حسن جان

پچھلے ہفتے افغانستان کے صدر اشرف غنی نے طالبان کے ساتھ یک طرفہ جنگ بندی کا اعلان کیاتھا۔ یہ جنگ بندی 20 جون تک جاری رہی۔ اس دوران افغان فورسز نے طالبان کے خلاف آپریشن نہیں کرنے کا اعلان بھی کیا۔ اس اعلان کے دو دن بعد طالبان نے عید کے پہلے تین دنوں تک حکومت کے ساتھ سیزفائز کا اعلان کیا۔طالبان نے پچھلے سترہ سالوں میں پہلی مرتبہ عارضی جنگ بندی کا اعلان کیا۔ اس کے بعد افغانستان کے مختلف علاقوں میں عید کے دن طالبان کے جنگجو عید کے اجتماعات میں پولیس اور عام لوگوں کے ساتھ عید ملتے نظر آئے۔ افغان وزیر داخلہ بھی کابل میں طالبان کمانڈروں سے عید ملے۔ لیکن عید کے دوسرے دن ہی مشرقی صوبے ننگرہار میں ایسے ہی ایک اجتماع میں ایک خودکش حملے میں 26 افراد ہلاک اور کئی درجن زخمی ہوئے۔ ہلاک شدگان میں پولیس، طالبان اور عام افراد شامل تھے۔ حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی۔اسی طرح اگلے دن ننگرہار میں ایک اور حملے میں 17 افراد ہلاک اور 50 سے زائد زخمی ہوئے۔ اس حملے کی ذمہ داری بھی داعش نے قبول کی۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے کہ افغان حکومتی اہلکار، پولیس اور طالبان شہروں میں آکر اکٹھے عید منارہے ہیں اور اس اجتماع پر ایک تیسری قوت داعش آکر حملہ کردیتی ہے۔ یہ افغانستان میں امریکی سامراج اور خطے کے دیگر سامراجی ممالک کے درمیان نئی صف بندیوں کی جانب اشارہ کر رہا ہے۔

اگرچہ افغانستان میں داعش کے ابھار کی خبریں 2015ء میں آنا شروع ہوگئی تھی لیکن حالیہ دنوں میں افغانستان کے مشرق اور شمال اور بالخصوص کابل میں داعش کی کاروائیوں کی رفتار تیز ہوگئی ہے۔ یہ ابھار کوئی حادثاتی امر نہیں ہے بلکہ تمام مذہبی پراکسیوں کے ابھار کی مانند یہ بھی سامراجی گریٹ گیم کا ایک نیا پینترا ہے۔

امریکہ نے جب عراق پر 2003ء میں صدام کی حکومت کو گرانے کے لیے حملہ کیا تو ایران نے بھی اس کی معاونت کی تھی لیکن صدام حسین کی حکومت کو گرانے کے بعد عراق میں ایران کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا۔ ایرانی ملاؤں نے شیعہ بنیادپرستی کے لبادے میں عراق میں اپنی مداخلت کو بڑھایا۔ اربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود امریکہ کی بجائے ملک میں ایران کی جڑیں مضبوط ہوئیں۔ ایران نے فرقہ وارانہ بنیادوں پر شیعہ سنی تضادات سے فائدہ اٹھایا۔ صدام کی حکومت کے خاتمے کے بعد قائم ہونے والی حکومت خالصتاً فرقہ وارانہ بنیادوں پر استوار تھی جس میں ایرانی حمایت یافتہ شیعہ بنیاد پرستوں کو اکثریت حاصل تھی۔ سنی آبادی کو مکمل نظر انداز کردیا گیا۔ اس سے فرقہ واریت نے مزید بنیادیں حاصل کیں۔ شیعہ اکثریتی عراقی حکومت کا جھکاؤ امریکہ سے زیادہ ایران کی طرف تھا۔ انہی بنیادوں کو ہی استعمال کرتے ہوئے امریکی سامراج نے داعش کی داغ بیل ڈالی تاکہ عراق میں ایرانی اثرورسوخ کا مقابلہ کیا جاسکے۔ سی آئی اے اور عرب بادشاہتوں کی مکمل مالی اور عسکری حمایت سے داعش کو ایک دیوہیکل سیاہ وحشت میں تبدیل کیا گیا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے عراق اور شام کے وسیع علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ شام میں ایرانی حمایت یافتہ بشارالاسد کی حکومت دمشق تک محدود ہوگئی تھی اور چند دنوں کی مہمان نظر آرہی تھی۔ ستمبر 2015ء میں روس نے شام میں فوجی مداخلت کرکے بشار کی حکومت کو سہارا دیا۔ ایرانی شیعہ ملیشیاؤں اور روس کی فضائی اور عسکری کمک کے ذریعے داعش کو شکست دی گئی۔

اسی طرح عراق سے پہلے افغانستان پر حملے کے وقت بھی ایران نے طالبان کو گرانے میں امریکہ کا ساتھ دیا تھا۔ بعد میں نئی افغان حکومت کی تشکیل کے لیے بون کانفرنس میں بھی ایران نے امریکہ کے ساتھ کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ لیکن جلد ہی ایران نے بالخصوص جنوب مغربی افغانستان میں اپنے اثر و نفوذ کے لیے طالبان کے بعض گروہوں کی حمایت کرنا شروع کی۔ اسی طرح طالبان کو پاکستان کی حمایت جاری رہی جیسا کہ بعد ازاں پرویز مشرف نے کھل کر تسلیم بھی کیا۔ جس سے امریکہ کو افغانستان میں طالبان کے نئے ابھار کا سامنا ہوا۔ امریکہ نے طالبان کی بڑھتی ہوئی کاروائیوں کو روکنے کے لیے امریکی فوجوں کی تعداد کو ڈیڑھ لاکھ تک بڑھایا۔ لیکن اس کے باوجود انہیں کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ اس جنگ میں امریکہ نے ایک ٹریلین ڈالر جھونک دیئے لیکن پھر بھی نہ تو پاکستان کی مداخلت کو روک سکا اور نہ ایران کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو کم کرسکا۔

تمام تر امریکی دباؤ اور امداد بند کرنے کی کاروائیوں کے باوجود افغانستان میں پاکستان کی ڈیپ سٹیٹ کی سٹریٹجک ڈیپتھ کی پالیسی جاری ہے اور امریکہ کو زچ کر رہی ہے۔ اسی وجہ سے عراق اور شام میں روس اور ایران کے ہاتھوں داعش کی شکست اور کم و بیش صفائے کے بعد اس کے جنگجوؤں کی بڑی تعداد کو مبینہ طور پر امریکہ نے افغانستان میں منتقل کروایا ہے یا انہیں منتقل ہونے دیا ہے۔بغیر کسی سامراجی پشت پناہی کے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ دس ہزار سے زائد داعشی جنگجو شام اور عراق سے افغانستان پہنچ جائیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ افغانستان میں بھی امریکہ‘ عراق والا داعشی تجربہ پھر سے دہرانا چاہتا ہے۔ یہ کوئی حادثاتی اَمر نہیں ہے کہ جہاں کہیں بھی امریکی مفادات کو خطرہ ہوتا ہے وہاں داعش اور ان جیسی دیگر اسلامی بنیادپرست تنظیمیں سر اٹھانے لگتی ہیں۔ پچھلے سال اکتوبر میں سابق افغان صدر حامد کرزئی نے ’RT‘ کے ساتھ ایک انٹرویو میں الزام عائد کیا کہ افغانستان میں داعش کا ابھار امریکہ کی کارستانی ہے اور اس کا ایک اوزار ہے تاکہ پورے خطے میں انتشار پھیلایا جاسکے۔ اس نے کہا، ’’پچھلے دو سال سے مقامی لوگ، علاقوں کے بزرگ، حکومتی اہلکار اور میڈیا یہ رپورٹ کر رہے ہیں کہ بے نام و نشان (Unmarked) بیرونی ہیلی کاپٹرز شدت پسندوں کے حامل مختلف علاقوں میں جا کر ان کی مدد کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ایسے بہت سے ثبوت موجود ہیں کہ ان شدت پسندوں کو افغانستان میں موجود بیرونی فوجی اڈوں سے کمک ملتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہورہاہے؟ اور اگر یہ جاری رہتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں بطور اوزار استعمال کیا جا رہا ہے۔ داعش کی کمک کرنے کا ہدف افغانستان میں اندرونی مقاصد کے لیے نہیں ہے۔ افغانستان میں امریکہ نے پہلے ہی اپنے قدم جمائے ہوئے ہیں۔ اس کا ہدف افغانستان سے باہر کے مقاصد کے لیے ہے تاکہ خطے میں انتشار پھیلایا جائے۔‘‘

اسی طرح اس سال فروری میں روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے بھی کہا تھا، ’’ہمیں تشویش ہے کہ امریکہ اور نیٹو بدقسمتی سے ہر طریقے سے افغانستان میں داعش کی موجودگی سے انکار کر رہے ہیں۔‘‘ اس نے مزید کہا کہ ہمیں اس خطرے سے نمٹنے کے لیے امریکی اقدامات پر شدید تحفظات ہیں۔ اس نے کہا کہ ماسکو کو افغانستان کے جنگجوؤں کے علاقوں میں بے نام و نشان ہیلی کاپٹروں کی پروازوں کے سوالات کے جوابات چاہئیں۔ اسی طرح ایران کے چیف آف جنرل سٹاف میجر جنرل محمد باقری نے بھی امریکہ پر داعش کو مشرق وسطیٰ سے افغانستان منتقل کرنے کا الزام لگایا ہے تاکہ امریکہ داعش کو افغانستان کی سرزمین سے ایران کے خلاف استعمال کرسکے۔

مشرق وسطیٰ کی طرح افغانستان میں داعش کو ابھارنے کا امریکہ کا مقصد یہ ہے کہ اس کے ذریعے ایک طرف طالبان کے نامنظور گروہوں کو کچلا جائے اور پاکستان پر دباؤ بڑھایا جائے کہ وہ افغانستان میں مداخلت بند کرے اور علاقائی سطح پر دوسرے معاملات میں پاکستان کو زیرعتاب لایا جاسکے۔ دوسری طرف داعش کو مشرقی افغانستان سے مغرب تک ایران کے بارڈر تک پھیلا کر ایران کے لیے مسائل پیدا کیے جائیں۔ اس سلسلے میں حال ہی میں امریکہ کے ایران ایٹمی معاہدے سے نکلنے کے بعد امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ایران سے بارہ مطالبات کیے تھے جن میں یورینیم کی افزودگی اور بیلسٹک میزائل پروگرام کی بندش، شام سے فوجی انخلا، لبنانی حزب اللہ، حماس اور افغانستان میں طالبان (کے کچھ گروہوں) کی حمایت کا خاتمہ اور دیگر شامل ہیں۔ مائیک پومپیو نے مزید یہ بھی کہا کہ ان مطالبات کے پورے نہ ہونے کی صورت میں ایران پر تاریخ کی سخت ترین پابندیاں لاگو کی جائیں گی۔ اس کے علاوہ شمال میں بالخصوص جوزجان صوبے میں داعش کی جڑیں مضبوط ہورہی ہیں۔ یہاں سے وسط ایشیائی ریاستوں میں داعش کو پہنچا کر روس میں انتشار پھیلانا اور انہیں دباؤ میں لانا بھی مقصود ہے۔ یعنی خطے میں جہاں جہاں امریکہ کے مفادات کو خطرہ ہو، ان کے سامنے داعش کی بلا کھڑی کی جائے۔

اس نئی صورت حال میں خطے کی ریاستیں بھی نئی صف بندیوں میں مصروف ہیں۔ اسی وجہ سے افغانستان کے صوبے ننگرہار میں طالبان جنگجوؤں اور حکومتی حکام کے عید کے مشترکہ اجتماعات اور ان پر داعش کے حملے کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ کابل کی حکومت گلبدین حکمتیار کی طرح طالبان کو بھی مذاکرات کے ذریعے حکومت کا حصہ بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ جبکہ خطے کی ریاستیں بالخصوص پاکستان، ایران اور روس بھی انہی کوششوں میں لگی ہوئی ہیں۔ حالیہ دنوں میں پاکستان کے آرمی چیف جنرل باجوہ کے پے درپے کابل دورے کو اسی تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اسی طرح پچھلے چند سالوں میں روس کے طالبان کے ساتھ رابطے بھی اسی عمل کا حصہ ہیں۔ برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز نے دسمبر 2015ء میں طالبان کے ایک سینئر کمانڈر کے دعوے کے حوالے سے رپورٹ دی تھی کہ روسی صدر پیوٹن نے تاجکستان کے ایک فوجی اڈے میں طالبان کے اس وقت کے امیر ملااختر منصور سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات میں ملااختر منصور نے پیوٹن سے داعش کے خلاف مدد مانگی تھی جبکہ روس نے طالبان کو داعش کے خلاف مدد کی یقین دہانی کرائی تھی۔ اسی طرح ملا اختر منصور داعش کے خلاف کمک کے لیے ایرانی ملاؤں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ایران بھی گیا تھا۔ ایسی ہی ایک ملاقات سے جب وہ واپس پاکستان آرہا تھا تو پاک ایران سرحد پر امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا۔

حالیہ عرصے میں بالخصوص افغانستان کے معاملے میں روس اور پاکستان بھی کافی قریب آگئے ہیں۔افغانستان میں طالبان کی حمایت کی وجہ سے آنے والے امریکی دباؤ اور امداد بند کرنے کے جواب میں اب پاکستان نے بھی متبادل راستے کے طور روس کا رخ کیا ہے۔ اس سال فروری میں پاکستان کے وزیرخارجہ خواجہ آصف نے روس کا دورہ کیا۔ مشترکہ پریس کانفرنس میں روسی وزیرخارجہ نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کا اہم شعبہ ہے۔ اس نے کہا کہ روس کو افغانستان میں دہشت گرد وں کے خلاف جنگ میں نیٹو کے کردار پر شدید تحفظات ہیں۔ روس نے یہ بھی کہا کہ افغانستان کی ایئر سپیس امریکہ کے کنٹرول میں ہے۔ ایسے میں شام اور عراق سے داعش کے جنگجو کیسے پرواز کرکے افغانستان پہنچ گئے۔ خواجہ آصف نے بھی روس کے تحفظات کو دہرایا اور افغانستان میں ’’داعش کے بے قابو پھیلاؤ‘‘ پر تشویش کا اظہار کیا۔

اسی وجہ سے خطے کی ریاستیں بالخصوص پاکستان، ایران،چین اور روس افغان حکومت اور طالبان کے مختلف دھڑوں کے درمیان مصالحت اور مذاکرات کے لیے کوشش کر رہی ہیں تاکہ امریکہ کی جانب سے افغانستان میں داعش کو پروان چڑھانے کی کوششوں کا مقابلہ کیا جاسکے۔ کیونکہ امریکہ افغانستان میں داعش کو عراق کی طرز پر پروان چڑھا کر خطے کی آس پاس کی ریاستوں پر دباؤ رکھنا چاہتا ہے۔ امریکی پراکسی کے طور پر داعش طالبان کو کچل کر پاکستان کو دفاعی پوزیشن پر لے آئی گی اور پاکستان کی افغانستان میں مداخلت اور امریکی مفادات پر حملے سے باز رکھے گی۔ جبکہ اس بات کے امکانات بھی موجود ہیں کہ مستقبل میں داعش کو پاکستان میں پھیلا کر سی پیک اور چینی مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کیا جائے۔ اسی طرح مغربی سرحد پر ایران کے خلاف بھی استعمال کیا جاسکے گا۔ شمالی سرحد پر اسے وسط ایشیائی ریاستوں میں پہنچا کر بالواسطہ طور پر روس پر دباؤ بڑھایا جائے گا۔ پچھلے سال ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی کے تحت امریکی پینٹاگان نے عراق سے چار ہزار امریکی فوجی اسی وجہ سے افغانستان منتقل کردیئے۔
کیا امریکہ افغانستان میں داعش کو مشرق وسطیٰ کی طرح اتنا بڑھاوا دے سکتا ہے؟ اور داعش افغانستان کے وسیع حصے پر قابض ہوسکتی ہے؟ یہ تو مستقبل قریب میں ہی واضح ہوگا لیکن اس نئی گریٹ گیم کا خمیازہ خطے کے عوام کو ہی بھگتنا پڑے گا۔جبکہ یہاں فائدہ صرف اسلحہ ساز کمپنیوں، ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس اور کالے دھن پر پلنے والے ان بنیاد پرستوں گروہوں کے سرغناؤں کا ہی ہوگا۔ جس طرح امریکی سامراج نے عراق اور شام میں داعش کو پیدا کرکے ان ممالک کو کھنڈرات میں بدل دیا اور پھر اس بلا کے بے قابو ہو جانے کے بعد اس کے خلاف کاروائیوں میں بھی مصروف نظر آیا اب شاید یہی تجربہ ا فغانستان میں دہرایا جا رہا ہے۔ کابل اور دیگر علاقوں میں داعش کے پے درپے حملے فی الحال تو صرف جھلکیا ں ہیں۔ آنے والے دنوں میں ان کی کاروائیاں مزید بڑھیں گی۔ اس سے علاقائی ریاستوں کی پراکسی جنگیں شدت اختیار کریں گی۔