لال خان

24 جون کو ترکی میں ہونے والے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں رجب طیب اردگان اور اس کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (AKP) نے کامیابی حاصل کی۔ سلطنت عثمانیہ کے انہدام اور پھر مصطفی کمال اتاترک (پاشا) کے سرمایہ دارانہ جمہوری ’انقلاب‘ کی ایک صدی بعد اردگان نے ان انتخابات میں ترکی کے پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں بدل کر اتاترک جیسی ریاستی طاقت حاصل کر لی ہے۔ اکانومسٹ نے اپنے ادارئیے میں لکھا ہے کہ ’’طیب اردگان اپنی تقاریر کا اختتام ایک قوم، ایک پرچم، ایک وطن کے نعرے سے کرتا تھا۔ اب اس میں ’ایک فرد‘ کا اضافہ کیا جاسکتا ہے۔‘‘

اس نئی تبدیلی کے بعد ترکی میں وزیر اعظم کا عہدہ ختم کر دیا گیا ہے اور نائب صدور سے لیکر عدالتوں کے ججوں تک ہر شعبے میں اپنے آدمی تعینات کرنے کے اختیارات اردگان نے حاصل کر لئے ہیں۔ اردگان نے 52.6 فیصد ووٹ حاصل کئے جبکہ حزب اختلاف کی ریپبلکن پیپلز پارٹی کے امیدوار محرم انس نے 30.7 فیصد ووٹ حاصل کئے۔ کرد لیڈر سلاطین ڈیمئرائس نے 8.4 فیصد ووٹ لئے ۔ سلاطین اس وقت ’’دہشت گردی‘‘ کے الزامات میں حساس سکیورٹی جیل میں قید ہے۔ لیکن ان نتائج کی ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اس مرتبہ پارلیمانی انتخابات میں اردگان کی پارٹی کو 8 فیصد کمی کیساتھ 42 فیصد ووٹ ہی مل پائے۔ اس سے وہ اپنی پارلیمانی اکثریت کھو چکی ہے۔ لیکن انتخابات سے پیشتر اس نے قوم پرست تحریک پارٹی (MHD) سے ایک اتحاد بنایا تھا۔ ’MHD‘ ایک دائیں بازو کی نیم فسطائی پارٹی ہے جس کا رجحان ترک شاونزم کی طرف ہے۔ اس کے ساتھ مل کر اردگان کو پارلیمنٹ میں کل 343 نشستیں حاصل ہوجائیں گی۔ لیکن 600 کی اسمبلی میں آئینی ترامیم کیلئے درکار 360 کی دو تہائی اکثریت سے وہ پھر بھی محروم رہے گا۔ اس طرح قانون سازی میں اسے مشکلات درپیش آ سکتی ہیں۔ لیکن ’MHD‘ کیساتھ اتحاد برقرار رکھنے کی کوشش اسے مزید دائیں جانب دھکیل کر جبر کی انتہاؤں تک بھی پہنچا سکتی ہے۔

اردگان اب تک 15 سا ل سے برسر اقتدار ہے۔ اس نے مسلسل اپنی طاقت اور جبر میں اضافہ کیا ہے۔ ظاہری طور پر ترکی میں معیشت کی شرح نمو میں بلند رہی ہے۔ پچھلے سال یہ 7.4 فیصد رہی۔ لیکن ساتھ ہی ترک کرنسی (لیرا) کی قدر روبہ زوال ہے اور افراطِ زر مسلسل بڑھ رہا ہے (اس وقت 12 فیصد) جس سے عام لوگوں کے معیار زندگی میں گراوٹ آ رہی ہے۔ لیکن آئی ایم ایف کے مطابق اب یہ مصنوعی شرح نمو بھی گر کے 2018-19ء میں 4.3 فیصد تک آجائے گی۔ بیرونی قرضہ جی ڈی پی کے 50 فیصد پر کھڑا ہے اور تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ایک تہائی سے زیادہ بیرونی قرض اگلے بارہ ماہ میں ادا کرنا ہے۔ سرمائے کی شرح منافع بھی بتدریج زوال پذیر ہے۔ یوں ترکی ایک خوفناک معاشی بحران کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اردگان کے ادوارِ حکومت میں اقربا پروری اور کرپشن میں تیز اضافہ ہوا ہے اور ’ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل‘ کے مطابق شفافیت کے معاملے میں ترکی کی رینکنگ 2008ء میں 58 سے کم ہو کر اس وقت 81 پر جا پہنچی ہے۔ اردگان کی جارحانہ نیو لبرل پالیسیوں سے امیر، امیر تر ہوتے گئے ہیں۔ اس معاشی نسخے کی اصل واردات یہ ہوتی ہے کہ نسبتاً بلند معاشی شرح نمو سے درمیانے طبقے کی پرت کسی حد تک پھیلتی ہے جو نیچے کی وسیع غربت اور محرومی کو اوجھل کر دیتی ہے۔ یہ درمیانہ طبقہ اکثریت میں نہ ہونے کے باوجود اپنی مخصوص سماجی حیثیت کے پیش نظر مقابلہ بازی، منافقت اور نمودونمائش کی ایسی اقدار اور نفسیات پورے سماج پر مسلط کرتا ہے جو حکمران طبقات کے مفادات کو تقویت دیتی ہیں۔ ’بڑی شخصیات‘ کے جبر کے ذریعے مسائل کو حل کرنے کی سوچ اسی طبقے کا خاصا ہوتی ہے۔ مذہبی جنونیت اور تنگ نظر قوم پرستی کی سماجی بنیادیں بھی اسی درمیانے طبقے میں پائی جاتی ہیں۔ ٹرمپ سے لے کر نریندرا مودی، عمران خان اور طیب اردگان تک دائیں بازو کے پاپولزم کے یہ مظاہر زیادہ تر درمیانے طبقے کی حمایت سے ہی ابھرتے ہیں۔ جبر کو تسلیم کرنا اور اور کروانا اور اپنے مفادات کیلئے مقتدر قوتوں کے سامنے جھکتے اور بچھتے چلے جانا اس طبقے کے مفاد پرستانہ کردار کی خاصیت ہوتی ہے۔

جماعت اسلامی، جس کی کسی زمانے میں اسی طبقے میں کچھ بنیادیں موجود تھیں، اردگان کی جیت پر خوش دکھائی دیتی ہیں۔ مولوی سراج الحق نے تو اس انتخابی نتیجے کو ’’اسلام کے ہاتھوں سوشلزم کی شکست‘‘ تک قرار دے دیا ہے۔ ویسے مولانا صاحب کبھی تر کی کے بڑے شہروں میں جائیں تو وہاں شراب خانوں سے لے کر نائٹ کلبوں کی خوب بھرمار ہے۔ لباس سے لے کر عادات و اطوار تک میں مغربی رنگ پوری طرح جھلکتا ہے۔ مصطفی کمال پاشا، جو جدید ترکی کا ’والد‘ کہلاتا ہے، نے زبردستی ترکی کے معاشرے میں لبرل اور سیکولر سوچوں کو مسلط کیا تھا۔ لیکن وہ سرمایہ داری پر یقین رکھتا تھا اور اسکی حاکمیت بھی جابرانہ تھی۔ اس لئے یہ مصنوعی جدیدیت ترکی کی قدامت پرستی کے جڑوں کو اکھاڑ نہیں سکی۔

ترکی میں فوجی بغاوتوں اورآمریتوں کی ایک طویل تاریخ رہی ہے۔ پاکستان کی طرح ترکی میں کبھی جمہوری حکومتیں اور کبھی فوجی آمریتوں کا دور دورہ رہا۔ پچھلے عرصے میں فوج کے ایک اقلیتی حصے کی اردگان کے خلاف کوُ کی ناکامی اس فوج میں مالیاتی سرمائے کی مداخلت سے جڑت اور ڈسپلن کے بکھر جانے کی علامت ہے۔ اس ناکامی کو اردگان نے اپنے جبر کو جواز فراہم کرنے کیلئے خوب استعمال کیا ہے۔ لیکن ماضی میں فوج اور سیاسی اشرافیہ چونکہ مصطفی کمال کی تخلیق کردہ بورژوازی (سرمایہ دار طبقے) کی غمازی کرتے تھے اس لئے ترک معاشرے کا عمومی تاثر لبر ل رہا ہے۔ لیکن اسی لبرلزم کے پردے میں سیاسی جبر بھی جاری رہا۔ پھر اسکی ناکامی سے قدامت پرست اور مذہبی رحجانات ابھرے جس کا سیاسی اظہار اردگان ہے۔ لیکن اقتدار میں آکر اتنی طاقت کے باوجود بھی اردگان شریعت وغیرہ نافذ نہیں کرسکا۔ اقتدار کے تقاضوں کے تحت اس نے نہ داڑھی رکھی اور نہ ہی مروجہ لبرل کلچر کو ختم کرسکا۔ وہ بنیاد طور پر ترک سرمایہ دار طبقے کے اکثریتی حصے کا نمائندہ ہے اور اسکا سیاسی اور نظریاتی جھکاؤ انہی کے مالی مفادات سے منسلک ہے۔ لیکن طاقت کا بے پناہ اجتماع فرد کو حقیقت سے دور کر کے اپنے عقل کل اور نجات دہندہ ہونے کی خوش فہمی پیدا کر دیتا ہے۔ اردگان بھی اسی قسم کے ’’میگلیلومینیا‘‘ کا شکار ہوگیا ہے۔ وہ بیک وقت خود کو اسلام کا پاسدار بھی سمجھتا ہے، اتاترک جیسی مقبولیت اور طاقت کا خواہشمند بھی ہے اور سلطنت عثمانیہ کے حکمرانوں کا جاہ و جلال بھی اپنانے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن اس کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کی حاکمیت ترکی کے مالی وسائل میں سے مغربی سامراجیوں کو حصہ دینے سے انکاری ہے اور زیادہ تر لوٹ مار کے اس کے قریبی حواریوں تک ہی محدود ہے۔ یورپی اور امریکی سامراجیوں کا اردگان کے ساتھ یہی بنیادی تنازعہ ہے۔ باقی سب فسانے ہیں۔ طبقاتی مفادات اور معاشی نظریات دونوں کے مشترک ہے۔ لیکن انتخابات میں اسکی پارٹی کا پارلیمانی اکثریت کھو دینا اور اتنے جبر کے باوجود محرم انس کا 1970ء کی دہائی کے بعد پیپلز ریپبلکن پارٹی کے امیدوار کے طور پر سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنا معاشرے میں جبر کے باوجود ابھرتی ہوئی مزاحمت کی غمازی کرتا ہے جو آنے والے دنوں میں نئی جہتیں اختیار کرے گی۔ تاہم بلند ایجوت سے لے کر محرم انس تک یہ پیپلز ریپبلکن پارٹی محض ایک نیم بائیں بازو کی پاپولسٹ پارٹی ہی رہی ہے۔ یہ کوئی سوشلسٹ یا مارکسسٹ پارٹی نہیں ہے۔ لیکن مولوی سراج الحق کا اظہار مسرت اتنا بے سبب بھی نہیں ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ترکی میں کمیونسٹ پارٹی اور بائیں بازو کی ٹریڈیونینز کی شاندار جدوجہد کی تاریخ بھی ہے اور پھر سے طبقاتی کشمکش ابھر بھی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکمران طبقات جب سوشلزم کی وفات کا خوب چرچا کر رہے ہیں ایسے میں مولانا کو خوب معلوم ہے کہ سوشلزم موجود بھی ہے اور ’’خطرناک‘‘ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔