوں کے باوجود کھلے بندوں اسی شخص کو اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے جو اس بربریت کے خلاف آواز اٹھا رہا تھا۔ افضل کوہستانی کے بہیمانہ قتل نے ہر ذی شعور اور باضمیر انسان کو رنجیدہ کیا ہے۔ لیکن افسوس کرنے اور آنسو بہانے سے مسئلے حل نہیں ہوتے۔ اس روز روز کے ظلم اور بربریت سے نجات حاصل کرنی ہے تو انہیں جنم دینے والے نظام کا خاتمہ کرنا ہو گا۔ لیکن مشال خان سے لے کے افضل کوہستانی تک کے واقعات ثابت کرتے ہیں کہ انفرادی طور پر آواز اٹھانے والوں کو یہ نظام کچل دیتا ہے۔ انقلابی نظریات اور دور رس لائحہ عمل پر مبنی مظلوموں کی اشتراکی جدوجہد ہی اس کا خاتمہ کر سکتی ہے۔