احسن جعفری

پانی زندگی ہے۔ بلا مبالغہ ہزارہا مرتبہ سنے ہوئے اس جملے میں جو سچائی ہے اس کا مکمل ادراک وہی کر سکتے ہیں جن کی زندگی کے شب و روز اپنی رہائش تک پینے کا صاف پانی پہنچانے میں صرف ہو جاتے ہیں اور یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ بلوچستان یا تھر کے رہائشی ہوں۔ اگر آپ پاکستان کے صنعتی مرکز اور سب سے متمدن شہر کراچی میں بھی رہائش پذیر ہیں تب بھی آپ کو اس مسئلے کا سامنا روزانہ کی بنیاد پر کرنا پڑسکتا ہے۔ بلکہ اگر آپ امریکہ کی ریاست ’مشی گن‘ کے شہر ’فلِنٹ‘ کے رہائشی ہیں تو بھی آپ کے گھر کی پانی کی لائن میں آنے والا پانی مضرِ صحت ہو سکتا ہے۔ شہریوں تک صاف پانی کی فراہمی کا مسئلہ اب غیر ترقی یافتہ خطوں سے ہوتا ہوا ترقی یافتہ خطوں تک پہنچ گیا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زندگی کی بنیادی ضروریات میں سے سب سے اہم ضرورت تعیشات میں شامل ہوتی جا رہی ہے اور یہ بحران کسی قدرتی آفت کا نتیجہ نہیں ہے۔
ہمارے سیارے کی عمر 4.5 ارب سال سے کچھ زیادہ ہے اور یہاں پانی کی موجودگی کے آثار بھی قریباً اتنے ہی پرانے ہیں۔ زمین پر زندگی کی شروعات 4.3 ارب سال پہلے ہوئی۔ چند ایک جانداروں، جن کا پانی کا استعمال انتہائی کم ہے، کو چھوڑ کے باقی تمام جانداروں کی حیات کا دارومدار پانی کے کثیر استعمال پر ہے۔ بلکہ زیرِ آب جو دنیا آباد ہے وہ خشکی پر موجود دنیا سے زیادہ بڑی ہے۔ ہماری زمین کا 71 فیصد حصہ زیرِ آب ہے اور کُل پانی کا 96.5 فیصد نمکین سمندری پانی پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ پانی ہوا میں آبی بخارات کی شکل میں، دریاؤں، جھیلوں، ندیوں، برفانی تودوں، زمین میں نمی، زیرِ زمین ’Aquifers‘ اور میرے اور آپ سمیت تمام جانداروں کے اجسام میں کسی نہ کسی شکل میں پایا جاتا ہے۔ یہ تمام پانی فریش واٹر یا تازہ پانی کہلاتا ہے جو کل پانی کے 2.5 فیصد سے 2.75 فیصد تک ہے۔ اس میں سے بھی 1.75 فیصد گلیشیرز اور برف کی صورت میں، 0.75 فیصد زیرِ زمین پانی اور زمین کی نمی کی صورت میں پایا جاتا ہے۔ 0.01 فیصد سے بھی کم پانی ندیوں، جھیلوں اور دریاؤں میں موجود ہے۔ آبی چکر کی وجہ سے پانی ایک جگہ سے دوسری جگہ اور ایک شکل سے دوسری شکل میں مسلسل عازمِ سفر رہتا ہے اور اس سفر کے دوران اپنے راستے میں آنے والے تمام زندہ اجسام کی زندگیوں کو جلا بخشتا جاتا ہے۔ خشکی پر پائی جانے والی حیات میں سے چند ایک کو چھوڑ کر زیادہ تر اعلیٰ درجے کے پودوں، پرندوں او ر جانوروں کی زندگیوں کا دارومدار اسی 2.5 فیصد تازہ پانی یا فریش واٹرپر ہے۔ تازہ پانی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ تقریباً تمام قدیم تہذیبیں آسانی سے دستیاب تازہ پانی یعنی دریاؤں کے کنارے پر پروان چڑھیں۔ وہ دریائے گنگا و جمنا ہو، دریائے نیل ہو، دریائے امیزون ہو یا ہمارا سندھو دریا۔

صاف اور صحت بخش پانی کی فراہمی ریاست کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے لیکن سرمایہ داری کے گہرے ہوتے ہوئے بحران میں یہ بنیادی انسانی ضرورت بھی ریاست فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ پاکستان جیسی ازلی بحران زدہ ریاست تو اپنی جگہ مگر امریکہ میں بھی صاف پانی کی فراہمی دن بدن دشوار ہوتی جا رہی ہے۔ پچھلے کچھ عرصے میں پاکستان میں پانی کے بحران پر بہت واویلا کیا گیا ہے اور پانی کے لئے تڑپتی عوام کو’’ڈیم‘‘ کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے جس پر ہم آگے بات کریں گے۔ ایک طرف پانی کی کمی کا رونا رویا جا رہا اور دوسری طرف نجی کمپنیوں کو زیرِ زمین اور دریاؤں کا پانی کوڑیوں کے بھاؤ دیا جا رہا ہے جس سے ان کمپنیوں کے منافعے آسمانوں کو چھو رہے ہیں اور ان علاقوں میں زیرِ زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک نیچے جا رہی ہے۔

زمین پر پانی کی مقدار

کیا واقعی پانی کے ذخائر کم ہوتے جا رہے ہیں؟ زمین پر موجود پانی کی مقدار میں کوئی کمی بیشی نہیں ہو رہی۔ یہ مقدار ڈائنوسارز کے زمانے سے آج تک ایک جیسی ہی ہے لیکن کسی خاص وقت میں پانی کس شکل میں موجود ہے اس حقیقت سے پانی کے جاندار اجسام کے لئے قابلِ استعمال ہونے پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے تازہ پانی کی ایک بڑی مقدار قابلِ استعمال نہیں رہتی اور کہنے کو وہ تازہ پانی کے ذخائر کا حصہ ہوتا ہے لیکن مضرِ صحت ہوتا ہے۔ زمین پر کل پانی کی مقدار 1,386,000,000 کیوبک کلومیٹر ہے۔ جس میں سے فریش واٹر34,650,000 کیوبک کلومیٹر ہے۔ ایک کیوبک کلومیٹر پانی 1000 ٹریلین لیٹر کے برابر ہے۔ لیکن یہ تمام پانی زمین پر ہر جگہ یکساں مقدار اور آسانی سے دستیاب شکل میں نہیں پایا جاتا۔

بحران کی نوعیت

سوال یہ ہے کہ اگر پانی کی مقدار میں کمی نہیں آرہی توپھر پانی کے بحران کی نوعیت کیا ہے؟ پانی کاموجودہ بحران سرمایہ داری کے بحران کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ زمین پر بسنے والے محنت کش سالانہ 10 ارب انسانوں کی ضرورت کی خوراک پیدا کرتے ہیں لیکن پھر بھی زمین کی کل انسانی آبادی یعنی 7.5 ارب انسانوں میں سے کروڑوں انسان بھوک کا عذاب جھیلتے ہیں اورساری زندگی غذائی قلت کا شکار رہتے ہوئے ایک نامکمل انسان کے طور پر اس دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ یہ سب غذائی اشیا کی کمی کے باعث نہیں ہے بلکہ منافع کی ہوس غذا کو انسانوں تک پہنچنے ہی نہیں دیتی۔ ہوشربا مہنگائی اور مسلسل گرتی ہوئی اجرتوں نے غذا کو محنت کشوں کی دسترس سے دور کردیا ہے۔ منڈی میں مانگ کو برقرار اور قیمتوں کو اونچا رکھنے کے لئے بہت سی غذا یا تو گوداموں میں پڑی پڑی سڑ جاتی ہے یا سمندر برد کر دی جاتی ہے۔ پانی کا بحران بھی سرمائے کی لوٹ کھسوٹ سے جنم لینے والی ماحولیاتی آلودگی اور بے تحاشہ اور غیر ضروری پا نی کے استعمال کا نتیجہ ہے۔ منڈی کی اندھی قوتیں پانی کا وہ استعمال کرتی ہیں جس سے زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جاسکے۔ اب اس سارے معاملے میں اگر پانی آلودہ ہو جائے یا کسی ایسی شکل میں تبدیل ہوجائے جس کو دوبارہ خالص بنانے میں بہت دشواری ہو تو بھی سرمائے کے پجاری اس کی پرواہ نہیں کرتے اور پانی کا بے دریغ استعمال جاری رہتا ہے۔

واٹر فٹ پرنٹ (Water Footprint)

کسی بھی عمل میں پانی کے استعمال کی حد ’Water Footprint‘ کہلاتی ہے۔ جب بھی پانی استعمال کیا جاتا ہے تو وہ ختم نہیں ہوتا بلکہ اپنی خالص شکل سے کسی غیر خالص شکل یا کسی ایسی شکل میں تبدیل ہوجاتا ہے جسے فوراً یا آسانی سے بطورخالص پانی دوبارہ استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ جیسے کہ آبی بخارات، برف یا وہ پانی جو آپ کی کولڈرنک میں موجود ہے وغیرہ۔ اس کے علاوہ آپ کے کھانے پینے سے لے کر استعمال کی تمام اشیا کے پیداواری عمل میں پانی استعمال ہوتا ہے جو کہ اس چیز کا واٹر فٹ پرنٹ کہلائے گا۔ کوک کے واٹرفٹ پرنٹ پر کام کرنے والے ماحولیاتی کارکنان کا کہنا ہے کہ ایک لیٹر کوک بنانے میں قریباً 9 لیٹر پانی استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک سوتی کاٹن کی ٹی شرٹ کا واٹرفٹ پرنٹ 2700 لیٹر جبکہ ایک جینز کی پتلون کا 10,000 لیٹر ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ فیشن انڈسٹری اس معاملے میں سب پر بازی لے جاتی ہے کیونکہ فیشن مسلسل تبدیل ہوتا رہتا ہے اوراس تبدیلی کے حساب سے مسلسل جدید فیشن کے ملبوسات منڈی میں آتے رہتے ہیں۔ صرف فیشن انڈسٹری پر ہی نہیں بلکہ سرمایہ داری میں ہر انسانی ضرورت کی چیز کو بار بار خریدنے کی ترغیب دی جاتی ہے تاکہ شرحِ منافع میں مسلسل اضافہ کیا جاتا رہے۔ ڈرنک انڈسٹری بھی زیادہ پانی استعمال کرنے والی انڈسٹریز میں شمار کی جاتی ہے۔ آدھا لیٹر سوڈا کے پیداواری عمل میں 170 سے 310 لیٹر تک پانی استعمال ہوتا ہے۔ ایک لیٹر بیئر میں 300 لیٹر اور ایک کپ کافی میں موجود اشیا کے پیداواری عمل میں140 لیٹر پانی استعمال ہوتا ہے۔ اس پیداواری عمل میں سب سے زیادہ پانی فصلوں کو دیا جاتا ہے جہاں سے اناج یا کوئی اور جنس حاصل کی جاتی ہے۔ ایک کلو کپاس کی پیداوار میں 20,000 لیٹر پانی استعمال ہوتا ہے اور کپاس فیشن انڈسٹری کی بنیادی ضرورت ہے۔ پلاسٹک کی بوتل میں موجود ایک لیٹر پانی کا واٹر فٹ پرنٹ 2 لیٹر ہے۔ اسمارٹ فون کا واٹرفُٹ پرنٹ 910 لیٹر ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت دنیا میں 2.1 ارب سے 2.6 ارب اسمارٹ فون استعمال کرنے والے موجود ہیں۔ سال2018ء کے اختتام تک یہ تعداد3.1 ارب تک پہنچنے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ اسمارٹ فونز کے جدید سے جدید ماڈل ہر ماہ متعارف کرائے جاتے ہیں اور اشتہاربازی کے ذریعے گاہکوں کو فون تبدیل کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ ہر سال 1.54 ارب اسمارٹ فون گاہکوں کو فروخت کئے جاتے ہیں۔ سال2007ء سے 2017ء تک 8.5 ارب اسمارٹ فون فروخت کئے گئے جن میں سے زیادہ تر اب کچرے کی صورت میں جگہ جگہ بکھرے ہوئے ہیں۔ اس دوران 7,783 ٹریلین لیٹر پانی استعمال کیا گیا۔ اسمارٹ فونز، جدید فیشن کے ملبوسات اور ڈرنکس۔ مڈل کلاس کنزیومرازم یا صارفیت کی اس سے بہتر تشریح اور کیا ہوگی؟

یہاں منڈی کو انسانی فلاح کا معیار ماننے کے نظرئیے کی محدودیت بھی نظر آتی ہے۔ بظاہر سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے۔ منڈی میں طلب اور رسد کی قوتیں توازن میں ہیں۔ لیکن ساری فطرت کے توازن کا بیڑا غرق ہو رہا ہے۔ لیکن یہ بربادی اِس نظام کے اعداد و شمار اور اعشاریوں میں نظر نہیں آتی۔

ماحولیاتی آلودگی

پانی کے بحران کی ایک بڑی وجہ ماحولیاتی آلودگی ہے۔ بین الاقوامی قوانین کے تحت کسی بھی فیکٹری یا کارخانے سے نکلنے والا فضلہ بغیر ٹریٹمنٹ (صفائی) کے ماحول میں نہیں چھوڑا جاسکتا۔ لیکن سرمایہ دار پیداواری لاگت کو کم سے کم کرنے اور شرح منافع بڑھانے کے لئے ان قونین کو خاطر میں نہیں لاتے اور انتہائی خطرناک کیمیائی اجزا کا حامل پانی ندی نالوں اور دریاؤ ں میں چھوڑ دیتے ہیں جس سے نہ صرف ارد گرد کی حیات کو خطرہ لاحق ہوتا ہے بلکہ یہ پانی جہاں جہاں تک پہنچتا ہے وہاں حیات کو نقصان پہنچاتا ہے۔ فیکٹریوں اور کارخانوں کی پھیلائی گئی پانی کی آلودگی کا 20 فیصد کپڑے کی صنعت سے آتا ہے۔ کپڑے کی صنعت کا ماحول کو دیا جانے والا ایک اور خطرناک تحفہ ہے پولیسٹر (Polyester) کا ریشہ۔ یہ اسی میٹریل سے بنتا ہے جس سے پلاسٹک کی بوتل۔ جب ہم اپنے پولیسٹر والے کپڑے دھوتے ہیں تو ہزاروں مائیکرو فائبر کپڑوں سے نکل کر پانی کے ساتھ بہہ جاتے ہیں اور وہ ہمارے فریش واٹر کے ذخائر میں چلے جاتے ہیں جہاں دیگر جاندار اس مائیکرو فائبر کی ہلاکت خیزی کا نشانہ بنتے ہیں۔ فیکٹریوں سے نکلنے والی زہریلی گیسیں اور فوسل فیول کا جلنا گرین ہاؤس ایفیکٹ کا باعث بنتا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کے باعث زمین کا درجہ حرارت بڑھتاجا رہا ہے جس کہ وجہ سے آبی چکر میں خلل پڑ رہا ہے۔ سال کے جس وقت میں بارش ہونی چاہئے اس میں نہیں ہوتی اور جب نہیں ہونی چاہئے اس وقت طوفان آجاتے ہیں۔ فصلوں کو بر وقت پانی نہ ملنے کی وجہ سے اناج کی پیداواربھی متاثر ہوتی ہے۔

پانی کا غیرضروری استعمال

پانی کے زیاں سے متعلق آگاہی مہم میں عموماً ایک نلکا دکھایا جاتا ہے جسے کھلا چھوڑدیا گیا ہوتا ہے یا پھر اس میں سے قطرہ قطرہ پانی ٹپک رہا ہوتا ہے۔ یا ایک عام سے گھر کی پانی کی ٹنکی بھرنے کے بعد اوور فلو سے بہہ رہی ہوتی ہے اور پھر ایک سنجیدہ آواز آپ کو بتاتی ہے کہ یہ پانی بہت قیمتی ہے اس لئے اسے ضائع ہونے سے بچائیں۔ لیکن ان تمام آگاہی مہمات میں کبھی بھی آپ کو حکمران طبقات کے محلوں میں ہونے والے پانی کے بے تحاشہ استعمال اور زیاں کے متعلق ایک حرف بھی نہیں بتایا جاتا۔ یہ کبھی نہیں بتایا جاتا کہ حکمرانوں کے محلوں میں کتنے سوئمنگ پول ہیں جن میں صبح شام پانی تبدیل کیا جاتا ہے۔ کتنے فوارے ہیں جو دن رات چلتے رہتے ہیں۔ کتنے باغات ہیں جن کو لاکھوں لیٹر پانی روزانہ دیا جاتا ہے اور کتنی مصنوعی آبشاریں ہیں جو لان کو خوبصورت بنانے کے لئے نصب کی گئی ہیں۔ کتنے واٹر پارک ہیں جہاں قیمتی پانی صرف کھیل کود کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ لاکھوں لوگ ایک ایک بوند کو ترس رہے ہوتے ہیں۔ کتنے لاکھ لیٹر پانی بوتلوں میں بھرا گوداموں میں پڑا رہتا ہے کیوں کہ گاہک موجود نہیں ہوتے اور کتنے کروڑ لیٹر پانی کولڈڈرنکس کی صورت میں قید ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق کوک کی سالانہ پیداوار 650 ملین میٹرک ٹن سے زیادہ ہے یعنی صرف کوک کے پیداواری عمل میں سالانہ 5850 ملین میٹرک ٹن پانی استعمال ہوتا ہے۔ ایک انسان کو پورے دن میں پینے کے لئے صرف 2 لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے اورکوک سالانہ اتنا پانی استعمال کرتی ہے جو 8 ارب سے زائد انسانوں کی پورے سال کی پیاس بجھا سکتا ہے۔ اب اگر بقایا ڈرنک انڈسٹری کو بھی لیا جائے تو یہ اتنا پانی ہو گا جو شاید سینکڑوں سال تک استعمال کیا جاسکے۔ پانی کے اس غیر ضروری استعمال کے بارے میں کبھی میڈیا نہیں بتائے گا کیونکہ اس کے ساتھ اربوں کھربوں روپے کے منافعے جڑے ہیں۔

پاکستان اور ڈیم

پاکستان ان چند ممالک میں سرِفہرست ہے جہاں پانی کا بحران آنے والے دنوں میں شدت اختیار کرتا جائے گا۔ پاکستان کی مقتدر اشرافیہ کے آئن سٹائن چیف جسٹس نے بہت ’’تحقیق‘‘ کے بعد اس مسئلے کا حل ایک ڈیم بنانے میں نکالا ہے اور اس کے لئے عوام سے چندہ بھی لینا شروع کردیا ہے جو چندے سے زیادہ بھتہ معلوم ہوتا ہے۔ عوامی چندوں سے اتنے بڑے منصوبوں کی تکمیل ممکن بھی ہے یا نہیں یہ ایک الگ بحث ہے۔ سب سے پہلے تو یہ بات کہ ڈیم صرف پانی جمع کر سکتا ہے پانی بنا نہیں سکتا۔ دوسرا سب سے اہم نکتہ یہ کہ بڑے ڈیم بنانے کے معاشرتی اور ماحولیاتی نقصانات بہت زیادہ ہیں جس کی طرف کبھی توجہ نہیں دی گئی۔ جب بڑے ڈیم (بڑے ڈیم سے مراد ایسا ڈیم جس کی اونچائی 15 میٹر تک ہو اور پانی جمع رکھنے کی صلاحیت 3 ملین کیوبک میٹر تک ہو) بنائے جاتے ہیں تو وہ آبادیا ں جو ڈیم کی تعمیر سے براہ راست متاثر ہو رہی ہوتی ہیں ان سے کسی قسم کی اجازت نہیں لی جاتی۔ یعنی وہ لوگ جو وہاں آباد ہیں، وہ زمینیں جو ڈیم بننے کے بعد زیرِآب آجائیں گی یا وہ لوگ جن کا گزر بسردریا کے ڈاؤن اسٹریم میں کاشتکاری اور ماہی گیری وغیرہ کے ساتھ جڑا ہے۔ انڈیپنڈنٹ ورلڈ کمیشن آن ڈیمز کی مطابق زیادہ تر منصوبے معاشرتی اور ماحولیاتی نقصان کے سدِباب میں ناکام رہے ہیں۔ بڑے ڈیموں کی تعمیر میں پچھلے دس سال میں ایک دفعہ پھر اضافہ ہوا ہے اور بڑے ڈیموں کو ماحول کو صاف رکھنے اور صاف ستھری انرجی (بجلی) کے ذرائع کے طور پر مشہور کیا جا رہا ہے۔ بڑے ڈیموں کی تعمیر کے لئے بڑے سرمائے کی ضرورت ہے اور یہ سرمایہ چین، برازیل، انڈیا اور تھائی لینڈ جیسے درمیانے درجے کی معیشتوں سے آ رہا ہے۔ چینی کمپنیاں اور بینک اس وقت 216 بڑے ڈیموں کی تعمیر میں شامل ہیں جو 49 ممالک میں بن رہے ہیں۔ پاکستان میں جس حد تک چینی سامراج کا اثرورسوخ بڑھتا جا رہا ہے اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ یہ ڈیم بھی چینی سرمایہ کاروں کو اربوں ڈالر کے منافعوں سے نوازنے کے لئے بنوایا جا رہا ہے جس میں یہاں کی ریاستی اشرافیہ حسب روایت کمیشن ایجنٹ کا کردار ادا کرے گی۔ لاکھوں زیرِ التوا مقدموں کو نمٹانے کی بجائے بڑے قاضی صاحب ڈیم کے لئے چندہ اکھٹا کرتے پھر رہے ہیں۔ بڑے ڈیموں کی تعمیر ماحولیاتی آلودگی کو بڑھانے کا سبب بھی بنتی ہے۔ دریاؤں کا قدرتی بہاؤ ان میں موجود آلودگی کو کم کرنے کا موجب بنتا ہے جبکہ ڈیم میں پانی جمع ہونے کی وجہ سے آلودگی بڑھ جاتی ہے۔ زیادہ تر بڑے ڈیموں نے ڈاؤن اسٹریم میں پانی کو خطرناک حد تک کم کردیا ہے بلکہ۔ بعض دریا تو اب سمندر تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔ جس کی وجہ سے دریا کے ڈاؤن اسٹریم پر بسنے والوں کی زندگیاں مسلسل عذاب کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ علاوہ ازیں سمند بھی مسلسل آگے بڑھتے آ رہے ہیں اور خشکی کے خطوں کو ہڑپ کر رہے ہیں۔ پاکستان میں ڈیم کو سیاسی شعبدہ بازی کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ بہت سے قوم پرست گروہ ایک طرف ڈیم کے مخالف نظر آتے ہیں تو دوسری طرف چینی اور امریکی سامراج یا ہندوستانی سرمائے کی کاسہ لیسی کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ زلزلوں کی وجوہات پر سائنسدانوں کی تحقیقات سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ بڑے ڈیم زلزلے لانے کا باعث ہو سکتے ہیں یا زلزلوں کی شدت کو بھی بڑھا سکتے ہیں۔ اس مخصوص کیفیت کو ’Reservoir-induced Seismicity‘ کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں جس جگہ دیا میر بھاشا ڈیم بنانے کی بات کی جارہی ہے وہ جگہ فالٹ لائن پر واقع ہے اور اس جگہ ڈیم کا بننا کسی بڑے زلزلے کا موجب بھی بن سکتا ہے۔

اوپر بیان کئے گئے اعدادو شمار اور حقائق سے یہ بات واضح ہوکے سامنے آتی ہے کہ سرمائے کی ہوس اور منافع خوری میں دھرتی پہ موجود سب سے اہم انسانی ضرورت کا بے دریغ زیاں کیا جا رہا ہے اور اس کے استعمال کا پھیلاؤ اس قدروسیع ہے کہ اسے نظام تبدیل کئے بغیر کسی اور طریقے سے نہیں روکا جا سکتا۔ ایک منصوبہ بند عالمی معیشت، جس میں پیداوار کا مقصد انسانی ضرورت کی تکمیل ہو، ہی اس لوٹ کھسوٹ کے نظام کو ختم کر کے دھرتی کو انسانوں کے رہنے کے قابل بنا سکتی ہے اور آج کے عہد میں یہ صرف ا نقلابی سوشلزم کے ذریعے ہی ممکن ہے۔