لال خان

بھارتی مقبوضہ کشمیر میں بے جی پی کی علیحدگی سے وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی حکومت ٹوٹ گئی ہے۔ یہ عمل نہ صرف کشمیر کے بالادست طبقات کی مفاہمتی پالیسیوں کی ناکامی کی غمازی کرتا ہے بلکہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بحران زدہ نظام کا ظلم آخر ٹوٹ ہی جاتا ہے۔ یہ مخلوط حکومت شروع سے ہی جعلی اور متضاد بنیادوں پر مبنی تھی۔ لیکن عید سے پہلے ہی بھارت کے وزیر داخلہ کی جانب سے نہتے کشمیریوں کے خلاف ’’جنگ بندی‘‘ کا فیصلہ واپس لینا اس معزولی کا فوری موجب بنا ہے۔ اس سے محبوبہ مفتی اور بی جے پی میں تناؤ شدت اختیار کرگیا ہے۔

لیون ٹراٹسکی نے ایک مرتبہ لکھا تھا کہ ’’کوئی بھی جدوجہد کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔‘‘ پچھلے دو سالوں سے چلنے والی کشمیری عوام کی تحریک نے یہ پہلی کامیابی حاصل کی ہے۔ جبر کو ہمیشہ مظلوموں کی جدوجہد سے شکست کا سامنا ہی کرنا پڑتا ہے۔ سرینگر سے شائع ہونے والے ’رائزنگ انڈیا‘ نامی اخبار کے مدیر اور نامور کشمیری صحافی شجاعت بخاری کا قتل وہ چنگاری ثابت ہوا ہے جس نے بھڑک کر اس مخلوط حکومت کو بھسم کر دیا ہے ۔ لیکن اس کے پیچھے قربانیوں کی ایک طویل داستان کشمیری عوام نے رقم کی ہے۔

شجاعت بخاری

منگل کو بھارتی مقبوضہ کشمیر کے تمام اخبارات میں ادارئیے کی جگہ خالی چھوڑ دی گئی تھی۔ عید کی چھٹیوں کے بعد اخبارات کے اس پہلے ایڈیشن کی اشاعت میں یہ ایک ایسا احتجاج تھا جو پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ یہ دراصل شجاعت بخاری کے بہیمانہ قتل کی صحافتی برادری کی جانب سے مذمت تھی۔ اس قتل کی عالمی سطح پر مذمت کی گئی۔ حریت پسند اور کچھ علیحدگی پسند گروہوں نے اس قتل کا ذمہ دار مودی سرکار کو ٹھہرایا ہے جبکہ بھارتی میڈیا اور سرکار نے اس قتل کی ذمہ داری کچھ مذہبی دہشت گرد تنظیموں پر عائد کی ہے۔ لیکن اس وقت برصغیر کے ممالک میں جو سرکاری جبر میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اس کا نشانہ سب سے زیادہ وہ صحافی بن رہے ہیں جو اس بدعنوان کارپوریٹ میڈیا کی یلغار میں بھی کچھ سچ بات کہنے یا لکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگرچہ حالیہ عہد میں ایسے صحافی بہت ہی کم رہے گئے ہیں اور ان کے لئے گنجائش مزید سکڑتی جا رہی ہے۔ کچھ معروف صحافی بھی ہیں جو مقتدر قوتوں اور مروجہ ’’رائے عامہ‘‘ کے تسلط کو مسترد کرتے ہوئے کسی حد تک سچ بولنے کی جرات کرتے ہیں۔ لیکن ہزاروں بے نام صحافی ایسے بھی ہیں جو گمنام سپاہیوں کی طرح سچائی کا کھوج لگانے اور برائی کو بے نقاب کرنے کی پرخلوص کوششیں کرتے ہیں۔ قلیل اجرتوں اور تلخ حالات میں کام کرنے والے ان عام اور بے نام صحافیوں پر ہونے والے کسی جبروتشدد کی خبر چھپتی ہے نہ کوئی احتجاج ہوتا ہے۔ ان کے حقوق کے لئے آواز اٹھانے والی کوئی فعال صحافتی تنظیم یا یونینز بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔

شجاعت بخاری خوش قسمتی سے کشمیر کے جانے پہچانے صحافیوں میں شامل ہوئے تھے۔ ان کے پاس تو دو سکیورٹی گارڈ بھی تھے۔ ان پر پہلے بھی تین قاتلانہ حملے ہو چکے تھے۔ لیکن اب کی بار قاتلوں نے دونوں محافظوں سمیت دفتر کے سامنے شجاعت بخاری کا خون کر دیا۔ اب الزامات کی بوچھاڑ ہے۔ لیکن برصغیر کے نامی گرامی افراد کے قتل آج تک معمے ہی بنے رہے ہیں۔ یاد رہے کہ مقتول بخاری صاحب کے بھائی کشمیر اسمبلی کے رکن اور محبوبہ مفتی کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (PDP) کی معزول ہونے والی مخلوط حکومت کے وزیر بھی تھے۔

اس قتل کا الزام بھارتی ریاست اپنے مخالف مسلح گروہوں پر لگا کر اپنے جبر کے لئے جواز حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔ جبکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شجاعت بخاری نے نریندرا مودی کی حکومت اور کشمیر میں ہونے والی ریاستی دہشت گردی کے خلاف بھی با رہا آواز بلند کی تھی۔ اس کی بہت سی مثالیں ایک تسلسل سے ملتی ہیں۔ اپریل کے شروع میں جب ایک معصوم کشمیری بچی آصفہ بانو، جس کی عمر صرف آٹھ سال تھی، کو جب بنیاد پرست ہندو شاونسٹوں سے تعلق رکھنے والے گروہ نے پہلے اغوا کرکے ہیرانگر کے دیوستان مندر میں جنسی زیادتی کی اور پھر قتل کر دیا تو بخاری صاحب کے ’رائزنگ کشمیر‘ میں اس کیس سے متعلقہ ثبوت پیش کئے گئے اور جتنی ممکن تھی کوریج بھی دی گئی۔ جبکہ اس رپورٹ کے خلاف ان جنسی درندوں کے حق میں دائیں بازو کے ہندو بنیاد پرستوں نے ایک پوری مہم چلائی جس میں بخاری صاحب پر بھی خاصا کیچڑ اچھالا گیا۔ اسی طرح 20 مئی کو نریندرا مودی کے دورہ سری نگر میں اسکی تقریر پر بخاری صاحب نے ایک شدید تنقیدی کالم بھی لکھا تھا۔ بخاری صاحب پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ’’ٹریک ٹو‘‘ مذاکرات کے ذریعے امن کے مشن پر بھی کام کرتے رہے تھے۔ لیکن بخاری صاحب ایسے سیاسی نظریات سے وابستہ تھے جو موجودہ نظام کی حدود و قیود میں ہی مسائل کا حل اور امن چاہتے ہیں۔ ایسے حلقوں کی دونوں طرف بھرمار ہے۔ لیکن ایسے اصلاح پسند افراد، جن میں بہت سے دیانتدار لوگ بھی شامل ہیں، یہ ادراک حاصل کرنے سے شاید قاصر ہیں کہ جس نظام میں حکمران طبقات، سرکاری اشرافیہ اور اسلحہ بیچنے والی سامراجی طاقتوں کے سیاسی و مالیاتی مفادات ہی مذہبی و قومی منافرتوں اور جنگی جنون سے وابستہ ہوں اس میں کبھی دور رس امن قائم نہیں ہو سکتا۔ یا پھر یہ سادہ لوگ کسی معجزے سے اچانک حکمرانوں کے ’’اچھا‘‘ بن جانے کی امیدیں اور خوش فہمیاں دل میں لئے ہوئے ہیں؟ اس نظام کے اداروں کی ایک المناک حقیقت یہ بھی ہے کہ جس روز بخاری صاحب کا قتل ہوا اسی روز اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی کشمیر پر پہلی رپورٹ اس ادارے کے قائم ہونے کے 30 سال بعد پیش کی گئی! اس رپورٹ میں کنٹرول لائن کے دونوں اطراف ہونے والی ’’انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں‘‘ پر تنقید کی گئی ہے اور ایک بین الاقوامی کمیشن بنانے کی سفارش کی گئی ہے۔ بھارتی حکومت نے اس رپورٹ کو یکسر مسترد کرتے ہوئے غلیظ الفاظ میں اس کی مذمت کر ڈالی ہے۔ چونکہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ظلم و بربریت کی انتہا سے پوری دنیا واقف ہے اسی لئے رپورٹ میں بھارتی ریاست کو پہلے اور زیادہ بھاری تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ لیکن اس رپورٹ میں کوئی ایسی نئی بات نہیں ہے جو یہاں کے عام لوگوں کو معلوم نہ ہو۔ شاید اقوام متحدہ کے اس ادارے نے بھی اپنے وجود اور اخراجات کے جواز کے طور پر یہ رپورٹ اب شائع کی ہے۔

بھارت اور پاکستان کے درمیان قیامِ امن اور دوطرفہ کشمیر کے عوام کو حق خودارادیت دینے کے لئے امریکی سامراج سمیت کسی عالمی طاقت نے کبھی کوئی واضح اور ٹھوس پوزیشن لی ہے نہ ہی کوئی اقدام کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن کشمیر ہی کیا پورے خطے میں ریاستی دھونس اور جبر اتنا بڑھ گیا ہے کہ نام نہاد جمہوری حکومتوں میں بھی زہریلی اور نہ نظر آنے والی آمریت مسلط ہو چکی ہے۔ جو براہِ راست فوجی آمریتوں سے کہیں بدتر ہے۔ کیونکہ یہ قانونی اور آئینی طور پر نظر بھی نہیں آتی اور اس کو ثابت بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ہندوستان میں نریندرا مودی کی بی جے پی سرکار کے برسر اقتدار آنے کے بعد یہ عمل زیادہ شدت اختیار کر گیا ہے۔ جہاں گوری لنکیش سے لے کر برکھادت جیسی مذہبی دائیں بازو کی مخالفت کرنے والی صحافی خواتین کو یا تو مار دیا جاتا ہے یا پھر پراسرار انداز میں خاموش کروا دیا جاتا ہے۔

لیکن مودی کی دشمنی اور مذہبی منافرت کی یہ پالیسی بھی اب اتنی طویل اور شدید ہوچکی ہے کہ بے اثر معلوم ہونے لگی ہے۔ چنانچہ اب یہ بھی ممکن ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے تحت پہلی بار پاک بھارت افواج کی مشترکہ فوجی مشقیں بھی ہوں اور اسلام آباد کی سارک سربراہی کانفرنس میں مودی شرکت بھی کرے اور امن کا کوئی نیا دوطرفہ ناٹک بھی شروع کیا جائے۔ 2019ء کے انتخابات کے لئے یہ نیا پینترا مودی بدل سکتا ہے۔ لیکن کبھی امن اور کبھی جنگی جنون کے یہ ناٹک تو ستر سال سے یہاں چلتے رہے ہیں اور یہ ایک ہی سکے کے دو رخ بن کے رہ گئے ہیں۔

دوسری طرف مودی سرکار کا معاشی اور سماجی جبر اتنا بڑھ چکا ہے کہ ہندوستان کے محنت کش عوام میں نفرت اور غصے کا نیا لاوا پک رہا ہے۔ لیکن کانگریس اور تقریباً تمام دوسری سیکولر پارٹیاں بھی اسی انداز میں کشمیر پر اقوام متحدہ کی رپورٹ کو مسترد کررہی ہیں جیسے مودی کر رہا ہے۔ کوئی متبادل نہ ہونا بھی مودی کی حاکمیت کا سب سے بڑا سہارا ہے۔ لیکن جس طرح مودی کی فتح 2019ء میں یقینی بتائی جا رہی ہے اس کے برعکس بھی ہو سکتا ہے۔

مسئلہ صرف کشمیر کا بھی نہیں ہے۔ برصغیر کے تقریباً ڈیڑھ ارب عام لوگ ہر طرح کی غربت، محرومی اور ذلتوں کا شکار ہیں۔ دنیا کی آدمی غربت اس خطے میں پلتی ہے۔ لیکن یہاں کے حکمران طبقات کو صرف دولت اور طاقت کی ہوس ہی مقدم ہے۔ اس نظام میں نسل انسان کا مقدر یہی بنا دیا گیاہے۔ جب تک اس نظام کی حاکمیت رہے گی یہ بربادی بڑھتی ہی جائے گئی۔ مسئلہ صرف اس کو پرکھنے اور سمجھنے کا نہیں ہے اس سرمائے کے نظام کو بدلنے کا ہے۔