حسن جان

بالآخر عالمی کارپوریٹ میڈیا نے یمن میں ہونے والی ’انسانی بربادی‘ پر لب کشائی کا آغاز کردیا ہے اور ساڑھے تین سال کی وحشیانہ سعودی بمباری کی تباہ کاریاں ان کو نظر آنے لگی ہیں۔ بچوں کی حفاظت کے ایک عالمی ادارے ’Save the Children‘ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق یمن کی اس حالیہ جنگ میں اب تک اندازاً پچاسی ہزار بچے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ باقی ہلاکتیں اس کے علاوہ ہیں۔ چند دن پہلے ایک سات سالہ غریب، قحط زدہ اور قریب المرگ یمنی بچی امل حسین کی دل دہلا دینے والی تصویر نے ایک مرتبہ پھر دنیا کی توجہ یمن کی ساڑھے تین سال سے زائد عرصے سے جاری جنگ کی طرف مبذول کرا دی۔ امل حسین ان ہزاروں بچوں میں سے ایک ہے جو پچھلے تین سال سے زائد عرصے سے جاری بیرونی جارحیت اور خانہ جنگی کے نتیجے میں جنم لینے والی بھوک اور قحط کی وجہ سے موت کی آغوش میں چلے گئے۔ سعودی اتحادیوں کی بمباری کا بظاہر مقصد حوثیوں کو نشانہ بنانا تھا لیکن اس ساری کاروائی کے دوران شادی کی تقریبات، بچوں کی سکول بسوں، جنازوں، فیکٹریوں، پلوں اور رہائشی علاقوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ خطے کی علاقائی طاقتوں کی تباہ کن پراکسی جنگ کی قیمت عام یمنی باشندے ادا کر رہے ہیں۔

امل حسین

عالمی کارپوریٹ میڈیا، امریکی حکمرانوں کے کچھ حصوں اور یورپی ممالک کی جانب سے یمن میں ’انسانی المیے‘ کے بارے میں حالیہ ’تشویش‘ بھی منافقت پر مبنی ہے۔ امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، جرمنی، فرانس، سویڈن وغیرہ سب اس جنگ کے دوران اربوں ڈالر کے اسلحے سعودی عرب کو بیچ چکے ہیں۔ اس عرصے کے دوران انہیں یمن میں کسی طرح کا ’انسانی المیہ‘ نظر نہیں آیا۔ اب جبکہ سعودی شاہی خاندان میں خلفشار پھٹ کر ایک محاذ آرائی کی جانب بڑھ رہا ہے اور موجودہ بادشاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان کی پوزیشن کمزور ہوتی نظر آرہی ہے تو انہیں سعودی ولی عہد کی یمن میں مہم جوئی اور اس کی بربادیوں کی فکر ہونے لگی ہے اور اپنے جرائم کو چھپانے کے لیے سارا ملبہ اُن پر ڈالنے کی منافقانہ کوشش کر رہے ہیں۔

یمن جزیرہ نما عرب کے جنوبی حصے میں واقعہ عرب دنیا کا غریب ترین ملک ہے۔ بیسوی صدی کے آغاز میں یمن سلطنت عثمانیہ اور برطانوی سامراج کے درمیان تقسیم تھا۔ 1918ء میں جنگ عظیم اول کے اختتام پر عثمانی سلطنت کے انہدام کے بعد شمالی یمن میں القاسمی سلسلے کے امام یحییٰ محمد نے متوکلیہ سلطنت کے قیام کا اعلان کیا جس کا دارالحکومت ’صنعا‘ تھا جبکہ جنوبی یمن بدستور برطانیہ کے کنٹرول میں ہی رہا۔ 1962ء میں شاہی گارڈ کے افسران نے مصر کے جمال عبدالناصر کی مدد سے متوکلیہ سلطنت کا خاتمہ کرکے یمن عرب ریپبلک کے قیام کا اعلان کیا۔ جس سے شمالی یمن کی خانہ جنگی کا آغاز ہوا۔ سابق سلطنت کے حامیوں کو سعودی عرب اور اردن عسکری اور مالی امداد دے رہے تھے جبکہ نئی تشکیل شدہ عرب ریپبلک کو مصر کی عسکری کمک حاصل تھی۔ یہ خانہ جنگی 1970ء تک جا رہی جب بالآخر سعودی عرب نے نئی ریپبلک کو تسلیم کرلیا اور مصر نے اپنی فوجیں شمالی یمن سے نکال لیں۔ دوسری طرف جنوبی یمن میں مسلح جدوجہد کے نتیجے میں برطانوی سامراج کو 1967ء میں نکلنا پڑا۔ اس مسلح جدوجہد میں دو تنظیمیں پیش پیش تھیں۔ فرنٹ فار دی لبریشن آف آکوپائڈ ساؤتھ یمن (FLOSY) اور نیشنل لبریشن فرنٹ (NLF)۔

1969ء میں نیشنل لبریشن فرنٹ نے طاقت پر قبضہ کرکے پیپلز ڈیموکریٹک ریپبلک آف یمن کا قیام عمل میں لایا جو اعلانیہ اپنے آپ کو مارکسسٹ کہتے تھے۔ پارٹی کا نام تبدیل کرکے یمنی سوشلسٹ پارٹی رکھ دیا گیا۔

اپنی تمام تر نظریاتی کمزوریوں اور پسماندگی کے باوجود جنوبی یمن کی نئی ’سوشلسٹ‘ ریاست نے ملک سے سرمایہ داری اور جاگیرداری کا خاتمہ کیا۔ خواتین کو ووٹ کا حق اور مرد کے برابر حقوق دیئے۔ مفت تعلیم اور صحت کی سہولیات کا اجرا کیا گیا۔ رہائش کے مسئلے کو ختم کیا گیا اور پورے ملک میں کہیں بھی کوئی بے گھر نہیں رہا۔ کامریڈ ٹیڈ گرانٹ نے 1986ء میں لکھا تھا، ’’جنوبی یمن، جہاں بمشکل ہی کوئی صنعت موجود تھی، کی کمزور معاشی بنیادوں کے باوجود سرمایہ داری اور جاگیرداری کے خاتمے کے نتیجے میں بڑی ترقی عمل میں لائی گئی۔ مثلاً جنوبی یمن کی ضرورت کی آدھی خوراک اب یمن میں ہی پیدا کی جاتی ہے، اس حقیقت کے باوجود کہ ملک کا وسیع حصہ صحرائی علاقہ ہے۔ یمن جیسے ملک میں انقلاب کے نتیجے میں آنے والے فرق کو اس حقیقت میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جبوتی (Djibouti)جس کی آبادی 360,000 ہے اس کا 80 فیصد حصہ بیروزگار ہے جبکہ جنوبی یمن میں بیروزگاری کا مکمل خاتمہ کردیا گیا ہے۔‘‘

لیکن بعد میں سوویت یونین کے انہدام کے ساتھ عالمی سطح پر پرولتاری بوناپارٹسٹ ریاستوں میں بیوروکریٹک منصوبہ بند معیشتوں کا بحران اور زوال مزید تیز ہوگیا۔ جنوبی یمن بھی اس عمل سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔ اس کی وجہ جہاں نظریاتی اور سیاسی تنہائی تھی وہیں سوویت یونین کی جانب سے ملنے والی معاشی اور عسکری امداد کا بند ہونا بھی بڑی وجہ تھی۔ 1990ء میں جنوبی اور شمالی یمن کا انضمام ہوا جس کے نتیجے میں آج کی یمنی ریاست کا وجود عمل میں آیا۔ شمالی یمن،جو پہلے ہی تاخیر زدہ ادھوری سرمایہ داری اور قبائلیت کی وحشتوں کا شکار تھا، کے برعکس جنوبی یمن کے عوام کے لیے یہ انضمام کسی بربادی سے کم نہیں تھا کیونکہ ان کے لیے اس کا مطلب سرمایہ داری کی تمام تر پرانی غلاظتوں کی واپسی تھا۔ بالخصوص اس سے خواتین پر جبر کا آغاز ہوا اور ایک گہرا ثقافتی زوال آیا۔ جنوبی یمن کی بائیں بازو کی حکومت نے جزیرہ نما عرب کی تمام دیگر ریاستوں کے برعکس خواتین کی سماجی بہبود کے لیے ان گنت اقدامات کیے تھے۔لڑکے لڑکیاں مخلوط سکولوں میں تعلیم حاصل کرتے تھے۔ خواتین کو کام کرنے کی ترغیب دی جاتی تھی جبکہ انہیں چادر و چار دیواری میں قید کرنے کی حوصلہ شکنی کی جاتی تھی۔ مرد کی ایک سے زیادہ شادیوں پر سختی سے پابندی تھی۔ لیکن انضمام کے بعد ان سب اصلاحات کو ختم کردیا گیا۔ سعودی عرب کی امداد اور اثر و نفوذ کے نتیجے میں ملک میں وہابی بنیادپرستی کو فروغ ملا جس کے ردِ عمل میں شیعہ بنیادپرستی بھی پھلنے پھولنے لگی۔ 1994ء میں جنوبی یمن کی علیحدگی کے لیے ایک سرکشی ہوئی جسے صدر علی عبداللہ صالح نے افغانستان سے لائے گئے جہادیوں کی مدد سے کچل دیا۔ اسی طرح شمالی یمن میں نوے کی دہائی میں بدرالدین الحوثی کی قیادت میں ’انصاراللہ‘ کے نام سے علی عبداللہ صالح کی بدعنوانی اور لوٹ مار کے خلاف ایک مذہبی تحریک کا آغاز ہوا جو زیادہ تر زیدی شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والوں پر مشتمل تھی۔ 2004ء میں صدر علی عبداللہ صالح نے ایک آپریشن میں اس کے رہنما بدرالدین الحوثی کو قتل کردیا جس کے بعد حوثیوں کی مسلح کاروائیوں میں تیزی آئی۔

2011ء میں عرب بہار کے انقلابات کے نتیجے میں 33 سالوں سے برسراقتدار علی عبداللہ صالح کی آمریت کے خلاف بھی یمن میں تحریک کا آغاز ہوا۔ اس تحریک میں حوثیوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ بالآخر علی عبداللہ صالح کو 2012ء میں اقتدار چھوڑنا پڑا اور اس نے اپنے نائب صدر منصور ہادی کو اقتدار دے دیا۔ فروری 2012ء میں صدارتی انتخابات ہوئے جس میں واحد امیدوار منصور ہادی تھا ۔ یوں منصور ہادی صدر ’منتخب‘ ہوا۔ اس سارے عمل کو سعودی عرب کی مکمل حمایت حاصل تھی ۔ حوثیوں اور جنوبی یمن کے علیحدگی پسندوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ اقتدار میں آنے کے بعد منصورہادی نے فیول سبسڈیز کا خاتمہ کردیا جس سے غریب عوام پر مزید بوجھ بڑھ گیا اور حکومت کے خلاف وسیع مظاہرے شروع ہوگئے۔ حالات اس وقت مزید خراب ہوئے جب جنوری 2015ء میں حکومت نے یمن کو چھ وفاقی یونٹوں میں تقسیم کرنے کی تجویز پیش کی۔ اس تقسیم سے حوثیوں کے حصے میں ایسے علاقے آئے جہاں وسائل کا فقدان تھا اور سمندر تک رسائی بھی نہیں تھی۔ اس کے بعد حوثیوں کی مسلح کاروائیوں میں مزید اضافہ ہوا اور مارچ 2015ء میں انہوں نے علی عبداللہ صالح کے حمایتی فوجی کمانڈروں کی مدد سے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کرلیا اور صدرمنصور کو عدن بھاگنا پڑا۔ یوں شمالی یمن پر حوثیوں کا تقریباً مکمل قبضہ ہوگیا۔ صنعا پر قبضے کے بعد تہران اور صنعا کے درمیان براہ راست پروازوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ جس سے سعودی عرب کے اس شبے کو مزید تقویت ملی کہ حوثیوں کو ایران کی عسکری حمایت حاصل ہے۔

سعودی عرب کے لیے اپنی سرحد پر اپنے روایتی حریف ایران کی موجودگی یقیناًناقابل برداشت تھی۔ اسی لیے گلف کوآپریشن کونسل کے ممبر ممالک کے فوجی اتحاد کی تشکیل کرکے سعودی عرب نے یمن پر بمباری شروع کردی۔ جس سے پہلے سے غربت زدہ اور تباہ حال ملک کے عوام کے لیے بربادیوں کے ایک اور دور کا آغاز ہوا۔ لیکن تین سال سے زائد عرصے کی فوجی کاروائیوں، جس میں انہیں امریکی اور یورپی سامراجیوں کی مکمل حمایت حاصل تھی، کے بعد بھی سعودیوں کو کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی۔ دارالحکومت صنعا پر ابھی تک حوثیوں کا قبضہ ہے اور شمالی یمن کے بیشتر علاقوں پر ابھی تک حوثی قابض ہیں۔ جبکہ یمنی عوام تباہ و برباد ہو رہے ہیں۔ ہزاروں لوگ بھوک اور وبائی امراض کی وجہ سے مرچکے ہیں۔ پہلے سے تباہ حال انفراسٹرکچر کھنڈرات میں تبدیل ہوچکا ہے۔ اس وقت یمن ایک بڑے قحط کے دہانے پر کھڑا ہے۔

اگرچہ ایران نے حوثیوں کو عسکری مدد فراہم کرنے کے الزام کو مسترد کیا ہے لیکن اس بات کا اقرار کیا ہے کہ حوثیوں کے لیے ان کی حمایت صرف عسکری مشاورت کی حد تک ہے۔ دوسری طرف عرب فوجی اتحاد کے ترجمان بریگیڈئر احمد اسیری نے ایک دفعہ کہا تھا کہ ’’ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ کورنیٹ (Kornet) اینٹی ٹینک ہتھیار اب میدان میں آچکا ہے جبکہ اس سے پہلے یہ یمنی فوج یا حوثیوں کے پاس نہیں تھا۔ یہ بعد میں آیا ہے… آپ اتنی طویل ساحلی پٹی (2700کلو میٹر) کی نگرانی نہیں کرسکتے۔ چاہے دنیا کی ساری بحری فوج کو ہی یہاں کیوں نہ لے آئیں۔ ‘‘ مغربی ذرائع کا کہنا ہے کہ ایران یا تو براہ راست یا صومالیہ کے راستے یمن میں اسلحے بھیجتا ہے۔ جب کارگو ایک خاص علاقے تک پہنچ جاتے ہیں تو اس کے بعد انہیں چھوٹی کشتیوں کے ذریعے حوثیوں کے علاقوں تک پہنچایا جاتا ہے جنہیں کھوج نکالنا بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ ان پانیوں میں مچھیروں کی ایسی کشتیاں بہت ہوتی ہیں۔

یقیناًاس بات میں شک نہیں ہے کہ یمن کی اس جنگ میں حوثیوں کو ایران کی حمایت حاصل ہے اور وہ ایران کی ایک پراکسی کے طور پر اس کی علاقائی توسیع پسندی کا آلہ کار بن رہے ہیں۔ لیکن اس جنگ کے آغاز سے پہلے یمن میں ایران کی مداخلت کمتر سطح پر تھی جو جنگ کے بعد مزید بڑھ گئی۔ امریکی جریدے فارن افیئرز کے مطابق، ’’یہ (سعودی عرب کی) ایک اسٹریٹجک حماقت تھی جس کے وہی نتائج نکلے جسے روکنے کے لیے سعودیوں نے مداخلت کی تھی۔ حوثی اب جنگ کے آغاز کے ایام کی نسبت زیادہ تجربہ کار ہیں اور یمن کی سرحدوں سے پرے وار کرنے کے قابل ہوچکے ہیں۔ایرانی اثرو رسوخ بڑھ گیا ہے اور (ایرانی حمایت یافتہ ) لبنانی حزب اللہ اور حوثیوں کے درمیان تعلقات مزید گہرے ہوگئے ہیں۔‘‘

دوسری طرف سعودی اتحاد میں دراڑیں پڑ رہی ہیں۔ قطر کو پہلے ہی اس اتحاد سے بے دخل کیا جاچکا ہے اور ایران کو کچھ کیے بغیر ہی قطر کی شکل میں ایک نیا اتحادی مل گیا ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات حوثیوں کے خلاف متضاد مفادات کی حامل قوتوں کی حمایت کر رہے ہیں جو صرف حوثیوں کے خلاف متحد ہیں لیکن تمام دیگر معاملات میں ایک دوسرے کے خلاف ہیں۔ مثلاً متحدہ عرب امارات اس جنگ میں حوثیوں کے خلاف جنوبی یمن کے علیحدگی پسندوں کی حمایت کر رہا ہے جبکہ سعودی عرب منصور ہادی کی حکومت کی حمایت کر رہا ہے۔ اس سال جنوری میں جنوبی یمن کے علیحدگی پسندوں کی جانب سے پیش کیے گئے مطالبات پورے نہ ہونے پر حکومتی فورسز اور جنوبی یمن کے علیحدگی پسندوں کے درمیان عدن میں شدید لڑائی ہوئی جس میں درجنوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔ صرف یہی واقعہ اس اتحاد کی گھمبیر کیفیت کی غمازی کر دیتا ہے۔

اس لیے اس صورت حال میں اقوام متحدہ کی جانب سے مذاکرات اور جنگ بند ی کی کوشش کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں لاسکتی کیونکہ تمام فریقین ان تین سالوں کے عرصے میں اتنے آگے جاچکے ہیں اور اپنی طاقت میں اضافہ کرچکے ہیں کہ انہیں اب مارچ 2015ء سے پہلے کی پوزیشن پر لانا ناممکن ہے اور بالفرض سعودی عرب فوری طور پر اپنی عسکری کاروائیاں بند بھی کر دیتا ہے تو اس سے اسے اپنے روایتی حریف ایران کے سامنے حزیمت کا سامنا کرنا پڑے گا اور حوثی مزید طاقتور ہوں گے۔ دوسری طرف اس سے آل سعود کے اندرونی خلفشار میں مزید اضافہ ہو گا۔ منصور ہادی کی جس حکومت کی بحالی کے لیے سعودی عرب نے مداخلت کی تھی وہ صرف برائے نام ہے اور معاملات محاذ پر موجود مختلف مسلح گروہوں کے ہاتھوں میں ہیں۔ کسی بھی طرح کی جنگ بندی کے بعد یمن میں مزید داخلی جھگڑے اور خلفشار ہی پیدا ہوں گے۔