لال خان

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ’نظریہ ضرورت‘ اس وقت شہرت اختیار کر گیا جب یہاں مسلط ہونے والی بہیمانہ ضیا الحق آمریت کو اس ملک کی سپریم کورٹ نے ’نظریہ ضرورت‘ کے تحت قانونی اور جائز قرار دیا۔ اس وحشت اور ظلمت کی گیارہ سالہ تاریکی میں ہونے والے مظالم اور محنت کشوں پر جاری جبر واستحصال اس ملک کی تاریخ کا بدترین دور تسلیم کیا جاتا ہے۔ اسی زمانے میں ایک پیپلز پارٹی بھی ہوتی تھی۔ جس کی چیئر پرسن بیگم نصرت بھٹو نے قانون کے اس بلندوبالا ایوان میں آمریت کے جبر کے خلاف فریاد کی تھی جس کو ’نظریہ ضرورت‘ کے تحت مسترد کر دیا گیا تھا۔ اس وقت کی پیپلز پارٹی پر ریاستی جبر کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ یہ ایک ایسے نظرئیے کا پرچار کرتی تھی جو محنت کشوں اور مظلوموں کے حقوق اور استحصالی نظام کے خاتمے پر مبنی تھا۔ اب کئی دہائیوں بعد لگتا ہے وہ پارٹی کہیں دفنا دی گئی ہے۔ آج کے میڈیا اور مقتدر قوتوں کی حمایت یافتہ پیپلز پارٹی کے سربراہِ اعلیٰ آصف زرداری نے 4 مئی کو لاہور میں بیان دیا ہے کہ پیپلز پارٹی ’نظریہ ضرورت‘ کے تحت تحریکِ انصاف سے بھی اتحاد کرنے کو تیار ہے۔ انقلابی سوشلزم کے نظرئیے سے نظریہ ضرورت تک زوال کا یہ سفر پیپلز پارٹی کی اساس کو ہی ختم کرنے کا موجب نہیں بنا بلکہ عوام کی وسیع تعداد میں اب یہ تاثر پیدا ہو چکا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی نمائندہ پارٹیوں میں پیپلز پارٹی پہلا نمبر لینے کی سرتوڑ کوشش کر رہی ہے۔ مزدوروں کے لئے اصلاحات کے نیم دلانہ وعدے ہوں یا نیم بائیں بازو کی ریاکارانہ لفاظی ہو، عوام اتنے بھی سادہ اور بھولے نہیں جتنا پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت سمجھتی ہیں۔ یہاں کے وسیع تر عوام اگر کھل کر بغاوت میں نہیں ابھر رہے ہیں تو کم از کم مروجہ سیاست کے بارے کسی خوش فہمی کا شکار بھی نہیں ہیں۔ وہ دل و جان سے حالیہ سیاسی افق کی کسی پارٹی کی حمایت بھی نہیں کر رہے۔ دولت اور طاقت کی اِس چھینا جھپٹی اور نورا کشتی کا تماشا دیکھ بھی رہے ہیں اور اس سے حقارت اور بیزاری کی آگ میں بھی جل رہے ہیں۔

موجودہ معاشی بحران کی شدت میں اِن حکمران لٹیروں کے دھڑے زیادہ ہوگئے ہیں اور مال نسبتاً سکڑ گیا ہے۔ ایسے میں ان کے درمیان اقتدار کا حصول ہی لوٹ مار کا فعال ترین ذریعہ بن گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اِس نحیف اور تابع سیاسی اقتدار کے لئے بھی اوتاولے ہو رہے ہیں۔ لیکن اِس نظام زر میں اِن وارداتوں کے لئے بھی بھاری رقوم درکار ہوتی ہیں۔ کبھی لاکھوں میں سیٹوں اور ٹکٹوں کے سودے ہوتے تھے اب معاملہ کروڑوں سے بھی تجاوز کر گیا ہے۔ لیکن چونکہ یہاں کا حکمران طبقہ بالعموم بدعنوان اور چور ہے اور اس کی سرمایہ داری بیمار اور لاغر ہے لہٰذا اس دولت پر بھی سرکار کی طاقت حاوی ہو جاتی ہے۔ جہاں دولت‘ دئیے جانے والے اقتدار کی حدود سے تجاوز کی کوشش کرتی ہے وہاں ان سیٹھوں کے جرائم اور بدعنوانیاں سامنے رکھ دی جاتی ہیں۔ وہ لڑ نہیں سکتے۔

عوام کو ان کی امنگوں اور مانگوں کے منشور دے کر ووٹ لینے کا سلسلہ بند ہوچکا ہے۔ اب سیدھے سیدھے برادریوں، قوموں، فرقوں اور ذات پات کی بنیاد پر تھوک کے حساب سے ووٹوں کے سودے کئے جاتے ہیں۔ جہاں پارٹیوں کی ظاہری حمایت زیادہ ہوتی ہے، انکے ٹکٹ بکتے ہیں۔ جب عوام میں سیاسی پارٹیوں کی بنیادیں منہدم ہو جائیں تو ان پارٹیوں کے کالے دھن والے اَن داتا مختلف حوالوں سے شہرت رکھنے والے امیدواروں کو ٹکٹ بھی دیتے ہیں اور پیسے بھی۔ اگر زرداری نے عمران کا ساتھ دینے کی خواہش کا اظہار کیا ہے تو یہ بھی دولت اور طاقت کی ہوس کی ہی غمازی ہے۔ انکی یہی پیاس انکی زندگیوں کا مقصد بن چکی ہے۔ اسی لئے اب ’نظریہ ضرورت‘ ہی ان کا اصل منشور، پروگرام اور نعرہ بن چکا ہے۔

نواز لیگ اس ملک کے سرمایہ دار طبقے کی روایتی پارٹی رہی ہے۔ دائیں بازو کی اس نیم مذہبی نیم لبرل پارٹی کے مقابلے میں سرمایہ دار دھڑوں اور ان کے پشت پناہوں نے تحریک انصاف کو کھڑا کیا۔ لیکن تحریک انصاف نے نوا ز لیگ کو ایک بائیں بازو کی قوت کے طور پر چیلنج نہیں کیابلکہ اس سے بھی زیادہ دائیں بازو کی رجعتی سوچ اور پشت پناہی سے نواز شریف کے خلاف جارحانہ سیاست کا آغاز کر دیا۔ اس سارے کھیل میں خصوصاً پنجاب میں پیپلز پارٹی بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ بلکہ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق تقریباً ’ختم‘ ہی ہو چکی ہے۔ اس صورتحال سے نپٹنے کے لئے زرداری کی قیادت میں ایسی بدترین ’’مصالحت‘‘ کی گئی کہ پیپلز پارٹی کے بہت سے کارکنان بھی ششدر ہو کر رہ گئے۔ بہت سے سیاست سے ہی دستبردار ہوگئے۔ اسی طرح عالمی اور مقامی مقتدر قوتیں بھی اب صرف ایک لیڈر اور پارٹی پر سارا داؤ لگانے کو تیار نہیں ہیں۔ ان مقتدر قوتوں کو کسی متبادل کی ضرورت ہے اور زرداری کو اقتدار کی سلگتی ضرورت لاحق ہے۔ اِن دونوں ضرورتوں کا سنگم ہوا ہے۔ کچھ گنجائش اِس حاکمیت نے دی ہے اور زرداری نے ساری پارٹی کا اِس نظریہ ضرورت کے تحت بلیدان دے دیا ہے۔

اس مروجہ سیاست میں نظریات، ضمیر، اصول وغیرہ بے معنی الفاظ بن کے رہ گئے ہیں۔ ایسی باتیں کرنے والوں کو ماضی کے مزار کہہ کر تمسخر اڑایا جاتا ہے۔ تحریک انصاف اور عمران خان کے مبینہ اصول اور نظریات سینیٹ چیئرمین کے معاملے میں سب نے دیکھ لئے ہیں۔ زرداری نے تو کئی سال پہلے ہی بے نظیر کے مصالحت کے نظرئیے کی روشنی میں تمام تکلفات مٹا دئیے تھے۔ یہ دولت، طاقت اور جاہ وجلال کی ایسی پیاس ہے جو بجھتی نہیں مزید بھڑکتی ہے۔ لیکن اس ‘قومی تحفظ‘ کے عظیم اتحاد میں خوار تو وہ جائینگے جو پیپلز پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں گئے ہیں۔ یا پھر وہ جو عمران خان کو چھوڑ کر زرداری کے چرنوں میں جابیٹھے ہیں۔ لیکن جہاں سیاست صرف کاسہ لیسی اور بدعنوانی کا نام بن جائے وہاں یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ بھی نہیں ہے۔ سبھی نظریہ ضرورت کی سیاست کر رہے ہیں۔ سب کے معاشی اور اقتصادی پروگرام جارحانہ سرمایہ داری اور سامراجی گماشتگی پر مبنی ہیں۔ حکمرانوں کی ہوس تو مٹنے سے رہی لیکن یہاں کے کروڑوں عام لوگوں کی بھی کوئی ضروریات ہیں۔ انہیں روٹی چاہئے، روزگار چاہئے۔ رہائش، تعلیم، علاج کے مسئلے ہیں۔ لیکن جس معاشرے میں ایسا نظام رائج ہو جو برسراقتدار پارٹیوں اور چہروں سے قطع نظر بنیادی ضروریات فراہم کرنے کی بجائے چھینتا اور نوچتا ہی ہو ایسے میں محنت کشوں کو محرومی اور ذلت کے سوا کیا مل سکتا ہے؟ اس نظام کی سیاست اور حاکمیت کے تمام ادارے اِسی نظام کے رکھوالے ہی ہو سکتے ہیں۔ اور آج اِس نظام میں عوام کے حق میں اصلاحات کی گنجائش ختم ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تو اِن حکمرانوں نے دلاسے دینے بھی چھوڑ دیئے ہیں ۔ وعدوں سے اجتناب کرتے ہیں۔ کبھی مذہبی اور کبھی تنگ نظرقوم پرستی کو استعمال کرتے ہیں۔ کبھی جمہوریت کے نام پرلوٹتے ہیں تو کبھی قومی سلامتی کے نام پر اس ملک کے محنت کشوں کو مزید اذیتوں کا شکار کرتے ہیں۔ لیکن محنت کش عوام کی ضروریات اجتماعی ہیں۔ جبکہ حکمران طبقات کے تقاضے ذاتی ہوس پر مبنی ہیں۔ معاشرہ مستحکم، آسودہ اور آزاد تبھی ہو گا جب تمام افراد کی بنیادی ضروریات اجتماعی بنیادوں پر فراہم ہو سکیں گی۔ لیکن یہ سکت اور صلاحیت اِس بحران زدہ سرمایہ داری میں نہیں ہے۔ محنت کشوں کے پاس اِسے اکھاڑ پھینکنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔