لال خان

بدھ 25 اکتوبر کو چین کی کمیونسٹ پارٹی کے پولٹ بیورو کی نئی سات رکنی سٹینڈنگ کمیٹی، جس کے اراکین کی عمریں 61 سے 67 سال کے درمیان ہیں، کا اعلان کیا گیا۔بظاہر چین کے موجودہ رہنما ’شی جن پنگ‘ کے بعد آنے والے لیڈر کا اعلان نہیں ہوا۔ ہر پانچ سال بعد ایک ہفتے تک چلنے والی چین کی کمیونسٹ پارٹی کی منعقدہ کانگریس کے آخری دن شی جن پنگ کو ماؤ کے بعد چین کا سب سے طاقتور رہنما قرار دیا گیا اور نئے عہد کے لیے ایک نئے نظریے ’چینی خصوصیات کاحامل سوشلزم ‘پر شی کے افکار کوبیجنگ کے ’عظیم عوامی ہال‘ میں پارٹی کے اصولوں کا حصہ بنایا گیا۔ کانگریس کے آغاز کے وقت ساڑھے تین گھنٹے کی تقریر کے برعکس 2200 مندوبین سے اپنے مختصر خطاب میں شی نے کہا، ’’آج ہم، 1.3 اَرب چینی عوام، خوشی اور عظمت کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ ہماری سر زمین جوش و خروش سے دھمک رہی ہے۔ ہماری چینی تہذیب نہ ختم ہونے والی شان و شوکت اور وقار کے ساتھ چمک رہی ہے۔‘‘

1921ء میں چین کی کمیونسٹ پارٹی کے قیام کے وقت سے صرف ایک ہی رہنما (خود ماؤ، جس کے سیاسی فلسفے کو ماؤازم کہا جاتا ہے) کو اس کی زندگی میں اس طرح کی عزت و تکریم سے نوازا گیا ہے۔ چینی کمیونسٹ پارٹی دنیا کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے جس کی ممبر شپ 90 ملین ہے جو 1949ء سے حکمرانی کر رہی ہے۔ اس کی حکمرانی چین میں آج تک ہونے والی تیز سماجی اور معاشی تبدیلیوں اور سوویت یونین کے انہدام جیسے واقعات کے باوجود چل رہی ہے۔

لیکن چینی حکمران ٹولے اور نئے ’رہنما‘ کی جانب سے کانگریس (جو سخت ترین سیکیورٹی میں منعقد کی گئی) کے بعد چین کی پیش کی جانے والی تصویر اتنی بھی دلکش نہیں ہے۔جب شی 2012ء میں اقتدار میں آیا تو اسے پارٹی کی صفوں اور قیادت میں بے تحاشا کرپشن کا سامنا تھا جو پارٹی کی صفوں میں ابتدائی سرمائے کے ارتکاز سے پیدا ہوئی تھی۔ ان ’کمیونسٹ‘ رہنماؤں کے پاس دولت کا وسیع بیہودہ اجتماع ہے۔ کمیونسٹ پارٹی کے 209 امیر ترین پارلیمانی مندوبین میں سے ہر ایک کے پاس دو اَرب یوان (300 ملین ڈالر) ہیں۔ ان کی مجموعی دولت بیلجیئم اور سویڈن کے سالانہ جی ڈی پی کے برابر ہے۔

شی نے 2013ء میں صدر بننے کے بعد کرپشن کے خلاف شدید کریک ڈاؤن شروع کیا۔ شی نے بطور پارٹی چیف اپنے پہلے پانچ سالوں میں طاقتور دشمن پیدا کیے ہیں، جن میں بالخصوص کرپشن کیوجہ سے گرفتار ہونے والے سینکڑوں طاقتور سرکاری عہدیداروں کے اتحادی اور وظیفہ خوار لوگ شامل ہیں۔ لیکن پارٹی میں موجود اس کے ’اپنے‘ بھی کرپشن میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ چینی قیادت کے 100 امیرترین لوگوں کی دولت میں شی کے پہلے پانچ سالوں میں 64 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

1976ء کے اواخر میں ماؤ کے عہد کے بعد چینی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت نے معیشت کی مرکزی منصوبہ بندی کو ترک کرتے ہوئے دوبارہ منڈی کی معیشت کو اپنایا اور اس وقت کے سرمایہ داری نواز چینی لیڈر ڈینگ ژیاؤ پنگ نے ’’عملیت‘‘،’’حقائق سے سچ کی تلاش‘‘ اور ’’امیر بننا عظیم کام ہے‘‘ جیسے نعرے لگائے جو پارٹی کے نئے رہنما اصول قرار پائے۔ لیکن یہ مخصوص راستہ جو ڈینگ نے افسرشاہانہ بدانتظامی کے بحران سے نکلنے کے لیے چنا وہ بذات خود سرمایہ داری کی طرف ایک ردانقلابی راستہ تھا۔ یہ ڈینگ ہی تھا جس نے ’’مارکیٹ سوشلزم‘‘ کی رجعتی اصطلاح گھڑی تھی۔ چین ایک طرح کی ریاستی سرمایہ دارانہ معیشت ہے لیکن اس کا سرمایہ دارانہ کردار شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ 1980ء کی دہائی میں جب سے چین کی سرمایہ دارانہ بحالی کے عمل میں تیزی آئی ہے، معاشی نمو میں نجی شعبے کا کردار زیادہ سے زیادہ ہوا ہے۔ چین کے 32 صوبے، 282 میونسپلٹیاں، 2862 کاؤنٹیز، 19522 ٹاؤن اور 14677 دیہات سرمایہ کاری اور منافع کے حصول کے لیے مقابلہ بازی میں کود پڑے جسکا مقصد مقامی معیشت کو فروغ دینا تھا۔ چین ایک ایسی وسیع تجربہ گاہ بن گئی جہاں مختلف معاشی تجربے ایک ساتھ کیے گئے۔

یہ شعبہ اب چین کی جی ڈی پی کے 60.7 فیصد سے زائد حصے کو تشکیل دیتا ہے اور 80 فیصد سے زائد ملازمتیں فراہم کرتا ہے۔ دراصل چین نوے کی دہائی کے آخر میں ہی 2001ء میں عالمی تجارتی تنظیم (WTO) میں شمولیت سے پہلے منڈی کی معیشت میں تبدیل ہوچکا تھا۔ 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں نہرو کے ہندوستان میں بھی معیشت کا 74 فیصد ریاست کے پاس ہوتا تھا۔ اس سے ہندوستان سوشلسٹ نہیں بنا، جہاں تمام تر سرمایہ دارانہ ادارے جیسے سٹاک مارکیٹ اور چیمبرز آف کامرس فعال تھے۔ چین کسی بھی تعریف کے اعتبار سے ایک سرمایہ دارانہ ملک ہے۔ فریڈرک اینگلز نے اپنی شاہکار کتاب ’’سوشلزم: یوٹوپیائی اور سائنسی‘‘ کے تیسرے باب میں لکھا ، ’’ریاستی ملکیت پیداواری قوتوں کی سرمایہ دارانہ فطرت کو ختم نہیں کرتی۔ جوائنٹ سٹاک کمپنیوں اور ٹرسٹوں میں یہ واضح ہے۔ مزدور‘اجرتی مزدور یعنی پرولتاریہ ہی رہتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ رشتے ختم نہیں ہوجاتے۔‘‘

لیکن عمران خان جیسے لوگوں کی ’چینی ماڈل‘ کی مدح سرائی کہ اس نے 700 ملین لوگوں کو غربت سے نکالا ہے، بہت احمقانہ ہے۔ ورلڈ بینک ،جس کے چینی لیڈروں کے ساتھ اپنے مفادات وابستہ ہیں،نے ان اعداد و شمار کا دعویٰ کیا ہے کہ 11.2 فیصد آبادی (تقریباً 150 ملین) 1.90ڈالر یومیہ سے بھی کم پر گزارا کرتے ہیں۔ ان اعدادو شمار میں یہ نہیں بتایا گیا کہ 27.2 فیصد آبادی (تقریباً 360 ملین) یومیہ 3.10 ڈالرسے کم پر رہ رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ چین میں 950 ملین لوگ یومیہ پانچ ڈالر سے بھی کم پر زندگی گزار رہے ہیں۔ چین کے شہروں میں مہنگائی کی وجہ سے ان کا غربت سے نکلنا بہت ہی مشکل ہے۔ طبقات اور شہروں اور گاؤں کے بیچ آمدنی کے وسیع فرق کی وجہ سے اوسط اعداد و شمار صحیح تصویر پیش نہیں کرتے۔ شہری گھرانے کی فی کس آمدن 29831 یوان (تقریباً 4500 ڈالر) سالانہ تھی۔ جبکہ دیہی فی کس آمدن محض 9892 یوان (چار ڈالر ) یومیہ تھی۔

مغربی سامراجیوں کی چین پر تنقید کی وجہ یہ نہیں ہے کہ چین سرمایہ دارانہ نہیں ہے بلکہ یہ اس لیے ہے کہ وہ کارپوریٹ سرمائے کے لیے مزید ’جمہوری‘ گنجائش چاہتے ہیں تاکہ وہ کھل کر کاروبار کریں اور پارٹی اور ریاست کا معیشت پر کنٹرول مزید ڈھیلا ہو۔ لینن نے واضح کیا تھا کہ سامراجیت کی اہم خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ ریاست دوسرے ملکوں کے استحصال کے لئے سرمایہ برآمد کرنا شروع کرتی ہے۔ آج چین پوری دنیا میں مالیاتی سرمائے کا سب سے بڑا برآمد کنندہ اور کارپوریٹ سرمایہ کار ہے۔ یہاں بھی اس کا بطور سرمایہ کار ایک بڑھتا ہوا غلبہ ہے اور مغربی سامراجی فرموں کے مقابلے میں اسے تقابلی برتری حاصل ہے۔ چند کامیاب چینی کارپوریشنز جیسے ہواوے، لینووو اور علی باباکے چین کی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت سے قریبی تعلقات ہیں۔

چین کی آج کی معیشت ستر کی دہائی میں ڈینگ کو ملنے والی معیشت سے کہیں زیادہ جدید اور متنوع ہے۔ اُس وقت ہدف برآمدات اور سرمایہ کاری کو بڑھانا (سرمایے کا ابتدئی اجتماع) اور اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ لوگوں کے پاس کافی کھانا ہو اور وہ زندہ رہ سکیں۔ آج مسائل مختلف ہیں۔ پہلا مسئلہ یہ ہے کہ معیشت کو متوازن کیا جائے، سرمایہ کاری سے صارفیت، مینوفیکچرنگ سے سروسز اور برآمدات سے داخلی اور درآمدی مصنوعات کی طرف منتقل ہوا جائے۔

بالخصوص بڑے شہروں میں داخلی کھپت اور سروسز میں ترقی ہوئی ہے، لیکن عمومی طور پر یہ تبدیلی اتنی تیزی سے نہیں ہو رہی ہے کہ روایتی بھاری صنعت، ہاؤسنگ اور پراپرٹی میں بے تحاشا سرمایہ کاری اور زائد صلاحیت کے اجتماع کو روک سکے۔ مجموعی شرح نمو گر رہی ہے (6 سے 7 فیصد سالانہ) اور چین کے بارے میں یہ تشویش ہے کہ یہ جاپان کی طرح طویل معاشی جمود یا کریش کی طرف نہ جا رہا ہو۔ چین دنیا کا سب سے مقروض ملک ہے جس کے پبلک سیکٹر کا قرضہ 2016ء میں جی ڈی پی کے 255 فیصد تک پہنچ گیا تھا۔ یہ قرضہ سرمایہ کاری میں مصنوعی ابھار، جیسے کہ 900 اَرب ڈالر کا سلک روڈ اکنامک بیلٹ اور اکیسویں صدی کا بحری سلک روڈ جسے حرف عام میں ون بیلٹ ون روڈ کا منصوبہ اور سی پیک وغیرہ کہا جا تا ہے،کے لیے لیا گیا۔

اپنی تمام تر طاقت کے باوجود شی کو یہ مسئلہ درپیش ہے کہ سرمایہ داری جہاں بھی جاتی ہے اپنے ساتھ کرپشن، جسم فروشی، جوا، سٹہ بازی اور جرائم بھی لے آتی ہے۔ کمیونسٹ پارٹی میں وسیع تطہیر کے باوجود ان برائیوں کی جڑ اسی طرح موجود رہے گی۔

دوسری طرف مغربی سامراجیوں اور چینی کمپنیوں کی پچھلی دو دہائیوں میں بے تحاشا سرمایہ کاری سے چین میں دنیا کا سب بڑا پرولتاریہ پیدا ہوا ہے۔ پچھلے کچھ سالوں سے ان مزدوروں نے وسیع ہڑتالی تحریکوں میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے۔

چین عالمی سرمایہ دارانہ طاقت کے طور پر اس نظام کے عروج کے دور میں نہیں بلکہ زوال کے عہد میں ابھرا ہے۔ اس نے تضادات کو حل کرنے کی بجائے انہیں مزید بڑھاوا دیا ہے۔ دنیا کی دوسری بڑی معیشت ، امارت اور غربت کی دوسری بڑی خلیج کے حامل چینی سماج میں نئی تحریکیں اور سماجی دھماکے جنم لیں گے۔ شی کی حکومت قوم پرستی اور دوسرے طریقوں کے ذریعے اس سرکشی کو روکنے کی کوشش کرے گی۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی، جو نہ تو پارٹی ہے اور نہ کمیونسٹ، وحشیانہ جبر کرے گی لیکن طبقاتی جدوجہد سے سرشار اس دیوہیکل محنت کش طبقے کو کچلنا اتنا آسان نہ ہوگا۔